قربانی کی دعاء میں ”وأنا أول المسلمين“ ہے، یا ”وأنا من المسلمين“؟
سوال: قربانی کا جانور ذبح کرنے سے قبل سورہ الانعام آیت نمبر 163 پڑھی جاتی ہے. اس آیت میں ”وانا اوّل المسلمین“ ہے. جبکہ ابوداؤد کی شریف کی حدیث 2795 میں یہی دعاء ”وانا من المسلمین“ آئی ہے. قربانی کے موقع سے آخر کون سی دعاء پڑھی جائے؟ کون صحیح ہے؟ اگر سورہ انعام والی آیت پڑھی جائے تو ابوداؤد شریف کی حدیث کا کیا جواب ہوگا؟ تشفی بخش مفصل جواب عطاء فرماکر ممنون فرمائیں
سائل: محمد ذو القرنین قاسمی / بیگوسرائے
الجواب وباللہ التوفیق:
زبان رسالت مآب کے ذریعے سکھائی جانے والی دعاؤں کی بنیادی طور پہ دو قسمیں ہیں:
۱: ایک وہ دعا ہے جو دین و دنیا کی بھلائی سے متعلق عام ومطلق واد ہوئی ہے، زمان، اوقات واحوال کی قید سے آزاد ہے۔
2: دوسری وہ دعا ہے جو خاص اوقات وازمنہ (صبح، شام، کھانے پینے کے اوقات وغیرہ) میں پڑھنے کے لئے وارد ہوئی ہیں یا جن کے الفاظ وکلمات کی حفاظت شریعت مطہرہ کو مقصود ہو، جیسے اذان واقامت وغیرہ یا جیسے کھانا کھانے، سونے، اٹھنے، چھینکنے وغیرہ کے وقت کی دعائیں وغیرہ قسم اوّل کی دعا میں کمی بیشی اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مبادیات واصول اسلام کے معارض نہ ہو یا حداعتدال سے تجاوز نہ کیا گیا ہو. دعا کی یہ قسم 'توقیفی' نہیں ہوتی ہے.
قسم ثانی کی دعاء میں احناف اور حنابلہ کے یہاں جواز تو ہے؛ لیکن بہتر پھر بھی نہیں. امام مالک کے یہاں اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق ماثور دعائوں خواہ اندرون نماز ہو یا بیرون نماز نقص واضافہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے جوامع الکلم عطا کئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں نورانیت ہوتی ہے وہ قبولیت خداوندی کے زیادہ مستحق ہیں. دین و دنیا کی ہر بھلائی کو مستجمع ہوتی ہیں. قربانی کرنے کے وقت جو دعاء پڑھی جاتی ہے وہ دعاے استفتاح سے معروف ہے. اس دعا میں کافی عموم ہے. اس کا صرف قربانی سے قبل ہی پڑھا جانا مخصوص و متعین نہیں ہے. نماز سے پہلے پڑھا جانا بھی مسلم کی روایت سے ثابت ہے. جب یہ عمومی نوعیت کی دعا ہوئی، اور قربانی کے علاوہ دیگر مواقع پر اس کا پڑھنا بھی ثابت ہے، تو تلاوت قرآن سے زیادہ اس کی حیثیت ”دعاء“ کی ہوئی، اور حسب مذہب احناف اس میں ملحوظ شرطوں کے ساتھ کمی زیادتی کی گنجائش ہے. قربانی کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اس طرح پڑھتے تھے:
ذبح النبي صلى الله عليه وسلم يوم الذبح كبشين أقرنين أملحين موجئين فلما وجههما قال إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت 'وأنا من المسلمين' اللهم منك ولك وعن محمد وأمته باسم الله والله أكبر ثم ذبح
(عن جابر بن عبدالله / سنن أبي داود: 2795)
(سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح].
أخرجه أبوداود (2795) واللفظ له، وابن ماجه (3121)، وأحمد (15064)
اس روایت کے اور بھی کئی طرق ہیں، یہ حسن درجے کی روایت ہے. اس میں ”وأنا من المسلمين“ کا ذکر ہے، جبکہ اس موقع کے لیے مسلم میں ”وأنا أول المسلمين“ کا لفظ آیا ہے. نماز کے لئے قیام کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی دعا پڑھتے تھے، مسلم کی روایت میں اس موقع سے ”وأنا من المسلمين“ کا لفظ ہی آیا ہے:
1451- عن رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، أنَّهُ كانَ إذَا قَامَ إلى الصَّلَاةِ، قالَ: وَجَّهْتُ وَجْهي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ حَنِيفًا، وَما أَنَا مِنَ المُشْرِكِينَ، إنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتي لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ، لا شَرِيكَ له، وَبِذلكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ المُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ المَلِكُ لا إلَهَ إلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي، وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بذَنْبِي، فَاغْفِرْ لي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إنَّه لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لأَحْسَنِ الأخْلَاقِ لا يَهْدِي لأَحْسَنِهَا إلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ في يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ ليسَ إلَيْكَ، أَنَا بكَ وإلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إلَيْكَ، وإذَا رَكَعَ، قالَ: اللَّهُمَّ لكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعَظْمِي، وَعَصَبِي، وإذَا رَفَعَ، قالَ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لكَ الحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ، وَمِلْءَ الأرْضِ، وَمِلْءَ ما بيْنَهُمَا، وَمِلْءَ ما شِئْتَ مِن شيءٍ بَعْدُ، وإذَا سَجَدَ، قالَ: اللَّهُمَّ لكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الخَالِقِينَ، ثُمَّ يَكونُ مِن آخِرِ ما يقولُ بيْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِيمِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي ما قَدَّمْتُ وَما أَخَّرْتُ، وَما أَسْرَرْتُ وَما أَعْلَنْتُ، وَما أَسْرَفْتُ، وَما أَنْتَ أَعْلَمُ به مِنِّي، أَنْتَ المُقَدِّمُ وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، لا إلَهَ إلَّا أَنْتَ. (عن علي بن أبي طالب. صحيح مسلم. (771) [صحيح].
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی امت میں ”اوّل مسلمین“ تھے؛ اسی لئے اللہ نے انہیں یہ دعا سکھائی:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام : 162)لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الأنعام ١٦٢-١٦٣)
حضرت موسی علیہ السلام اپنے زمانے میں ”اوّل مومنین“ تھے:
تبتُ إليك وأنا أول المؤمنين (الأعراف ١٤٣)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے اولیں مسلم ہیں، اس لئے آپ صلی اللہ کی شایان شان یقیناً ”اوّل المسلمین“ پڑھنا ہی ہے. قرآنی آیت اور دیگر بعض روایت میں یہی لفظ آیا بھی ہے؛ لیکن حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے مثالی تواضع ”ستجدني إن شاء الله من الصابرين“ کے امتثال و پیروی میں اپنی امت کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ”وانا من المسلمین“ کی تعلیم دی ہے۔ یعنی ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ ”اوّل المسلمین“ کی تعبیر ذات رسول کے لئے ہے اور ”من المسلمین“ کی تعبیر رسول کی وساطت سے عام امتی کے لئے ہے۔ یہ دعاء دراصل خالق کائنات اور اس کے حکم عالی شان کے امتثال و اطاعت اور خود سپردگی کا مظہر جمیل ہے. اسی لئے نماز ہو یا قربانی، اس سے پہلے یہ پڑھی جاتی ہے. قرآنی آیت کے اتباع میں تلاوت کی نیت سے ”اوّل المسلمین“ پڑھنا بھی جائز ہے، اور دعاء ماثورہ کی نیت سے ”من المسلمین“ پڑھنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے عمل مبارک سے صحیح حدیث سے ثابت ہے اور جائز ہے۔ دعاء کی حیثیت سے من المسلمین اور تلاوت قرآن کی نیت و حیثیت سے اوّل المسلمین پڑھنا ثابت ہے. حیثیت اور جہات کا فرق ہے، یہاں کوئی تعارض ہے نہ خبرواحد سے کتاب اللہ پر زیادتی والی کوئی بات ہے. موقع محل کی رعایت میں یہاں من المسلمین پڑھنا زیادہ مناسب ہے.
واللہ اعلم
١٠ذي الحجة ١٤٤١هجري
No comments:
Post a Comment