Sunday 9 July 2017

ایک بے زبان مظلوم کی نوائے درد!

(بیت المقدس یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر حضرت عیسٰی کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔

بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔

قدیم تاریخ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سليمان علیہ السلام (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔

ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزیر علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔

بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔

137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نےعیسائیت قبول کر لی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔

مسلم تاریخ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے،2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔

1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔

جدید تاریخ اور یہودی قبضہ پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیےاسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔

مسجد اقصی
مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا الحرم القدسی الشریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے -

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔

مسلم تعمیرات --- جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔

مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سليمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ “

سانحہ بیت المقدس 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ ۔ صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں گے۔

اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہوگئی۔

یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا)

میں ایک بے زبان ستم رسیدہ ہوں، جس کو چالیس سال سے سفاک دشمنوں نے قید کر رکھا ہے، میری تاریخ بہت قدیم ہے، کہا جاتا ہے کہ ڈھائی ہزار سال قبل مسیح، کنعانی خانہ بدوش میری آغوش میں فروکش ہوئے، اس کے بعد سے میں ہمیشہ ہی لٹتی اور بستی رہی حضرت شیخ الهند رحمھ اللہ کا عکس تحریر میری عظمتوں کے کیا کہنے ! کہ یہیں قافلۂ نبوت کے سرخیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے آکر اپنا رخت سفر کھولا اور اپنے ایک صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام کو میری گود میں بسایا، پھر ان کے بیٹے یعقوب اور حضرت یعقوب کے بیٹے حضرت یوسف یہیں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، میرے ہی سینۂ گیتی پر داؤد و سلیمان کا تخت اقتدار قائم ہوا اور انھوں نے عدل و انصاف سے دنیائے انسانیت کو معمور کردیا، موسیٰ و ہارون، طالوت وسموئیل، زکریا و یحییٰ اور عیسیٰ — علیہم السلام — اور کتنے ہی پیغمبروں نے مجھ ہی کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا، یہیں سے دُور دُور تک ہدایت کی روشنی پہنچی اور بندوں کا ان کے رب سے رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی گئی، پھر مجھے ہی یہ شرف حاصل ہوا کہ آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی ا نے یہاں سے گذر کر سفر آسمانی طے کیا اور بارگاہ ربانی میں پہنچے ۔
تم سمجھ گئے ہوگے کہ میں کون ہوں اور یہ کس مظلوم کی فغانِ درد ہے؟ میں قدس ہو ، وہی عظیم شہر جس کو مسلمان ’بیت المقدس‘ کہتے ہیں اورجس کا نام اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام نے یروشلم (Jerusalem) رکھا تھا، شاید تم نے میری مقدس نسبتوں کو بھلادیا، تو سنو، کہ میرے بارے میں مقاتل سلیمان جیسے شارح قرآن، محدث اور فقیہ نے کہا تھا:
اس شہر کا کوئی چپہ ایسا نہیں، جس پر کسی نبی مرسل نے نماز نہ پڑھی ہو ، یا مَلِک مُقَرَّب نے قیام نہ کیا ہو، حضرت زکریا علیہ السلام کی دُعا اللہ پاک نے بیت المقدس ہی میں قبول فرماکر انھیں حضرت یحییٰ کے تولد کی بشارت دی، انبیائے کرام علیہم السلام نے بیت المقدس ہی میں اللہ کے تقرب کے لئے نذر و نیاز پیش کی ، بیت المقدس ہی میں حضرت مریم علیہا السلام کو بہ حکم خداوندی جاڑے کے پھل گرمی میں اور گرمی کے پھل جاڑے میں نصیب ہوئے ، یہیں حضرت عیسیٰ بن مریم کی پیدائش ہوئی اور گود میں تکلم فرمایا ، یہیں سے اللہ نے انھیں آسمان پر اُٹھایا ، یہیں ان پر آسمان سے مائدہ (کھانے سے سجا ہوا دسترخوان) نازل ہوا ، بیت المقدس ہی تک (شب اسراء و معراج میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لانے کے لئے اللہ نے آپ کے لئے براق کا انتظام فرمایا تھا۔ (مولانا نور عالم خلیل امینی: فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں : ۱۳ ، بحوالہ الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل)
پھر تاریخ انسانی کے عادل ترین حکمرانوں میں سے ایک ، مرد مؤمن اور صحابی رسول حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ۱۵ھ م ۶۳۶ء کو مجھے ان لوگوں کے ہاتھوں سے آزاد کروایا، جو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ کا پیروکار قرار دیتے تھے؛ لیکن انھوں نے توحید کو چھوڑ کر تثلیث کو اختیار کرلیا تھا، پھر تو ہمیں دنیا کی سب سے مقدس و محترم جگہ ہونے کا شرف حاصل ہوگیا ، بڑے بڑے صحابۂ و تابعین نے اپنے قیام کے لئے میرا انتخاب کیا اور نابغۂ روزگار محدثین و فقہاء اور علوم اسلامی کے بحر ناپید اکنار کے غواص علماء یہاں پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کے علم کا فیض جاری ہوا۔
اس کے بعد ۶۳۵ء سے ۱۹۱۷ء یعنی بارہ سو سال تک میری تاریخ کا روشن اور تابناک دور رہا ، جب میں پوری دنیا کے توحید کے متوالوں کا مرجع تھا ، حجاج کی بڑی تعداد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عبادت انجام دینے کے بعد میرا رُخ کرتی تھی ، اور سر کے بل چل کر پہنچتی اور قدم بوس ہوا کرتی تھی ، یہاں علوم اسلامی کی کتنی مسند ِدرس بچھی ہوئی تھیں، عربی زبان اس خطے کی اصل زبان تھی اور عربی و اسلامی تہذیب نے ہمیں اپنے ثقافتی ورثہ سے مالا مال کردیا تھا ؛ لیکن پھر ایسا ہوا کہ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے ردعمل میں وہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی اور عیسائیوں کے مذہبی جذبات کو اُبھار کر صلیبی جنگ شروع ہوئی ، اس جنگ میں پورا یورپ اور پوری عیسائی دنیا متحد تھی ، آخر جولائی ۱۰۹۹ء میں صلیبی فوجیں مجھ پر قابض ہوگئیں اور میری پیشانی پر صلیب نصب کر دی گئی ، یا تو مسلمانوں کے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے اس طرح ہمیں فتح کیا تھا کہ خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا ، عیسائیوں اور یہودیوں کو پوری پوری امان دی گئی اور ان کی عبادت گاہوں کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا، یا صلیبی دہشت گردوں نے یہاں ایسا قتل عام کیا کہ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں تک کو نہیں بخشا گیا، آٹھ روز تک قتل عام ہوتا رہا اور تقریباً ساٹھ، ستر ہزار افراد قتل کردیئے گئے، جن کی لاشیں پورے شہر میں بکھری ہوئی تھیں، جب میرے احاطہ میں جس کو وہ 'سلیمان کا معبد' کہتے تھے، وہ داخل ہوئے تو ان کے گھوڑوں کے گھٹنوں تک مسلمانوں کا خون بہہ رہا تھا۔
اس وقت مسلمانوں میں غیرت تھی اور مسلمان حکمرانوں کی نظر میں اپنے اقتدار سے زیادہ اسلام کی سربلندی کی اہمیت تھی ؛ چنانچہ عماد الدین زنگی اور نور الدین زندگی جیسے حکمرانوں نے پورے خلوص کے ساتھ صلیبی طاقتوں کو شکست دینے اور مجھے واپس حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور آخر اس خواب کو مرد مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی نے پورا کیا ، اور ۹۰ سال کے تکلیف دہ وقفہ کے بعد ۱۱۸۷ء میں اسلام کے ہی فرزند ارجمند کے ہاتھوں مجھے ظالموں کے پنجۂ استبداد سے آزادی حاصل ہوئی ، یہ ترک فاتح ایسا رحم دل تھا کہ اس نے شہر میں کسی بھی خون خرابے کو منع کردیا اور معمولی فدیہ لے کر مفتوحین کو آزاد کردیا، اس کے بعد بھی ہم پر اہل تثلیث کی طرف سے یلغار ہوتی رہی ؛ لیکن اللہ کی مدد سے اہل توحید ہی کو غلبہ نصیب ہوتا رہا اور میری آبرو محفوظ رہی ۔
اللہ ترکوں کو جزاء خیر دے اور ان کی عظمت رفتہ کو واپس لائے کہ انھوںنے صدیوں حکومت کی ، ان سے میرا سودا کرنے کی بہت کوشش کی گئی ؛ لیکن کبھی انھوںنے دینی غیرت اور ملی حمیت کو فروخت نہیں کیا ، یہاں تک کہ خلافت ِعثمانیہ اہل تثلیث کی سازشوں اور عربوں کی نادانی اوراقتدار کی حرص و ہوس کی وجہ سے کمزور ہوگئی ،اب اس کا چل چلاؤ تھا ، اس کے علاقے اس کے قبضے سے نکل رہے تھے اور سلطنت قرض میں ڈوب چکی تھی ، یہودیوں نے اپنا ایک نمائندہ ’’ ایما نویل قراصو‘‘ کو سلطان عبد الحمید ثانی ۱۹۱۸ء کے پاس بھیجا کہ اگر سلطان فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کی اجازت مرحمت فرمادیں تو صہیونی تحریک خلافت عثمانیہ کو پچاس کروڑ پاؤنڈ کا اور سلطان کے ذاتی خزانہ کے لئے پچاس لاکھ پاؤنڈ کا نذرانہ پیش کرے گی ، یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ خلافت کا پورا قرض ادا ہوجاتا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ شایانِ شان اجر عطا فرمائے سلطان کو، کہ ملت ِاسلامیہ کا یہ فرزند غیور یہودیوں کی اس تحریص و ترغیب سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوا اور اس نے کہا :
ڈاکٹر ہرزل (جو صہیونی تحریک کا بانی اور محرک تھا) سے جاکے کہہ دو کہ اس سلسلہ میں آج کے بعد کوئی سلسلۂ جنبانی نہ کرے ؛ کیوںکہ میں ہرگز دوسروں کو دینے کے لئے ارضِ فلسطین کے ایک بالشت سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتا، ارضِ فلسطین میری ملکیت نہیں ؛ بلکہ وہ میری قوم مسلم کی ملکیت ہے ، جس نے اپنے لہو سے اس کی خاک کو سینچا ہے ، یہودی اپنی لاکھوں کی رقم اپنے پاس رکھیں ۔ ( رسالہ ’’ التبیان ‘‘ قاہرہ ، شمارہ نمبر : ۳۸ ، ۴؍۲۴ ، کالم : ۳ ، ریاست خلافت عثمانیہ اور فاتحین ، بہ قلم ڈاکٹر رضا طیب)
بعض لوگوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سلطان کے سامنے تنکہ گرا ہوا تھا ، اس نے اس تنکے کو اُٹھایا اور یہودی نمائندہ سے کہا کہ قومی وطن تو دور کی بات ہے، میں یہودیوں کو اس تنکے کے برابر جگہ بھی فلسطین میں دینے کو تیار نہیں ہوں لیکن بالآخر مسلمانوں کی باہمی آویزش اور عربوں کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے جنگ عظیم اول (۱۹۱۴ء- ۱۹۱۸ء) کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے ، عاقبت نا اندیش عربوں نے اپنا پورا وزن ایک عیار اور اسلام دشمن برطانوی فوجی افسر ’’ لارنس آف عربیہ ‘‘ کے پلڑے میں ڈال دیا ، جس نے ان کو یقین دلایا تھا کہ خلافت ختم ہوتے ہی یہ پوری سلطنت عربوں کے حوالہ کردی جائے گی ، اس جنگ میں جرمنی اتحاد کو شکست ہوئی ، جس میں ترکی شامل تھا ، اور برطانوی اتحاد کو کامیابی حاصل ہوئی ، اس کے نتیجے میں اس پورے علاقہ کو مغربی ملکوں نے آپس میں تقسیم کرلیا ، فلسطین برطانیہ کے حصہ میں آیا اور اس کے وزیرخارجہ ’’ آرتھو جیمس بالفور ‘‘ نے ۱۷۹۱ء میں فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک فوجی وطن قائم کرنے کا وعدہ کیا ، جس کو ’’ وعدۂ بالفور ‘‘ کہتے ہیں ، پھر تو برطانیہ نے پوری دنیا سے لا لاکر یہودیوں کو یہاں آباد کرنا شروع کردیا اور ایک یہودی مملکت قائم کرنے کی بھرپور تیاری کرلی ، بالآخر نومبر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر ۱۸۱ پاس کی ، جس کے تحت فلسطین کو عربی اور یہودی سلطنتوں میں تقسیم کردیا گیا ، یہودی ریاست کو ۵۴ فیصد زمین دی گئی اور عربی ریاست کو ۴۵ فیصد ، اور ایک فیصد یعنی بیت المقدس کی جگہ کو عارضی طورپر عالمی خطہ قرار دیا گیا ؛ چنانچہ ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کو صہیونیوں نے مملکت اسرائیل کا اعلان کردیا ، لاکھوں فلسطینی اُجاڑ دیئے گئے ، اس کے بعد سے پھر بار بار ان کا قتل عام ہوتا رہا اور آخر عرب قومیت کے جاہلی جذبہ سے متاثر ہوکر خلافت ِاسلامی کا قصر عالی مقام منہدم کرنے والوں کو ان کی شامت اعمال کی سزا جلد ہی مل گئی ۔
ابھی بھی میں عربی ریاست ہی کا حصہ تھا؛ لیکن ۱۹۶۷ء کی جنگ میں مجھ پر بھی اسرائیل نے تسلط جما لیا ، اس وقت کے حکمراں موجودہ حکمرانوں سے کہیں بہتر تھے ، انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے اور ۱۹۶۷ء کا مقبوضہ علاقہ واپس حاصل کرکے رہیں گے ، متعدد بار اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے اس کے حق میں قرار داد بھی منظور کرائی گئی ؛ لیکن اسرائیل اور مغربی ممالک نے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ : ’’ جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ‘‘ آخر مسلم حکمرانوں کی حرص و طمع اور ضمیر فروشی نے رنگ لانا شروع کیا ؛ چنانچہ ۱۹۶۷ء میں مصری صدر انور السادات نے اسرائیل سے ہاتھ ملا لیا ، پھر اُردن نے سر جھکایا ، یہاں تک کہ ’ تنظیم آزادی فلسطین ‘جو فلسطینیوں کی اصل نمائندہ تنظیم تھی ، نے ۱۹۹۱ء میں میڈرڈ ( اسپین ) میں اسرائیل سے مذاکرات کئے اور بالآخر ۱۹۹۳ء میں معاہدہ امن پر دستخط ہوگیا ، اس میں فلسطین کو نہ وطن ملا اور نہ بیت المقدس ، نہ پندرہ سے بیس لاکھ اُجاڑے گئے فلسطینیوں کی واپسی کی ضمانت حاصل ہوئی ، صرف زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا دے دیا گیا کہ بچے کچھے فلسطینی اسرائیل کی غلامی میں زندگی کی سانس لیتے رہیں ، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس معاہدہ میں میرے بیٹوں نے میری آبرو فروخت کردی ، نہ اسلامی اقدار کا لحاظ رکھا اور نہ عربی غیرت کا کوئی پاس۔
یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ خود فلسطین میں جذبۂ شہادت سے سرشار کچھ لوگ اُٹھے اور انھوںنے ظاہری وسائل سے محروم ہونے کے باوجود جہاد شروع کیا ، جن میں سرفہرست شیخ عز الدین محمد قسام ہیں ، وہ واقعی بڑا مرد مجاہد اور اسلامی حمیت سے سرشار شخصیت کا مالک تھا ، مجاہدین کی یہ تحریک ’ حماس ‘ کے نام سے آگے بڑھی اور وہ اب بھی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے میری آزادی کی جدوجہد کررہی ہے ؛ لیکن آہ اور صدبار آہ ! کہ جو مسلمان مجھے اپنا قبلۂ اول کہتے ہیں اور اپنے نبی کے سفر آسمانی کی پہلی منزل قرار دیتے ہیں ، انھوںنے اپنے دل ودماغ صہیونیوں کے ہاتھ بیچ دیئے ہیں ، انھوںنے چھپے طورپر اسرائیل سے گہرے دوستانہ مراسم قائم کرلیئے ہیں ، مصر میں جب سے اس عہد کے سب سے بڑے منافق ’’ سیسی ‘‘ نے ظلم و جور کے ذریعہ اپنی آمریت قائم کی ہے ، اس نے حماس پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے ، امریکہ اوراسرائیل کی ہاں میں ہاں ملاکر عرب حکومتوں نے میری بازیابی کی کوشش کو دہشت گردی قرار دے دیا ہے ، اسرائیل نے کئی بار مسلمانوں اورعربوں کے مقتل سجائے ہیں ؛ لیکن وہ دہشت گرد نہیں ہیں اور جو لوگ اپنے مادر وطن اور مقدس مقامات کی آزادی کی لڑائی لڑرہے ہیں ، وہ دہشت گرد ہیں ، خلافت ِعثمانی کا جانشین ترکی اور اس کا صدر طیب اُردگان ’ بیاباں کی اس شب تاریک میں قندیل رہبانی ‘ کا درجہ رکھتا ہے ، اس کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے ، قطر نے ہمارے سینہ گیتی پر بسنے والوں کو انسانی مدد فراہم کی ، اسی کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے ، اسرائیل کے جہاز عرب ملکوں کی فضاؤں سے گذرسکتے ہیں ؛ لیکن اس برادر مسلم ملک کا جہاز ان کی فضا سے نہیں گذرسکتا ، جب کوئی جھوٹ بولنے اور اس کو پھیلانے کا عادی ہوجاتا ہے تو اس میں سچ کو سننے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ؛ اسی لئے ظالموں نے اپنے ظلم کی پردہ پوشی کے لئے الجزیرہ کی آواز بند کرنے کا تہیہ کرلیا ہے ؛ تاکہ مظلوموں کی آہ بھی لوگوں تک نہ پہنچ سکے ، اور سنا ہے کہ عرب حکمراں مل جل کر میرے کفن دفن کا نظم کرنے کی سازش میں مشغول ہیں کہ حماس کو اُجاڑ دیا جائے ، بھاگنے والے فلسطینیوں کو سینا کے بے آب و گیاہ صحرا میں بسادیا جائے اور غزہ اسرائیل کے حوالہ ہو جائے ؛ تاکہ فلسطین کا مسئلہ ختم ہوجائے اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بھی بلند نہ ہو ۔
میرے سینے سے ہوک سی اُٹھتی ہے ، میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر رواں ہے ، میرے ہونٹوں سے نکلنے والے فغانِ درد نے بے زبان شجر و حجر کو بھی تڑپا دیا ہے ، کاش ! کوئی عمر فاروق ظاہر ہوتا اور ہمیں اس اسیری سے نجات دلاتا ، کاش ! کوئی صلاح الدین ایوبی آتا اور ہمیں اس قید ظلم وجور سے آزاد کردیتا ، اور کاش ! آج کے مسلم حکمرانوں میں کوئی سلطان عبد الحمید ہوتا جو مادی نقصان اور اقتدار سے محرومی کو تو گوارا کرلیتا ؛ لیکن دینی حمیت اور ملی غیرت کا سودا نہیں کرتا !!
(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)

No comments:

Post a Comment