سوال: حضرت سید احمد شہید احمد رحمہ اللہ کا وہ واقعہ مطلوب ہے جس میں آپ نے ایک کوٹھے پر جاکر ایک فاحشہ کو دعوت دی تھی اور اس نے توبہ بھی کی یہ واقعہ مفصل چاہئے؟
جواب: ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ جامع مسجد دہلی سے اتر رہے تھے کہ دہلی کے چند شہدوں نے آپ کو گالیاں دینی اور حرامی کہنا شروع کیا۔ اب آپ کا جواب سنئے۔ مسکراکر نہایت متانت سے فرماتے ہیں کہ بھتیجے میں حرامی کیونکر ہوسکتا ہوں۔ میری والدہ کے نکاح کے گواہ تو اب تک موجود ہیں۔ تبلیغ احکام خداوندی اور اشاعت سنت کا خیال ہر وقت دامن گیر تھا۔ ایک روز خیال آیا کہ دہلی میں کسبی عورتیں بہت ہیں۔ ان کو کوئی وعظ و نصیحت نہیں سناتا۔ آخر یہ بھی تو آدمی ہیں۔ ممکن ہے کہ نصیحت کارگر ہوجائے۔ اور ایک ساتھ سینکڑوں خدا کے بندے گناہ سے بچ جائیں۔ آخر رات کو ایک مشہور کسبی کے مکان پر جاکر دروازہ پر پہنچے۔معلوم ہوا کہ شہر کی اور بھی بہت سی کسبیاں اس مکان پہ موجود ہیں۔ اور گانے بجانے میں مصروف ہیں۔ جاتے ہی گداگروں کی سی صدا دی۔ مکان کے اندر سے ایک لڑکی بھیک لے کر آئی۔ تو حضرت شہید نے کہا کہ جاکر مالک مکان سے کہہ دو کہ اس فقیر کی عادت ہے کہ جب تک اپنی صدا نہیں سنالیتا اُس وقت تک بھیک نہیں لیتا۔ لڑکی نے جاکر کہہ دیا، جواب ملا کہ ہمیں صدا سننے کی ضرورت نہیں، تم فقیر ہو تمھیں اپنی بھیک سے مطلب ان باتوں سے کیا غرض۔ مگر حضرت شہید کو تو غرض ہی اسی سے تھی۔ فرمایا کہ ہم تو بن صدا سنائے بھیک نہ لیں گے۔ آخر چند مرتبہ کی ردوکد کے بعد کسبیوں نے بھی یہ خیال کیا کہ یہ کوئی عجیب فقیر ہے۔ اس کی صدا بھی سن لو۔ دیکھو کیا کہتا ہے۔ یہ بھی ایک تماشہ سہی۔ حضرت شہید اندر داخل ہوئے اور کھڑے ہوکر
وَالتّينِ وَالزَّيتونِ ﴿١﴾ وَطورِ سينينَ ﴿٢﴾ وَهـٰذَا البَلَدِ الأَمينِ ﴿٣﴾ لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى أَحسَنِ تَقويمٍ ﴿٤﴾
ترجمہ۔ قسم انجیر کی وزیتون کی اور طور سینین کی اور اس شہر امن والے کی ہم نے بنایا آدمی خوب سے خوب اندازہ.''
پڑھ کر وعظ شروع کردیا۔ حضرت شہید کا وعظ ہے۔ اور فاحشہ عورتوں کی مجلس یہ عجیب وغریب منظر کچھ دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ فواحش کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ طبلچیوں نے اپنے اپنے طبلوں اور سارنگیوں کو بغلوں سے نکال کر پھینک دیا ہے۔ کوئی مصروف آہ زار ہے تو کسی کا گریہ و بکا دم لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں گویا یہ لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
نہ معلوم ہوا کہ حضرت شہید نے ان سرد دلوں میں وہ کونسی برقی حرارت چھوڑ دی جس کی تاثیر سے معاصی کے وہ تمام نجس مادے پگھل پگھل کر آنکھوں سے بہنے لگے۔
آج اس بزم میں ہم آگ لگا کر اٹھے، یاں تکلک روئے کہ ان کو بھی رلاکر اٹھے.
وعظ کا ختم ہونا تھا کہ اور ساری مجلس کا حضرت شہید کے قدموں پر گرپڑنا، ان کی ہدایت کا وقت آگیا تھا۔ اُسی ایک مجلس میں سب نے حضرت شہید کے ہاتھ پر توبہ کی اور سب کے سب خدائے تعالیٰ کے مقبول بندے ہوگئے۔ صاحب خانہ جو ان سب میں حسن جمال اور مال وریاست کے اعتبار سے بڑی تھی. اور اکثر روسا و نواب اُس سے مبتلا تھے۔ اس سحر بیان وعظ سے اتنی متاثر ہوئی کہ اپنا سارا مال و متاع لرتا کر شب و روز عبادت میں مشغول ہوگئی۔ اور جب حضرت شہید نے سکھوں سے جنگ کی تو یہ بھی آپ کے لشکر میں تھی۔ اور وہی ہاتھ جس نے عمر بھر چکی کا ہتھہ نہ دیکھا تھا۔ آج ان میں گھوڑوں کا دانہ ڈالتے ڈالتے مہندی کی بجائے آبلے پڑے ہوئے ہیں۔
وَاللَّهُ يَهدى مَن يَشاءُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ﴿٢١٣﴾
مولانا اسماعیل صاحب وعظ سے فارغ ہوکر باہر آئے۔ آپ کے ایک عزیز آپ کو فواحش کے گھر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہولئے تھے اور چھپ کر دروازے میں یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے جب اس کے گھر سے نکل کر چند قدم آگے بڑھے تو وہ عزیز سامنے آئے تو عرض کیا کہ حضرت کچھ آپ کو اپنی عزت کا خیال کرنا چاہئے مولانا نے فرمایا۔
''واللہ میری عزت تو اس وقت ہوگی کہ میرا منہ کالا کرکے مجھے گدھے پر سوار کیا جائے۔ اور دہلی کے چاندنی چوک میں پھرایا جائے مگر میری زبان کسی خلاف حق کلمے کے ساتھ ملوث نہ ہو میری زبان پہ وہی قال اللہ۔ قال الرسول ﷺ جاری ہو۔
(القاسم بابت شوال وزی العقیدہ 37ھ)
No comments:
Post a Comment