Thursday, 31 August 2017

کیا جھینگا حلال ہے؟

سوال: مچھلیوں کی قسموں میں ایک معروف مچھلی جھینگا ہوتی ہے اسے بعض حرام اور بعض مکروہ تحریمی اور بعض علماء مکروہ تنزیہی فرماتے ہیں بعض بلاکراہت جائز فرماتے ہیں۔ اصل حکم کیا ہے۔ بحوالۂ کتب حنفیہ تحریر فرمائیں۔ 

الجواب حامداًومصلیاً!
حنفیہ کے نزدیک دریائی جانوروں میں سے صرف مچھلی جائز ہے اور کوئی جانور جائز نہیں جھینگا مچھلی اگر مچھلی ہی کی کوئی قسم ہے تو وہ جائز ہے جیسا کہ علامہ دمیری شافعی نے حیات الحیوان۱؂ ص۳۷۱ میں لکھا ہے اور اسی سے تتمہ ثالثہ امداد الفتاویٰ ۲؂ص۵۰ میں نقل کیا ہے اگر یہ مچھلی کی قسم نہیں بلکہ کوئی اور جانور ہے اور محض نام جھینگا مچھلی مشہور ہوگیا ہے تو یہ جائز نہیں جیسا کہ فتاویٰ رشیدیہ۳؂ ج۲ص۱۲۲ میں ہے۔ مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحئیؒ ج۲ص۴۱۱۰؂ میں دونوں قول نقل کئے ہیں حمادیہ کی عبارت نقل کی ہے الدودالذی یقال لہ جھینگا حرام عند بعض العلماء لانہ لا یشبہ السمک فانما یباح عندنا من صیدالبحر انواع السمک وہٰذا لایکون کذٰلک وقال بعضہم حلال لانہ یسمی باسم السمک اھ ۱؂ ج۳ ص۱۰۴ اور ۱۰۷ میں بھی دونوں قول نقل کئے ہیں تذکرۃ الخلیل ۲؂ ص۲۰۰ میں عدم جواز کا فتویٰ ہے۔ یہی راجح ہے نیز جب کہ اس میں حرمت کا قول بھی ہے تو اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ لقولہ علیہ السلام دع ما یریبک الی مالایریبک، الحدیث ۳؂۔
فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہٗ العبد محمود غفرلہٗ
.........
کیا جھینگا حلال ہے؟
(سوال)
(۱) جھینگا مچھلی تازی یا سوکھی یا اور کوئی مچھلی سوکھی ہوئی جس میں کچھ بدبو ہو کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟
(۲) کھاری مچھلی یعنی مچھلی پکڑ کر اور شکم چاک کرکے آلائش نکال کر نمک بھر کر اور نمک میں مل کر سکھاتے ہیں جس میں حد سے زیادہ بدبو ہوتی ہے وہ مچھلی مدراس سے آتی ہے کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟ المستفتی نمبر ۴۰۵ حافظ احمد جگدل پور ۲۱ جمادی الثانی ۱۳۵۳؁ھ م یکم اکتوبر ۱۹۳۴؁ء
(جواب ۱۱۲) جھینگا مچھلی مختلف فیہ ہے 
(۲) جو علماء اسے مچھلی کی قسم سمجھتے ہیں وہ حلال کہتے ہیں سوکھی مچھلی کھانی جائز ہے (۲) کھاسکتے ہیں جو کھاسکے اور بدبو سے سے متاثر نہ ہو اس کے لئے حلال ہے (۳) محمد کفایت اللہ
کفایت المفتی
.............
دریائی جھینگا حلال ہے؟
سوال(۲۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایضاح المسائل کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ دریائی جھینگا حلال ہے، اَب اِس کی دو قسمیں ہیں: ایک کالا، دوسرا سفید۔ کیا دونوں حلال ہیں یا کچھ فرق ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اکثر علماء کے نزدیک دریائی جھینگے کی سبھی اقسام حلال ہیں۔ (امداد الفتاویٰ / کھانے پینے کی حلال وحرام ومکروہ ومباح چیزوں کا بیان ۴؍۱۰۳-۱۰۴ زکریا)
تاہم اختلاف علماء کی وجہ سے کوئی شخص اُسے کھانے سے پرہیز کرے تو بات الگ ہے۔
الروبیان: ہو سمک صغیرٌ جدًا أحمر۔ (حیاۃ الحیوان ۱؍۴۷۳)
الدود الذي یقال لہ ’’جھینگا‘‘ حرام عند بعض العلماء؛ لأنہ لا یشبہ السمک، فإنما یباح عندنا من صید البحر أنواع السمک، وہٰذا لا یکون کذٰلک، وقال بعضہم: حلال؛ لأنہ یسمی باسم السمک۔ (مجموعۃ الفتاویٰ / کتاب الأکل والشرب ۲؍۲۹۷ کراچی)
وأما الروبیان أو الإربیان الذي یسمی في اللغۃ المصریۃ: ’’جمبري‘‘ وفي اللغۃ الأردیۃ: ’’جھینگا‘‘ وفي الإنکلیزیۃ: ''SHRIMP" أو "PRAWN" فلا شک في حلتہ عند الأئمۃ الثلاثۃ؛ لأن جمیع حیوانات البحر حلال عندہم۔ وأما عند الحنفیۃ، فیتوقف جوازہ علی أنہ سمک أولا، فذکر غیر واحد من أہل اللغۃ أنہ نوع من السمک، قال ابن درید في جمہرۃ اللغۃ: ۳؍۴۱۴: وإربیان ضربٌ من السمک، وأقرہ في القاموس وتاج العروس: ۱؍۱۴۶۔ وکذٰلک قال الدمیري في حیاۃ الحیوان: ۱؍۴۷۳: الروبیان ہو سمک صغیرٌ جدًا أحمر۔ وأفتی غیر واحد من الحنفیۃ بجوازہ بنائً علی ذٰلک، مثل صاحب الحمادیۃ۔
وقال شیخ مشایخنا التہانويؒ في إمداد الفتاویٰ: ۴؍۱۰۳: لم یثبت بدلیل أن للسمک خواصٌ لازمۃٌ تنتفی السمکیۃُ بانتفائہا، فالمدار علی قول العدول المبصرین … وإن حیوۃ الحیوان‘‘ للدمیري الذي یبحث عن ماہیات الحیوان یصرّ بأن الروبیان ہو سمک صغیر … فإني مطمئن  إلی الآن بأنہ سمک - ولعل اللّٰہ یحدث بعد ذٰلک أمرًا …۔
ولکن خبراء علم الحیوان الیوم لا یعتبرونہ سمکًا، ویذکرونہ کنوع مستقل، ویقولون: إنہ من أسرۃ السرطان دون السمک۔ وتعریف السمک عند علماء الحیوان - علی ما ذکر في دائرۃ المعارف البریطانیۃ: ۹؍۳۰۵، طبع ۱۹۵۰م - ہو حیوان ذو عمود فقری، یعیش في الماء ویسبح بعوّاماتہ، ویتنفس بغلصمتہ، وإن الإربیان لیس لہ عمود فقری، ولا یتنفس بغلصمتہ۔ وإن علم الحیوان الیوم یقسم الحیوانات إلی نوعین کبیرین: الأول: الحیوانات الفقریۃ (VERTEBRATE)، وہي التي لہا عمود فقري في الظہر، ولہا نظام عصبي یعمل بواسطتہ۔ والثاني: الحیوانات غیر الفقریۃ (INVERTEBRATE) التي لیس لہا عمود فقري، وإن السمک یقع في النوع الأول، والإربیان في النوع الثاني۔
الذي ذکر في دائرۃ المعارف ۶؍۳۶۳، طبع ۱۹۸۸: أن التسعین في المائۃ من الحیوانات الحیۃ تتعلق بہٰذا النوع، وأنہ یحتوي علی الحیوانات القشریۃ والحشرات، وکذٰلک عرّف البستاني السمک في دائرۃ المعارف ۱۰؍۶۰، بقولہ: ’’حیوان من خلق الماء، واٰخر رتبۃ الحیوانات الفقریۃ، دمہ أحمر، یتنفس في الماء بواسطۃ خیاشیم، ولہ کسائر الحیوانات الفقریۃ ہیکل عظمی‘‘۔ وکذٰلک محمد فرید وجدي عرّفہ بقولہ: ’’السمک من الحیوانات البحریۃ، وہو یکوّن الرتبۃ الخامسۃ من الحیوانات الفقریۃ، دمہا بارد أحمر، تتنفس من الہواء الذائب في الماء بواسطۃ خیاشیمہا، وہي محلاۃ بأعضاء تمکنہا من المعیشۃ دائمًا، وتعوم فیہ بواسطۃ عوّامات، ولبعضہا عوامۃ واحدۃ … الخ‘‘۔
وإن ہٰذہ التعریفات لا تصدق علی الإربیان، وإنہ ینفصل عن السمک بأنہ لیس من الحیوانات الفقریۃ، فلو أخذنا بقول خبراء علم الحیوان، فإنہ لیس سمکًا، فلا یجوز علی أصل الحنفیۃ۔ ولکن السوال ہنا: ہل معتبر في ہٰذا الباب التدقیق العلمي في کونہ سمکًا، أو یعتبر العرف المتفاہم بین الناس؟ ولا شک أن عند اختلاف العرف یعتبر عرف أہل العرب؛ لأن استثناء السمک من میتات البحر، إنما وقع باللغۃ العربیۃ، وقد أسلفنا أن أہل اللغۃ أمثال ابن درید، والفیروز آبادي، والزبیدي، والدمیري کلہم ذکروا أنہ سمک۔ فمن أخذ بحقیقۃ الإربیان حسب علم الحیوان، قال: بمنع أکلہ عند الحنفیۃ، ومن أخذ بعرف أہل العرب، قال: بجوازہ۔
وربما یرجع ہٰذا القول بأن المعہود من الشریعۃ في أمثال ہٰذہ المسائل الرجوع إلی العرف المتفاہم بین الناس، دون التدقیق في الأبحاث النظریۃ، فلا ینبغي التشدید في مسئلۃ الإربیان عند الإفتاء، ولا سیما في حالۃ کون المسئلۃ مجتہدًا فیہا من أصلہا، ولا شک أنہ حلال عند الأئمۃ الثلاثۃ، وأن اختلاف الفقہاء یورث التخفیف کما تقرر في محلہ، غیر أن الاجتناب عن أکلہ أحوط وأولیٰ وأحریٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکملۃ فتح الملہم، کتاب الصید والذبائح / باب إباحۃ میتات البحر ۳؍۵۱۴۰۵۱۳ مکتبۃ دار العلوم کراچی)
 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۷؍۹؍۱۴۱۳ھ




















































..........
جھینگا حنفیہ کے نزدیک مکروہِ تحریمی ہے
س… جنگ میں آپ کے مسائل کے عنوان کے تحت ایک مسئلہ دریافت کیا گیا اور اس کا جواب بھی جنگ میں شائع ہوا، وہ مسئلہ نیچے لکھا جاتا ہے، سوال اور جواب دونوں حاضرِ خدمت ہیں، آپ مسئلے کی صحیح نوعیت سے راقم الحروف کو مطلع فرمائیں تاکہ تشویش ختم ہو، یہاں جو لوگ اُلجھن میں ہیں ان کی تشفی کی جاسکے۔
”س… کیا جھینگا کھانا جائز ہے؟
ج… مچھلی کے علاوہ کسی اور دریائی یا سمندری جانور کا کھانا جائز نہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جھینگا مچھلی کی قسم نہیں ہے، اگر یہ صحیح ہے تو کھانا جائز نہیں۔“
عوام الناس ”اگر“ اور ”مگر“ میں نہیں جاتے، کیا ابھی تک علماء کو تحقیق نہیں ہوئی کہ جھینگے کی نوعیت کیا ہے؟ یا تو صاف کہہ دیا جائے کہ یہ مچھلی کی قسم نہیں ہے، اس لئے کھانا جائز نہیں، یا اس کے برعکس۔ عوام الناس، علماء کے اس قسم کے بیان سے اسلام اور مسئلے مسائل سے متنفر ہونے لگتے ہیں اور علماء کا یہ رویہ مسئلے مسائل کے سلسلے میں گول مول بہتر نہیں ہے۔ میں نے لغت میں دیکھا تو جھینگے کی تعریف مچھلی کی ایک قسم ہی لکھی گئی ہے۔ آخر علماء کیا آج تک یہ نہیں طے کر پائے کہ یہ مچھلی کی قسم ہے کہ نہیں؟ مفتی محمد شفیع صاحب، مولانا یوسف بنوری، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دُوسرے علمائے حق رحمہم اللہ کا کیا رویہ رہا؟ کیا انھوں نے جھینگا کھایا یا نہیں؟ اور اس کے متعلق کیا فرمایا؟ اُمید ہے آپ ذرا تفصیل سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے پر روشنی ڈالیں گے۔
ج… صورتِ مسئولہ میں مچھلی کے سوا دریا کا اور کوئی جانور حنفیہ کے نزدیک حلال نہیں۔ جھینگے کی حلت و حرمت اس پر موقوف ہے کہ یہ مچھلی کی جنس میں سے ہے یا نہیں؟ ماہرینِ حیوانات نے مچھلی کی تعریف میں چار چیزیں ذکر کی ہیں۔
۱:-ریڑھ کی ہڈی،
۲:-سانس لینے کے گلپھڑے،
۳:-تیرنے کے پنکھ،
۴:-ٹھنڈا خون۔ چوتھی علامت عام فہم نہیں ہے، مگر پہلی تین علامات کا جھینگے میں نہ ہونا ہر شخص جانتا ہے۔ اس لئے ماہرینِ حیوانات سب اس اَمر پر متفق ہیں کہ جھینگے کا مچھلی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ مچھلی سے بالکل الگ جنس ہے۔ جبکہ جواہر اخلاطی میں تصریح ہے کہ ایسی چھوٹی مچھلیاں سب مکروہِ تحریمی ہیں، یہی صحیح تر ہے۔
”حیث قال السمک الصغار کلھا مکروھة التحریم ھو الأصح ․․․․ الخ۔“ (جواہر اخلاطی)
اس لئے جھینگا حنفیہ کے نزدیک مکروہِ تحریمی ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل
............
سوال # 54462
جھینگا حلال ہے یا حرام؟ فی زماننا علمائے کرام کیا فرماتے ہیں؟
جواب # 54462
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1297-875/L=10/1435-U
جھینگا مچھلی کی جنس سے ہے یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض حضرات اس کو مچھلی کی جنس سے مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے اسی اختلاف کی بنا پر اس کے حکم میں بھی اختلاف ہے، جھینگا کو مچھلی ماننے والے اس کو حلال کہتے ہیں اور مچھلی نہ ماننے والے اس کو ناجائز کہتے ہیں، اختلاف کی وجہ سے جھینگا کھانے کی گنجائش ہوگی، احتیاط کرنا اولیٰ ہوگا۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/54462
............
سوال # 1705
کیا کیکڑا ور جھینگا کھانا حلال ہے؟ براہ کرم ، قرآن کے حوالے سے جواب دیں۔

Published on: Nov 3, 2007 جواب # 1705
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 619/ م= 614/ م
(۱) دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، در مختار میں ہے: فلا یجوز اتفاقًا کحیات وضبّ و ما في بحرٍ کسرطان إلا السمک۔ جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے: جھینگے کی شرعی حیثیت کے عنوان سے ایک مفصل اور محقق مقالہ فقہی مقالات موٴلفہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیں۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/1705

.........
میرا سوال یہ تھا کہ جھینگے کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ ذرا وضاحت سے بتائیں کہ یہ کس درجے میں آتا ہے؟
صورت مسئولہ میں جھینگےکی حلت اورحرمت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ یہ مچھلی ہے یا نہیں جولوگ اس کو مچھلی قراردیتے ہیں وہ اس کی حلت کے قائل ہیں اور جو لوگ اس کو مچھلی قرار نہیں دیتے وہ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ ماہرینِ علم لغت اور علمِ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی قرار دیتے ہیں اور اکثر علماء کی رائے بھی یہی ہے، ہمارا بھی یہی موقف ہے، لہٰذا کھانا حلال ہے۔
فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/jhenga-khanay-ka-hukum/-0001-11-30

..........
سوال: کیا جھینگا مکروہ ہے؟
الجواب حامداومصلیاً
ائمہ ثلاثہ  یعنی حضرت امام مالک، امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک جھینگا حلال ہے کیونکہ  ان حضرات  کے نزدیک چند آبی جانوروں کے سوا تمام آبی جانور حلال ہیں لیکن احناف ؒ کے نزدیک مچھلی کے سوا تمام  آبی جانور حرام ہیں اس لئے علما احناف نے اس کو مچھلی کی ایک قسم قرار دے کر حلال  کہا ہے جبکہ دوسرے بعض علماء (جن میں موجودہ دور  کے بعض  ماہرین  حیوانات بھی شامل ہیں) کی تحقیق یہ ہے کہ جھینگا  مچھلی کی قسم نہیں کیونکہ اس میں مچھلی کی علامات نہیں پائی جاتیں لہذا یہ حرام  ہے اس لئے احتیاط  اسی میں ہے کہ جھینگا کھانے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس مسئلہ کا تعلق حلت و حرمت سے ہے اور حلت وحرمت  کے باب میں حرمت  کو  ترجیح  ہوتی ہے البتہ چونکہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اور علماء ثلٰثہ اور بعض حنفیہ اس کی حلت کے قائل ہیں اس لئے ان  علماء کی تحقیق  پر عمل کرتے ہوئے  جو لوگ اس کو کھاتے ہیں ان پر نکیر اور لعن  وطعن نہ کیاجائے۔ اور جو جھینگا نہ کھاتا ہو اس پر لعن طعن نہ کی جائے۔
