Saturday 25 July 2020

نفلی قربانی کی بجائے قیمت مدارس اسلامیہ میں صدقہ کرنا؟

نفلی قربانی کی بجائے قیمت مدارس اسلامیہ میں صدقہ کرنا؟ 
-------------------------------
--------------------------------
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
1. بہت سے لوگ ایسے ہیں جو صاحب نصاب تو ہیں چاندی کے نصاب سے مگر انکے پاس بکرا خرید کرقربانی کرنے کی حیثیت نہیں ہے وہ لوگ اجتماعی قربانی میں بڑے جانور میں 1500 سے 2000 روپے تک کا بڑے جانور میں حصہ لیکر اپنی واجب قربانی کروالیتے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں اجتماعی قربانی کی شکل بظاہر دشوار معلوم ہورہی ہے. خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائیاں بھی پولیس کرسکتی ہے اس لئے کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اجتماعی قربانی کو منع ہی کردیا ہے لیکن کچھ لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ بہار وغیرہ میں قربانی کرائیں گے لیکن دل مطمئن نہیں ہورہا ہے. موجودہ صورت حال میں کہ قربانی ہوپائے گی یا نہیں یاپھر پھر اطمینان کے بغیر حصہ کی رقم دیدی جائے؟ یا پھر ایسی شکل میں اوسط درجہ کے حصہ کے حساب سے رقم صدقہ کردیں یا بکری بکرا ہی صدقہ کرنا ضروری ہوگا؟
2. امسال نفلی قربانی نہ کرکے علماء ائمہ اور مدارس میں نفلی قربانی کی رقم صدقہ کرنے سے زیادہ ثواب ملے گا یا نفلی قربانی سے اس لئے کہ اس وقت مدارس میں لگے علماء کرام وغیرہ کے حالات اچھے نہیں ہیں ان کا تعاون بھی ضروری ہے مسئلہ کی وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں
المستفتی عبداللہ پرتاپ گڑھی
الجواب وباللہ التوفیق: 
قربانی کے دنوں میں صاحب نصاب پہ جانور کا نذرانہ پیش کرنا اور اسے قربان کرنا ہی واجب و متعین ہے. اہراق دم رکن قربانی ہے، جب کسی مخصوص محل کے ساتھ وجوب امر متعلق ہو تو کوئی بھی دوسری چیز اس کا بدل نہیں بن سکتی، امر قربانی ذبح جانور کے ساتھ متعلق ہے، اب قیمت وغیرہ اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی. 
کورونا کے انتشار وپھیلاؤ کے باعث اگر واقعی کسی علاقے میں قربانی پر ہی حکومتی پابندی عائد کردی گئی ہو تو بدرجہ مجبوری صاحب نصاب اپنی قربانی کے لیے کسی ایسے علاقے میں کسی کو وکیل قربانی بناکر بقرعید کے دن قربانی کرنے کا حکم دیدیں جہاں اس طرح کی قانونی بندش و رکاوٹ نہ ہو اور مالی شفافیت کے ساتھ  اصول وشرائط اضحیہ  کی رعایت وپابندی سے  قربانی کا نظم وبندوبست ہو، غیر شفاف وغیرمستند مشکوک اشتہاری اداروں اور تنظیموں کی اجتماعی قربانی میں حصہ لینے لازمی طور پر بچا جائے۔ ایام قربانی (دس تا بارہ ذی الحجہ) میں واجب  قربانی کی جگہ اس کی رقم صدقہ کرنے کی اجازت  نہیں ہے۔ اگر جانور خریدا جاچکا ہو اور کوشش بسیار کے باوجود  ایام قربانی میں اسے ذبح نہ کیا جاسکا ہو تو بعینہ اس زندہ  جانور کو غریبوں یا رفاہی و خیراتی اداروں میں صدقہ کی نیت سے دے دیا جائے. اگر جانور نہ خریدا گیا ہو اور ایام قربانی گزرجائیں تو اس کے بعد ایک متوسط بکرے کی قیمت غریبوں پہ صدقہ کرنا واجب ہے، سبع بقرہ کی قیمت کا تصدق اب کافی نہیں ہوگا. اگر قانونی و حکومتی بندش اور عذر ومجبوری کی وجہ سے ایام قربانی میں جانور ذبح نہ کیا جاسکا ہو تو بارہ تاریخ کے بعد متوسط بکرے کی قیمت مستحقین پہ صدقہ کردیا جائے. 
 (ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا، ولو ذبحها تصدق بلحمها، ولو نقصها تصدق بقيمة النقصان أيضا ولا يأكل الناذر منها؛ فإن أكل تصدق بقيمة ما أكل.(الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (6 / 320) ط: سعید) _ (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا) لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها.(الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (6 / 321) ط: سعید) 
وقضائها بعد مضی وقتها بالتصدق بعینها اوبقیمتها ان کان من المضحی غنیا ولم یوجب علی نفسه شاۃ بعینها تصدق بقیمة شاۃ اشتری او لم یشتر (ہندیۃ 296/5)
کورونا کی مہا ماری میں جہاں پوری دنیا کی معیشت برباد ہوئی وہیں خالص مسلمانوں کی تبرعات پہ چلنے والے دینی مدارس کی حالت بھی دگرگوں ہوگئی، ایسی سخت مجبوری اور احتیاج عام کے دنوں میں نفلی قربانی کی بجائے اس کی قیمت مدارس دینیہ میں صدقہ کردینا زیادہ باعث اجر و ثواب ہوگا۔ حنفیہ میں امام محمد کے یہاں نفلی حج وعمرہ سے زیادہ بہتر ہے کہ اس کی قیمت ضرورت مندوں پہ صدقہ کردیا جائے۔ انفع للفقراء ومتعدی النفع عبادت کی انجام دہی زیادہ باعث اجر وثواب ہوتی ہے، نفلی قربانی یا نفلی حج وعمرہ کا نفع محدود ہے جبکہ حالات گزیدہ، ضروت مندوں اور پریشان حال لوگوں کی مالی معاونت کرنے کا نفع زیادہ متعدی اور دور رس ہے؛ اس لئے موجودہ حالات میں نفلی قربانی کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ مدارس اسلامیہ اور علمائے مستحقین کی مالی معاونت کی جائے، دینی مدارس اسلامی قلعے ہیں، ان کا تحفظ وبقاء ملی اور دینی فریضہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: 
أحبُّ الناسِ إلى اللهِ أنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ، وأحبُّ الأعمالِ إلى اللهِ عزَّ وجلَّ سُرُورٌ يدْخِلُهُ على مسلمٍ، أوْ يكْشِفُ عنهُ كُرْبَةً، أوْ يقْضِي عنهُ دَيْنًا، أوْ تَطْرُدُ عنهُ جُوعًا، و لأنْ أَمْشِي مع أَخٍ لي في حاجَةٍ أحبُّ إِلَيَّ من أنْ اعْتَكِفَ في هذا المسجدِ، يعني مسجدَ المدينةِ شهرًا، و مَنْ كَفَّ غضبَهُ سترَ اللهُ عَوْرَتَهُ، و مَنْ كَظَمَ غَيْظَهُ، و لَوْ شاءَ أنْ يُمْضِيَهُ أَمْضَاهُ مَلأَ اللهُ قلبَهُ رَجَاءً يومَ القيامةِ، و مَنْ مَشَى مع أَخِيهِ في حاجَةٍ حتى تتَهَيَّأَ لهُ أَثْبَتَ اللهُ قَدَمَهُ يومَ تَزُولُ الأَقْدَامِ، [و إِنَّ سُوءَ الخُلُقِ يُفْسِدُ العَمَلَ، كما يُفْسِدُ الخَلُّ العَسَلَ] أخرجه الطبراني في (المعجم الأوسط) (6026)، وأبوالشيخ في (التوبيخ والتنبيه) (97) باختلاف يسير) 
لگاتار اور بار بار حج و عمرہ کرنے کی تاکید حدیث میں آئی ہے: 
تابِعوا بين الحجِّ والعمرةِ فإنَّهما ينفيان الفقرَ ويزيدان في العمرِ والرِّزقِ كما ينفي كيرُ الحدَّادِ خبثَ الحديدِ قال أبو يوسفَ تابِعوا بين الحجِّ/ عن  عمر بن الخطاب. أخرجه ابن ماجه (2887)، وأحمد (167) مختصراً) 
لیکن اس قدر فضیلت اور اجروثواب کے باوجود غریبوں محتاجوں اور لاچار، بے کس وبے بس محتاجوں کی حاجت روائی اس سے زیادہ افضل قرار دی گئی ہے. حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کے کسی محتاج گھرانے کو ایک ماہ تک صبح شام روزی کا بندوبست کرنا میرے نزدیک پے در پے حج سے پسندیدہ و بہتر ہے: 
عن سيدنا الحسين بن علي   قال: "لَأَنْ أَقُوتَ أَهْلَ بَيْتٍ بِالْمَدِينَةِ صَاعًا كُلَّ يَوْمٍ، أَوْ كُلَّ يَوْمٍ صَاعَيْنِ شَهْرًا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حَجَّةٍ فِي إِثْرِ حَجَّةٍ". (المصنف لابن أبي شيبة: 13351)
فتاوی شامی میں ہے:
(قوله ورجح في "البزازية" أفضلية الحج)؛ حيث قال: الصدقة أفضل من الحج تطوعًا، كذا روي عن الإمام، لكنه لَمَّا حج وعرف المشقة أفتى بأن الحج أفضل، ومراده: أنه لو حج نفلًا وأنفق ألفًا فلو تصدق بهذه الألف على المحاويج فهو أفضل، لا أن يكون صدقة؛ فليس أفضل من إنفاق ألف في سبيل الله تعالى، والمشقة في الحج لَمَّا كانت عائدة إلى المال والبدن جميعًا فُضِّل في المختار على الصدقة. اهـ. (ردالمحتار 64/4، باب الھدی)
بحر کے حاشیے میں علامہ شامی لکھتے ہیں: 
ثم رأيت في متفرقات اللباب الجزم بأن الصدقة أفضل من الحج التطوع (منحة الخالق على البحر الرائق 544/2، کتاب الحج)
جب پریشانی ومحتاجگی اور فقر واحتیاج کے زمانے میں حج جیسی عظیم الشان عبادت سے بہتر محتاجوں کی حاجت روائی ہوسکتی ہے تو موجودہ مشکل ترین حالات میں نفلی قربانی کی بجائے غرباء کی خبرگیری بدرجہ اولی افضل وبہتر ہوگی. مالکیہ کے یہاں تو ایسے حالات میں صدقہ کرنا واجب ہوجاتا ہے، اگر آدمی عمومی فقر وافلاس کے زمانے میں صدقہ کی بجائے نفلی حج عمرہ وغیرہ میں مشغول ہوجائے تو گنہگار ہوگا. علامہ ابن رشد مالکی [ت 520هـ] کہتے ہیں: 
[وإنما قال: إن الحج أحب إليه من الصدقة، إلا أن تكون سنة مجاعة؛ لأنه إذا كانت سنة مجاعة، كانت عليه المواساة، فالصدقة واجبة، فإذا لم يُواسِ الرجلُ في سنة المجاعة مِن ماله بالقدر الذي يجب عليه المواساةُ في الجملة، فقد أثم، وقدرُ ذلك لا يعلمه حقيقةً؛ فالتوقي من الإثم بالإكثار من الصدقة، أولى من التطوع بالحج الذي لا يأثم بتركه] اهـ. [البيان والتحصيل لابن رشد (13/ 434)]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی محتاج کی  مالی معاونت کو حج نفل سے افضل قرار دیتے ہیں: 
«يضعها في أكباد جائعة أحب إلي -يعني من حج النافلة-» [الفروع لابن مفلح (3/ 386)]
شوافع کا بھی یہی رجحان ہے: 
[قال العبادي في "فتاويه": الصدقة أفضل من حج التطوع في قول أبي حنيفة، وهي تُحتَمَل في هذا الزمان] اهـ.البحرالمحيط فی اصول الفقہ للإمام الزركشي الشافعي 166/1)
واللہ اعلم بالصواب 
٢ذي الحجه ١٤٤١ هجري

No comments:

Post a Comment