Saturday 22 July 2017

باطل کو عروج کب نصیب ہوتا ہے؟

ایس اے ساگر
جس قوت نے امت کو پھٹے کپڑوں اور پانی کی چھاگل کے ساتھ فارس و روم کی طاقتوں سے ٹکرانے پر آمادہ کیا، وہ تھا ان کا اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر مکمل اعتماد و اعتقاد. یہ وہ نور ہے جس سے آج امت کوسوں دور جاچکی ہے. لیکن اس تلخ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اغیار نے اسی سے توانائی حاصل کی ہے. ذرائع ابلاغ شاہد ہیں کہ 1973ء کے دوران عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں ایک امریکی سنیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم گولڈہ مئیر کے پاس لے جایا گیا۔ واضح رہے کہ گولڈا مئیر Golda Meir ایک اسرائیلی معلمہ، سیاستدان اور اسرائیل کی چوتھی وزیر اعظم تھی۔ 1974ء کے دوران جنگ یوم کپور کے اختتام پر گولڈا مئیر نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دے دیا لیکن امت کو ایک ایسا درس دے گئی جو تاریخ کے صفحات میں آج بھی کسی تازیانہ سے کم نہیں ہے. گولڈہ مئیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا استقبال کیا اور اسے اپنے کچن میں لے گئی۔ یہاں اس نے امریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ اس کے ساتھ اس نے طیاروں، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کر دیا۔ ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی۔ ایک پیالی سنیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔ پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سنیٹر سے محو کلام ہو گئی۔ چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈہ مئیر اٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور انھیں دھوکر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی،
”مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے۔''
یاد رہے کہ اسرائیل اس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا، مگر گولڈہ مئیر نے کتنی ”سادگی“ سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کرڈالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کردیا۔ اس کا موقف تھا، اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ گولڈہ مائیر نے ارکان کابینہ کا موقف سنا اور کہا: ”آپ کا خدشہ درست ہے، لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے، تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔ اس کے دستر خوان پر شہد، مکھن، جیم تھا یا نہیں اور ان کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں کے نیام پھٹے پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔“ 
گولڈہ مئیر کی دلیل میں وزن تھا، لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینا پڑی۔ آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا، اسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ جنگ ہوئی اور عرب ایک بوڑھی عورت سے شرمناک شکست کھاگئے۔ جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مئیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا: 
”امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی، یا پہلے سے حکمت عملی تیار کررکھی تھی؟“ 
گولڈہ مئیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ وہ بولی:
”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا، میں جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جاسکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھکر تیل خریدا، لیکن اس وقت بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو بھی اسلحہ خریدیں گے، خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔“ 
گولڈہ مئیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا، مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی اسے ”آف دی ریکارڈ“ رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔ وجہ یہ تھی، مسلمانوں کے نبی کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہوسکتی ہے، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کردیا۔ وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا، یہاں تک کہ گولڈہ مئیر انتقال کرگئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہوگیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار، امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مئیر کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس نے گولڈہ مئیر کا واقعہ بیان کر دیا، جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا۔ اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہورہی ہے۔ گولڈہ مئیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا: 
”میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر یعنی جبل الطارق کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا۔ وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا، جب گولڈہ مئیر کا انٹرویو نگار قائل ہو گیا کہ ”تاریخ فتوحات گنتی ہے، دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں۔“ گولڈہ مئیر کے انٹرویو نگار کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل میں شائع ہوا تو دنیا اس ساری داستان سے آگاہ ہوئی ۔ یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں سے جھانک جھانک کر مسلمانان عالم کو جھنجھوڑ رہا ہے، بیداری کا درس دے رہا ہے، ہمیں سمجھا رہا ہے کہ ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان، چودہ سو برس قبل کس طرح جہاں بان بن گئے؟ ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار براعظم فتح کرلئے؟ اگر پُرشکوہ محلات، عالی شان باغات، زرق برق لباس، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں، سونے، چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھری تجوریاں، خوش ذائقہ کھانوں کے انبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ہمیں بچاسکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔​
اسی جارح اسرائیلی حکومت کی سن 1973ء کی عرب۔اسرائیل جنگ سے متعلق ایک چشم کشا دستاویز گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی ہے۔ ستائیس صفحات پر مشتمل اس دستاویز کو اس وقت کی صہیونی وزیر اعظم گولڈا مئر اور سابق جرمن چانسلر ولی برانڈت نے جنگ سے تین ماہ قبل جاری کیا تھا۔
ان دستاویز میں مصری صدر کو امن کی دعوت دی گئی تھی، اس معاملے میں اسرائیل کو امریکہ کا آشیر باد بھی حاصل تھا تاہم امریکہ خود منظر عام پر نہیں آنا چاہتا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے انور سادات کو 1967ء کی سرحدوں پر عدم واپسی کی شرط پر مصر کو صحرائے سینا کا وسیع علاقہ واپس کرنے کو کہا گیا تاہم مصر نے یہ پیش کش ماننے سے انکار کردیا اور جنگ کی تیاریاں جاری رکھیں۔
عرب اخبار روزنامہ الشرق الاوسط کے مطابق ’’جنگ اکتوبر‘‘ کو لگ بھگ چالیس سال گزرچکے ہیں اور ان دستاویز کے منظر عام پر آنے کے کچھ ماہ بعد لیڈی مئیر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ انھوں نے انور سادات کے ساتھ قیام امن کا موقع گنوادیا جس کی وجہ سے اسرائیل کو جنگ لڑنا پڑی۔
ان دستاویز میں کئے گئے ایک اہم انکشاف کے مطابق 09 جون 1973 کو مغربی القدس کے ایوان وزیر اعظم میں گولڈا مئیر اور جرمن چانسلر برانڈت نے ملاقات کی، یہ ملاقات انتہائی خفیہ نوعیت کی تھی۔
دستاویز میں اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کی تصدیق کی گئی ہے کہ وہ جرمن چانسلر برانڈت سے انور سادات کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہیں اور یہ کہ اسرائیل کو پورے سینا، اس کے نصف یا اکثریتی علاقے پر تسلط میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ سارا سیناء مصر کو دینے کو تیار ہے تاہم وہ 1967ء کی سرحدوں پر واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مئیر نے کہا کہ وہ عرب دنیا میں انور سادات کی مشکلات کو سمجھتی ہیں لہذا اسی لئے ان سے اعلانیہ مذاکرت نہیں کررہیں اور ابتدائی طور پر خفیہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔
ایک اور دستاویز میں بتایا گیا کہ جرمن چانسلر برانڈت ان مذاکرات کے بارے میں زیادہ پرجوش نہیں تھے نہ ہی ان میں مصر کا سفر اختیار کی طاقت تھی لہذا انھوں نے ایک معمولی درجے کے سفارت کار، وزارت خارجہ کے سیکرٹری، لوٹار لان کو مذاکرات میں شرکت کے لئے قاھرہ بھیج دیا۔ جرمن سیکرٹری نے انور سادات کے مشیر سے ملاقات کی درخواست کی تاہم وہاں سے جواب نہ دیا گیا اور مصر کے قونصلر جنرل حافظ اسماعیل نے انھیں شرف ملاقات بخشا، جن کے ساتھ ملاقات میں جرمن سیکرٹری نے بڑے تذبذب کی حالت میں اپنا موقف پیش کیا۔
تاہم جرمنی کے مذاکرات اس کے بعد بھی جاری رہے اور آخر میں حفاظ اسماعیل نے اسرائیلی پیشکش کو بڑی سختی سے رد کردیا اور کہا کہ یہ مذاکرات برائے مذاکرات ہیں، مصر اسرائیل سے اس وقت مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوگا جب تک وہ سن 1967ء کی سرحدوں پر واپسی کی حامی نہیں بھرلے.

باطل کیخلاف پیش قدمی سے پہلو تہی کرنے والوں کے لئے تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر ہے جب معتصم باللہ، آ ہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھا نا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔ پھر معتصم سے کہا: 
’’جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے کھاؤ‘‘۔
بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا: 
’’میں سونا کیسے کھاؤں؟ ‘‘ 
ہلاکو نے فوراً کہا 
’پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟‘‘ 
وہ مسلمان جسے اُسکا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: 
’’تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟‘‘
خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔ ’’اللہ کی یہی مرضی تھی.‘‘
ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: 
’’پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے، وہ بھی خدا کی مرضی ہوگی۔‘‘
پھر ہلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو نے کہا ’’ آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔‘‘
دنیا اکٹھی کرنے کو۔ مال و متاع جمع کرنے کو کامیابی سمجھنے والوں سن لو؛ 
اگر پرشکوہ محلات، عالی شان باغات ، زرق برق لباس، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں، سونے چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھر ی تجوریاں، خوش ذائقہ کھانوں کے اَنبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ہمیں بچا سکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔
تاریخ تو فتوحات گنتی ہے ۔ محل، لباس، ہیرے، جواہرات لذیز کھانے نہیں۔ اگر ہم ذرا سی بھی عقل و شعور سے کام لیتے تو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا آفتاب کبھی غروب نہ ہوتا۔ اندازہ کرو... جب یوروپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے، تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لیکر اپنی محبت کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا۔ جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے۔ تب یہاں تان سین جیسے گویے نئے نئے راگ ایجاد کر رہے تھے۔ جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرنگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے، ہمارے اَرباب و اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بکھرگیا، کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کو ئی غرض نہیں ہوئی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ... شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑئے ہیں یا نہیں؟ درباروں میں خوشامدیوں ، مراثیوں ، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟ جبکہ تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ عُذر قبو ل نہیں کرتی۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ امت آج بھی دفاعی پوزیشن میں ہے۔ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت نے یہ دن دکھلایا ہے کہ امت اپنے فرض منصبی کو بالائے طاق رکھ کر لاحاصل بحثوں اور غیر ضرروی کام میں مگن ہے۔ چنانچہ زوال ہمارا مقدر ٹھہرا۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ وسائل کے غلط استعمال کو برداشت نہیں کرتی اور اندھی خواہشات کے اتباع میں پیسہ بہانے کو نہیں، بلکہ فتوحات کو گنتی ہے...


A Lesson from History


In 1973 the war between Arabs and Israel was about to start. Meanwhile an American Senator visited Israel on a special mission. He was chief of the Senate Arms Committee. A meeting with Israeli Prime Minister Golda Meir was arranged immediately.

Golda Meir welcomed him into her home, like any common housewife welcoming a family guest. She took him to the kitchen. While seating him at the kitchen dining table, she went over to prepare tea for the guest.

As the water was kept for boiling, she came over and sat on a chair near the dining table. She opened the discussion regarding planes, missiles, and guns. In the course of negotiations, she got the aroma of the brew.

She prepared two cups of tea, and offered one cup to the Senator, and another to an American guard who was standing at the gate. On returning, she came back, continued talking with the Senator. After a discussion they settled the arms deal. In the meantime, she stood up, collected all the cups, and turned to senator and said "I agree to this deal. You can send your secretary to my secretary for written deal".

It may be remembered that Israel at that time was facing a serious economic crisis, but the huge arms deal was settled by Meir with the greatest of ease in the history of Israel. It was quite astonishing that earlier, the Israeli cabinet had rejected the same deal, because they thought it would be so costly, that the whole nation would have to make do with a single meal a day, for years to come.

Meir knew about their stand, and said, "Your doubt are well founded, but if we win this war, and defeat the Arabs, history will remember us as the victors, and in history, once a community is know as the victor, it forgets how many eggs they ate and how many times they had food. Whether there was jam, honey, butter on the table, and how many holes they had in their shoes. Or whether the sheaths of their swords were new or old! A conqueror is a conqueror."

Based on Meir's solid logic, the Israeli cabinet approved the deal. Later it was proved that the decision taken by Meir was right, and the whole world witnessed the Jews knocking on the doors of the Arabs with this artillery. A war took place, and the Arabs faced a shameful defeat at the hands of an old lady.

After a gap of one decade after the war, a reporter of the Washington Post interviewed Meir, asking "Was the logic you had in your mind for the arms was spur of the moment decision or you had had an advance strategy?"

Meir's reply was very surprising.

She answered, "I got this logic from the Prophet (of the Muslims) Mohammed (peace be upon him). When I was a student, my favorite topic was comparative study of religions. Those days I studied the life of Mohammed (PBUH). One author stated that when Prophet Mohammed (PBUH) died, there was not enough money to buy oil for a lamp, his wife (Ayesha Siddiqa[Radi Allahu-ta'ala unha]) mortgaged his battle shield to buy oil, yet there were nine swords hung on the wall of his house.

When I read this account, it occurred to me- how many people in the world would have known about the worst economic condition of Islamic state? But everyone recognizes them as conquerors of half the world. So I decided that I would buy arms at any cost; even if we would have to starve or to live in camps instead of buildings, but we would prove ourselves as the victor".

Meir revealed this secret, but requested the interviewer to keep it "off the record", and refrain from publishing it, because if she referred to Prophet Mohammed(P.B.U.H), the Jews would have revolted against her and the Muslim position would have strengthened.

Over the time, world situation changed. Golda Meir died. By this time the interviewer had given up the profession of journalism. Meanwhile another correspondent was busy interviewing 20 famous American journalists. In connection with this, he met the journalist who had interviewed Meir as a representative of the Washington Post.In this interview, he recounted the story of Meir that drew on the life of Prophet Mohammed (PBUH).

He said he was not ashamed to tell the story. Further, he said, "After this incident I studied the history of Islam, and was astonished to know about the savoir-faire of Arabs. Because I learnt that Tariq bin Ziyad conquered Spain through Gibraltar, while more than half his army did not have complete suit of clothes. They subsisted for 72 hours at time on water and dried bread.

It was then that the interviewer agreed with Meir's view that history counts victory; it does not count the eggs, jams and butter on the table."When the interview with Meir was published, the whole world learned of this entire story.This astonishing incident is history's wake-up call to the Muslims of the world. It teaches them a lesson; it reveals how 14 centuries ago, a shepherd, clad in a cloak and worn-out shoes became the leader of the world, and conquered four continents.

Could enormous castles, grand palaces, magnificent gardens, splendid clothes, adorned rest places of silk and sleepless, gold silver, boxes, gems and jewels, spread of savory dishes and the jingle of coins save them? The locust-swarm of Tartar forces did not reach the palace of Musta'sim Billah by trampling over Baghdad. What a terrible and astonishing scene it was in the history of Islam, when Musta'sim Billah was bound in chains, standing like a prisoner before Halaku Khan (grandson of Changiz Khan). And at mealtime, Halaku Khan ate in simple plates, but offered plates of gems and precious metals to Caliph Musta'sim Billah, mocking "Eat from these diamonds, gems, gold and precious metals you have collected!" There stood the Sovereign of Baghdad, helplessness, powerless, lonely, destitute, saying, "How can I eat gold?" Halaku Khan replied, "Then why you have collected all this silver and gold?"

The Muslim, whose religion calls on him to make arms and rear horses, had no reply. Halaku Khan glanced at the palace doors and windows, asking, "Why did you not make iron arrows by melting these iron nets? Why did you collect these diamonds instead of paying money to your soldiers, so they could fight bravely against my forces?""It was the will of Allah", replied the grieved Caliph.

The arrogant Halaku shot back, "Whatever is now going to happen with you is also God's wish".
Then Halaku covered Musta'sim Billah in a cloak and crushed him under the hooves of horses, and proceeded to make a graveyard of Baghdad.

.....

No comments:

Post a Comment