تکملۃ فتح الملھم :3/424۔427 (الناشر: داراحیاء التراث العربی)
وما الرویان او الاربیان الذی یسمی فی اللغلۃ المصریۃ (جمیری) وفی اللغۃا لاردیۃ  (جھینگا) وفی الانکیلیزیۃ shrimp اور prawn فلا شک  فی حلتۃ عند الائمۃ الثلاثۃ، لان جمیع حیوانات البحر حلال عندھم  واما عند الحنفیۃ، فیتوقف جوازہ علی انہ سمک اولا، فذکر غیر واحد من اھل اللغۃ انہ نوع من السمک: قال ابن  درید فی جمھرۃ  اللغۃ (414:3) ازبیان  ضرب  من السمک  واقرہ فی القاموس وتاج العروس (145:1) وکذلک  وال الدمیری فی حیاۃ الحیوان (1:473 ): ”الروبیان  ھو سمک  صغیر جدا احمر” وافتی غیر واحد من الخیفۃ بجوازہ بناء علی ذلک، مثل صاحب الفتاویٰ  الحمادیہ وقال  شیخ  مشایخنا التھانوی  رحمۃ اللہ فی امداد  الفتاویٰ (103:4) لم یثبت  بدلیل ان للسمک خواص لازمۃ تنتفی  السمکیۃ بانتفائھا، فالمدار علی قول العدول المبصرین۔۔۔۔ وان حیاۃ الحیوان للدمیری  الذی  یبحث عن ماھیات الحیوان یصرح بان الروبیان ھو سمک صغیر ۔۔۔فانی مطمئن الی الآن بانہ سمک، ولعل اللہ یحدث بعد ذلک  امراً ولکن خیرا علم الحیوان الیوم لایعتبرون  سمکا ویذکرون کنوع مستقل  ویقولون: انہ  من اسرۃ السرطان دون السمک وتعریف السمک عندا لعلماء ۔۔۔
http://www.suffahpk.com/tag/%D8%AC%DA%BE%DB%8C%D9%86%DA%AF%D8%A7/
...........
سوال: کیا کیکڑا ور جھینگا کھانا حلال ہے؟ براہ کرم، قرآن کے حوالے سے جواب دیں۔ 
Published on: Nov 3, 2007 
جواب # 1705
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 619/ م= 614/ م
دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، در مختار میں ہے: 
فلا یجوز اتفاقًا کحیات وضبّ و ما في بحرٍ کسرطان إلا السمک۔ 
جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے: جھینگے کی شرعی حیثیت کے عنوان سے ایک مفصل اور محقق مقالہ فقہی مقالات موٴلفہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.da
rulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/1705

جھینگا ائمہ ثلاثہ کے یہاں حلال ہے۔ عرب شیوخ مزہ لے لے کے کھاتے بھی ہیں۔
حنفیہ کے یہاں اس کی حلت وحرمت کا فیصلہ اس پر موقوف ہے کہ یہ مچھلیوں کی قسم میں سے ہے یا نہیں؟؟ جو حضرات اس کو ازقسم مچھلی شمار کرتے ہیں ان کے یہاں جھینگا حلال ہے کیونکہ حنفیہ کے مذہب میں دریائی جانوروں میں مچھلی اپنی تمام اقسام کے ساتھ حلال ہے۔ اور جن حضرات علماء کی تحقیق یہ ہے کہ یہ مچھلی کے اقسام میں نہیں بلکہ  دریائی کیڑہ ہے تو وہ جھینگا کو مکروہ یعنی حرام کہتے ہیں۔
علماء ہند میں یہ مسئلہ شروع سے مختلف فیہ رہا ہے۔ اس میں اتفاقی طور پر کوئی مفتی بہ قول نہیں ہے۔ جسے دو ٹوک انداز میں آپ کو بتایا جائے۔ ہر دو فریق کے پاس دلائل ہیں۔ دلائل عرض کروں تو شاید بات کافی طویل ہوجائے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ حلت وجواز کا فتوی دیتے تھے۔ جبکہ حضرت گنگوہی کراہت تحریمی کا۔
عاجز کا ذاتی رجحان حلت کی  طرف ہے۔لیکن ترک کو احوط اور اورع سمجھتا ہے۔ پر ترک ہو نہیں پاتا ہے۔
اختلاف اقوال علماء کے پیش نظر احتیاط اولی ہے۔ جب ائمہ ثلاثہ حلت کے قائل ہیں تو ایسی صورت میں حرمت کے فتوی میں ایسا شدت برتنا کہ چھینگا کھانے والے پر حرام خور جیسے فتوی ٹھونکنا قطعا  مناسب نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment