Friday 14 July 2017

صحت جمعہ کی شرائط

سوال: ایک دیہات میں تقریبا 15 سال سے جمعہ کی نماز ہورہی ہے، حالانکہ وہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جارہی ہیں۔ اب ان نمازوں کی قضا کرے یا پھر کوئی شرعی صورت نکلتی ہو تو وہ بھی تفصیل سے ارسال فرمائے ۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔

الجواب وباللہ التوفيق:
جہاں أقامت جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتی ہیں وہاں کے لوگوں پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہے، لہذا صورت مذکورہ میں 15سال کے نمازوں کی قضاء کرنا ضروری ہے.
(شامی زکریا :3/7)
عبدالمتین اسلام پوری
.......
چھوٹے گاوٴں دیہات میں جمعہ جائز نہیں ہے۔ صحت صلاة جمعہ کے لیے شہر یا قریہ کبیرہ جسے قصبہ کہتے ہیں ہونا ضروری ہے، شہر یا قریہ کبیرہ جو مثل قصبہ کے ہو اس کی تعریف:
إنہ بلدة کبیرة فیہا مسلک وأسواق ولہا رسانیق
شہر اور قصبہ کا مفہوم بالکل واضح ہے، اسی لئے کبھی اس کی علامت آبادی کے ذریعہ بتلائی جاتی ہے، کبھی ضروریات زندگی کی فراہمی کے ذریعہ۔ حاصل یہ کہ آبادی، پختہ مکانات، بازار ہو (جس میں دو رویا دکانیں ہوں جو ہمیشہ کھلتی ہوں، گاوٴں کی طرف ہفتہ میں دو ایک روز صرف بازار نہ لگتا ہو) اور ضروریات کی چیزیں ہمہ وقت مل جاتی ہوں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
....
نماز جمعہ صحیح ہونے کی شرطیں
١. مصر یعنی شہر یا قصبہ یا بڑا گائوں ہونا پس چھوٹے گائوں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ہے، قصبہ یا بڑا گائوں وہ ہے جس کی آبادی مثلاً تین چار ہزار کی ہو یا اپنے آس پاس کے علاقہ میں وہ بڑا گائوں یا قصبہ کہلاتا ہو اور اس میں ایسی دکانیں ہوں جن میں روزمرہ کی ضروریات بلعموم میسر آ جاتی ہوں کوئی حاکم یا پنچائت وغیرہ بھی ایسی ہو جو ان کے معاملات میں فیصلہ کرتی ہو نیز کوئی ایسا عالمِ دین بھی رہتا ہو جو روزمرہ کے ضروری مسائل ان لوگوں کو بتا سکے اور جمعہ میں خطبہ پڑھ سکے اور نماز جمعہ پڑھا سکے پس ایسے گائوں میں نماز جمعہ درست و فرض ہے، شہر کے آس پاس کی ایسی آبادی جو شہر کی مصلحتوں اور ضرورتوں کے لئے شہر سے ملی ہوئی ہوں مثلاً قبرستان، چھائونی، کچھریاں اور اسٹیشن وغیرہ یہ سب فنائے مصر کہلاتی ہیں اور شہر کے حکم میں ہیں ان میں نماز جمعہ ادا کرنا صحیح ہے
٢. بادشاہِ اسلام کا ہونا خواہ وہ عادل ہو یا ظالم یا بادشاہ کا نائب ہونا یعنی جس کو بادشاہ نے حکم دیا ہو اور وہ امیر یا قاضی یا خطیب ہو ان کے بغیر جمعہ ادا کرنا صحیح نہیں ہے، بادشاہ کا نائب موجود ہو اور وہ کسی دوسرے شخص سے نماز پڑھوائے تو جائز و درست ہے، اگر کسی شہر یا قصبہ میں ان میں سے کوئی موجود نہ ہو اور وہ بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں تو شہر کے لوگ ایک شخص کو مقرر کر لیں اور وہ خطبہ و نماز جمعہ پڑھائے یہ جائز و درست ہے چونکہ ہمارے زمانے میں حکومت کو ان امور کی طرف توجہ نہیں ہے لہذا لوگ خود کسی شخص کو مقرر کر لیں وہ ان کو خطبہ دے اور نماز پڑھائے یہ جائز و درست ہے
٣. دارالسلام ہونا، دارالحرب میں نماز جمعہ درست نہیں ہے ( بعض فقہ نے دارالسلام کو شرائط جمعہ میں نہیں لکھا غالباً اس لئے کہ بادشاہِ اسلام ہونے میں یہ شرط خود ہی داخل ہے اور بعض نے بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کا ہونا بھی شرط قرار نہیں دیا کیونکہ یہ شرط عقلی احتیاط کے درجہ میں ہے نہ یہ کہ اس کے بغیر شرعاً نماز جمعہ درست نہیں ہوتی اسی لئے بعض فقہ کے نزدیک بادشاہ کا مسلمان ہونا بھی شرط نہیں ہے، واللّٰہ عالم بصواب)
٤. ظہر کا وقت ہونا، پس وقت ظہر سے پہلے یا اس کے نکل جانے کے بعد نماز جمعہ درست نہیں حتیٰ کہ اگر نماز پڑھنے کی حالت میں وقت جاتا رہا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگرچہ قاعدہ اخیرہ بقدرِ تشہد ادا کر چکا ہو یعنی یہ نماز نفل ہو جائے گی اور اس کو نمازِ ظہر کی قضا دینی ہو گی جمعہ کی قضا نہیں پڑھی جاتی بلکہ اب ظہر ہی کی قضا واجب ہو گی اور اسی نیت جمعہ پر ظہر کی بنا نہ کرے کیونکہ دونوں مختلف نمازیں ہیں بلکہ نئے سرے سے ظہر قضا کرے
٥. وقت کے اندر نماز سے پہلے بلا فصل خطبہ پڑھنا، اگر بغیر خطبہ کے نماز جمعہ پڑھی گئی یا وقت سے پہلے خطبہ پڑھا یا نماز کے بعد پڑھا، یا خطبہ پڑھنے میں خطبہ پڑھنے کا ارادہ نہ ہو یا خطبہ و نماز میں زیادہ فاصلہ ہو جائے تو نماز جمعہ درست و جائز نہیں ہے.
.......
جمعہ کی نماز میں سنت ونفل ملاکر کل چودہ رکعتیں ہیں: جن میں سے چار رکعت جمعہ سے پہلے سنت موٴکدہ ہے، دو رکعت نماز جمعہ یہ فرض ہے، اس کے بعد چار رکعت طرفین (امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ) کے نزدیک اور چھ رکعت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک سنت موٴکدہ ہے اور یہی قول راجح ہے، آخر میں دو رکعت نفل ہے۔

No comments:

Post a Comment