سیرت النبی سے رجوع کیجئے تو پتہ چلے گا کہ تمام جائز پیشوں میں'پیشہ تجارت' اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کا سب سے پسندیدہ پیشہ ہے، جسے خود شادی سے قبل آپ نے کیا بھی ہے. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ کاروبار پر نوکری کو ترجیح دینا شاید ہمارے خمیر میں شامل ہوچکا ہے، بہت سے لوگ ہمت نہیں کرتے اور بعض کے لئے عام سا کام کرنا ناک کٹوانے والی بات ہے۔ اور ان کی شان کے خلاف ہے.
یہی وجہ ہے کہ جب کسی ادارے میں 100 آسامیاں نکلتی ہیں تو وہاں بلا مبالغہ 10 لاکھ درخواستیں جمع ہوجاتی ہیں،
ہماری اسی بزدلانہ سوچ سے فائدہ اٹھاکر ہی گورنمنٹ NTS جیسے گینگ کے ساتھ مل کر جاب کا اعلان کرتی ہے،
عوام فوج در فوج چپڑاسی سے لے کر کلرک اور فیلڈ آفیسر سے لے کر ڈرائیور تک کی سیٹس پر اپلائی کردیتی ہے، جبکہ ہر سیٹ پر اپلائی کرنے کی فیس 400 سے لے کر 1000 تک ہوتی ہے.
اس طرح دونوں ادارے مل کر اربوں روپے کمالیتے ہیں اور عوام حالات کو کوستے رہ جاتی ہیں، سوائے ان 100 کے جن کو جاب ملی ۔۔۔ لیکن اپنے کاروبار کا خیال کسی کو نہیں آتا بلکہ اگلی جاب ڈھونڈنے لگتے ہیں اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے ۔
ہم وہ لوگ ہیں جو نعوذباللہ MBA کرکے بھی جاب ڈھونڈتے ہیں، خاص طور پر جو بچہ 12،14 کلاسیں پڑھ گیا اب مجال ہے جو وہ اپنے کام کا سوچے،
میں ڈگری یا تعلیم کی مخالفت بالکل نہیں کررہا کہ یہ آپ میں اعتماد پیدا کرتی ہے، آپ کے روابط پڑھے لکھے لوگوں سے بناتی ہے، آپ میں گفتگو کی صلاحیت پیدا کرتی ہے، آپ کی زبان صاف کرتی ہے
لیکن یہ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے حضور کہ اب آپ نے کسی کے تھلے رہ کر 15 ،20 ہزار کی نوکری ہی کرنی ہے، ذلیل ہونا ہے، آپ اپنے محلے اور خاندان میں ہی خوشحال کاروباری لوگوں پر نظر دوڑا لیں کہ وہ کتنے پڑھے لکھے ہیں؟؟؟
اکثریت کی تعلیم ان شآءاللہ واجبی سی نکلے گی، خاص طور پر سبزی منڈی، غلہ منڈی پر تو 80% ان پڑھ طبقے کا راج ہے، تو جب وہ کرسکتے ہیں تو یقین کریں آپ ان سے سو گنا اچھے طریقے سے کام کرسکتے ہیں ۔ بس جِگرا ہونا چاہئے۔
ہمارے قریب ہی ایک شخص نے 5 ،6 سال قبل تندور پر روٹیاں لگانے سے کام شروع کیا تھا، اور اب چھوٹے سے ہوٹل کا مالک ہے، ساتھ والی جگہ بھی لے لی ہے، 4 آدمی کام پے رکھے ہوئے ہیں اور خود بیٹھ کر بس ان کو گالیاں بکتا ہے، سپروائز کرتا ہے اور پیسے گنتا ہے، مزے کی بات یہ کہ اَن پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ جاہل اُجڈ بھی ہے اور کاروباری اصولوں سے نابلد بھی، میں اسے دیکھ کر یہی سوچتا ہوں کہ اگر یہ پڑھا لکھا ہوتا تو اور بھی ترقی کرسکتا تھا،
ایک اور عزیز ہیں ان کے 4 پڑھے لکھے بیٹے ہیں، بہت اچھا کماتے ہیں، ایک بیٹا نِکما نکلا، پڑھنے سے انکاری ہوا اور موٹر سائیکل مکینک کے پاس کچھ عرصہ کام سیکھ کر اپنی ورکشاپ بنالی اور اب چاروں بھائیوں جتنا اکیلا کماتا ہے،
اس طرح کی بہت سی مثالیں اور بھی ہیں، لیکن پھر بھی ہماری اکثریت اس طرف نہیں آتی،
