اکثر خواتین سمجھتی ہیں کہ حالتِ احرام میں چونکہ چہرہ پر نقاب یا کپڑا لگانا منع ہے تو شاید حالتِ احرام میں پردہ کا حکم ہی نہیں ہے، جبکہ شرعا ًایسا نہیں ہے کیونکہ جیسے عام حالت میں چہرہ کا پردہ ضروری ہے اسی طرح حالت احرام میں بھی چہرہ کا پردہ ضروری ہے تاہم وہ پردہ اس طرح کیا جائے گا کہ کپڑا چہرہ پر نہ لگے، اور یہ حکم احادیث سے ثابت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں بھی حالت احرام میں خواتین کے سامنے کوئی نامحرم آتا تو وہ اپنے چہرے پر اس طرح نقاب ڈال لیتی تھی کہ وہ چہرے کی جلد کو مس نہیں کرتا تھا۔ جیسا کہ احادیث کی کتب ابوداؤد اور مشکوۃ سے دو روایات درج ذیل ہیں:
1.عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مُحْرِمَاتٌ فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا إِلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ.(سنن أبى داود - 2/ 104)
2.وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات فإذا جاوزوا بنا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها فإذا جاوزونا كشفناه. صحيح
(مشكاة المصابيح - 2/ 107)
ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوتی، جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنے نقاب کو اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتی اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
مذکورہ حدیث میں چہرے پر نقاب ڈالنے کی تشریح میں مشکوۃ کی مشہور شرح مرقاۃ کے مصنف ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ میں لکھتے ہیں کہ چہرہ پر نقاب ڈالنا اس طرح ہوتا تھا کہ وہ چہرے کی جلد کو مس (Touch) نہیں کرتا تھا۔
(مَنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا) : بِحَيْثُ لَمْ يَمَسُّ الْجِلْبَابُ بَشَرَةَ الْوَجْهِ.( مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح -5/ 1852)
وهو محمول على توسيط شيء حاجب بين الوجه وبين الجلباب
(الموطأ - 2/ 260)
قرآن و حدیث اور مذکورہ روایات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ خواتین کے احرام میں دو باتیں ہیں، ایک چہرہ پر کپڑے کا نہ لگنا اور دوسرا پردے کا مستقل حکم جو احرام کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا۔
اب کوئی ایسا طریقہ اپنایا جائے جس سے حالتِ احرام میں یہ دونوں شرعی حکم (چہرہ پر کپڑے کا نہ لگنا اور شرعی پردہ) پورے ہوجائیں، پہلے دور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابیات رضی اللہ عنہن کے طریقہ پر عمل ممکن تھا جبکہ موجودہ دور میں مکہ و مدینہ میں آبادی اور حاجیوں کی کثرت کی وجہ سے خواتین کیلئے اس طریقہ پرعمل ممکن نہیں رہا، اس لئے موجودہ دور میں مخصوص ہیٹ اس کا آسان حل ہے، یہی وجہ ہے کہ حج پر جانے والی خواتین کو پردہ کا شرعی حکم سہولت و آسانی سےپورا کرنے کیلئے اسی مخصوص ہیٹ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ نیز علماء نے لکھا ہے کہ مسجد حرام و مسجد نبوی میں کسی نیک کام پر جیسے ثواب زیادہ ہے تو اسی طرح خلاف شریعت کام پر گناہ بھی زیادہ ہوگا، اس لئے خواتین حج کےمکمل سفر میں پردے کا خاص اہتمام فرمائیں تاکہ اس سفر کا مقصدِ اصلی یعنی اللہ تعالی کی رضاءاور حج مقبول کا ثواب حاصل ہوجائے، اور احادیث میں حج مقبول کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس میں کسی قسم کاگناہ نہ کیا جائے۔
مَنْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ(صحيح البخاري- ص: 274)
ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے لئے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہوگا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»
( سنن الترمذی - 3/ 167)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا تو اس کے گزشتہ تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔
چند مسائل:
1۔عورت کے لئے احرام کے دوران سر پر پہننے کے لئے کوئی کپڑا مثلا اسکارف وغیرہ شرعا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس کے احرام کاحصہ ہے، اس کا احرام تو صرف چہرہ پر ہے کہ چہرہ پر کوئی کپڑا لگا نہ رہے، نیز اگر اسکارف اس طرح باندھا جائے کہ جس سے پیشانی چھپ جائے تو خواتین کیلئےاس طرح اسکارف استعمال کرنا درست نہیں کیونکہ پیشانی بھی چہرہ کی حد میں داخل ہے، البتہ اگر کوئی خاتون بطورِ احتیاط یا ویسے ہی اسکارف بھی پہننا چاہے اوراس کی وجہ سے پیشانی نہ چھپے تو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم یہ احرام کا حصہ نہیں ہے، لیکن ہیٹ یا اس قسم کی کسی دوسری چیز سے چہرہ چھپانا ضروری ہے جیسے اوپر وضاحت سے ذکر کیا ہے۔
2۔ اگر نقاب ہوا وغیرہ کی وجہ سے چہرے پر لگ کر علیحدہ ہوجاتا ہے تو اس کی وجہ سے عورت پر کچھ بھی واجب نہیں ہے البتہ اگر مستقل لگارہے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ تھوڑی دیر (ایک گھنٹہ سے کم وقت) کے لئے عورت کے چہرے کو لگارہے، یا چہرہ کے چوتھائی حصہ سے کم کو لگارہا تواس صورت میں اس پر ایک مٹھی گندم صدقہ کرنا واجب ہے اور اگر ایک گھنٹہ یا اس سے زائد وقت اور ایک دن یا ایک رات (یعنی بارہ گھنٹے) سے کم کم لگارہےتو اس صورت میں پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے، اور اگر بارہ گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت پورا چہرہ یا اس کا چوتھائی حصہ کو نقاب سے لگارہا تو اس صورت میں ایک دم واجب ہوگا۔
3۔ دم کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ ایک سال کی عمر کا صحیح سالم بکرا یا بکری حدود ِحرم میں ذبح کرکے اس کا گوشت فقراء اور مساکین پر صدقہ کردیا جائے، اس میں سے خود کھانا یا اپنی بیوی، بچوں کو کھلانا یا مالداروں کو کھلانا جائز نہیں۔
تحریر: محمد عاصم، متخصص فی الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
No comments:
Post a Comment