Tuesday 1 August 2017

قربانی کیا ہے؛ تاریخ، اہمیت اور مسائل

ایس اے ساگر

عید الاضحٰی کی آمد آمد پے، ایسے میں ضروری ہوجاتا پے کہ پر صاحب ایمان کو علم ہو کہ قربانی کیا ہے؟ کیوں کرتے ہیں؟  کب سے کی جارہی ہے؟ کس کے ذمہ ہے؟ کیسے کریں؟ اور اس پر کیا ملے گا؟ 

قربانی کس پر واجب ہے؟
٭...قربانی ہر اس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہے جو ایامِ قربانی میں کم از کم ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی کا مالک ہو،یا سونا چاندی، نقدی، مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان میں سے سب یا بعض چیزیں ہوں اور ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پہنچ جائے، لہٰذامسافر، مجنون اور نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔
٭...شرعی مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن کوئی شخص دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو سفر میں تھا پھر بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ گیا تو قربانی واجب ہے۔
٭...مسافر قربانی کے دنوں میں پندرہ دن کہیں ٹھہرنے کی نیت کرلے تو اب قربانی واجب ہوگی۔
٭...اسی طرح اگر پہلے اتنا مال نہیں تھا جس سے قربانی واجب ہوتی پھر بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کہیں سے اتنامال مل گیا تو قربانی کرنا واجب ہے۔
٭...قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے، اولاد کی طرف سے واجب نہیں چاہے بالغ ہو یا نابالغ، اگر نا بالغ اولاد مال دار ہو تب بھی اس کی طرف سے واجب نہیں نہ اپنے مال سے نہ اُس کے مال سے، اگر کسی نے نابالغ کی طرف سے قربانی کردی تو نفل ہوگئی،لیکن اپنے ہی مال سے کرے، نابالغ کے مال میں سے نہ کی جائے۔ (ہندیہ، شامی)
٭... جس نے قربانی کرنے کی منت مانی پھر وہ کام پورا ہو گیا جس کے لیے منت مانی تھی تو اب قربانی کرنا واجب ہے چاہے مال دار ہو یا نہ ہو، اور منت کی قربانی کا سارا گوشت غریبوں پر صدقہ کردے نہ خود کھائے نہ مال داروں کو دے، جتنا خود کھایا یا امیروں کو دیا اتناگوشت یا اس کی قیمت صدقہ کرنا پڑے گی۔
٭...کسی پر قربانی واجب نہیں تھی لیکن اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اب اس جانور کی قربانی واجب ہو گئی۔
٭...جب چار بھائیوں کا مال مشترک ہے تو وہ چاروں برابر کے حصہ دار ہیں، اور قربانی اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس حاجات ضروریہ سے فارغ بقدرِ نصاب مال موجود ہو، پس اگر ان چاروں کا مالِ مشترک اس قدر قیمت رکھتا ہو کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب ہو جائے تو ان میں سے بالغوں پر قربانی واجب ہوگی،نابالغ پر نہیں۔ اور جن پر واجب ہوگی ان میں سے ہر ایک پر ایک بکرا یا گائے،بیل،بھینس اور اونٹ یا اونٹنی کا ساتواں حصہ کرنا ضروری ہو گا۔
٭...اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے، اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو کسی اور سے ذبح کر والے اور ذبح کے وقت وہاں جانور کے سامنے کھڑا ہونا بہتر ہے۔
٭...قربانی میں اگر بینک کا کوئی ملازم یا انشورنس کا کاروبار کرنے والا شریک ہوا جس کی کل آمدن یا اکثر آمدن حرام سے ہے تو شرکاء میں سے کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔
٭...رشوت، غصب ، چوری، سود، انشورنس اور دیگر حرام ذرائع سے کمائے گئے مال میں قربانی واجب نہیں، ایسا مال سارا کا سارا بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا واجب ہے۔

قربانی سے متعلق کچھ غلط فہمیاں
٭...بعض ظاہربین یہ سمجھتے ہیں کہ عورت پرکسی حال میں قربانی واجب نہیں جو سراسر غلط فہمی ہے۔حضورصلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ  سے فرمایاتھا کہ:یافاطمة! قومی الیٰ أضحیتک فاشہدیہ․”اے فاطمہ!جاوٴ،اپنی قربانی پرحاضری دو“، اور ظاہر ہے کہ حضرت فاطمہ  خاتون تھیں۔ (بیہقی،طبرانی)
٭...بعض لوگ اپنی واجب قربانی چھوڑ کر اپنے زندہ یامرحوم والدین یا دوسرے رشتہ داروں کی طرف سے نفلی قربانی کرتے رہتے ہیں ،جب کہ اپنی واجب قربانی چھوڑ کر دوسرے کو نفلی قربانی کاثواب پہنچانا جائزنہیں ،البتہ اپنی واجب قربانی کے علاوہ مستقل طور پرالگ سے دوسروں کو ثواب پہنچانے کی نیت سے قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
٭...بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ جو قربانی کی جاتی ہے وہ اپنی قربانی کے بجائے حضورا کے نام سے ہونی چاہئیے ،یہ غلط فہمی ہے ،اصل بات یہ ہے کہ جب کسی شخص پر قربانی واجب ہو تو اس پر اپنی طرف سے قربانی ضروری ہے، اپنی واجب قربانی کے علاوہ اسی سال یا آئندہ سال جب بھی توفیق ہو تو حضورا یادیگر حضرات کو ثواب پہنچانے کے لیے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔
٭...اسی طرح بعض لوگوں میں مشہور ہے کہ اگر کوئی ایک مرتبہ قربانی کردے تو پھراس کے بعد اس کو سات سال تک مسلسل قربانی کرنا ضروری ہوجاتاہے،حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے ،قربانی تو اس سال ہی واجب ہوگی جس سال کوئی صاحب نصاب ہو ،اور جس سال صاحب نصاب نہیں اس سال واجب نہیں ۔
٭...اگر قربانی واجب نہیں ہے تو قرض لے کر قربانی کرنا بہتر نہیں ہے ۔(مسائلِ رفعت)
٭...جو شخص مقروض ہو ،اس کو قرض ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیے قربانی نہ کرے ،لیکن اگر کرلی تو ثواب ہوگا ۔(امدادالمفتین)

قربانی کا وقت
٭...ماہِ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کرنے کا وقت ہے۔ جس دن چاہیں قربانی کرسکتے ہیں،سب سے بہتر دن دسویں ذو الحجہ کا دن ہے، پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔
٭...بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے قربانی کرنا درست ہے، سورج غروب ہونے کے بعد درست نہیں۔
٭...ان دِنوں میں جب چاہے قربانی کرے، دِن ہو یا رات لیکن رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں، اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ اندھیرے میں کوئی رگ نہ کٹے اور قربانی درست نہ ہو۔
٭...جن بستیوں اور شہروں میں جمعہ اور عیدین ہوتے ہیں وہاں نمازِ عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں،جس نے پہلے قربانی کرلی تواس کا اعادہ لازم ہے،البتہ چھوٹے گاوٴں جہاں جمعہ وعیدین جائز نہیں،وہاں پر دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کر سکتے ہیں۔(بدائع:6/10)
٭...پورے شہر میں کسی مسجد یا عید گاہ میں عید کی نماز ہوگئی،تو اس وقت قربانی کرنا جائز ہے ، خود قربانی کرنے والے کا عید کی نماز سے فارغ ہونا شرط نہیں۔

قربانی کے جانورکی عمر
٭...ایک سال سے کم عمر کی بکری کی قربانی درست نہیں ۔ جب پورے سال کی ہو تب قربانی درست ہے۔ اور گائے بھینس دو سال سے کم ہوں تواس کی قربانی درست نہیں پورے دو سال کی ہوں تب درست ہے۔ اونٹ پانچ برس سے کم کا درست نہیں، دنبہ یا بھیڑ اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو اور سال بھر والی بھیڑوں دنبوں میں چھوڑ دیں تو کوئی فرق معلوم نہ ہو تو چھ مہینے کے ایسے دنبہ اور بھیڑ کی بھی قربانی درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پورے سال کا ہونا چاہئے۔
٭...قربانی کے جانور میں اصل دارومدار عمر کے پورے ہونے پر ہے، لہذا اگر مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق جانور کی عمر پوری ہو گئی ہو تو پھر اس کے بعد عمر کے متعلق کسی دوسری علامت مثلاً (دودانت وغیرہ ہونے ) کی ضرورت نہیں پس اگر کسی کا اپنا پالتو جانور ہو ،یا اپنے سامنے پید اہوا ہویاکسی اور معتبر ذریعہ سے معلوم ہو کہ عمر پوری ہے تو اس جانور کی قربانی جائز ہے خواہ دودانت بھی نہ ہو ۔

عیب دارجانورکی قربانی
٭...قربانی کا جانورچوں کہ الله تعالیٰ کی خاص بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے، اس لیے افضل یہ ہے کہ قربانی کا جانور ہر قسم کے عیبوں سے پاک اور صحیح سالم ہو ۔
٭...جو جانور اتنا لنگڑا ہے کہ صرف تین پاؤں سے چلتا ہے چوتھا پاؤں رکھ ہی نہیں سکتا ،یا چوتھا پاؤں رکھتا تو ہے لیکن اس سے چل نہیں سکتا اس کی بھی قربانی درست نہیں۔ اور اگر چلتے وقت وہ پاؤں زمین پر ٹیک کر چلتاہے اور چلنے میں اس سے سہارا لیتا ہے لیکن لنگڑا کر چلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔
٭...اگر کسی جانور کے دانت گھس کرمسوڑھوں سے جاملے ہوں اور کھانے میں کام نہ آتے ہوں تو اس کی قربانی صحیح نہیں۔(جواہر الفقہ)
٭...جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔ اور اگر کچھ دانت گر گئے ہیں لیکن جتنے گرے ہیں ان سے زیادہ باقی ہیں تو اس کی قربانی درست ہے۔
٭...جس جانور کے پیدائش سے ہی کا ن نہیں اس کی بھی قربانی درست نہیں، اور اگر کان تو ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے ہیں اس کی قربانی درست ہے۔
٭... جس جانور کو خارش کی بیماری ہے اس کی بھی قربانی درست ہے۔ البتہ اگر خارش کی وجہ سے بالکل لاغر ہو گیا ہو تو درست نہیں۔
٭...بھیڑ، بکری اوردنبی کے ایک تھن سے اورگائے،بھینس اور اونٹنی کے دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔
٭...اگرمال دار آدمی نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا پھر کوئی ایسا عیب پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں تو اس کے بدلے دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے۔البتہ اگر غریب آدمی ہو جس پر قربانی کرنا واجب نہیں تو اس کے لیے اسی جانور کی قربانی کرنا درست ہے۔
٭...خنثی مشکل جانور کی قربانی درست نہیں۔(فتاویٰ حقانیہ :6/480 بحوالہ درمختار)

ان جانوروں کی قربانی جائز ہے
٭...گابھن جانور کی قربانی جائز ہے، پھر اگر بچہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کر دیاجائے۔
٭...حمل والے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے ، البتہ جس کے بچہ پیدا ہونے کی مدت بہت قریب آگئی ہو، اس کو ذبح کرنا مکروہ ہے ۔
٭...خصی بکرے اور مینڈھے وغیرہ کی بھی قربانی درست،بلکہ افضل ہے․(بدائع:6/327)
٭...قربانی کے لیے جو جانور خریدا بعد میں معلوم ہوا کہ چوری کا تھا ، اگر چوری کرنے والے سے خریدا ہے تو قربانی جائز نہیں ، دوسرا جانور خرید کر قربانی کی جائے۔
٭...دو لوگوں نے دو بکریوں کو قربانی کی نیت سے خریدا اور بھول کر ایک نے دوسرے کی بکری کو ذبح کر ڈالا اور دوسرے نے پہلے کی بکری ذبح کر دی تو دونوں کی قربانی درست ہوجائے گی ۔
٭...جو جانور اندھا ہو یا ایسا کانا ہو کہ اس کی ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ بینائی ختم ہوگئی ہو یا ایک کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو یا اس کی دم تہائی یا اس سے بھی زیادہ کٹ گئی ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔
٭...اگربھیڑ بکری کی دم پیدائشی نہ ہو تو قربانی نہ ہوگی،البتہ پیدائشی چھوٹی ہو تو جائز ہے
٭...قربانی کے جانور کی رسی جھول وغیرہ سب چیزیں صدقہ کر دے۔
٭...جس کا ایک یا دونوں سینگ جڑ سے اکھڑ کر ختم ہو گئے ہوں تواس کی قربانی جائز نہ ہوگی،البتہ پیدائشی نہ ہو تو جائز ہے۔

قربانی کا گوشت
٭...جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کر کے تقسیم کرنا چاہئے،محض اندازے سے نہ تقسیم کیا جائے۔(جواہر الفقہ)
٭...افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے رکھے،ایک حصہ رشتہ داروں دوست واحباب میں تقسیم کرے اور ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کرے۔(شامی)
٭...منت کی قربانی اور مرحوم کی وصیت کی قربانی کا گوشت مستحقینِ زکوة میں تقسیم کرناضروری ہے،امیر،سید اور غیر مسلم کو دینا جائز نہیں۔
٭...قربانی کا گوشت کافروں کو بھی دینا جائز ہے بشرطیکہ اجرت میں نہ دیا جائے۔
٭...قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے۔(جواہر الفقہ)
٭...قصائی کی اجرت(مزدوری) میں گوشت دینا جائز نہیں۔(جواہر الفقہ)
٭...اگر کوئی شخص وصیت کر گیا ہو کہ میرے ترکہ سے میری طرف سے قربانی کی جائے اور اس کی وصیت کے مطابق اس کے مال سے قربانی کی گئی تو اس کی قربانی کا سارا گوشت وغیرہ صدقہ کرنا واجب ہے (خود کھانا یا مال داروں کو دینا جائز نہیں)۔
٭...ایصالِ ثواب کی قربانی کا گوشت خود کھانا،دوسروں کوکھلاناسب جائز ہے۔

قربانی کی کھال اور دیگر اعضاء
٭...ذبح شدہ جانورکی سات چیزوں کا کھاناحرام ہے :
1..بہتاخون۔2..نرکی پیشاب گاہ۔3..کپورے۔4..مادہ کی پیشاب گاہ۔5..غدود ۔6..مثانہ۔7..پِتہ۔ اور بعض علماء کرام نے حرام مغزکوبھی منع لکھاہے ۔
٭...قربانی کی کھال ،اون، آنتیں ،گوشت،چربی یعنی جانور کا کوئی حصہ کسی خدمت اور مزدوری کے معاوضہ میں دیناجائزنہیں ،بعض علاقوں میں کھال قصائی کو مزدوری کے طورپر دی جاتی ہے قربانی کی کوئی چیز قصائی کو اجرت میں دیناجائزنہیں ،اس کی اجرت الگ دیناچاہئیے ،امام اور موٴذن کو بھی حق خدمت کے طور پردیناجائزنہیں ،بطور ہدیہ امیر و غریب کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔
٭...قربانی کی کھالوں کو اس کے صحیح شرعی مصرف میں لگانا قربانی کرنے والے کی شرعی ذمہ داری ہے ۔

ایصالِ ثواب کے لیے قربانی
٭...قربانی کے دنوں میں میت کے ایصالِ ثوا ب کے لیے پیسہ وغیرہ صدقہ کرنے سے قربانی کرنا افضل ہے ، اور اس کا ثواب میت کو پہنچانا افضل ہے ، کیوں کہ صدقہ خیرات میں فقط مال کا ادا کرنا ہے ، اور قربانی میں مال کا ادا کرنا بھی اور فدا کرنا بھی یعنی دو مقصد پائے جاتے ہیں۔
٭...اگر اپنی خوشی سے کسی مردے کو ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرے تو اس کا گوشت خود کھانا ،کھلانا، تقسیم کرنا سب درست ہے۔ جس طرح اپنی قربانی کا حکم ہے۔
٭...جس شخص نے اپنے مال سے میت کی جانب سے قربانی کی ہے ، اگر اس پر بھی قربانی واجب تھی تو یہ قربانی اس کی طرف سے ہو جائے گی، اور میت کو قربانی کا ثواب نہ ملے گا، اور اگر اس پر قربانی واجب نہ تھی یا اپنی قربانی الگ سے کر چکا ہے ،تو میت کی طرف سے قربانی ہوجائے گی ، یعنی مردہ کو قربانی کا ثواب مل جائیگا ۔
٭...سات افراد نے شریک ہو کر ایک گائے یا کوئی بڑا جانور قربانی کے لیے خریدا اور قربانی کرنے سے پہلے ان میں سے کوئی ایک شخص مرگیا ، مگر مرد ہ کے ورثاء نے ان شرکا ء کو اجازت دے دی کہ تم میت کی طرف سے قربانی کرو ،پس اگر وہ ان کی اجازت سے مردہ اور اپنی طرف سے قربانی کریں تو درست ہوگی اور سب کی قربانی ادا ہو جائے گی ، اور اگر اس مردہ کے ورثاء کی اجازت کے بغیر قربانی کریں تو درست نہ ہو گی اور کسی کی بھی قربانی ادا نہ ہوگی۔
٭...جس شخص پر قربانی واجب تھی ، اگر اس نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا پھر وہ جانور گم ہو گیایا چوری ہو گیا یا مر گیا تواس پر واجب ہے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور اگر دوسری قربانی کے بعد پہلا جانور مل گیا تو بہتر ہے کہ اس کی بھی قربانی کر دے ، اور اگر یہ شخص غریب ہو اور اس پر پہلے سے قربانی واجب نہیں تھی ، نفلی طور پر قربانی کے لیے جانور خرید لیا تھا ، تو اب اس جانور کی قربانی اس پر واجب ہو گئی، لیکن اگر اس کا یہ جانور مر جائے یا گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو یہ وجوب ساقط ہو گیا ، اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں ، اور اگر گم ہو جانے کے بعد اس نے دوسرا جانور خرید لیاپھر پہلا بھی مل گیا ، تو اس پر واجب ہے کہ دونوں جانوروں کی قربانی کرے کیوں کہ غریب آدمی جو صاحب نصاب نہ ہو جب کوئی جانور قربانی کی نیت سے خریدتا ہے تو نذر کے حکم میں ہو جاتا ہے ، جس کا پورا کرنا واجب ہے ۔

قربانی کے آداب
٭...قربانی کے جانور کو چند روز پہلے پالنا افضل ہے۔
٭...جانور کو آرام وپیار سے قربان گاہ تک لایا جائے،سختی کے ساتھ گھسیٹ کرنہ لے جایا جائے۔(بدائع الصنائع)
٭...حضرت ابنِ سیرین رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھاکہ وہ بکری کو ذبح کرنے کے لیے پاوٴں سے گھسیٹ کر لے جا رہاتھا،تو آپ نے فرمایا کہ ”تیرا ناس ہو ،اس بکری کو موت کی طرف اچھی طرح ہنکاوٴ“(مصنف عبد الرزاق)
٭...حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ذبح کئے جانے والے جانور پر رحم کیاتو اللہ تعالی قیامت کے دن اس پر رحم فرمائیں گے۔(المعجم الکبیر)
٭...قربانی سے پہلے چھری کو خوب تیز کرلیا جائے۔(بدائع الصنائع)
٭...جانور کے سامنے چھری تیزنہ کی جائے،بلکہ اس سے چھپاکر یا پہلے ہی سے تیز کی جائے،کیوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی چھری تیز کرے تو وہ بکری کے سامنے تیز نہ کرے۔(مصنف عبد الرزاق)
٭...ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کیا جائے۔(بدائع )
٭...ذبح کے بعد جب تک جانور پوری طرح ٹھنڈا نہ ہوجائے اس کو کاٹا یا کھال نہ اتاری جائے۔(جواہر الفقہ)

قربانی کی قضاء
اگر قربانی کے دن گذر گئے،اورغفلت یا کسی عذر کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کرے،اور اگر بکری خرید لی تھی تو وہی بکری صدقہ کر دے۔
٭...…کسی پر قربانی واجب تھی اور قربانی کے تینوں دن گزر گئے لیکن اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کر دے۔

قربانی کی دعا
جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹا ئیں تو یہ دعا پڑھیں:
”اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰاتِ و الْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ،اِنَّ صَلاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن․“ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھیں:”بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ“ کہہ کر ذبح کریں۔

ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں:اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمّدٍ وَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَاالصَّلاَةُ وَالسَّلَامُ․“

اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کریں تو ”مِنِّيْ“کی جگہ ”مِن فلان“ یعنی ِمن کے بعد اصل آدمی کا نام لیں۔
        نوٹ: واضح رہے کہ قربانی کی مذکورہ دعا پڑھنا ضروری نہیں ، بہتر ہے، لہٰذا صرف ”بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر“ کہہ کر ذبح کیا تو قربانی صحیح ہو جائے گی۔
http://farooqia.com/ur/lib/1436/12/p11.php

No comments:

Post a Comment