Tuesday, 15 August 2017

مسلمان کی مندر میں معاونت

سوال (۶۵۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
غیرمسلموں کے مندر کی عمارت کسی مسلمان کو بنانا درست ہے یا نہیں؟ نیز اِسی طرح لکڑی کا مندر بنانے کا مسلم کو کاروبار کرنا درست ہے یا نہیں؟ اور اُن غیرمسلموں کی عبادت گاہیں بناکر کمانا اور اُس کا کھانا درست ہے یا نہیں؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مزدوری پر مسلمان کا مندر کی تعمیر میں شریک ہوکر اُجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ مندر کے بت اپنے ہاتھ سے نہ بنائے۔
ولو استأجر الذمي مسلمًا لیبني لہ بیعۃ أو کنیسۃً جاز، ویطیب لہ الأجر کذا في المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / کتاب الإجارۃ ۴؍۴۵۰)
اور لکڑی کا مندر بناکر بیچنا اگرچہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جائز ہے، مگر بہرحال اِس سے احتراز ہی اولیٰ ہے؛ تاکہ کفروشرک پر تعاون نہ ہوسکے۔
لأبي حنیفۃ أنہا أموال لصلاحیتہا لما یحل من وجوہ الانتفاع، وإن صلحت لما لا یحل۔ (الہدایۃ، کتاب الغصب / فصل في غصب ما لا یتقوم ۳؍۳۷۲
.... سوال: میں انجینئر ہوں، میں غیر مسلموں کے مقدس مقامات (جیسے چرچ، مندر وغیرہ) اور فلم، تھیٹر کی ڈیژائننگ کا کام کرتا ہوں۔ کیا ایسی عمارتوں کی ڈیژائننگ کرنا شریعت میں جائز ہے؟

Published on: Dec 16, 2015
جواب # 62638
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 110-110/Sd=3/1437-U
مذکورہ عمارتوں کی ڈیزائننگ کاکام کرنا فی نفسہ جائز ہے اور اس سے حاصل شدہ آمدنی حلال ہے؛ تاہم احتیاط اولی ہے۔ قال الحصکفي: وجاز تعمیر کنیسة۔ قال ابن عابدین: قولہ: (وجاز تعمیر کنیسة) قال في الخانیة: ولو آجر نفسہ لیعمل في الکنیسة، و یعمرہا لا بأس بہ؛ لأنہ لا معصیة في عین العمل۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۳۹۱، کتاب الحضر والاباحة، فصل في البیع، ط: دار الفکر، بیروت، احسن الفتاوی: ۷/۳۰۹، کتاب الاجارة، ط: ایچ ایم سعید، کراچی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment