Wednesday, 2 August 2017

اچانک موت؛ تحفہ یا غضب الہی؟

ایس اے ساگر
مطبخ دارالعلوم دیوبند کا بیٹا سڑک حادثہ میں جاں بحق ہوگیا. یہ دردناک حادثہ سہارنپور مظفرنگر شاہراہ پر پیش آیا جس میں درجن بھر کے قریب مسافر ہلاک ہوگئے، جاں بحق ہونے والوں میں بھائی سرور، ناظم مطبخ دارالعلوم دیوبند کا جوان بیٹا سید وسیم بھی شامل تھا، دیگر مسافروں کی حالات نازک ہے جبکہ ہائی سینٹر ریفر پولیس موقع پر ہلاک شدگان کے اہل خانہ میں صف ماتم علاقہ میں غم کی لہر ہے.
مومن کے لئے آسانی و تخفیف:
اچانک اور ناگہانی موت کے متعلق سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےمروی ہے، کہ وہ فرماتے ہیں :
اچانک کی موت مومن کے لئے آسانی و تخفیف ہے اور کافر کے لئے حسرت و افسوس ہے ؛
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَوْتُ الْفُجَاءَةِ تَخْفِيفٌ عَلَى الْمُؤْمِنِ، وَأَسَفٌ عَلَى الْكُفَّارِ.

رواه عبد الرزاق في المصنف (6776) وذكر الحديث البيهقي (3/534) وقال: " وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ مِنْ قَوْلِهِ، وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ مَرْفُوعًا"
رواه ابن أبي شيبة (12007) موقوفا على ابن مسعود وعائشة وقال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَائِشَةَ، قَالَا: «مَوْتُ الْفُجَاءَةِ رَأْفَةٌ بِالْمُؤْمِنِ، وَأَسَفٌ عَلَى الْفَاجِرِ».
وهذا إسناد صحيح إن شاء الله.
الثاني: عن أَبُي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ عَلْقَمَةَ أَقَامَ بِخُرَاسَانَ سَنَتَيْنِ وَنِصْفَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَلَا يَجْمَعُ، وَعَادَ ابْنَ عَمٍّ لَهُ فَلَمَسَ جَبْهَتَهُ فَوَجَدَهَا تَرشَحُ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ تَخْرُجُ رَشْحًا، وَلَا أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ» قَالَ مُسْلِمٌ: يَعْنِي مَوْتَ الْفُجَاءَةِ.
وهذا إسناد صحيح أبو معشر اسمه زيد بن كليب وثقه النسائي وغيره روى لَهُ مسلم، وأَبُو داود، والتِّرْمِذِيّ، والنَّسَائي، وبقية رجاله رجال الشيخان والحديث أخرجه الشاشي في المسند (343-345) وقال الدارقطني في "العلل" (873) وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مَوْقُوفٍ قَالَ مَوْتُ الْفُجَاءَةِ أَسَفٌ عَلَى الْكَافِرِ تَخْفِيفٌ عَلَى الْمُؤْمِنِ.
مکروہ ہے، ناپسندیدہ نہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مومن مخلص کو اچانک موت آنا مکروہ ہے، ناپسندیدہ نہیں، حوالہ کے لئے صحیح البخاری، کتاب جنازے کے احکام و مسائل، باب موت الفجأة البغتة:
باب: ناگہانی موت کا بیان سے رجوع کیا جاسکتا ہے.

حدیث نمبر: 1388 
حدثنا سعيد بن ابي مريم حدثنا محمد بن جعفر ، قال:‏‏‏‏ اخبرني هشام عن ابيه عن عائشة رضي الله عنها"ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ إن امي افتلتت نفسها واظنها لو تكلمت تصدقت فهل لها اجر إن تصدقت عنها؟ ، قال:‏‏‏‏ نعم".
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،"أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ ، قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا مجھے ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انھیں ان کے باپ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں ملے گا۔
وقوله : افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا أي ماتت فجاة .
وقال الإمام القسطلاني رحمه الله في إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري :

وأشار المؤلّف بهذا إلى أن موت الفجأة ليس بمكروه ، لأنه عليه الصلاة والسلام لم يظهر منه كراهة لما أخبره الرجل بأن أمه افتلتت نفسها.

کیا فرماتے ہیں فقہائے کرام؛ اچانک موت  تحفہ ہے، 
یا غضب الہی کا اثر؟
اس سلسلہ میں مفتی شکیل منصور القاسمی صاحب کی تحریر نظر سے گزری جس میں آپ رقمطراز ہیں کہ "موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں۔ زندگی کے چمکتی دمکتی شمع گل ہوجانے یا شاخ پہ چہچہاتے چڑیا کے اڑجانے کا نام موت ہے۔
اللہ نے ہر انسان کی موت کا وقت متعین کیا ہے۔ موت خواہ جس سبب سے بھی آئے، اللہ کے  علم ازلی کے مطابق آتی ہے ۔۔ لمحہ بھر کی تقدیم وتاخیر کا بھی اس میں امکان نہیں۔ اللہ کے لئے کوئی بھی موت "اچانک" نہیں۔ بلکہ طے شدہ وقت کے مطابق ہی آتی ہے۔ لیکن بیماری اور بڑھاپا جیسے اسباب کے پیش نظر انسان نے موت کو "طبعی" اور "غیر طبعی" (اچانک) کے خانوں میں منقسم کر رکھا ہے۔ یعنی اگر انسان بیمار یا بوڑھا ہوکے مرے تو لوگ اسے طبعی موت کہتے ہیں۔ جبکہ حادثہ، غرقابی یا قتل وغیرہ سے مرے تو اسے اچانک کی موت کہتے ہیں۔ یہ تقسیم مخلوق خدا کے علم کے پیش نظر ہے۔ نہ کہ خالق کے علم ازلی کے پیش نظر۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ دنیا عیش وعشرت اور زیب وزینت کے لئے نہیں۔ بلکہ یہ رنج وراحت کی جگہ ہے۔ حقیقی ناز ونعمت، عیش وعشرت تو فنائے دنیا کے بعد آخرت یعنی جنت میں ملے گی۔ وہاں ایسی ایسی نعمتیں وآرائش ہیں جو انسان کے حواس خمسہ ظاہرہ کے تصور سے بھی وراء ہیں۔
الدُّنيا سِجنُ المؤمنِ وجنةُ الكافرِ
الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2956
خلاصة حكم المحدث: صحيح
3072 حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ)
اسی حقیقی زندگی کے حصول میں ہمیشہ کوشاں و سرگرداں رہو۔ قلب وذہن میں ہمیشہ اسی کی فکر، اس کی طرف کوچ کرنے اور وہاں کی نعمتوں کے حصول کے لئے درکار اعمال صالحہ کے اکتساب میں دنیا میں محنت، مشقت اور ریاضتیں کرو۔
2307 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ ۔سنن الترمذي. كتاب الزهد
اسلام نے زیرک، ہوشیار، دانا اور چالاک اس شخص کو قرار دیا ہے جو موت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ اور جنت کی نعمتوں کے حصول کے لئے اعمال صالحہ انجام دیتا رہے۔ دنیا کے اس قید خانہ کی کلفتوں وتنگیوں سے نکل کر اخرت کی وسعت لامحدود میں پہنچنے کی غرض سے حیراں وسرگرداں رہے۔
الكَيِّسُ مَن دان نفسَه وعمِل لما بعدَ المَوتِ والعاجِزُ مَن أتبَعَ نفسَه هواها وتمنَّى على اللهِ
الراوي: شداد بن أوس المحدث: الترمذي - المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2459
خلاصة حكم المحدث: حسن
۔۔۔۔۔۔۔ ذکر موت اور فکر آخرت کی اسی کیفیت کے ساتھ غیر طبعی اسباب کے تحت اچانک کوئی مومن انتقال کرجائے تو اس میں  اس کا کچھ ضیاع وحرج نہیں۔ بلکہ یہ اس کے لئے تحفہ ہے ۔۔۔۔ حافظ عسقلانی کے بقول بعض انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام وصالحین رحمہم اللہ  کی موت اسی طرح آئی ہے۔ لیکن جو بندہ دنیا کو ہی دارالقرار سمجھ بیٹھے، اس کی زینت وزینت عیش وعشرت میں الجھ کر دار حقیقی آخرت کو بھول بیٹھے۔ غفلت اور معاصی کی زندگی میں بری طرح لت پت ہو۔ ایسے غافل، فاسق  وبدکردار بندہ کو جب اچانک موت آئے گی تو ظاہر ہے نہ اسے توبہ کی توفیق ملے گی۔ نہ تلقین کلمہ کی نہ اعمال صالحہ انجام دینے کی نہ وصیت کرنے کی نہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی ۔۔۔۔۔۔ خدا کی ڈھیر ساری نافرمانیوں کے ساتھ اچانک گدھے کی طرح ہڑبڑا کے حسرت وافسوس کرتا ہوا مرجائے گا۔
ایسے بندوں کے لئے اچانک کی موت غصہ خداوندی کا اثر اور خود اس بندے کے لئے حسرت و افسوس کی باعث ہے۔ ۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کی اچانک کی موت سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
1322 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ
صحيح البخاري. كتاب الجنائز
3110 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ أَوْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ خَالِدٍ السُّلَمِيِّ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ مَرَّةً عَنْ عُبَيْدٍ قَالَ مَوْتُ الْفَجْأَةِ أَخْذَةُ أَسِف........ٍ سنن أبي داؤد. كتاب الجنائز
980 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَامُ بْنُ الْمِصَكِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنُ تَخْرُجُ رَشْحًا وَلَا أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ قِيلَ وَمَا مَوْتُ الْحِمَارِ قَالَ مَوْتُ الْفَجْأَةِ
سنن الترمذي. كتاب الجنائز
6558 حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو قَبِيلٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَ مِنْ سَبْعِ مَوْتَاتٍ مَوْتِ الْفَجْأَةِ وَمِنْ لَدْغِ الْحَيَّةِ وَمِنْ السَّبُعِ وَمِنْ الْحَرَقِ وَمِنْ الْغَرَقِ وَمِنْ أَنْ يَخِرَّ عَلَى شَيْءٍ أَوْ يَخِرَّ عَلَيْهِ شَيْءٌ وَمِنْ الْقَتْلِ عِنْدَ فِرَارِ الزَّحْفِ
مسند أحمد
غافل پیشہ اور فسق وفجور کے عادی بندے کے لئے اچانک کی موت باعث حسرت وافسوس اور غضب خداوندی کا اثر ہے ۔جبکہ موت کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر طاعات وعبادات کے ساتھ جینے والے نیک صالح مومن بندے کے لئے اچانک کی موت تحفہ ہے، بری نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب"

ایک جامع دعاء :
سنن ابن ماجہ
باب : الجوامع من الدعاء
باب: جامع دعاؤں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3846
عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهَا هَذَا الدُّعَاءَ:‏‏‏‏"اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا".
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا سکھائی: 
«اللهم إني أسألك من الخير كله عاجله وآجله ما علمت منه وما لم أعلم وأعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله ما علمت منه وما لم أعلم اللهم إني أسألك من خير ما سألك عبدك ونبيك وأعوذ بك من شر ما عاذ به عبدك ونبيك اللهم إني أسألك الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل وأعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول أو عمل وأسألك أن تجعل كل قضاء قضيته لي خيرا» ”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی کی دعا مانگتا ہوں جو مجھ کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے جو مجھ کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں، اے اللہ! میں تجھ سے اس بھلائی کا طالب ہوں جو تیرے بندے اور تیرے نبی نے طلب کی ہے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس برائی سے جس سے تیرے بندے اور تیرے نبی نے پناہ چاہی ہے، اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور اس قول و عمل کا بھی جو جنت سے قریب کر دے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم سے اور اس قول و عمل سے جو جہنم سے قریب کر دے، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ہر وہ حکم جس کا تو نے میرے لیے فیصلہ کیا ہے بہتر کر دے“۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۱۷۹۸۶، ومصباح الزجاجة : ۱۳۴۶)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۶/۱۳۴، ۱۴۷) (صحیح) جب کہ مسلم نے ان سے روایت کی ہے، اور حدیث کی تصحیح ابن حبان، حاکم، ذہبی اور البانی نے کی ہے، نیز شواہد بھی ہیں، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ۱۵۴۲)قال الشيخ الألباني: صحيح



No comments:

Post a Comment