حالانکہ ہمارا ملک گنجان آبادی کی وجہ سے کاروباری اعتبار سے بہت موزوں ہے، گاہک بھی کچھ ہی عرصہ میں بڑھ جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لیبر بہت سستی مل جاتی ہے ۔۔۔ اگر ان کو مناسب تنخواہ دے دی جائے تو اسی میں خوش ہوجاتی ہے اور اپنا بزنس شروع کرنے کا رسک لینے کو بے وقوفی سمجھتی ہے ۔۔۔ اگر جدید ٹیکنیکل انداز میں ان کو استعمال کیا جائے تو ان کے سہارے آپ تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں اور بجائے روزگار ڈھونڈنے کے دوسروں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مناسب تجربہ، محنت اور مستقل مزاجی، نت نئے انداز اور دیانتداری جیسے اصولوں کو سامنے رکھ کر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ترقی نہ کریں باذن اللہ،
اگر آپ غربت کے منحوس چکر سے نکلنا چاہتے ہیں تب تو آپ کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ آپ اپنے کام کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں ورنہ بس گذارا ہی کرتے رہیں گے لیکن ترقی نہیں کرپائیں گے،
اپنے علاقے کی مارکیٹ کو دیکھ کر اور کسی سمجھدار شخص سے مشورہ کرکے جلد از جلد کسی شعبے میں تجربہ لینا شروع کردیں، یا جس جگہ نوکری کرتے ہیں اُدھر ہی ہر چیز کو اس اینگل سے دیکھنا شروع کردیں کہ آپ اگر یہی خود کا کام کریں تو کن کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی،
بعض لوگ ناتجربے کاری کا بہانہ کرکے دبکے بیٹھے رہتے ہیں اور نوکری میں ذلیل ہوتے رہتے ہیں، یاد رکھیں تجربے سے مراد بس اس شعبے سے متعلق بنیادی معلومات جان لینا ہے جو غبی سے غبی ذہن کا انسان بھی 2 ،3 سال میں سیکھ سکتا ہے باقی اصل تجربہ تو اپنے ہاتھ سے کرنے سے ہی آئیگا ، پھر ہمارے عوام بھی ابھی اتنے پروفیشنل نہیں کہ آپ کا تجربہ اور مہارت چیک کرتے پھریں،
ایک لڑکے نے 3 سال پہلے میرے سامنے ڈینٹل کلینک کھولا، پتہ چلا کہ باقاعدہ ڈینٹسٹ نہیں ہے کوئی چھوٹا موٹا ڈپلومہ کیا ہے، میں نے اس وقت یہی سوچا کہ بھاگ جائیگا، اس کے پاس کون آئیگا، مارکیٹ بھی ایسی کہ وہاں یا تو ایزی ریچارج والوں کی دکانیں ہیں یا کتابوں کی، اور واقعی ایک سال تک وہ خالی اور بیکار بیٹھا رہا لیکن ہمت نہیں ہاری، جما رہا اور آج اس کے کلینک کا ماحول ہی بدل چکا ہے، اے سی لگوایا ہوا ہے، مشینری جدید لے لی ہے اور کان کھجانے کی فرصت نہیں، حالانکہ اسی شہر میں ہی نشتر اور ابنِ سینا میں باقاعدہ درجنوں پروفیشنل ڈاکٹرز معمولی فیس کے ساتھ بہترین علاج کررہے ہیں،
لیکن کیا ہے کہ لوگوں کے پاس جاننے کا وقت ہی نہیں ہے،
تو دوستو اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں، ٹیلینٹد ہیں، کری ایٹو دماغ رکھتے ہیں تو آج سے ہی اپنا کاروبار کرنے کا مضبوط ارادہ کریں بھلے چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو، ایک ڈائری اٹھائیں، لائحہ عمل تیار کریں اور اس پر کام شروع کردیں ۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ جب کسی ادارے میں 100 آسامیاں نکلتی ہیں تو وہاں بلا مبالغہ 10 لاکھ درخواستیں جمع ہوجاتی ہیں،
ہماری اسی بزدلانہ سوچ سے فائدہ اٹھاکر ہی گورنمنٹ NTS جیسے گینگ کے ساتھ مل کر جاب کا اعلان کرتی ہے،
عوام فوج در فوج چپڑاسی سے لے کر کلرک اور فیلڈ آفیسر سے لے کر ڈرائیور تک کی سیٹس پر اپلائی کردیتی ہے، جبکہ ہر سیٹ پر اپلائی کرنے کی فیس 400 سے لے کر 1000 تک ہوتی ہے.
اس طرح دونوں ادارے مل کر اربوں روپے کمالیتے ہیں اور عوام حالات کو کوستے رہ جاتی ہیں، سوائے ان 100 کے جن کو جاب ملی ۔۔۔ لیکن اپنے کاروبار کا خیال کسی کو نہیں آتا بلکہ اگلی جاب ڈھونڈنے لگتے ہیں اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے ۔
ہم وہ لوگ ہیں جو نعوذباللہ MBA کرکے بھی جاب ڈھونڈتے ہیں، خاص طور پر جو بچہ 12،14 کلاسیں پڑھ گیا اب مجال ہے جو وہ اپنے کام کا سوچے،
میں ڈگری یا تعلیم کی مخالفت بالکل نہیں کررہا کہ یہ آپ میں اعتماد پیدا کرتی ہے، آپ کے روابط پڑھے لکھے لوگوں سے بناتی ہے، آپ میں گفتگو کی صلاحیت پیدا کرتی ہے، آپ کی زبان صاف کرتی ہے
لیکن یہ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے حضور کہ اب آپ نے کسی کے تھلے رہ کر 15 ،20 ہزار کی نوکری ہی کرنی ہے، ذلیل ہونا ہے، آپ اپنے محلے اور خاندان میں ہی خوشحال کاروباری لوگوں پر نظر دوڑا لیں کہ وہ کتنے پڑھے لکھے ہیں؟؟؟
اکثریت کی تعلیم ان شآءاللہ واجبی سی نکلے گی، خاص طور پر سبزی منڈی، غلہ منڈی پر تو 80% ان پڑھ طبقے کا راج ہے، تو جب وہ کرسکتے ہیں تو یقین کریں آپ ان سے سو گنا اچھے طریقے سے کام کرسکتے ہیں ۔ بس جِگرا ہونا چاہئے۔
ہمارے قریب ہی ایک شخص نے 5 ،6 سال قبل تندور پر روٹیاں لگانے سے کام شروع کیا تھا، اور اب چھوٹے سے ہوٹل کا مالک ہے، ساتھ والی جگہ بھی لے لی ہے، 4 آدمی کام پے رکھے ہوئے ہیں اور خود بیٹھ کر بس ان کو گالیاں بکتا ہے، سپروائز کرتا ہے اور پیسے گنتا ہے، مزے کی بات یہ کہ اَن پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ جاہل اُجڈ بھی ہے اور کاروباری اصولوں سے نابلد بھی، میں اسے دیکھ کر یہی سوچتا ہوں کہ اگر یہ پڑھا لکھا ہوتا تو اور بھی ترقی کرسکتا تھا،
ایک اور عزیز ہیں ان کے 4 پڑھے لکھے بیٹے ہیں، بہت اچھا کماتے ہیں، ایک بیٹا نِکما نکلا، پڑھنے سے انکاری ہوا اور موٹر سائیکل مکینک کے پاس کچھ عرصہ کام سیکھ کر اپنی ورکشاپ بنالی اور اب چاروں بھائیوں جتنا اکیلا کماتا ہے،
اس طرح کی بہت سی مثالیں اور بھی ہیں، لیکن پھر بھی ہماری اکثریت اس طرف نہیں آتی،
حالانکہ ہمارا ملک گنجان آبادی کی وجہ سے کاروباری اعتبار سے بہت موزوں ہے، گاہک بھی کچھ ہی عرصہ میں بڑھ جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لیبر بہت سستی مل جاتی ہے ۔۔۔ اگر ان کو مناسب تنخواہ دے دی جائے تو اسی میں خوش ہوجاتی ہے اور اپنا بزنس شروع کرنے کا رسک لینے کو بے وقوفی سمجھتی ہے ۔۔۔ اگر جدید ٹیکنیکل انداز میں ان کو استعمال کیا جائے تو ان کے سہارے آپ تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں اور بجائے روزگار ڈھونڈنے کے دوسروں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مناسب تجربہ، محنت اور مستقل مزاجی، نت نئے انداز اور دیانتداری جیسے اصولوں کو سامنے رکھ کر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ترقی نہ کریں باذن اللہ،
اگر آپ غربت کے منحوس چکر سے نکلنا چاہتے ہیں تب تو آپ کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ آپ اپنے کام کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں ورنہ بس گذارا ہی کرتے رہیں گے لیکن ترقی نہیں کرپائیں گے،
اپنے علاقے کی مارکیٹ کو دیکھ کر اور کسی سمجھدار شخص سے مشورہ کرکے جلد از جلد کسی شعبے میں تجربہ لینا شروع کردیں، یا جس جگہ نوکری کرتے ہیں اُدھر ہی ہر چیز کو اس اینگل سے دیکھنا شروع کردیں کہ آپ اگر یہی خود کا کام کریں تو کن کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی،
بعض لوگ ناتجربے کاری کا بہانہ کرکے دبکے بیٹھے رہتے ہیں اور نوکری میں ذلیل ہوتے رہتے ہیں، یاد رکھیں تجربے سے مراد بس اس شعبے سے متعلق بنیادی معلومات جان لینا ہے جو غبی سے غبی ذہن کا انسان بھی 2 ،3 سال میں سیکھ سکتا ہے باقی اصل تجربہ تو اپنے ہاتھ سے کرنے سے ہی آئیگا ، پھر ہمارے عوام بھی ابھی اتنے پروفیشنل نہیں کہ آپ کا تجربہ اور مہارت چیک کرتے پھریں،
ایک لڑکے نے 3 سال پہلے میرے سامنے ڈینٹل کلینک کھولا، پتہ چلا کہ باقاعدہ ڈینٹسٹ نہیں ہے کوئی چھوٹا موٹا ڈپلومہ کیا ہے، میں نے اس وقت یہی سوچا کہ بھاگ جائیگا، اس کے پاس کون آئیگا، مارکیٹ بھی ایسی کہ وہاں یا تو ایزی ریچارج والوں کی دکانیں ہیں یا کتابوں کی، اور واقعی ایک سال تک وہ خالی اور بیکار بیٹھا رہا لیکن ہمت نہیں ہاری، جما رہا اور آج اس کے کلینک کا ماحول ہی بدل چکا ہے، اے سی لگوایا ہوا ہے، مشینری جدید لے لی ہے اور کان کھجانے کی فرصت نہیں، حالانکہ اسی شہر میں ہی نشتر اور ابنِ سینا میں باقاعدہ درجنوں پروفیشنل ڈاکٹرز معمولی فیس کے ساتھ بہترین علاج کررہے ہیں،
لیکن کیا ہے کہ لوگوں کے پاس جاننے کا وقت ہی نہیں ہے،
تو دوستو اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں، ٹیلینٹد ہیں، کری ایٹو دماغ رکھتے ہیں تو آج سے ہی اپنا کاروبار کرنے کا مضبوط ارادہ کریں بھلے چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو، ایک ڈائری اٹھائیں، لائحہ عمل تیار کریں اور اس پر کام شروع کردیں ۔۔۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اللہ نے رزق کے دس حصے کیے ہیں اور اکیلے نو حصے تجارت میں ہیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو تجارت کی طرف راغب ہو نا چاہیے۔ جس طرح ہر کام کے اصول ہوتے ہیں، اسی طرح تجارت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن پر عمل کرکے ہی کامیابی مل سکتی ہے۔آج سے صدیوں پہلے صحابہ کرام نے اسلامی اصولوں کے تحت تجارت شروع کی تو لوگ ان کی ایمانداری اور خوش اخلاقی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے لگے ۔
ایک چینی کہاوت ہے:
’’جو شخص خوش اخلاق نہیں ہے، اسے دکان نہیں کھولنی چاہیے۔‘‘
ہمارا تو یہ حال ہے کہ اگر ہمارا کاروبار نہیں چل رہا ہے تو برکت کے لیے قرآن خوانی اور آیت کریمہ کا ورد کر وائیں گے۔ اور اگر کاروبار چلنے لگ گیا تو گاہکوں سے خاص طور پر چھوٹے گاہکوں سے بے حد بے رخی یا پھر انتہائی بد تمیزی سے پیش آئیں گے۔تجارت شروع کرنے اور کامیابی سے جاری رکھنے کے لیے کچھ اصول ذکر کیے جارہے ہیں انہیں اچھی طرح یاد رکھیں:
٭…اللہ نے رزق کے دس حصے کیے ہیں اور اکیلے نو حصے تجارت میں ہیں ٭…چینی کہاوت ہے:جو شخص خوش اخلاق نہیں ہے، اسے دکان نہیں کھولنی چاہیے ٭
قرض لے کر کاروبار ہر گز شروع نہ کریں، بلکہ پہلے کچھ بچت کریں پھر پونجی لگائیں۔صرف قرض سے کاروبارکا آغاز کامیاب تجربہ نہیں ہے۔
تجارت کے لیے سود پر ہر گز پیسہ نہ لیں، کیوں کہ سود میں برکت نہیں، وبال ہے۔ سود اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
ساری جمع پونجی نہ لگادیں کیوں کہ کاروبار جمنے اور اس کو فروغ پانے میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے بلکہ کئی بار سالوں لگ جاتے ہیں، تب تک اپنے گھریلو خرچ کے لیے رقم آپ کے پاس ہونی چاہیے۔
کاروبار چاہے کچھ بھی کریں، اس کا تجربہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے کسی کارخانے یا دکان میں ملازمت کریں یا کوئی اورذریعہ اختیارکریں۔ اس سے آپ کو کام کی چھوٹی موٹی چھپی ہوئی اہم چیزیں معلوم ہوں گی۔ہمارے بہت سے بھائی خلیجی ممالک میں زندگی بھر کما کر رقم جمع کرتے ہیں مگر بغیر کسی تجربے کے کوئی بھی کاروبار شروع کر دیتے اور نتیجتاً اپنی ساری رقم ڈبو بیٹھتے ہیں۔
کسی کی دیکھا دیکھی یا دوسروں کے کہنے میں آکر کوئی کاروبار شروع نہ کریں۔تجارت اسی چیز کی کریں جس کا آپ کو تجربہ ہواور اس کی طرف طبیعت راغب ہو۔
کوئی بھی کاروبار کریں، ہمیشہ چھوٹے پیمانے پر شروع کریں۔ پھر بتدریج اسے ترقی دینے کی کوشش کریں۔
اپنے کارخانے اور دکان کے چھوٹے سے چھوٹے کام تک خودبھی انجام دینے کی کوشش کریں خواہ اس کے لیے ملازم ہی کیوں نہ موجود ہو ،تاکہ کبھی ان کی اتفاقیہ غیر موجودگی میں آپ کو پریشانی نہ ہو۔
پرانے ملازمین کی قدر کریں اور ان کے سکھ دکھ میں بنفس نفیس شریک ہوں۔اس سے آپ کو ان کے تجربوں سے زیادہ دنوں تک فائدہ ہوتا رہے گا۔
بالخصوص چھوٹے گاہکوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں ،اگر کوئی گاہک سامان نہ بھی خریدے تو بھی اپنی دکان میں آنے کے لیے اس کا شکریہ ادا کریں ۔اگر جگہ ہو تو پانی پلانے کا بھی انتظام رکھیں ۔گاہکوں کے ساتھ آنے والے چھوٹے بچوں کو چاکلیٹ ٹافیاں دیں ۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں لوگوں کا دل جیتنے اور ان کو قریب لانے کا ذریعہ بنتی ہیں ۔
سامان میں اگر واقعی عیب ہو تو بہانے نہ بنائیں بلکہ تبدیل کرکے دیں۔ ٭اپنے کام میں کچھ نہ کچھ دوسروں کے مقابلے انفرادیت لائیں ،ندرت پیدا کریں۔ جیسے: آپ درزی ہیں تو گاہک کے بنا کہے ہی کپڑوں میں ذرا اچھا بٹن لگا دیں۔چائے کا اسٹال چلاتے ہیں تو چائے میں الائچی اور ادرک ڈال دیں ۔کھانے کا ہوٹل ہے تو کھانے کے ساتھ کوئی اچھی سی چٹنی ہی بناکر پیش کردیں ۔بہت ہی معمولی خرچ کرکے بھی آپ اپنی انفرادی پہچان قائم کر سکتے ہیں۔
پیکنگ سے زیادہ کوالٹی پر دھیان دیں۔
اپنے ہم پیشہ لوگوں سے دوستانہ تعلقات بنائیں ،ان سے رابطے میں رہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ہم پیشہ تاجر سے رقابت اور حسد رکھتے ہیں جو کہ نہایت نقصان دہ ہے۔
روزانہ اخبارات کا مطالعہ کریں، کاروباری حالات پر نظر رکھیں۔
اپنی قابلیت سے زیادہ بڑھ چڑھ کر دعویٰ اور وعدہ نہ کریں ،طے شدہ وقت سے پہلے، متوقع کوالٹی سے بہتر اور مقررہ لاگت سے کم میں پورا کیاجانے والا کام گاہک کے اطمینان اور آپ کی کامیابی کا سبب بنتا ہے۔
کاروبار خالص اسلامی اصولوں پر کریں اور اپنی دنیا سمیت آخرت کو بھی بہتر بنانے کا سامان کریں۔زکٰوۃ بالکل صحیح حساب لگاکر ادا کریں اور اپنے کاروبار کی حفاظت صدقہ کے ذریعے کریں ۔قسم کھاکر مال بیچنے سے مال تو بک جاتا ہے مگر برکت ختم ہو جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment