Monday 10 July 2017

نکاح کے اہم اصول و ضوابط

نکاح کے بارے میں عام رجحان یہ ہے کہ نکاح کرناسنت ہے، کیوں کہ حدیث میں ہے:
النکاح من سنتی، حالاں کہ حدیث میں وارد سنت سے مراد نکاح کاسنت اورمستحب ہونا نہیں ہے، بلکہ یہاں سنت سے مراد تہذیب ہے، یعنی نکاح نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی لائی ہوئی تہذیب میں شامل ہے۔ چنانچہ فقہاء کرام نے حالات کے اعتبار سے نکاح کرنے اور نہ کرنے کے احکام بیان کئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
فرض:     
اگر شہوت بہت زیادہ ہوحتیٰ کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کرلینے کا یقین ہو، مہر اورنان ونفقہ ادا کرسکتا ہو نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کرلینا فرض ہے۔
واجب: 
نکاح کرنے کا تقاضہ ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو، مہر اور نان ونفقہ ادا کرسکتا ہو نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کرلینا واجب ہے۔
سنت مؤکدہ:    
عام حالات میں یعنی مالی اور جسمانی حالت اچھی ہو، بیوی کے حقوق کو ادا کرسکتا ہو، بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو تو نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
مکروہ تحریمی:   
اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یا صنفی حقوق ادا نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
حرام:   
اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یا صنفی حقوق ادانہ کرنے کا اسی طرح عورت پر ظلم کرنے کا یقین ہو یا نکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرنا ہو تو پھر نکاح کرنا حرام ہے۔
(البحرالرائق ٣/۸٤، درمختارعلی ردالمحتار:٣/۶، فتاویٰ محمودیہ١٠/٤۷٢پاکستان)
نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لئے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہیں۔ نکاح میں لڑکے کے اوپر مہر، ولیمہ مسنونہ اور مستقل طور پر بیوی کے نان ونفقہ کے اخراجات کے علاوہ کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے، اس لئے صرف اس وجہ سے کہ ابھی زیادہ روپیہ پیسہ نہیں ہے، یا ولیمہ میں بھاری بھرکم خرچہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے، نکاح نہ کرنا یا نکاح کو مؤخر کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہو تو ایسی صورت میں سخت گناہ ہوگا، اور اپنے ذہن اور جسم وروح کے ساتھ ناانصافی بھی ہوگی۔
جہیز کامطالبہ کرنا:    لڑکے کا یا اس کے گھر والوں کی طرف سے کسی کالڑکی سے یااس کے گھر والوں میں سے کسی سے کسی بھی سامان کا یا کھانے کی دعوت کا صراحت کے ساتھ یا اشارہ وکنایہ کے ساتھ یا رسم ورواج کی بنیاد پر مطالبہ کرنا جائز نہیں، سخت گناہ کی بات ہے اور مرد کی غیرت کے خلاف ہے۔ کپڑے، زیورات، اور گھریلو ساز و سامان کا انتظام کرنا سب مرد کے ذمہ ہے۔ اگر لڑکی والے مطالبہ کے بغیر مگر رسم و رواج یا سماج کے دباؤمیں آکر کچھ دے تو بھی لینانہیں چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشادفرمایا:
لَا يَحِلُّ مَالُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ لِأَخِيهِ، إِلَّا مَا أَعْطَاهُ بِطِيبِ نَفْسِهِ “
(سنن الکبریٰ للبيھقي:١۶۷۵۶)
یعنی کسی دوسرے مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر کسی کے لئے حلال نہیں۔ سماجی دباؤ میں آکر دینے کامطلب یہ ہے کہ دینے والایوں سمجھے کہ ہمارے یہاں اس موقع پرفلاں چیز دینے کارسم ہے دینا ہی پڑے گا، اگر نہیں دیں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔ اگر لڑکی ازخود کوئی سامان اپنے میکہ سے لاتی ہے، تو اس پر صرف اسی لڑکی کاحق ہے۔ مرد کو اس میں اپناحق جتانا یا بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔
حق مہر:   نکاح کے وقت لڑکے کے اوپر اپنی ہونے والی بیوی کا مہر واجب ہوتا ہے۔ مہر کی مقدار کم از کم دس درہم یعنی تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی یا اس کی مالیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے کم مالیت میں اگر نکاح کیا جائے مثلا پانچ سو روپے میں یاصرف ۷۸۶ روپے میں تو نکاح تو منعقد ہوجائے گا، مگر دس درہم کی مقدار کا ادا کرنا واجب ہوگا۔ تاہم متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے مہر فاطمی یعنی ایک کلو پانچ سو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی متعین کرنا مستحب ہے۔ دین مہر کا بعد نکاح فورا ادا کردینا بہتر ہے۔ اس کو مؤخر کرنا مناسب نہیں، علماءکرام کا مشورہ ہے کہ اس زمانہ میں سونے یا چاندی میں مہر متعین کرنا لڑکی حق میں مناسب ہے۔ اس لئے کہ افراط زر کے اس زمانہ میں سالوں گزرنے کے باوجود اس کی مالی حیثیت میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ سنت سے زیادہ قریب ہے، کیوں کہ دورِنبوی میں عموماً سونے و چاندی سے مہر طے ہوتا تھا۔
ارکانِ نکاح:
نکاح حرام کو حلال کرتا ہے، اس لئے اس کے ارکان اور شرائط کو بوقت نکاح ملحوظ رکھنا نہایت ہی ضروری ہے، ورنہ بعض دفعہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ہے اور طویل عرصہ تک لڑکا لڑکی دونوں حرام کاری کرتے رہتے ہیں۔ نکاح کے ارکان ایجاب وقبول ہیں۔ پیغام دینے اور پیش کش کرنے کو ایجاب کہتے ہیں خواہ لڑکے کی طرف سے ہو یا لڑکی کی طرف سے، اور دوسرے کی طرف سے منظور کرلینے کو قبول کہا جاتا ہے۔
ایجاب وقبول کی شرائط:
پہلی شرط:    
ایجاب وقبول کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہو، مثلا ایجاب جس مجلس ہوا اسی مجلس میں قبول ہوجائے ورنہ نکاح منعقد نہیں ہوگا، مثلا اگر ایجاب وقبول کی جگہ بدل جائے یا کوئی ایک مجلس سے اٹھ جائے پھر قبول کرے تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(بدائع الصنائع: ٢/٢٣٢، ہندیہ: ١/٢۶۹)
دوسری شرط:    
دوسری شرط یہ ہے کہ:
(الف) ایجاب وقبول کا تلفظ کیا گیا ہو، یعنی اگر ایجاب وقبول کرنے والا بولنے پر قادر ہے اور دونوں مجلس میں موجود ہیں تو ایجاب وقبول کی منظوری زبان سے دینا ضروری ہے۔ مثلا ایجاب یوں کرے،
”میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا”،
اور قبول یوں کرے،
”ہاں میں نے قبول کیا.”
اگر ایجاب وقبول کے الفاظ لکھ دئے جائیں، یا صرف سر کو ہلادیا جائے یا نکاح نامہ میں صرف دستخط کردئے جائیں تو ان صورتوں میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(ب)    
اگر نکاح کرنے والوں میں سے کوئی ایک مجلس میں موجود نہ ہو مگر اس کی طرف سے اس کا ولی جس کو اس نے نکاح کروانے کی اجازت دی رکھی ہو یا وکیل جس کو اس نے نکاح کروانے کا وکیل بنایا ہو، موجود ہو تو وہ خود اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے۔ مثلا یوں ایجاب کرے
”میں نے فلاں یا فلانہ کا نکاح آپ سے اتنے مہر کے عوض کیا”،
اور قبول اس طرح کرے،
”ہاں میں نےفلاں یا فلانہ کی طرف سے قبول کیا."
یا قاضی ولی اور وکیل کا ترجمان بن کر اس کی موجودگی میں ایجاب کرے تو اس سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(ج)    
اگر کوئی ولی یا وکیل بھی موجود نہ ہو تو اگر کسی ایک نے ایجاب کو لکھ کر؛بھیجا اور دوسرے نے جس مجلس میں اس کو ایجاب کی تحریر پہنچی، اسی مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں ایجاب کو پڑھ کر یا کسی سے پڑھواکر زبان سے قبول کیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(ہندیہ:١/٢۶۹-٢۷۰)
تیسری شرط:    
تیسری شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کے صیغے ماضی یا حال کے ہوں مثلا میں نے آپ سے نکاح کیا یا نکاح کرتا ہوں کہے، اسی طرح میں نے قبول کیا یا میں قبول کرتا ہوں، یا مجھے قبول ومنظور؛ہے؛وغیرہ الفاظ کہے، پس اگر مستقبل کے صیغے استعمال کئے جائیں مثلا یوں کہا کہ نکاح کروں گا، قبول کروں گا یا ٹھیک ہے کرلوں گا وغیرہ تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ:۹/٣٥)
چوتھی شرط:    
چوتھی شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کم از کم دو ایسے مسلمان عاقل وبالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ہو، جو فریقین کے ایجاب وقبول کے الفاظ کو سن سکیں؛ لہذا اگر دو گواہ نہیں ہیں یا گواہ تو ہیں مگر مسلمان نہیں ہیں، یاصرف عورتیں ہیں، یا گواہ بالغ نہیں ہیں، یا عاقل نہیں ہیں تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
نکاح کرنے کے طریقے:
نکاح کرنے کے چار طریقےہیں جو حسب ذیل ہیں:
اصالۃ:     
یعنی نکاح کرنے والا خود ایجاب یا قبول کرے۔ مثلا لڑکا یا لڑکی دونوں میں سے کوئی ایک دو گواہوں کی موجودگی میں دوسرے سے کہے کہ میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا اور وہ کہے ہاں میں نے قبول کیا۔
ولایۃ:
یعنی نکاح کرنے والے کا ولی مثلا اس کا باپ یا دادا، بھائی، چچا وغیرہ (بالترتیب) اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے، ایسا صرف اس صورت میں ہوتا ہے جبکہ لڑکا یا لڑکی نابالغ ہو۔ اگر نکاح باپ دادا کے علاوہ کسی دوسرے ولی مثلا بھائی، چچا وغیرہ نے کروایا ہے، تب تو ان کو بالغ ہونے کے بعد اختیار ہوگا کہ اس نکاح کو باقی رکھیں یا ختم کردیں، اور اگر باپ دادا نے کروایا ہے تو یہ اختیار نہیں رہے گا۔ ہاں اگر باپ دادا اپنے فسق وفجور میں مشہور ہوں تو پھر نکاح ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔ فقہ کی اصطلاح میں اس کو خیار بلوغ کہاجاتاہے۔ مگر اس کے لئے قضاء قاضی شرط ہے یعنی شرعی دارالقضاء میں جاکر قاضی شریعت کی خدمت فسخ نکاح کا درخواست دینا ضروری ہے، قاضی محترم تحقیق کرنے کے بعد فسخ کرسکتے ہیں۔
اجازۃً:
اگر لڑکا یا لڑکی بالغ ہو تو اس کی طرف سے اجازت یا وکالت کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عموماً لڑکا اور لڑکی کے والدین، اولیاء و سرپرستان نکاح کرواتے ہیں، یہ ایک بہتر اور مستحسن عمل ہے کیوں کہ دونوں کے اولیاء اپنی اولاد کی دینی اور دنیاوی بھلائی دیکھ کر ہی نکاح کروائیں گے۔ اسی وجہ سے شریعت میں ولی کی اجازت کے بغیر کئے گئے نکاح کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اولیاء کو حکم فرمایا ہے کہ وہ اپنی بالغ اولاد کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہ کریں۔
«لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ»
(بخاری:٥١٣۶)
کیوں کہ ازدواجی زندگی دونوں میاں بیوی کو گزارنی ہے، اس لئے ان سے اجازت لی جائے۔
