Sunday 13 August 2017

ہندستانی کرتا، عربی جبہ کی شرعی حیثیت

ایسا کرتا جس کو ہند، پاک کے لوگ پہنتے ہیں، بالکل ویسے ہی کرتا رسول اللہ پہنتے تھے کیا؟ یا ایسے لباس جس کو عرب کے لوگ پہنتے ہیں، بالکل ویسا ہی لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پہنتے تھے؟ اور اس کی دلیل کیا ہے؟
کرتا پہننا سنت ہے یا مباح؟
ایس اے ساگر
الجواب وباللہ التوفیق:
فرض اور واجب کے علاوہ دین میں رائج ہر وہ طریقہ سنت کہلاتا ہے جس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین نے مواظبت کی ہو۔
پہر اگر عبادت کے طور پہ وہ سنت ادا کی گئی ہو اور اسے کرنے کی تاکید بھی آئی ہو تو اسے سنن موکدہ یا سنن ہدی کہتے ہیں جیسے اذان اقامت نمازوں کی سنتیں وغیرہ
اور اگر عادت اور مزاج اقدس کی رعایت کے بطور کوئی کام کیا گیا ہو تو اسے سنت عادیہ اور زائدہ کہتے ہیں اس میں موکد وغیر موکد کی تقسیم نہیں ہے.
اگر کوئی اتباع سنت کی نیت سے  انجام دے تو ثواب پائے گا۔ ترک سے گناہ بھی نہیں ہوگا.
جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست وبرخاست اور لباس وغیرہ کے طریقے اور کیفیات وغیرہ۔
لباس کی کوئی خاص کیفیت اور وضع اسلام نے طے نہیں کی ہے بلکہ اس کے حدود طے کرکے ہر علاقہ اور ملک کے لوگوں کے مزاج ومذاق پہ اسے چھوڑ دیا  ہے ۔
ان متعین حدود کی رعایت میں جو لباس بھی زیب تن کیا جائے گا وہ اسلامی وشرعی لباس کہلائے گا۔ اگر اس میں سنت نبوی کی پیروی بھی کر لی گئی ہو تو مسنون لباس کہلائے گا اور ثواب بھی پائے گا۔اگر سنت کی پیروی نہ کی ہو اور حدود میں رہ کے لباس پہناہو تو وہ جائز لباس کہلائے گا لیکن مسنون نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتہ،  جبہ اور چادر سبھی زیب تن فرمائے ہیں لیکن کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ محبوب تھا۔
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کپڑوں میں قمیص سب سے زیادہ پسند تھی۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القَمِيصُ۔ (ترمذی:1762) لَمْ يَكُنْ ثَوْبٌ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَمِيصٍ۔(ابوداؤد:4026)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قمیص کو پسند کرنے کی وجوہات یہ ذکر کی گئی ہیں:
یہ پہننے میں بہت ہلکی پھلکی محسوس ہوتی ہے۔
اس میں ازار اور چادر کے مقابلے میں زیادہ ستر کا اہتمام ہوتا ہے، کیونکہ ازار اور چادر میں ربط و امساک (باندھنے اور روکنے ) کی ضرورت ہوتی ہے۔
اِس کے پہننے میں تواضع بھی زیادہ ہے ۔۔ (تحفۃ الاحوذی :5/372) (عون المعبود :11/48)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قمیص کی وضع ایسی ہوتی تھی جس میں گریبان سینے کے سامنے ہوتا تھا۔ (بخاری کتاب اللباس ۔ باب جیب القمیص من الصدر)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبّہ اور قبا بھی پہنی ہے، تہبند اور چادر کا استعمال بھی فرمایا ہے، چادر عام طور پر 6 ہاتھ لانبی اور ۱/۲-۳ (ساڑھے تین) ہاتھ چوڑی اور ہوتی اور تہبند ۱/۲-۴ (ساڑھے چار) ہاتھ لانبی اور ۱/۲-۲ (اڑھائی) ہاتھ چوڑی ہوتی تھی۔ (زاد المعاد 51/1 )
آپ کی قمیص نصف ساق یعنی ٹخنہ سے اوپر ہوتی تھی۔
عن حذیفۃ بن الیمان رضي اللّٰہ عنہما قال: أخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعضلۃ ساقي أو ساقہ، وقال: ’’ہٰذا موضع الإزار، فإن أبیت فأسفل، فإن أبیت فلا حق للإزار في الکعبین‘‘۔ (شمائل الترمذي / باب ما جاء في إزار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص: ۸)
وأما القدر المستحب فیما ینزل إلیہ طرف القمیص والإزار، فنصف الساقین۔ (شرح النووي علی الصحیح مسلم، کتاب اللباس / باب تحریم جر الثوب خیلاء، وبیان حد ما یجوز إرخاؤہ إلیہ وما یستحب ۲؍۱۹۵)
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یلبس قمیصًا فوق الکعبین۔ (جمع الوسائل شرح الشمائل / باب اللباس ۱؍۱۳۴ تالیفات أشرفیۃ)
عن عطاء قال: کان عبد الرحمن بن عوف یلبس قمیصًا من کرابیس إلی نصف ساقیہ ورداؤہ یضرب إلیتہ۔ (رواہ الطبراني، مجمع الزوائد، کتاب اللباس / باب في القمیص والکم ۵؍۱۲۱، اللباس والزینۃ من السنۃ المطہرۃ ۴۹۳ دار الحدیث القاہرۃ)
عن الخیاط الذي قطع للحسین بن علي قمیصًا قال: قلت: أجعلہ علی ظہر القدم، قال: لا۔ قلت: فأجعلہ من أسفل الکعبین، قال: ما أسفل الکعبین في النار۔ (رواہ الطبراني، مجمع الزوائد، کتاب اللباس / باب في الإزار ۵؍۱۲۴، اللباس والزینۃ من السنۃ المطہرۃ ۴۹۰ دار الحدیث القاہرۃ)
درج ذیل شرائط کی رعایت کرکے جو لباس بھی پہنا جائے گا وہ شرعی لباس کہلائے گا۔
۱- لباس اتنا چھوٹا اور باریک اورچست نہ ہو کہ وہ اعضاء ظاہر ہوجائیں جن کا چھپانا واجب ہے۔ ({یٰبني آدم قد أنزلنا علیکم لباسًا یواري سواٰتکم وریشًا ولباس التقوی ذلک خیر} ۔ (سورۃ الأعراف : ۲۶) 
۲-لباس ایسا نہ ہو جس میں کفار وفساق کے ساتھ مشابہت ہو ۔(في ’’ سنن أبي داود ‘‘ :قولہ علیہ السلام: (عن ابن عمر) ’’من تشبہ بقوم فہومنہم ‘‘ ۔
(ص/۵۵۹ ، کتاب اللباس ، باب في لبس الشہرۃ)
۳- لباس سے تکبروتفاخر، اسراف وتنعم مترشح نہ ہوتا ہو، ہاں اسراف وتنعم اور نمائش سے بچتے ہوئے اپنادل خوش کرنے کے لئے قیمتی لباس پہننا جائز ہے. (في ’’ مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر‘‘ :وعن النبي ﷺ: ’’ أنہ نہی عن  الشہرتین؛ وہو ما کان في نہایۃ النفاسۃ ، وما کان في نہایۃ الخساسۃ ، وخیر الأمور أوساطہا‘‘ ۔
(۴/ ۱۹۱، کتاب الکراہیۃ ، فصل في اللبس)  
۴-مردکی شلوار، تہبند اور پاجامہ ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔ (في سنن أبي داود ‘‘: عن سالم بن عبد اللہ عن أبیہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللہ إلیہ یوم القیمۃ ‘‘ ۔)
۵-مرد کا لباس اصلی ریشم کانہ ہو، کیوں کہ وہ حرام ہے۔ ( 5110 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يَقُولُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَ حُذَيْفَةَفَاسْتَسْقَى فَسَقَاهُ مَجُوسِيٌّ فَلَمَّا وَضَعَ الْقَدَحَ فِي يَدِهِ رَمَاهُ بِهِ وَقَالَ لَوْلَا أَنِّي نَهَيْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ كَأَنَّهُ يَقُولُ لَمْ أَفْعَلْ هَذَا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ وَلَا الدِّيبَاجَ وَلَا تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ [ص:2070] الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَا تَأْكُلُوا فِي صِحَافِهَا فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَنَا فِي الْآخِرَةِ .(صحيح البخاري ) 
