جن لوگوں تک دعوت اسلام نہ پہنچی ہو وہ جہنمی ہے یا جنتی؟
(۸۵) س:…اگر ایک گروہ انسان کا دنیا کے ایک حصہ میں ہو جہاں کے لوگ خدا و رسول کو نہ جانتے ہوں اور کسی مسلم کی رسائی بھی وہاں تک نہ ہو کہ وہاں جا کر ان لوگوں کو اللہ کی طرف راغب کرے اور دین اسلام کی طرف راغب کرے اور دین اسلام کی طرف رجوع دلائے ۔ تو سوال یہ ہے کہ وہاں کے باشندے بعدموت داخل جہنم ہوں گے یا جنت ؟ اگر جہنم میں جاتے ہیں تو کیا ان کے حق میں ناانصافی نہیں ہوتی اور ( نعوذ باللہ) خدا ناانصاف نہیں کہلائے گا؟
ج:…حامدا و مصلیا، الجواب وباللہ التوفیق:
قال اللہ تعالی:
{وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا}
الآیۃ۔
اس آیت میں تصریح ہے کہ خدا وند کریم پیغمبروں کو بھیج کر اپنی حجت پوری فرماتا ہے ، لہذا بالفرض دنیا میں کوئی قوم ایسی جگہ آباد ہو کہ جہاں کوئی ایک مبلغ بھی خدا و رسول کی باتیں ان کے کانوں تک نہ پہنچا سکا ہو اور ان لوگوں کو دین اور موجودہ وقت میں دین اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کی مطلق اطلاع نہ ہوئی ہو اور نہ انھیں کوئی ایسا شخص ملا ہو جو جو خدا کی توحید کا علم بتلا سکے، ایسی قوم کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان سے ایمان و اعمال کے متعلق باز پرس ہوگی یا نہیں؟ سو اس باب میں جملہ اہل اسلام متفق ہیں کہ احکام اسلامی یعنی نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ اعمال کے متعلق تو کچھ باز پرس نہ ہوگی، کیونکہ احکام کا علم بغیر بتلائے صرف عقل سے نہیں ہو سکتا، لیکن صانع عالم و خدا پر ایمان لانے کے متعلق کہ ہمارا کوئی خالق اور آسمان و زمین کا کوئی پیدا کرنے والا ہے یا نہیں، اس میں بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ خدا کی توحید و صانع عالم کے وجود کے متعلق ان سے سوال ہوگا؟ کیونکہ فطرت سلیمہ اس کارخانۂ عالم کو دیکھ کر خدا کی توحید پر استدلال کرسکتی ہے ۔
اور اشاعرہ اور اہل کلام و اصولیین و فقہائے شوافع وغیرہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اہل فترۃ کو جنھیں مطلق خدا کے وجود کا علم نہ ہوا ہو، اور نہ کسی نبی کی رسالت و دعوت کا علم ہو ان پر عذاب نہ ہوگا۔
واللہ تعالی اعلم وعلمہ احکم اتم۔
از مرغوب الفتاوی
العبد محمد عفی عنہ
.........
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں اسلام کسی بھی طریقے سے نہ پہنچا ہو وہاں کے کسی انسان کو شرک پر عذاب ہو گا؟ اگر ہوگا تو پھر اس آیت کا کیامطلب
وماکنا معذبین حتی نبعث رسولا
نیز کسی مقام پر اسلام تو لوگوں کو معلوم نہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بارے میں انھیں معلوم ہے اور اس پر وہ من وعن عمل کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب
اللہ تعالی نے انسان کو ایسی عقل دی ہے کہ اگر اسے رسولوں کی دعوت نہ بھی پہنچی ہو تو اس کی عقل اس کائنات کے پیدا کرنے والے کا ادراک کرسکتی ہے،اور معجزات کی روشنی میں انبیاء کی تصدیق کی مکلف ہے ،اب اس بات کے ذہن نشین ہوجانے کے بعد یہ سمجھئے کہ اگر کہیں پر رسولوں کی دعوت نہ پہنچی ہو تو ان پر ایمان لانا ضروری ہوگا یانہیں؟ تو اولاً ایسی جگہ مشکل ہے جہاں انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت نہ پہنچی ہو، ثانیاً اگر فرض بھی کرلیں تو چونکہ انسانی عقل اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار بغیر رسولوں کی ہدایت کے کرسکتی ہے لہٰذا وہاں لوگوں کے لئے اللہ تعالی پرایمان لانا ضروری ہوگا یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے کوشریک بنایا تو اس پر انہیں عذاب ہوگااگرچہ ان کی طرف کوئی رسول اور پیغمبر مبعوث نہ ہواہو۔اس کی تائید صحیحین کی اس روایت سے ہوتی ہے جسے امام بخاری نے (۱/ ۴۷۲ )پر ذکر کیا ہے،
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقُولُ اللهُ تَعَالٰى يَا آدَمُ فَيَقُوْلُ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِيْ يَدَيْكَ فَيَقُوْلُ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ قَالَ وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَّتِسْعِيْنَ فَعِنْدَه يَشِيْبُ الصَّغِيْرُ {وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارٰى وَمَا هُمْ بِسُكَارٰى وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِيْدٌ} قَالُوْا يَا رَسُولَ اللهِ وَأَيُّنَا ذٰلِكَ الْوَاحِدُ قَالَ أَبْشِرُوْا فَإِنَّ مِنْكُمْ رَجُلًا وَمِنْ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ أَلْفًا۔
(اللہ تعالی حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے کہ اے آدم!حضرت آدم علیہ السلام کہیں گے اے اللہ میں حاضر ہوں، تمام بھلائیاں آپ کے قبضہ قدرت میں ہیں، اللہ تعالی فرمائیں گے کہ اپنی اولاد میں سے جہنم کا حصہ نکالیں ،وہ عرض کریں گے کہ جہنم کا حصہ کیا ہے ؟اللہ تعالی فرمائیں گے کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے، اس وقت (خوف کی بناء پر) بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے اور آپ لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ ایسے ہورہے ہوں گے جیسے کہ نشے میں ہیں حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالی کا عذاب بڑا ہی سخت ہے (اللہ کے عذاب کے خوف سے ان کی یہ حالت ہوگی) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ وہ ایک کون ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے خوشخبری ہو تم میں ایک اور یاجوج ماجوج میں ہزار ہوں گے۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ یاجوج ماجوج سد سکندر کی اوٹ میں رہنے والی شرک میں مبتلا انسانی مخلوق ہے حالانکہ ان کی طرف کوئی رسول اور پیغمبر مبعوث نہیں پھر بھی ان کو شرک کی بنا پر عذاب دیا جائے گا معلوم ہوا کہ مشرک قوم کی طرف اگرچہ کوئی رسول اور قاصد مبعوث نہ بھی ہو تب بھی شرک کی بناء پر ان کو عذاب دیا جائے گا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس طرح کی روایات اور آیات سے استدلال کیا کہ اگر کسی شخص کو انبیاء کی دعوت نہ بھی پہنچی ہوتو بھی اس کے لئے اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔باقی رہا یہ معاملہ کہ بعثت سے قبل عذاب کی نفی سے کیا مراد ہے؟تو اس سے مراد معاصی اور بداعمالیوں پر عذاب کی نفی ہے شرک کی صورت میں عذاب کی نفی نہیں ہے۔
بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں ’’رسولا ‘‘ میں عقل کو بھی شامل کیا ہے یعنی یہاںجن رسولوں کی بعثت کا ذکر ہے اس میں عقل انسانی بھی داخل ہے کہ انبیاء کی بعثت کے بغیر بھی انسانی عقل جن اعمال وافعال کا ادراک کر سکتی ہے ان کے ترک پر عذاب ہوگا۔
۲۔آج کل کے اعتبار سے کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں دعوت نہ پہنچی ہو ،ہاں اگر کوئی ایسا مقام ہو جہاں کلی طور پر اسلامی احکامات کیدعوت نہ پہنچی ہوتو ان احکامات پر عمل پیرانہ ہونے کی وجہ سے انہیں عذاب نہیں ہوگا۔
لما فی التفسیر الکبیر (۱۷۴/۱۰):فی الآیۃ قولان :الاول ان نجری الآیۃ علی ظاھرھا ونقول العقل ھو رسول اللہ الی الخلق بل ھورسول الذی لولاہ لما تقررت رسالۃ أحد من الانبیاء فالعقل ھورسول الاصلی فکان معنی الآیۃ وماکنا معذبین حتی نبعث رسول العقل ۔
والثانی ان نخصص عموم الآیۃ فنقول المراد وماکنا معذبین فی الاعمال التی لاسبیل الی معرفۃ وجوبھا الا بالشرع الا بعد مجیٔ الشرع۔
وفی تفسیر روح المعانی (۳۹/۵):…قالوا ان العقل آلۃ للعلم بھما فیخلقہ اللہ تعالی عقیب نظر العقل نظرا صحیحا وأوجبوا الایمان باللہ تعالی وتعظیمہ وحرموا نسبۃ ما ھوشنیع الیہ سبحانہ حتی روی عن ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ انہ قال لولم یبعث اللہ تعالی رسولا لوجب علی الخلق معرفتہ وقد صرح غیر واحد من علماء ھم بأن العقل حجۃ من حجج اللہ تعالی ویجب الاستدلال بہ قبل ورودالشرع واحتجوا فی ذلک بماأخبراللہ تعالی بہ عن ابراھیم ؑمن قولہ لابیہ وقومہ ’’انی اراک وقومک فی ضلال مبین‘‘ حیث قال ذلک ولم یقل أوحی الی ومن استدلالہ بالنجوم ومعرفۃ اللہ تعالی بھا وجعلھا حجۃ علی قومہ وکذلک کل الرسل حاجوا قومھم بحجج العقل کما ینبیٔ عنہ قولہ تعالی ’’قالت رسلھم افی اللہ شک فاطرالسمٰوات والارض ‘‘الآیۃ وبقولہ تعالی ’’ومن یدع مع اللہ الہا آخر لابرھان لہ بہ‘‘ الآیۃ حیث لم یقل ومن یدع مع اللہ الھا آخربعدما أوحی الیہ أوبلغتہ الدعوۃ۔
وفی التفسیر المظھری (۴۲۱/۵): قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ الحاکم ھو اللہ تعالی لکن العقل قد یدرک بعض ما وجب علیہ وھو توحید والتنزیھات والاقراربالنبوۃ بعد مشاھدۃالمعجزات فھذہ الامور غیر متوقفۃ علی الشرع والا لزم الدور لان الشرع یتوقف علیھا فیجب علی الانسان اتیان ھذہ الامور قبل بعثۃ الرسل ویعذب المشرک وان لم یبلغہ الدعوۃ ویؤید ھذا القول مافی الصحیحین عن ابی سعید الخدری …الحدیث
وجہ الاستدلال ان یأجوج ومأجوج رجال وراء السد لم یبعث فیھم رسول فلو لا التعذیب علی الشرک قبل بعثۃ الرسل لما عذبت یأجوج ومأجوج …
وفی الصفحۃ ۴۲۳: ان عدم التعذیب قبل ا لبعثۃ مخصوص بالمعاصی دون الشرک حیث قال اللہ تعالی ’’ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء‘‘فالتقدیر ماکنا معذبین علی المعاصی حتی نبعث رسولا یبین لھم مایتقون وقیل المراد بالرسول اعم من البشر والعقل فان العقل ایضا رسول من اللہ یدرک بہ الخیر والشر فما یدرکہ العقل ویکفی فی ادراکہ من الواجبات یعذب اللہ العاقل علیھا علی عدم اتیانھا۔
مستفاد از نجم الفتاوی
No comments:
Post a Comment