قربانی اور زکوۃ کے نصاب میں فرق
بعض لوگ سمجھتے ھیں کہ قربانی اس پر واجب ھے جس پر زکوۃ فرض ھے، یہ غلط ھے قربانی اور زکوۃ کا حساب الگ الگ ھے
قربانی اور زکوۃ کے نصاب میں فرق ھے
قربانی کے نصاب میں پانچ چیزیں ھیں
1
سونا
2
چاندی
3
نقدرقم
4
مال تجارت
5
ضرورت سے زائد سامان
اگر ان سب کی قیمت ملا کر 52.5 تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے توتین حکم لگیں گے
حکم 1
قربانی واجب ھوگی
حکم 2
فطرانہ دینا واجب ھوگا
حکم 3
ایسا شخص زکوۃ نہیں لے سکتا۔
ملحوظہ
ریڈیو ٹیپ ریکارڈر ٹی وی کپڑوں کے تین سے زائد جوڑے وغیرہ ضرورت میں داخل نھیں انکی بھی قیمت لگائی جائے گی۔
یعنی جس شخص کے پاس سونا، چاندی، مال تجارت، نقد رقم اور ضرورت سے زائد سامان، انکی قیمت ملاکرساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ھوجائے تو اس پر قربانی واجب ھے۔ ریڈیو ٹیپ ریکارڈر ٹی وی کپڑوں کے تین سے زائد جوڑے وغیرہ ضرورت میں داخل نھیں انکی بھی قیمت لگائی جائے گی. (اگر کسی کے پاس 12 جوڑے ہوں، لیکن وہ سب اس کے استعمال میں آتے ہیں تو یہ ضروریات میں داخل ہیں، لیکن جو کپڑے بالکل استعمال میں نہ آتے ہیں وہ ضرورت سے زائد سامان میں شمار ہوں گے)- زکوۃ کے نصاب میں چار چیزیں ھیں
1
سونا
2
چاندی
3
نقدرقم
4
مال تجارت
جس کے پاس ان میں سے ایک چیز ھو تو اسکا نصاب الگ ھے اور اگر ان میں سے دو یا تین یا چاروں چیزیں ھوں اور انکی قیمت ملا کر 52.5تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر زکوۃدینا فرض ھے
الحاصل
قربانی کے نصاب میں پانچ چیزیں ھیں اور زکوۃ کے نصاب میں چار چیزیں ھیں-
http://googleweblight.com/i?u=http://zarbemomin.com.pk/index.php/shari-masail/qurbani-k-masail/247-chand-sangeen-ghaltiyoun-ki-islah&grqid=qqLKOJbS&hl=en-IN
قربانی کس پر واجب ہے؟ ضرورت سے زائد سامان سے کیا مراد ہے؟
سوال
کہا جاتا ہے کہ ضرورت سے زائد چیزوں کہ مالیت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچ جائے تو قربانی واجب ہوجاتی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ وہ کون سی اشیاء ہیں کہ جن کی مالیت شمار کی جائے؟ یہ بھی بتائیں کہ کسی کے پاس 12جوڑے ہو تو وہ بھی ضرورت سےزائد میں داخل ہیں یا نہیں؟
جواب
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے۔
ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔
اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔
لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔
مذکورہ تفصیل سے آپ کے سوال کا جواب واضح ہوگیا ہے کہ اگر کسی کے پاس 12 جوڑے ہوں، لیکن وہ سب اس کے استعمال میں آتے ہیں تو یہ ضروریات میں داخل ہیں، لیکن جو کپڑے بالکل استعمال میں نہ آتے ہیں وہ ضرورت سے زائد سامان میں شمار ہوں گے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312)
'' وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،
(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم''۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201988
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
S_A_Sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2017/08/blog-post_25.html?m=1
No comments:
Post a Comment