۶-مرد ’’زنانہ‘‘ اور عورتیں’’مردانہ‘‘ لباس نہ پہنیں۔ ( 4097 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنْ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنْ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ .(سنن أبي داؤد. كتاب اللباس)
۷- خالص سرخ رنگ کالباس پہننا مردوں کے لیے مکروہ ہے ، البتہ کسی اور رنگ کی آمیزش ہو، یا سرخ دھاری دار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔    
(عن عبد اللّٰہ بن عمروٍ رضي اللّٰہ عنہ قال: مر علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجل علیہ ثوبانِ أحمران، فسلم علیہ فلم یردَّ علیہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس / باب في الحمرۃ ۲؍۵۶۳ رقم: ۴۰۶۹ دار الفکر بیروت، سنن الترمذي رقم: ۲۸۰۷)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضي اللّٰہ عنہ قال: رأی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عليَّ ثوبین مُعصفرین، فقال: إن ہٰذہ من ثیاب الکفار، فلا تلبسہما۔ (صحیح مسلم ۲؍۱۹۳ رقم: ۲۷-۲۰۷۷ بیت الأفکار الدولیۃ، سنن النسائي ۲؍۲۵۳ رقم: ۵۳۱۶ دار الفکر بیروت، المسند للإمام أحمد بن حنبل ۲؍۱۶۲.
وکرہ لبس المعصفر والمزعفر الأحمر والأصفر للرجال مفادہ أنہ لا یکرہ للنساء - إلی قولہ - ولا بأس بلبس الأثواب الأحمر ومفادہ أن الکراہۃ تنزیہۃ۔ (الدر المختار مع الشامي ۶؍۳۸۵ کراچی، ۹؍۵۱۵ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۱۹۲، فتاویٰ قاضي خان ۳؍۴۱۲)
یہ لباس کے حدود ہیں۔ ان کے دائرہ میں رہ کر جو لباس بھی پہنا جائے گا وہ جائز اور درست ہوگا۔ قمیص نصف ساق تک پہننا سنت ہے ۔یعنی سنت عادیہ ہے بنیت ثواب پہننے سے ماجور ہوگا۔ نہ پہننے سے گنہگار بھی نہیں ہوگا۔ اس سے ذرا نیچے تک پہننا جائز ہے۔
طے کردہ حدود میں رہ کر ہر لباس پہننے کی اجازت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
.......
سوال: السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ برما ملک کی سیاسی حالت بہت خراب ہوگئی تھی،  مسلمانوں کے لئے فرض کاموں کا ادا کرنا بھی بہت دشوار ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے یہاں برما کا ایک مدرسہ کے مہتمم صاحب نے مدرسہ میں کرتا پہن کر آنے اور جانے کی پابندی لگائی تھی،  لیکن بعض اساتذہ مہتم صاحب کی بات نہیں مانی،  مہتمم صاحب نے ان کو بہت سمجھایاتھا،  یہاں تک کہ سمجھاتے سمجھاتے ایک سال تک ہوگئے،  لیکن ان لوگوں نے بالقصد یعنی دشمنی کے ساتھ مہتمم صاحب کے خلاف کرتا پہن کر ہی آتے جاتے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں اسی طرح کرتا پہننا المذھب الحنفی کے خلاف ہوگا یا نہیں؟
اور ان کے کردار کو دیکھ کر طلباء کے اخلاق خراب ہوجانے کا اندیشہ ہے یا نہیں؟
جلد از جلد جواب کا منتظر ہوں۔
جزاکم اللہ احسن الجزاء ۔
جواب: لباس کے بارے میں یہ اصول ہے کہ جن علاقوں میں صلحاء، اتقیاء اور بزرگان دین کا جو لباس ہے، ان علاقوں میں وہی لباس شرعی سمجھا جاتا ہے، لہذا مہتمم کا لباس تبدیل کے لیے کہنا درست نہیں ہے، چوں کرتا ہندوستان میں شرعی لباس سمجها جاتا ہے، لہٰذا اساتذہ کا عمل درست ہے حالات کی وجہ سے شرعی لباس کو نہیں چھوڑا جاسکتا.
واللہ اعلم بالصواب
.....
جواب: جان ومال کا تحفظ مقاصد شریعت میں سے ہے۔
حالات کی نزاکتوں، وقت کی ضرورتوں کے پیش نظر منتظم مدرسہ اگر کرتا پہننے پہ انتظامی پابندی لگادے تو یہ کوئی شریعت واجبی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ اساتذہ وطلبہ مدارس کو اس پہ عمل درآمد کرکے عزت وجان کے تحفظ کی راہ میں اٹھائے گئے اقدام میں ممد ومعاون بننا چاہئے ۔
کرتہ پہننا سنن عادیہ میں سے ہے۔ ضرورتوں کی وجہ سے ترک کی اجازت ہے۔ کوئی گناہ کی بات یا مسلک حنفی کے خلاف نہیں ہے۔
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
.........
(۱) سنت لباس یہ ہے: ٹوپی، عمامہ، کرتا یا جبہ، اور تہبند ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ کو بھی پسند فرمایا ہے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر بدن پر بجائے جبہ وغیرہ کے ایک چادر استعمال فرماتے تھے اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کندھے پر ایک چادر مزید رکھتے تھے۔
(۲) آج کل اگرچہ مسلمانوں میں مذکورہ لباس کا استعمال عام ہوگیا ہے، مگر چونکہ اصلاً یہ غیروں کا لباس ہے اس لئے بلا مجبوری اس کا استعمال بہتر  نہیں ہے۔ ایک مسلمان کو ہرچیز میں حتی المقدور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرنا چاہئے، وہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ (آالآیة) لیکن واضح رہے کہ اگر کوئی لباس اتنا چست و تنگ ہوکہ اس کو پہن کر واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کا پہننا بالکل ناجائز ہے۔
.......
سیرت کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام معمول تہبند لنگی پہننے کا تھا، پاجامہ کا خریدنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن پہننا ثابت نہیں، البتہ صحابہ سے پاجامہ کا پہننا بھی ثابت ہے، لیکن وہ پاجامہ ڈھیلا ڈھالا ہوا کرتا تھا، جیساکہ لباس کی شرائط میں سے ہے کہ ڈھیلا ڈھالا ہو اور اس سے جسم نہ جھلکے، لہذا اگر مروجہ پاجامہ اور شلوار ان شرائط پر پورے اترتے ہوں تو وہ عین سنت تونہیں کہلائیں گے، لیکن سنت کے قریب اور صلحاء کا لباس ضرور ہیں۔نیز اس موقع پر ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کسی عمل کا سنت کے مطابق نہ ہونا اور چیز ہے اور اس کا خلافِ سنت ہونا الگ شے ہے، اگر لباس شرعی اصولوں کے مطابق ہے تو ضروری نہیں کہ وہ عین سنت کے مطابق بھی ہو، کیوں کہ سنت کے مطابق تو اسی صورت میں کہا جاسکتا ہے جب وہی لباس ہو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہنا ہے۔ البتہ شرعی اصلوں کے مطابق ہونے کی بنا پر ایسے لباس کو خلافِ سنت بھی نہیں کہا جائے گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بوقتِ شہادت پاجامہ پہننے کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے: زاد المعاد از امام ابن قیم رحمہ اللہ اور شمائلِ کبری از مفتی ارشاد احمد قاسمی۔ 

No comments:

Post a Comment