ما عملَ آدميٌّ من عملٍ يومَ النحرِ أحبُّ إلى اللهِ من إهراقِ دمٍ ، وإنهُ ليأتي يومَ القيامةِ في قرنِه بقرونِها وأشعارِها وأظلافِها ، وإنَّ الدمَ ليقعُ من اللهِ بمكانٍ قبلَ أن يقعَ في الأرضِ فطِيبُوا بها نفسًا
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: البخاري - المصدر: السنن الكبرى للبيهقي - الصفحة أو الرقم: 9/261
خلاصة حكم المحدث: مرسل
قربانی کے تین دن ہیں،دس،گیارہ،اوربارہ ذی الحجہ
ان دنوں میں سب سے زیادہ محبوب عمل خون بہانا ہے،ان دنوں میں خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں۔
عید الاضحی کے دن ابن آدم کاکوئی عمل اللہ کے حضور قربانی کرکے خون بہانے سے بہتر نہیں،اللہ کے نام پرخون بہانا یہ ان تین دنوں کا محبوب عمل ہے۔
وَاِنَّہٗ لیاَتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ بِقُرُوْنِہَا وَاَشْعَارِہَا وَاَظْلاَفِہَا
اوریہ قربانی کا جانور …جسے تم قربانی کرکے بھول جاتے ہو،بعد میں تمہیں یادبھی نہیں رہتا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی جانور کو اس کے سینگوں،بالوں،اورکھروں کے ساتھ زندہ کرکے کھڑا کریں گے کہ میرے بندے!یہ تیری قربانی ہے۔
لہٰذا قربانی کو اہتمام سے کرو ،دل کی خوشی سے کرو۔
آگے حدیث میں فرمایا:
وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مَنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ اِلَی الْاَرْضِ
اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
خون تو زمین پر بعد میں گرتا ہے………اس سے پہلے تمہارا تقویٰ ،تمہارے
جذبات اللہ تک پہنچ جاتے ہیں۔
اسی لئے اس حدیث کے آخرمیں فرمایا:
فَطِیْبُوْابِہَا نَفْساً……پس اے اللہ کے بندو!دل کی پوری خوشی سے قربانی کیا کرو۔(قربانی کے فضائل ومسائل مفتی احمد ممتاز ۔ پاکستان )
جس کی ملکیت میں سونا،چاندی،مالِ تجارت،نقدی اور ضرورت سے زائد اشیاء میں سے کوئی ایک چیز یا ان میں سے بعض اشیاء کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی
قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔
اگرصرف سونا ہو توپھر اگر ساڑھے سات تولہ ہے تو قربانی واجب ہے ورنہ نہیں۔
ِ قربانی کے وجوب کے لیے چھ شرائط ہیں :
(١) مسلمان ہونا،غیر مسلم پر واجب نہیں۔
(٢) مقیم ہونا،مسافر پر واجب نہیں۔
(٣) آزاد ہونا ،غلام پر واجب نہیں۔
(٤) بالغ ہونا،نابالغ پر واجب نہیں۔
(٥) عاقل ہونا ،مجنون پر واجب نہیں۔
(٦) مالدار ہونا، مسکین نادار پر واجب نہیں۔
(البدائع ٥/٦٣،٦٤،ط:رشیدیہ قدیم،الہندیہ ٥/٢٩٢،ط:رشیدیہ)
مسئلہ : اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد آباد یا غیر آباد اور بنجر زمین ہو تو اگر اس کی قیمت اور ضرورت سے زائد پیداوار کا مجموعہ یا کوئی ایک ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زیادہ ہو تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے ورنہ نہیں۔(الہندیہ، ٥/٢٩٢،ط:رشیدیہ)
مسئلہ : جو شخص مقروض ہو لیکن قرض کی رقم جدا کرنے کے بعد اس کے پاس بقدرِ نصاب مال بچتا ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔(الہندیہ، ٥/٢٩٢،ط:رشیدیہ)
مسئلہ :اگر کچھ رقم قرض دے رکھی ہے یا فروخت شدہ مال کی قیمت باقی ہے تو یہ رقم اگر قابلِ وصول ہے تو قربانی واجب ہے البتہ اگر فی الحال قربانی کے لیے نہ نقد رقم ہے اور نہ ضرورت سے زائد اتنا سامان ہے جسے فروخت کر کے قربانی کر سکے تو قربانی واجب نہ ہوگی البتہ اگر بآسانی قرض مل سکے تو قربانی کی جاسکتی ہے۔
(الہندیہ ،٥/٢٩٢،ط:رشیدیہ،احسن الفتاوی،٧/٥١٢،ط: سعید)
وسعت کے باوجود اگرکوئی قربانی نہیں کرتا،تو آپؐ نے اس پرسخت ناراضگی کا اظہارفرمایا۔
حدیث میں ہے:
مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَیَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا(ابن ماجہ ص ۳۳۶)
جس شخص کے پاس وسعت وطاقت ہو اورپھرقربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
اسے کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری عید گاہ میں آئے،
قربان کئے جانے والے جانور کی عمر اس طرح ہو :
اونٹ : عمر کم از کم پانچ سال(مسلم ٢/١٥٥،ط:قدیمی)
(٢) گائے، بیل : عمر کم از کم دو سال(مسلم ٢/١٥٥،ط:قدیمی)
(٣) بکرا ،بکری، بھیڑ ،دنبہ : عمرکم از کم ایک سال
(مسلم ٢/١٥٥،ط:قدیمی ،اعلاء السنن ١٧/٢٤١،ط:ادارة القرآن)
البتہ دنبہ اگر اتنافربہ اور موٹا ہو کہ دیکھنے میں پورے سال کا معلوم ہو تو سال سے کم ہونے کے باوجود بھی اس کی قربانی جائز ہے،بشرطیکہ چھ ماہ سے کم نہ ہو۔(مسلم ٢/١٥٥،ط:قدیمی)
مسئلہ :عمر کے پورا ہونے کا اطمینان ضروری ہے دانتوں کا ہونا ضروری نہیں۔
(احسن الفتاوی ،٧/٥٢٠،ط:سعید)
1498 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ وَهُوَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا شَرْقَاءَ وَلَا خَرْقَاءَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَزَادَ قَالَ الْمُقَابَلَةُ مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا وَالْمُدَابَرَةُ مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ وَالشَّرْقَاءُ الْمَشْقُوقَةُ وَالْخَرْقَاءُ الْمَثْقُوبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَى وَشُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ هَانِيءٍ كُوفِيٌّ وَلِوَالِدِهِ صُحْبَةٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ الْحَارِثِ الْكِنْدِيُّ أَبُو أُمَيَّةَ الْقَاضِي قَدْ رَوَى عَنْ عَلِيٍّ وَكُلُّهُمْ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ قَوْلُهُ أَنْ نَسْتَشْرِفَ أَيْ أَنْ نَنْظُرَ صَحِيحًا
سنن الترمذي ۔کتاب الاضاحی ۔
ترجمہ:
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ( قربانی کے جانور کے ) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں ( کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں " یہ رویات جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ " والاذن' ' ختم ہو گئی ہے۔"
یہ حدیث اور اس باب کی دیگر احادیث کے پیش نظر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے :
(١) لنگڑا جانور،جس کا لنگڑا پن اتنا ظاہر ہو کہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔
(ترمذی ٢/٢٧٥،ط:سعید ،ابو داود ١/٣٨٧،ط:میر محمد)
(٢) اندھا یا ایسا کاناجس کا کانا پن ظاہر ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٧،ط:رشیدیہ)
(٣) ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٧،ط:رشیدیہ)
(٤) ایسا دبلا،مریل،بوڑھا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو ۔
(الہندیہ، ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(٥) جس کی پیدائشی دم نہ ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٧،ط:رشیدیہ)
(٦) جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٧،ط:رشیدیہ)
(٧) جس کی چکتی یا دم یا کان کا ایک تہائی یا تہائی سے زیادہ حصہ کٹا ہو اہو۔البتہ چکتی والے دنبے کی دم کا اعتبار نہیںلہٰذا پوری دم کٹی ہوئی تو بھی قربانی جائز ہے۔
(الشامیہ،٦/٣٢٥،ط:سعید،الہندیہ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ،احسن الفتاوی٧/٥١٧، ط : سعید )
(٨) جس کے پیدائشی طور پر تھن نہ ہوں۔ (الشامیہ ٩/٥٣٨،ط:رشیدیہ)
(٩) دنبی ،بھیڑ ،بکری کا ایک تھن نہ ہو یا مرض کی وجہ سے خشک ہو گیا ہو یا کسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو ۔(الشامیہ ٩/٥٣٨،ط:رشیدیہ)
(١٠) گائے،بھینس،اونٹنی کے دو تھن نہ ہوں یا خشک ہوگئے ہوں یا کسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں،البتہ اگر ایک تھن نہ ہو یا خشک یا ضائع ہوگیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
(الشامیہ ٩/٥٣٨،ط:رشیدیہ)
(١١) آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(١٢) جس کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر گر گئے ہوں یا ایسے گھس گئے ہوںکہ چارہ بھی نہ کھا سکے۔(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ،احسن الفتاوی٧/٥١٣،ط:سعید)
(١٣) جس کا ایک یا دونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائیں۔(الہندیہ ٥/٢٩٧،ط:رشیدیہ)
(١٤) جسے مرضِ جنون اس حد تک ہو کہ چارہ بھی نہ کھا سکے۔(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(١٥) خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزور ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(١٦) جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(١٧) جس کے تھن کاٹ دیے گئے ہوں یا ایسے خشک ہو گئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(١٨) جس کے تھن کا تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کاٹ دیا گیا ہو۔
(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(١٩) بھیڑ،بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔
(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(٢٠) جس اونٹنی یا گائے،بھینس کی دو گھنڈیاں جاتی رہی ہوں۔
(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(٢١) جس گائے یا بھینس کی پوری زبان یا تہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔
(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(٢٢) جلالہ یعنی جس کی غذا نجاست و گندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔
(الہندیہ ٥/٢٩٨،ط:رشیدیہ)
(٢٣) جس کا ایک پائوں کٹ گیا ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٩،ط:رشیدیہ)
(٢٤) خنثیٰ جانور جس میں نر اور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔
(الہندیہ ٥/٢٩٩،ط:رشیدیہ)
مسئلہ :کسی جانور کے اعضاء زائد ہوں مثلاً چار کے بجائے پانچ ٹانگیں یا چار کے بجائے آٹھ تھن توچونکہ یہ عیب ہے لہٰذا ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔
(المحیط البرہانی ٨/١٧،ط:ادار ة القرآن)
مسئلہ :جس جانور کا پیدائشی طور پر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ ١٧/٣٥٣)
ان جانوروں کی قربانی جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں :
(١) جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔
(٢) جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کا اثر جڑ تک نہیں پہنچا۔
(٣) وہ جانور جو جفتی پر قادر نہ ہو۔
(٤) جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔
(٥) بچے والی ہو۔
(٦) جس کے تھنوں میں بغیر کسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتا ہو۔
(٧) جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔
(٨) جسے داغا گیا ہو۔
(٩) وہ بھیڑ ،بکری جس کی دم پیدائشی طور پر بہت چھوٹی ہو۔
(١٠) ایسا کانا جس کا کانا پن پوری طرح واضح نہ ہو۔
(١١) ایسا لنگڑا جو چلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پائوں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مدد لیتا ہو۔
(١٢) جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔
(١٣) جس کا کان یا چکتی یا دم یا آنکھ کی روشنی کا تہائی سے کم حصہ جاتا رہا ہو۔
(١٤) جس کے کچھ دانت نہ ہو ںمگر وہ چارہ کھا سکتا ہو۔
(١٥) مجنون جس کا جنون اس حد تک نہ پہنچا ہو کہ چارہ نہ کھا سکے۔
(١٦) ایسا خارشی جانور جو فربہ اور موٹا تازہ ہو۔
(١٧) جس کا کان چیر دیا گیا ہو یا تہائی سے کم کاٹ دیا گیا ہو۔
نوٹ : اگر دونوں کانوں کا کچھ حصہ کاٹ لیا گیا ہو تو دونوں کو جمع کر کے دیکھا جائے اگر مجموعہ تہائی کان تک پہنچ جائے یا اس سے بڑھ جائے تو قربانی جائز نہیں،ورنہ جائز ہے۔
(١٨) بھینگا جانور۔
(١٩) وہ بھیڑ ،دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔
(٢٠) وہ بھیڑ ،بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارہ بآسانی کھا سکے۔
(٢١) جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چارہ کھلایا جائے۔
(٢٢) وہ دبلا اور کمزور جانور جو بہت کمزور اور لاغر نہ ہو۔
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ : قال القسھتانی واعلم ان الکل لا یخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرة فما جوزھھنا جوز مع الکراہة کما فی المضمرات۔(الشامیہ ٦/٣٢٣،ط:سعید)
مسئلہ : گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلا کراہت جائز ہے۔
مسئلہ : خصی(بدھیا) بکرے کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے۔
(ابن ماجہ،مسند احمد،اعلاء السنن ١٧/٢٥١،ط:ادارة القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment