معمر خاتون کا بغیر محرم کے حج یا عمرہ کرنا؟
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته
کیا 80 سال کی ضعیفہ بغیر محرم کے عمرہ کو جاسکتی ہے؟ احناف کے علاوہ دیگر ائمہ کے آرا بھی مختصرا تحریر فرماکر حوالہ جات سے مزین فرمادیں
والسلام
معظم علی قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
حج سب پر فرض نہیں ہے بلکہ اس کے فرض ہونے کی چند شرطیں ہیں جو ذیل میں درج ہیں، جب کسی شخص میں وہ سب شرطیں پائی جائیں تو اس پر حج فرض ہوجاتا ہے اور اگر وہ تمام شرطیں یا ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اس پر حج بالکل فرض نہیں ہوتا اس پر خو دادا کرنا بھی فرض نہیں ہوتا اور زندگی میں کسی دوسرے سے حج کروانا یا مرتے وقت وصیت کرنا بھی اس پر واجب نہیں ہوتا۔
(۱) اسلام۔…
(۲) جو شخص دارا لحرب میں ہے اس کو حج کی فرضیت کا علم ہونا۔…
(۳) بلوغ۔…
(۴) عقل۔ …
(۵) آزاد ہونا۔…
(۶) استطاعت و قدرت۔…
(۷) حج کا وقت ہونا۔
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء رجل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللّٰہ! ما یوجب الحجّ؟ قال: الزاد والراحلۃ۔ (سنن الترمذي، الحج / باب ما جاء في إیجاب الحج بالزاد والراحلۃ ۱؍۱۶۸ رقم: ۸۱۰)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قولہ تبارک وتعالی: {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً} قال: قیل: یا رسول اللّٰہ! ما السبیل؟ قال: الزاد والراحلۃ۔ (المستدرک للحاکم / المناسک ۲؍۶۲۲ رقم: ۱۶۱۳، سنن الدار القطني/ الحج ۲؍۱۹۴ رقم: ۲۳۹۷)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ في قولہ تعالی: {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً} قال: السبیل أن یصح بدن العبد، ویکون لہ ثمن زاد وراحلۃ من غیر أن یَجْحفَ بہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الحج / باب الرجل یطیق المشي ولایجد زادا ولا راحلۃ الخ ۶؍۴۴۵ رقم: ۸۷۲۴)
فرض مرۃ علی الفور علی مسلم حر مکلف صحیح بصیر ذي زاد وراحلۃ فضلاً عما لا بد منہ۔ (التنویر مع الدر المختار ۲؍۵۵-۴۶۱ کراچی، ۳؍۴۵۰-۴۶۲ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۹ کوئٹہ، ہدایۃ / کتاب الحج ۱؍۲۳۱، کنزالدقائق / کتاب الحج ۱؍۷۳، البحر الرائق ۲؍۳۱۱ کوئٹہ، بدائع الصنائع ۲؍۳۰۱ زکریا)
وأما تفسیر الزاد والراحلۃ فہو إن ملک من المال مقدار ما یبلغہ إلی مکۃ ذاہباً وجائیاً راکبًا لا ماشیاً بنفقۃ وسط لا إسراف فیہا ولا تقتیر، فاضلاً عن مسکنہ وخادمہ وفرسہ وسلاحہ وثیابہ وأثاثہ ونفقۃ عیالہ وخدمہ وکسوتہم وقضاء دیونہ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۲۹۷، کذا في الفتاوی الہندیۃ ۱؍۲۱۷ کوئٹہ، الدرالمختار مع الرد المختار، کتاب الحج / مطلب: في قولہم یقدم حق العبد علی حق الشرع ۲؍۴۶۲ کراچی، ۳؍۴۶۱- ۴۶۲ زکریا)
اسی طرح حج کی ادائی کے واجب ہونے کی بھی چند شرائط ہیں:
یہ وہ شرائط ہیں کہ حج کا وجوب تو ان کے پائے جانے پر موقوف نہیں لیکن اداکرنا ان شرائط کے پائے جانے کے وقت واجب ہوتا ہے۔اگر وجوب اور وجوبِ ادا دونوں کی شرائط موجود ہوں تو پھر انسان کو خود حج کرنا فرض ہے اور اگر وجوب کی تمام شرائط موجود ہوں لیکن وجوب ادا کی شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جاتی ہو تو پھر خود حج کرنا واجب نہیں ہوتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص سے فی الحال حج کرانایا بعد میں حج کرانے کی وصیت کرنا واجب ہوتا ہے۔ اس قسم کی پانچ شرطیں ہیں:
(١ ) تندرست ہونا۔
مسئلہ: اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ جو شخص تندرست نہ ہو مریض ہو یا اندھا ہو یا مفلوج ہو یا لنگڑا وغیرہ ہو اور خود سفر نہ کرسکتا ہو اور حج کی تمام شرائط موجود ہوں تو اس پر حج فرض ہوتا ہے یا نہیں ۔بہت سے علماء نے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ اس پر حج واجب ہے اور ان کے قول کے موافق ایسا شخص اگر حج نہ کر سکے تو اس پر حج ِبدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا واجب ہے اور اگر خود حج کرلے گا تو حج ہو جائے گا ۔یہ اس صورت میں ہے کہ اس کو معذور ہونے کی حالت میں حج کی استطاعت حاصل ہوئی ہو۔ اگر صحت کی حالت میں حج فرض ہو چکا تھا پھر بیمار اور معذور ہوگیا تو بالاتفاق اس پر حج واجب ہے اور اس کو حج کرانا او ر وصیت کرنی واجب ہے۔
(٢) قید کا نہ ہونا یا حاکم کی طرف سے ممانعت کا نہ ہونا ۔
(٣) راستہ پُر امن ہونا ۔
مسئلہ : اگر کچھ رشوت دے کر راستہ میں امن مل جاتا ہے تو راستہ پُر امن سمجھا جائیگا اور ظلم کو دفع کرنے کے لیے رشوت دینی جائز ہے۔ دینے والا گناہگار نہ ہو گالینے والا گناہگار ہوگا۔
(٤) عورت کے لیے محرم ہونا ۔
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته
کیا 80 سال کی ضعیفہ بغیر محرم کے عمرہ کو جاسکتی ہے؟ احناف کے علاوہ دیگر ائمہ کے آرا بھی مختصرا تحریر فرماکر حوالہ جات سے مزین فرمادیں
والسلام
معظم علی قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
حج سب پر فرض نہیں ہے بلکہ اس کے فرض ہونے کی چند شرطیں ہیں جو ذیل میں درج ہیں، جب کسی شخص میں وہ سب شرطیں پائی جائیں تو اس پر حج فرض ہوجاتا ہے اور اگر وہ تمام شرطیں یا ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اس پر حج بالکل فرض نہیں ہوتا اس پر خو دادا کرنا بھی فرض نہیں ہوتا اور زندگی میں کسی دوسرے سے حج کروانا یا مرتے وقت وصیت کرنا بھی اس پر واجب نہیں ہوتا۔
(۱) اسلام۔…
(۲) جو شخص دارا لحرب میں ہے اس کو حج کی فرضیت کا علم ہونا۔…
(۳) بلوغ۔…
(۴) عقل۔ …
(۵) آزاد ہونا۔…
(۶) استطاعت و قدرت۔…
(۷) حج کا وقت ہونا۔
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء رجل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللّٰہ! ما یوجب الحجّ؟ قال: الزاد والراحلۃ۔ (سنن الترمذي، الحج / باب ما جاء في إیجاب الحج بالزاد والراحلۃ ۱؍۱۶۸ رقم: ۸۱۰)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قولہ تبارک وتعالی: {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً} قال: قیل: یا رسول اللّٰہ! ما السبیل؟ قال: الزاد والراحلۃ۔ (المستدرک للحاکم / المناسک ۲؍۶۲۲ رقم: ۱۶۱۳، سنن الدار القطني/ الحج ۲؍۱۹۴ رقم: ۲۳۹۷)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ في قولہ تعالی: {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً} قال: السبیل أن یصح بدن العبد، ویکون لہ ثمن زاد وراحلۃ من غیر أن یَجْحفَ بہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الحج / باب الرجل یطیق المشي ولایجد زادا ولا راحلۃ الخ ۶؍۴۴۵ رقم: ۸۷۲۴)
فرض مرۃ علی الفور علی مسلم حر مکلف صحیح بصیر ذي زاد وراحلۃ فضلاً عما لا بد منہ۔ (التنویر مع الدر المختار ۲؍۵۵-۴۶۱ کراچی، ۳؍۴۵۰-۴۶۲ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۹ کوئٹہ، ہدایۃ / کتاب الحج ۱؍۲۳۱، کنزالدقائق / کتاب الحج ۱؍۷۳، البحر الرائق ۲؍۳۱۱ کوئٹہ، بدائع الصنائع ۲؍۳۰۱ زکریا)
وأما تفسیر الزاد والراحلۃ فہو إن ملک من المال مقدار ما یبلغہ إلی مکۃ ذاہباً وجائیاً راکبًا لا ماشیاً بنفقۃ وسط لا إسراف فیہا ولا تقتیر، فاضلاً عن مسکنہ وخادمہ وفرسہ وسلاحہ وثیابہ وأثاثہ ونفقۃ عیالہ وخدمہ وکسوتہم وقضاء دیونہ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۲۹۷، کذا في الفتاوی الہندیۃ ۱؍۲۱۷ کوئٹہ، الدرالمختار مع الرد المختار، کتاب الحج / مطلب: في قولہم یقدم حق العبد علی حق الشرع ۲؍۴۶۲ کراچی، ۳؍۴۶۱- ۴۶۲ زکریا)
اسی طرح حج کی ادائی کے واجب ہونے کی بھی چند شرائط ہیں:
یہ وہ شرائط ہیں کہ حج کا وجوب تو ان کے پائے جانے پر موقوف نہیں لیکن اداکرنا ان شرائط کے پائے جانے کے وقت واجب ہوتا ہے۔اگر وجوب اور وجوبِ ادا دونوں کی شرائط موجود ہوں تو پھر انسان کو خود حج کرنا فرض ہے اور اگر وجوب کی تمام شرائط موجود ہوں لیکن وجوب ادا کی شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جاتی ہو تو پھر خود حج کرنا واجب نہیں ہوتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص سے فی الحال حج کرانایا بعد میں حج کرانے کی وصیت کرنا واجب ہوتا ہے۔ اس قسم کی پانچ شرطیں ہیں:
(١ ) تندرست ہونا۔
مسئلہ: اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ جو شخص تندرست نہ ہو مریض ہو یا اندھا ہو یا مفلوج ہو یا لنگڑا وغیرہ ہو اور خود سفر نہ کرسکتا ہو اور حج کی تمام شرائط موجود ہوں تو اس پر حج فرض ہوتا ہے یا نہیں ۔بہت سے علماء نے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ اس پر حج واجب ہے اور ان کے قول کے موافق ایسا شخص اگر حج نہ کر سکے تو اس پر حج ِبدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا واجب ہے اور اگر خود حج کرلے گا تو حج ہو جائے گا ۔یہ اس صورت میں ہے کہ اس کو معذور ہونے کی حالت میں حج کی استطاعت حاصل ہوئی ہو۔ اگر صحت کی حالت میں حج فرض ہو چکا تھا پھر بیمار اور معذور ہوگیا تو بالاتفاق اس پر حج واجب ہے اور اس کو حج کرانا او ر وصیت کرنی واجب ہے۔
(٢) قید کا نہ ہونا یا حاکم کی طرف سے ممانعت کا نہ ہونا ۔
(٣) راستہ پُر امن ہونا ۔
مسئلہ : اگر کچھ رشوت دے کر راستہ میں امن مل جاتا ہے تو راستہ پُر امن سمجھا جائیگا اور ظلم کو دفع کرنے کے لیے رشوت دینی جائز ہے۔ دینے والا گناہگار نہ ہو گالینے والا گناہگار ہوگا۔
(٤) عورت کے لیے محرم ہونا ۔
حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک 78 کلو میٹر ( یا82 کیلو میٹر بعض علماء کے قول کے مطابق ) کی مسافت پہ مکہ واقع ہو تو عازم حج خاتوں کے لئے ساتھ میں شوہر یا کوئی شرعی محرم ہونا ضروری ہے۔(ھدایہ مع فتح القدیر 128/2۔۔۔الکافی 519/1۔۔۔المغنی 336/3۔۔۔
عورت اگر محرم یا شوہر کو ساتھ لئے بغیر حج کو جائے تو حج تو ہو جائے گا لیکن گناہگار ہوگی۔
) ’’ إن رسول اللّٰہ ا قال :لا تسافر المرأۃ ثلاثًا إلا و معھا ذو محرم ‘‘ (صحیح مسلم ، حدیث نمبر : ۳۲۵۸ ، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی الحج وغیرہ ، صحیح البخاري ، حدیث نمبر : ۱۸۶۲ ، باب حج النساء)
شافعیہ کے نزدیک دو قابل اعتماد وبھروسہ خواتین کی رفاقت مل جائے شرط محرم کی طرف سے کفایت کرجائیں گی۔مالکیہ کے نزدیک قابل اعتماد وبھروسہ رفقاء سفر خواہ مرد ہوں یا خواتین کی معیت کافی ہے۔ حج نفل یا عمرہ کی میں ان کے یہاں بھی زوج یا محرم شرعی کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر سفر کرنا گناہ ہے۔ (حاشیةالدسوقی 9/2۔۔۔والعدوی 455/1۔۔۔المنھاج للنووی وشرحہ 89/2۔۔۔مغنی المحتاج 467/1۔۔حاشیہ القلیوبی علی شرح المنھاج 89/2 )۔
مالکیہ شافعیہ حنابلہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق محرم کا موجود ہونا فرضیت حج کی شرط ہے۔یعنی اس کے بغیر حج فرض ہی نہیں ہوگا۔ ہاں مالکیہ اور شافعیہ کے یہاں قابل اعتماد وبھروسہ رفقاء سفر اس شرط کے قائم مقام ہوجائیں گے۔ حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک نہیں۔
فقہ حنفی کے راجح قول کے مطابق محرم کا موجود ہونا حج کی ادائی کے وجوب کی شرط ہے نفس وجوب کی شرط نہیں ہے۔(الشرح الکبیر 9/2۔۔۔ھدایہ مع فتح القدیر 130/2۔۔لباب المناسک وشرحہ صفحہ 37۔۔۔الفروع 234/3 )۔
فقہاء حنفیہ کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کے لئے محرم یا زوج کی شرط بلا تفریق سن وسال جوان بوڑھی سب کے لئے یکساں ہے۔
متون حنفیہ میں اس طرح کی کوئی تفریق نہیں ملتی۔ لیکن اگر کوئی عورت بوڑھی ہو اور فتنہ کا بظاہر اندیشہ نہ ہو اور اس پر مالی اعتبار سے حج فرض ہوچکا ہو یا تو محرم دستیاب نہ ہو یا اگر یو تو اس کے اخراجات کے تحمل کی سکت نہیں تو آیا وہ کسی نامحرم کے ساتھ سفر حج کو جاسکتی ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں فقہ کی عام کتابوں میں ممانعت ہی لکھی ہے، اور صراحت کے ساتھ بوڑھی عورت کو بھی بلامحرم سفر حج کرنے سے منع لکھا گیا ہے۔
المرأۃ عجوزاً کانت المرأۃ أو شابۃ۔ (مناسک ملا علي القاري ۵۶)
الرابع المحرم أو الزوج لامرأۃ بالغۃ ولو عجوزاً أو معہا غیرہا من النساء الثقات والرجال الصالحین۔ (غنیۃ الناسک ۲۶، رسول اللہ کا طریقہ حج ۶۹۳)
تاہم بعض اکابر مفتیان مثلا علامہ انور شاہ کشمیری اور مجدد تھانوی وغیرہ کی عبارات اور فتاویٰ سے ۶۰-۷۰؍سال کی بوڑھی عورت کو بلامحرم قابلِ اعتماد لوگوں کے قافلہ کے ساتھ سفر کی اجازت ثابت ہوتی ہے، ایسی خاص مجبوری کے وقت شافعیہ ومالکیہ کی فقہ سے بھی استفادہ کی گنجائش نکل سکتی ہے۔اس لئے فتنہ سے مکمل حفاظت کے وقت خاص حالات میں اس کی گنجائش ہوگی۔
أما العجوز التي لا تشتہي فلا بأس بمصافحتہا ومس یدہا إذا أمن ومتی جاز المس جاز سفرہ بہا ویخلوا إذا أمن علیہ وعلیہا وإلا لا۔ (درمختار ۶؍۳۶۸ کراچی، امداد الفتاویٰ ۴؍۲۰۱، فیض الباري ۲؍۳۹، انوار مناسک ۱۷۷-۱۷۸)
واضح رہے کہ یہ گنجائش خصوصی حالات اور حج فرض کے لئے ہے۔حج نفل یا عمرہ میں اس وسعت کا تعدیہ جائز نہیں۔
(٥) عور ت کا عدت میں نہ ہونا۔
مسئلہ : عورت عدت کی حالت میں اگرحج کرے گی تو حج ہو جائیگا لیکن گناہگار ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٩\٤\١٤٣٨ھجری
................
عورت اگر محرم یا شوہر کو ساتھ لئے بغیر حج کو جائے تو حج تو ہو جائے گا لیکن گناہگار ہوگی۔
) ’’ إن رسول اللّٰہ ا قال :لا تسافر المرأۃ ثلاثًا إلا و معھا ذو محرم ‘‘ (صحیح مسلم ، حدیث نمبر : ۳۲۵۸ ، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی الحج وغیرہ ، صحیح البخاري ، حدیث نمبر : ۱۸۶۲ ، باب حج النساء)
شافعیہ کے نزدیک دو قابل اعتماد وبھروسہ خواتین کی رفاقت مل جائے شرط محرم کی طرف سے کفایت کرجائیں گی۔مالکیہ کے نزدیک قابل اعتماد وبھروسہ رفقاء سفر خواہ مرد ہوں یا خواتین کی معیت کافی ہے۔ حج نفل یا عمرہ کی میں ان کے یہاں بھی زوج یا محرم شرعی کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر سفر کرنا گناہ ہے۔ (حاشیةالدسوقی 9/2۔۔۔والعدوی 455/1۔۔۔المنھاج للنووی وشرحہ 89/2۔۔۔مغنی المحتاج 467/1۔۔حاشیہ القلیوبی علی شرح المنھاج 89/2 )۔
مالکیہ شافعیہ حنابلہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق محرم کا موجود ہونا فرضیت حج کی شرط ہے۔یعنی اس کے بغیر حج فرض ہی نہیں ہوگا۔ ہاں مالکیہ اور شافعیہ کے یہاں قابل اعتماد وبھروسہ رفقاء سفر اس شرط کے قائم مقام ہوجائیں گے۔ حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک نہیں۔
فقہ حنفی کے راجح قول کے مطابق محرم کا موجود ہونا حج کی ادائی کے وجوب کی شرط ہے نفس وجوب کی شرط نہیں ہے۔(الشرح الکبیر 9/2۔۔۔ھدایہ مع فتح القدیر 130/2۔۔لباب المناسک وشرحہ صفحہ 37۔۔۔الفروع 234/3 )۔
فقہاء حنفیہ کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کے لئے محرم یا زوج کی شرط بلا تفریق سن وسال جوان بوڑھی سب کے لئے یکساں ہے۔
متون حنفیہ میں اس طرح کی کوئی تفریق نہیں ملتی۔ لیکن اگر کوئی عورت بوڑھی ہو اور فتنہ کا بظاہر اندیشہ نہ ہو اور اس پر مالی اعتبار سے حج فرض ہوچکا ہو یا تو محرم دستیاب نہ ہو یا اگر یو تو اس کے اخراجات کے تحمل کی سکت نہیں تو آیا وہ کسی نامحرم کے ساتھ سفر حج کو جاسکتی ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں فقہ کی عام کتابوں میں ممانعت ہی لکھی ہے، اور صراحت کے ساتھ بوڑھی عورت کو بھی بلامحرم سفر حج کرنے سے منع لکھا گیا ہے۔
المرأۃ عجوزاً کانت المرأۃ أو شابۃ۔ (مناسک ملا علي القاري ۵۶)
الرابع المحرم أو الزوج لامرأۃ بالغۃ ولو عجوزاً أو معہا غیرہا من النساء الثقات والرجال الصالحین۔ (غنیۃ الناسک ۲۶، رسول اللہ کا طریقہ حج ۶۹۳)
تاہم بعض اکابر مفتیان مثلا علامہ انور شاہ کشمیری اور مجدد تھانوی وغیرہ کی عبارات اور فتاویٰ سے ۶۰-۷۰؍سال کی بوڑھی عورت کو بلامحرم قابلِ اعتماد لوگوں کے قافلہ کے ساتھ سفر کی اجازت ثابت ہوتی ہے، ایسی خاص مجبوری کے وقت شافعیہ ومالکیہ کی فقہ سے بھی استفادہ کی گنجائش نکل سکتی ہے۔اس لئے فتنہ سے مکمل حفاظت کے وقت خاص حالات میں اس کی گنجائش ہوگی۔
أما العجوز التي لا تشتہي فلا بأس بمصافحتہا ومس یدہا إذا أمن ومتی جاز المس جاز سفرہ بہا ویخلوا إذا أمن علیہ وعلیہا وإلا لا۔ (درمختار ۶؍۳۶۸ کراچی، امداد الفتاویٰ ۴؍۲۰۱، فیض الباري ۲؍۳۹، انوار مناسک ۱۷۷-۱۷۸)
واضح رہے کہ یہ گنجائش خصوصی حالات اور حج فرض کے لئے ہے۔حج نفل یا عمرہ میں اس وسعت کا تعدیہ جائز نہیں۔
(٥) عور ت کا عدت میں نہ ہونا۔
مسئلہ : عورت عدت کی حالت میں اگرحج کرے گی تو حج ہو جائیگا لیکن گناہگار ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٩\٤\١٤٣٨ھجری
................
عورت کو محرم کے بغیر سفر کا شرعی حکم
راوالپنڈی، اسلام آباد کے چیدہ مفتیان کرام واہل علم حضرات پر مشتمل ”المجلس العلمی” کے نام سے ایک مجلس قائم ہے جس میں جدید اور اہم فقہی مسائل پر غور وفکر کر کے فیصلہ کیا جاتا ہے اس مجلس میں آج کل شدید ضرورت کے پیش نظر محرم کے بغیر عورت کو سفر کرنے کے حکم پر غور وفکر ہوا. اس مجلس نے جو فیصلہ کیا وہ ذیل میں تحریر کیا جارہا ہے۔
آج مورخہ 4/ ربیع الاول 1437 ھ بمطابق 16 دسمبر 2016 ء بروز بدھ کو ادارہ غفران میں ”المجلس العلمی” کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں عورت کے محرم کے بغیر سفر کے حکم اور موجودہ دور میں اس سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات پر غور کیا گیا ۔
غوروخوض اور بحث وتمحیص کے بعد یہ طے پایا گیا کہ عام حالات میں تو عورت کو اس کی پابندی کرنی چاہئے کہ وہ مسافت قصر والا سفر محرم کے بغیر نہ کرے البتہ اگر کہیں شدید ضرورت ہو اور محرم میسر نہ ہو یا محرم تو موجود ہو لیکن اس کے ساتھ کسی مجبوری کی وجہ سے سفر نہ کرسکے تو عورت کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ محرم کے بغیر بھی سفر کرنے کی گنجائش ہے۔
راستہ پر امن ہو۔
عورت شرعی پردہ کا اہتمام کرے۔
نہ عورت کی طرف سے فتنہ کا خطرہ ہو اور نہ دوسری جانب سے کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت کا لازم نہ آئے بلکہ سفر اجتماعی قافلے کی شکل میں ہو یا کوئی ذمہ دار خاتون ساتھ ہو۔
اور اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو عورت کے لئے مسافت سفر سے کم کا سفر بھی جائز نہیں۔
اجلاس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی:
مفتی محمد رضوان صاحب
مفتی دوست محمد مزاری
مفتی احسان الحق صاحب
مفتی شکیل احمد صاحب
عورت کا اکیلے بغیر محرم سفر کرنے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ موجودہ دور میں محرم کے بغیر عورت کے لئے سفر بیرون ملک یا اندرون ملک سفر شرعی کرنا جائز یا نہیں ؟
مفتی محمد رضوان صاحب مد ظلہ (ادارہ غفران راوالپنڈی) کے زیر نگرانی ”المجلس العلمی” نے حال ہی میں اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے جو ان کے ماہنامہ رسالہ التبلیغ بابت ماہ مارچ 2016ء صفحہ 69 پر شائع ہوا ہے ۔
الجواب باسم ملہم الصواب:
عام حالات میں عورت کے لئے بلا محرم سفر شرعی (24ء77 کلو میٹر) کی مقدار سفر کرنا جائز نہیں البتہ بوقت ضرورت جبکہ کوئی محرم ساتھ جانے کے لئے میسر نہ ہو ایسے سفر کی گنجائش ہے جس میں رات گزارنے کی نوبت نہ آئے اور نہ ہی کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اس طور پر کہ نیک عورتیں ساتھ ہوں یا کم از کم ساتھ والی سیٹ پر کوئی مرد نہ ہو اور جاتے وقت کوئی محرم اسٹیشن یا اڈے تک ساتھ جائے اور جہاں جانا ہو وہاں بھی غیر محرم لینے کے لئے آئے۔
“العرف الشذی شرح السنن الترمذی ” (2/407 )
الجمع بین الصحیحین البخاری ومسلم :
عن ابی ھریرۃ ۔ عن رسول اللہ ﷺ قال : لا یحل لامراۃ تسافر مسیرۃ یوم ولیلۃ الا مع ذی محرم علیھا
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
آج مورخہ 4/ ربیع الاول 1437 ھ بمطابق 16 دسمبر 2016 ء بروز بدھ کو ادارہ غفران میں ”المجلس العلمی” کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں عورت کے محرم کے بغیر سفر کے حکم اور موجودہ دور میں اس سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات پر غور کیا گیا ۔
غوروخوض اور بحث وتمحیص کے بعد یہ طے پایا گیا کہ عام حالات میں تو عورت کو اس کی پابندی کرنی چاہئے کہ وہ مسافت قصر والا سفر محرم کے بغیر نہ کرے البتہ اگر کہیں شدید ضرورت ہو اور محرم میسر نہ ہو یا محرم تو موجود ہو لیکن اس کے ساتھ کسی مجبوری کی وجہ سے سفر نہ کرسکے تو عورت کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ محرم کے بغیر بھی سفر کرنے کی گنجائش ہے۔
راستہ پر امن ہو۔
عورت شرعی پردہ کا اہتمام کرے۔
نہ عورت کی طرف سے فتنہ کا خطرہ ہو اور نہ دوسری جانب سے کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت کا لازم نہ آئے بلکہ سفر اجتماعی قافلے کی شکل میں ہو یا کوئی ذمہ دار خاتون ساتھ ہو۔
اور اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو عورت کے لئے مسافت سفر سے کم کا سفر بھی جائز نہیں۔
اجلاس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی:
مفتی محمد رضوان صاحب
مفتی دوست محمد مزاری
مفتی احسان الحق صاحب
مفتی شکیل احمد صاحب
عورت کا اکیلے بغیر محرم سفر کرنے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ موجودہ دور میں محرم کے بغیر عورت کے لئے سفر بیرون ملک یا اندرون ملک سفر شرعی کرنا جائز یا نہیں ؟
مفتی محمد رضوان صاحب مد ظلہ (ادارہ غفران راوالپنڈی) کے زیر نگرانی ”المجلس العلمی” نے حال ہی میں اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے جو ان کے ماہنامہ رسالہ التبلیغ بابت ماہ مارچ 2016ء صفحہ 69 پر شائع ہوا ہے ۔
الجواب باسم ملہم الصواب:
عام حالات میں عورت کے لئے بلا محرم سفر شرعی (24ء77 کلو میٹر) کی مقدار سفر کرنا جائز نہیں البتہ بوقت ضرورت جبکہ کوئی محرم ساتھ جانے کے لئے میسر نہ ہو ایسے سفر کی گنجائش ہے جس میں رات گزارنے کی نوبت نہ آئے اور نہ ہی کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اس طور پر کہ نیک عورتیں ساتھ ہوں یا کم از کم ساتھ والی سیٹ پر کوئی مرد نہ ہو اور جاتے وقت کوئی محرم اسٹیشن یا اڈے تک ساتھ جائے اور جہاں جانا ہو وہاں بھی غیر محرم لینے کے لئے آئے۔
“العرف الشذی شرح السنن الترمذی ” (2/407 )
الجمع بین الصحیحین البخاری ومسلم :
عن ابی ھریرۃ ۔ عن رسول اللہ ﷺ قال : لا یحل لامراۃ تسافر مسیرۃ یوم ولیلۃ الا مع ذی محرم علیھا
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
No comments:
Post a Comment