اجازت کا مطلب یہ ہے کہ بالغ لڑکا یا لڑکی اپنے ولی مثلاباپ، دادا، یا بھائی کو اس بات کی اجازت دیدے کہ آپ میرا نکاح فلاں سے کروادیں، یا جس سے چاہیں کروادیں، یا ولی اپنے بیٹے یا بیٹی سے اس بات کی اجازت لے لیں کہ وہ اس کا نکاح فلاں یا فلانہ سے کروانے جارہا ہے، واضح رہے کہ اگر باپ دادا نے کنواری لڑکی سے اجازت طلب کی اور وہ خاموش رہی تو اس کا خاموش رہنا بھی اجازت کے حکم میں ہوگا۔ بہرحال ایسی صورت میں ولی کو بھی اپنے بالغ بیٹے یا بیٹی کا نکاح کروانے کا یعنی ایجاب یا قبول کرنے کا حق ہوگا۔ اجازت دیتے یا لیتے وقت بہتر ہے کہ دو گواہ بھی موجود ہوں۔
وکالۃً: یعنی نکاح کرنے والا لڑکا یا نکاح کرنے والی لڑکی کسی کو ایجاب وقبول کرنے کا زبانی یا تحریری طور پر وکیل بنادے مثلا یوں کہے یا لکھ دے کہ میں نے فلاں ولد فلاں کو فلانہ بنت فلانہ سے یا فلاں ولد فلاں سے اپنا نکاح کروانے کا وکیل بنادیا اور وکیل اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے۔ مثلا یوں ایجاب کرے کہ میں نے اپنے مؤکل یا مؤکلہ کو آپ کی زوجیت میں دیا یا میں نے اپنے مؤکل یا مؤکلہ کا نکاح آپ سے کیا۔ قبول اس طرح کرے کہ میں نے اپنے مؤکل یا مؤکلہ کی طرف سے قبول کیا۔
واضح رہے کہ وکیل یا بالغ اولاد کا ولی خود اپنی طرف سے کسی کو نکاح کروانے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے اور نہ کسی کو وکیل بناسکتا ہے؛ اگر کسی نے ایسا کرلیا یعنی ولی نے کسی کو نکاح کروانے کی اجازت دیدی یاکسی کو وکیل بنادیا یا وکیل نے خود کسی دوسرے کو وکیل بنادیا یا نکاح کروانے کی اجازت دیدی اور اس نے نکاح کردیا تو ایسی صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
ہاں دوصورتیں ایسی ہیں کہ نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(١) اسی مجلس میں ولی یا وکیل (اول) بھی موجود ہوں
(٢) بعد نکاح جب لڑکی کو اس کی اطلاع ہوئی کہ فلاں نے میرا نکاح فلاں سے کردیا ہے تو وہ انکار نہ کرے تو اس کی خاموشی بھی دلالتہ ایجاب کے حکم میں ہوگی اور نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(درمختار علی ردالمحتار: ٣/۸٥، ہندیہ:١/٢٩۸)
جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ نکاح:
ٹیلیفون، موبائل، وہاٹس ایپ، فیس بک میں، چیٹنگ کے ذریعہ ہو یا آیڈیو کانفرنس ہو یا ویڈیو کانفرس ہو، نکاح کسی بھی صورت میں منعقد نہیں ہوگا، کیوں کہ دونوں کی مجلس ایک نہیں ہے، البتہ اگر ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو وکیل بنادیا جائے اور وہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب یا قبول کرے تو پھر نکاح منعقد ہوجائے گا۔
کورٹ میریج:
کورٹ میں نکاح کرنے کی صورت میں اگر ایجاب وقبول کی ساری شرائط موجود ہوں تو نکاح منعقد ہوگا ورنہ نکاح نہیں ہوگا۔ مثلا اگرمتعلقہ افسر کے سامنے صرف کاغذ پر دستخط کردیا، زبان سے ایجاب وقبول نہیں کیا۔ یادونوں گواہ مسلمان نہیں تھے یا صرف عورتیں گواہ تھیں، تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
کورٹ میرج کا شرعی حکم
Sunday, July 24, 2016
الجواب وباللہ التوفیق :
اولا یہ جان چاہئے کہ شریعت مطہرہ نے نکاح کے سلسلہ میں جو نظام مقرر کیا ہے اسی پر عمل کرنے میں معاشرتی و سماجی و اخلاقی فوائد مضمر و پوشیدہ ہیں.
اسلام نکاح کو استوار اور پائدار دیکھنا چاہتا ہے اور ایسی ھدایات دیتا ہے جن پر عمل کرنے سے نکاح اپنے مقاصد کو پورا کرے اور میاں بیوی تا حیات خوشگوار زندگی گزارے..
اس میں زیادہ اہم لڑکا لڑکی دونوں کے درمیان کفاءت یعنی مماثلت ویگانگت ہے.
کہ دونوں فکر وخیال, معاشرت, طرز رہائش,
دینداری وغیرہ میں یکسانیت یا قربت ہونے کی صورت میں اس کی زیادہ امید ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور رشتہ نکاح مستحکم ہوں.
بے جوڑ نکاح عموما نا کام رہتے ہیں اور اس ناکامی کے اثرات ان دونوں شخصوں سے متجاوز ہوکر دونوں کے گھروں اور خاندانوں تک پہنچتے ہیں اسلئے کفاءت کا شریعت نے خصوصی اہتمام کیا ہے..
آج کل عشق و محبت میں لڑکیاں اپنے گھروں سے فرار ہو کر اپنے پیارے والدین کی عزت داؤ پر لگا کر اور اپنے اھل خانہ و خاندان پر نہ مٹنے والا دھبہ لگا کر کورٹ میرج کرتے ہیں وہ مذکورہ فوائد سے قطعا محروم رہتے ہیں.
لھذا لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو چاہئے کہ ان نا جائز عشق و محبت میں مبتلا ہوئے بغیر  اپنے اولیاء کو اعتماد میں لیکر نکاح کریں.
اور اپنی عفت وعصمت و پاکدامنی وعزت و شرافت کا خیال رکھیں .........
بعد تمہید اب اصل حکم یہ ہے کہ کورٹ میرج میں اگر شرعی طور پر نکاح ہو جائے کہ باقاعدہ ایجاب و قبول دو گواہوں کے سامنے ہوں دونوں راضی ہوں عاقل بالغ ہوں تو نکاح منعقد ہوجائےگا....
محض کورٹ میرج کا کاغذ حاصل کر لینا (جیسا کہ آج کل کیا جاتا ہے) انعقاد کے لئے کافی نہ ہوگا......
وینعقد نکاح الحرہ العاقلہ البالغہ برضاءھا وان لم یعقد علیھا ولی بکرا کانت او ثیبا
(الھدایہ ١/٣١٣)
دارالعلوم دیوبند اور بنوریہ ٹاون کے دو فتوے ملاحظہ ہوں.
(۲) کورٹ میرج میں اگر شرعی طور پر نکاح ہوجائے تو وہ کافی ہوجائے گا، محض کورٹ میرج کا کاغذ حاصل کرلینا انعقاد نکاح کے لیے کافی نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
کورٹ میرج کی شرعی حیثیت!
سوال
محترم مفتی صاحب !
السلام علیکم!
مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ لوگ کورٹ میں شادی کرتے ہیں جب کے نبی پاک ﷺ نے یہ کہا ہے اور بہت سی حدیث سے پتہ چلا کہ ولی کے بغیر نکا ح نہیں۔وہ پھر کیوں کیا جاتا ہے نکاح ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر نکاح کرنے کے لیے کوئی پروا نہیں کرتے ۔جب طلاق ہو جائے حلالہ پھر کیوں کہا جاتا ہے کہ حلالہ حرام ہے یہ ہے وہ ہے پھر بھی کیا جاتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہے کورٹ میں شادی کی اب طلاق بھی دی مگرشادی پر نیت یہ تھی کہ مہر 1 روپے بھی نہیں دوں گا جو کہ10 لاکھ طے ہوا تھا۔
اب میں چاہتاہوں کہ ہم پھر سے ایک ہوں، والدین کی مرضی سے ہم نے طے کر لیا نیا نکاح کیونکہ وہ ہمارا نکاح ہی نہیں تھا پھر طلاق کس طرح ہوئی ؟
براہ کرم جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں۔
جزاک اللہ
سائل : افرا ز احمد
جواب
صورت مسئولہ میں شریعتِ مطہرہ نے لڑکی اور لڑکے دونوں اورخصوصاً لڑکی کی حیاء ،اخلاق ،معاشرت کا خیال رکھتے ہوئے ولی کے ذریعے نکاح کا نظام رکھا ہے کہ نکاح ولی کے ذریعے کیا جائے ،یہی شرعاً ،اخلاقاًاور معاشرۃً پسندیدہ طریقہ ہے ،اسی میں دینی ،دنیوی اور معاشرتی فوائد ہیں لیکن اگر ایک نادان لڑکی یا لڑکا جو کہ عاقل بالغ ہیں ان فوائد اور پسندیدہ عمل کو ٹھکراکر خود ہی عدالت جاکر یا عدالت سے ہٹ کر نکاح کریں تو نکاح ہوجائے گا دونوں میاں بیوی بن جائینگے ،لیکن یہ نکاح پسندیدہ طریقہ پر نہیں ہوگا، اس کے بعد طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی ۔
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی.
رہا سوال یہ کہ ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں کیا گیا نکاح منعقد ہوگا یا نہیں ؟اور اولیاء کو فسخ کا اختیار ہوگا یا نہیں ؟
اس میں دو قول ہے
پہلا یہ کہ عاقلہ بالغہ کا غیر کفو میں کیا گیا نکاح شرعا منعقد ہوگا  لیکن اولیاء کو قاضی کے یہاں مرافعہ کا حق ہوگا...
دوسرا قول جس پر فتوی بھی ہے
وہ یہ کہ عدم کفو کی بناء پر نکاح اصلا منعقد ہی نہیں ہوتا. لھذا فسخ کی بھی ضرورت نہیں.
کما فی الدر المختار (ویفتی) فی غیر الکف (بعدم جوازہ اصلا) وھو المختار للفتوی لفساد الزمان (قولہ وھو المختار للفتوی)
وقال شمس الائمہ وھذا اقرب الی الاحتیاط کذا فی تصحیح العلامہ قاسم الخ..
(در مختار و شامی ٢/٤٠٨)
الحیلہ الناجزہ میں ہے
پہلی صورت یہ کہ بالغ عورت بغیر اذن ولی عصبہ کے غیر کفو میں نکاح کرے اس صورت میں فتوی اس پر ہے کہ نکاح صحیح نہیں ہوتا کیونکہ نکاح سے پہلے اجازت کا ہونا شرط ہے لھذا عورت کو لازم ہے کہ ایسا ہرگز نہ کرے. اگر کرے گی تو نکاح کالعدم ہونے کی وجہ سے ہمیشہ معصیت میں رہے گی
(از فتاوی رحیمیہ ٨/٣٧٢)
فقط واللہ تعالی اعلم
یہ فقہی سیمینار کا فیصلہ ہے
خطبہ مسنونہ:
ایجاب وقبول سے پہلے خطبہ دینا مسنون ہے۔ جس میں سورہ نساء کی پہلی آیت سورہ آل عمران کی آیت نمبر ١٠٢، سورہ احزاب کی آیت نمبر ۷۰، ۷١، اور سورہ حجرات کی آیت نمبر ٣١۔ اسی طرح نکاح سے متعلق احادیث مثلا النکاح من سنتی وغیرہ کا پڑھنا بہتر ہے۔
مجلسِ نکاح میں تقریر کرنا:
مجلس نکاح میں اردو یا مادری زبان میں تقریر کرنا جس میں نکاح کی فضیلت، مسائل واحکام، اور میاں بیوی کے فرائض و حقوق کو بیان کرنا اور انھیں شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرنا مناسب ہے۔ نیز طلاق وخلع کے نقصانات کو واضح کرنا اور اس کے مسنون طریقہ کو بھی بیان کردینا مناسب ہے۔
میاں بیوی کو مبارکباد دینا:
نکاح کے بعد میاں بیوی کو دعاء اور مبارک باد دینا سنت ہے، مبارکبادی کے الفاظ حدیث میں اس طرح منقول ہیں:
بارک اللہ لکماوجمعکمافی خیر۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس نکاح میں برکت دے اور تم دونوں میاں بیوی کو خیر میں جمع کردے۔
(بخاری :۶٣۸۶)
نکاح کا اعلان کرنا:
حدیث میں ہے:
أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوف۔
(ترمذی:١٠۸۹)،
یعنی کھلے عام نکاح کرو، اس کو مسجد میں قائم کرو، اور دف بجاؤ؛ تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ فلاں اورفلانہ کے درمیان نکاح ہورہا ہے۔
نکاح کا وقت:
 نکاح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے، البتہ شوال کے مہینے میں اور جمعہ کے دن نکاح کرنا مستحب ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ماہ شوال میں اور جمعہ کے دن نکاح کرنا منقول ہے۔
(درمختارعلی ردالمحتار:٣/۸)
ولیمہ کرنا:
نکاح کے فورا بعد چھوارے یا کوئی میٹھی چیز تقسیم کرنا مستحب ہے، اسی طرح نکاح کی خوشی میں ولیمہ کرنا بھی لڑکے کے لئے مستحب ہے۔ اسے چاہئے کہ اپنے اعزواقارب کو اپنی وسعت کے مطابق کھانا کھلائے، بشرطیکہ کوئی نام ونمود نہ ہو اور فضول خرچی نہ ہو۔ کھانا کھلانے کے تعلق سے لڑکی یا اس کے گھر والوں پر کوئی چیز واجب یا مستحب نہیں ہے۔ ولیمہ کرنے کے نام پر لڑکے والے کا لڑکی والے سے کچھ مانگنا درست نہیں۔ اگر وسعت نہ ہو تو ولیمہ ہی نہ کرے، مگر دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔
........
لڑکے والوں کے لئے ولیمہ کرنا سنت ہے نہ کہ لڑکی والوں کے لئے
(مستفاد: کتاب النوازل، 8/470)
عبدالمتین اسلامپوری
........
ولیمہ وہی کہلاتا ہے جو مرد اپنی طرف سے نکاح کی خوشی میں نکاح کے بعد کرے، لڑکی والے سے پیسے لے کر ولیمہ کرنا بے غیرتی کی بات ہے اور ناجائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
........
(۱) لڑکی جب شوہر کے گھر رخصت ہوکر آجاتی ہے اس کے بعد شوہر کی طرف سے جو دعوت ہوتی ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں، ولیمہ مسنون ہے۔
(۲) صرف نکاح کرنے پر بھی اگر لڑکا دعوت کرے تو یہ بھی مستحب ہے۔ البتہ لڑکی کے یہاں دعوت کا ثبوت شریعت سے نہیں ہے۔ شکرانہ کی دعوت سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اسے واضح کریں۔
(۳) چند خواتین لڑکی کو دیکھنے گئی اور بطور ضیافت لڑکی والوں کی طرف سے انھیں ناشتہ یا کھانا کھادیا گیا اس میں حرج نہیں ہے، لیکن اس موقعہ پر لوگوں کو دعوت دے کر بلانا، من جملہ رسوم قبیحہ کے ہے۔
(۴) لڑکے والوں کا جہیز مانگنا سخت قبیح حرکت ہے، البتہ بوقت رخصتی یا پہلے وبعد لڑکی کے والدین اپنی حیثیت کے مطابق کچھ کام اور ضرورت کی چیزیں اپنی لڑکی یا داماد کو دیدیں تو اس کی گنجائش ہے، مگر ریا، نمود، تفاخر، کے طور پر دینا یا رسم کی پاس داری کرتے ہوئے دینا، منجملہ رسوم قبیحہ کے ہے، جس کا ترک کرنا ضروری ہے، سامان جہیز لرکی یا داماد جس کو دیا گیا ہے اس کی ملکیت ہے، ایک دوسرے کی اجازت ومرضی سے دونوں ایک دوسرے کا سامان استعمال کرسکتے ہیں۔
(۵) اس کا حکم بھی وہی ہے جو نمبر (۴) میں مذکور ہوا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

..........
نکاح نامہ کی حیثیت:
نکاح نامہ کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے، بعض دفعہ اس کی ضرورت پڑتی ہے، اس لئے نکاح نامہ تیار کروالینا بھی بہتر ہے۔ تاہم اس کے بغیر بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
نکاح کا رجسٹریشن کروانا:
 متعلقہ سرکاری دفتر میں جاکر نکاح کا رجسٹریشن کروالینا چاہئے، تاکہ سرکاری طور پر بھی نکاح کا ریکارڈ رہے، البتہ رجسٹریشن کئے بغیر بھی نکاح شریعت کی نظر میں صحیح ہوجاتا ہے۔
....................
قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
قاضی شریعت      
دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ،
رابطہ : 8080697348

1 comment:

  1. Enter your comment..کیا اسلام میں زبانی نکاح ہو سکتا ہے اگر ہو سکتا ہے تو طریقہ کیا ہے؟

    ReplyDelete