Sunday, 23 July 2017

لطائف تصوف


ایس اے ساگر
ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو لطائف کو لطیفہ کی جمع سمجھ کر اسے ہنسی مذاق پر مبنی چٹکلوں پر محمول کرتے ہیں جبکہ یہ تصوف کی اصطلاح ہے. بعض کے نزدیک جس طرح ہم بدن کے ہر عضو کی نگہداشت کرتے ہیں، ڈاکٹر کو چیک اپ کرواتے رہتے ہیں، وہ بیماری کی نوعیت کے مطابق دوا تجویز کرتا ہے، تو متعلقہ حصہ اپنا کام ٹھیک سے کرنے لگتا ہے۔۔ اسی طرح روح کے اعضاء (لطائف) میں بیماری یا فالج کی صورت میں انکا منفی اثر انسانی نفس ، ضمیر اور مزاج پر پڑتا ہے ۔۔ مثلاً نفس رشوت لینے کا عادی ہے، بد نگاہی میں مبتلا ہے، غیبت میں مزہ آتا ہے، عریانیت کو فیشن سمجھتا ہے ، وغیرہ، تو اس سے مزاج بے دین ہو جاتا ہے، نیکی میں دل نہیں لگتا، اور ضمیر کی موت واقع ہو جاتی ہے، وغیرہ۔۔نگاہوں کے سامنے چونکہ دنیا کی راحتیں زیادہ ضروری ہوتی ہیں اور نفس بھی حرام کھا کر ہٹا کٹا ہو گیا ہوتا ہے، تو یہ روحانی اوصاف پر غالب آجاتا ہے ۔۔ اب روح تو بیمار ہو کر بسترِ مرگ پر پڑی ہے، اور نفس گانے سن کر مزے لے رہا ہے، جھوم رہا ہے ۔۔ اور پتہ ہے اس نفسانی لطف کے بارے میں یار لوگ کیا کہتے ہیں؟ ۔'واقعی بھئی موسیقی توروح کی غذا ہے، دیکھو کیسا لطف آتا ہے جب لتا اور نصرت فتح کے سُر کانوں میں رس گھولتے ہیں'۔۔ نادانوں کو یہ نہیں پتہ کہ نفس کی خوشی اور روح کی تازگی میں کیا فرق ہے ۔۔ روح کی غذا تو اللہ کا ذکر ہے۔۔ نفس مضبوط ہوجائے تو وہ اللہ کے ذکر والی غذا کو بھی بد ہضمی بنا دیتا ہے اور پھر آپ کہتے ہیں کہ ہمیں نماز میں مزہ نہیں آتا ۔۔۔۔! اب ان تمام بیماریوں کے علاج کی فکر لے کر جب ہم کسی روحانی فزیشن کی خانقاہ پر جاتے ہیں تو وہ تشخیص کرتا ہے، اور علاج تجویز کرتا ہے ۔۔ یہاں بطور علاج ہی اسکی قلبی توجہ بھی انتہائی اثر رکھتی ہے ۔۔ 'سر میرا ایک کؤسچن ہے یہاں، کہ یہ قلبی توجہ کیا ہوتی ہے؟'۔۔ عمدہ سوال کیا آپ نے۔۔ یہ وہی کیفیات، برکات اور انوارات ہیں جو اس ماہرین قلب نے سینہ بہ سینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل کئے ہیں، اور اب آپکے دل میں انڈیل رہا ہے ۔۔ یہ دل کی سیاہی کیلئے انک ریموور کا کام کرتے ہیں۔۔اور نتیجے میں انسانی نفس کمزور ہوتا ہے، عبادت کرنا خوشی بن جاتا ہے، جب لطائف پر اللہ کے ذکر کاا سپرے کیا جاتا ہے تو ان میں موجود حشرات مضمحل ہوجاتے ہیں۔۔ اور ایمان کی مضبوطی، دین پر استقامت، گناہ سے نفرت اور اطاعتِ الہٰی کی محبت کے نایاب پھول ناصرف آپکے چمن کو مہکاتے ہیں بلکہ آپکے اردگرد کے ماحول میں بھی خوشبو پھیلا تے ہیں ۔۔ یہی تصوف ہے، اور اسی کو تزکیہ کہتے ہیں ۔۔ القاء، الہام، کشف، وجد، وجدان، استدراج وغیرہ کیا ہیں اور ان کا تصوف ِ اسلام میں کیا مقام ہے، ادراک نصیب ہوتا ہے. 
لطائف
لطائف (Subtleties) لطیفہ کی جمع ہے ایسی باتیں جن کا انسانی حواس ادراک نہ کرسکتے ہوں۔ یہ ایک تصوف کی اصطلاح ہے۔
لطائف کے معانی
اللطیف اللہ تعالیٰ کا ایک نام یعنی وہ ذات جو اپنے بندوں پر لطیف اور مہربان ہے۔ معاملات کے اسرار اور پوشیدگی کو جاننے والا مشکل اور دقیق معنی والا کلام۔ اللطیفہ اللطیف کی مؤنث ہے (دقیق کلام) جس کی جمع اللطائف ہے[1]۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے یعنی بندوں پر احسان کرنے والا، باریک سے باریک بات جاننے والا، ایسا کلام جس کے معانی مخفی ہوں، اللطیفہ نفس میں انسباط پیدا کرنے والا نکتہ، جمع لطائف [2] لطیف: جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جثل کی ضد ہوتا ہے جس کے معانی بھاری اور ثقیل کے ہیں۔ کہتے ہیں شعر جثل (زیادہ اور بھاری بال) اور کبھی لطافۃ یا لطف سے حرکت خفیفہ اور رقیق امور کا سرانجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا انسانی حواس ادراک نہ کر سکتے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معانی یاتو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے ادراک سے مافوق اور بالا تر ہے۔ اور یا اسے اس لئے لطیف کہا جاتا ہے کہ وہ باریک سے باریک اور دقیق امر تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے۔ [3]
لطائف کی حقیقت:
یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جیسے سورج کی روشنی کو زمین اپنی کثافت کے سبب برداشت کرسکتی ہے اور دیگر عناصر لطافت کے سبب متحمل نہیں ہو سکتے اسی طرح تجلی ذاتی کو بھی عنصر خاکی ہی برداشت کرسکتا ہے اور باقی عناصر میں جتنی کثافت ہے اس کے سبب تجلی صفاتی کو تو برداشت کر بھی سکتے ہیں مگر تجلی ذاتی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور عالم امر کے لطائف چونکہ لطیف ہیں اس لیے انہیں تجلیات ذاتیہ سے تو حصہ ملتا نہیں لیکن تجلیات ظلیہ سے کچھ بہرہ مل جاتا ہے اور انسان چونکہ ان دس لطائف سے مرکب ہے جو اجزاء عالم کبیر ہیں اور سوائے انسان کے اور افراد عالم میں یہ لطائف مجتمع نہیں اس لیے وہ خلافت کے قابل اور اس بار امانت کا حامل ہوا. [4]
دس لطائف
انسان کی ساخت دس اجزاء سے ہوئی ہے ان میں سے پانچ 
1. ہوا، 
2. پانی، 
3. آگ، 
4. مٹی اور 
5. لطیف نفس
عالم خلق کے اجزاء ہیں اور پانچ 
1. قلب، 
2. روح، 
3. سر، 
4. خفی اور 
5. اخفیٰ
عالم امر کے اجزاء ہیں ان ہی اجزائے عشرہ کو لطائف عشرہ کہا جاتا ہے عالم خلق عرش کے نیچے کی مخلوقات سے تعلق رکھتے ہیں اور عالم امر عرش سے اوپر کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں (اصل عالم ارواح میں ہیں لیکن تعینات انسانی جسم میں ہیں) جسم انسانی میں یہی جگہیں ہیں جہاں انوار و اسرار اور فیوض و برکات الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے گویا یہ لطائف اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے مختلف راستے ہیں اور ہر راستہ ایک اولو العزم رسول کے زیر قدم ہے انسانی جسم میں آکر ان کی نورانیت زائل ہو گئی ہےاس لئے سالکین ذکر کرنے کے ذریعے دوبارہ ان کو نورانی بنا لیتے ہیں۔
لطیفہ
لطیفہ انسان کے جسم میں محلِ نور کو لطیفہ کہتے ہیں اور اس کو نفس ناطقہ بھی کہتے ہیں یہ وہ جوہر ہے جو مادہ سے خالی ہوتا ہے ان کا نام قرآن میں ہے 
(إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ ۔
ق:37۔ 
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي۔ بنی اسرائیل:85۔ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى۔ طٰہٰ:7۔ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔
(الاعراف:55۔ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا۔ الشمس:7)
لطائف:
جس طرح جسم کے اعضاء ہوتے ہیں، اسی طرح روح کے بھی اعضاء ہوتے ہیں۔ روح چونکہ لطیف ہوتی ہے اس لئے اس کے اعضاء کو لطائف کہا جاتا ہے اور روح کے ایک عضو کو لطیفہ کہتے ہیں۔ انسانی اعضاء میں سے پانچ اعضاء ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک کام کرنا چھوڑ دے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ جیسے؛
1. دل،
2. دماغ،
3. گردے،
4. پھیپھڑے اور
4. جگر۔
انھیں اعضاء رئیسہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح روح کے بھی پانچ لطائف رئیسہ ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کام چھوڑ دے تو انسان کا اللہ تعالٰی کے انوارات سے  تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔ وہ پانچ لطائف یہ ہیں۔
1۔ لطیفہ قلب۔
2۔ لطیفہ روح۔
3۔ لطیفہ خفی۔
4۔ لطیفہ سر۔
5۔ لطیفہ اخفی
لطیفہ قلب
قلب سے مراد گوشت کا ٹکرا نہیں بلکہ ایک لطیفہ ہے جس میں ﷲ فیض ودیعت فرماتا ہے۔
اسے قلب حقیقی کہا جاتا ہے لطیفہِ قلب کا مقام انسان کے جسم میں بائیں پستان کے نیچے دو 2 انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے اس کی فناء قلب پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات افعال کا ظہور ہے اس کی علامت ذکر کے وقت ماسویٰ اللہ کا نسیان اور ذاتِ حق کے ساتھ محوّیت ہے (اگرچہ تھوڑی دیر کے لئے ہو) اس کی تاثیر رفعِ غفلت اور دفعِ شہوت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ:
اللہ تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ وہ ہیں جو اللہ کی مشیئت سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا تعلق اللہ کے فعل سے ہے جیسا کہ استواء علی العرش، نزول الی سماء الدنیا، غضب اور محبت وغیرہ۔
لطیفہ روح
قُلِ الرُّوحُ مِن اَمرِ رَبِّی (بنی اسرائیل:85)
فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے۔
روح ایک اﷲ کی طرف سے عطا کردہ لطیفہ ہے جو ہر جاندار کے لیے ہے اور اس جسمانی زندگی کا سبب ہے۔
اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے۔ اس کی فناء روح پر اللہ تعالیٰ کی صفات ثبوتیہ کا ظہور ہے۔ اس کی علامت ذکر کے وقت کیفیاتِ ذکر (قلبی و روحی) میں اضافہ و غلبہ ہے۔ اس کی تاثیر غصّہ و غضب کی کیفیّت میں اعتدال اور طبیّعت میں اصلاح و سکون کی کیفیت کا ظہور ہے۔
لطیفہ سر
اس کا مقام انسان کے سینے میں بائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ وسط سینہ ہے اس کی فناء لطیفہ سِر پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے شیونات و اعتبارات کا ظہور ہے اس کی علامات ہر دو سابق لطیفوں کی طرح اس میں ذکر کا جاری ہونا اور کیفیات میں ترقی رونما ہونا ہے (یاد رہے کہ یہ مشاہدہ اور دیدار کا مقام ہے) اس کی تاثیر طمع اور حرص کے خاتمے نیز دین کے اُمور کے معاملے میں بلا تکلف مال خرچ کرنے اور فکر آخرت کے جذبات کی بیداری سے ظاہر ہوتی ہے اس کا نور سفید ہے۔
لطیفہ خفی
اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بوسط سینہ ہے۔ اس کی فناء صفات سلبیہ تنزیہ کا ظہور ہے۔ اس کی علامت اس میں ذکر کا جاری ہونا او عجیب و غریب احوال کا ظہور ہے اس کی تاثیر حسد و بخل اور کینہ و غیبت جیسی امراض سے مکمل نجات حاصل ہو جانے سے ظاہر ہوتی ہے اس کا نور سیاہ ہے۔
لطیفہ اخفی
اس کا مقام انسان کے جسم میں وسط سینہ ہے اس کی فناء مرتبہ تنزیہ اور مرتبہ احدیت مجردہ کے درمیان ایک برزخی مرتبے کے ظہور و شہود سے وابستہ ہے اور یہ ولائت محمدیہ علیٰ صاحبہ الصلوات کا مقام ہے اس کی علامت اس میں بلا تکلف ذکر کا جاری ہونا اور قرب ذات کا احساس و شہود ہے اس کی تاثیر فخر و غرور اور خود پسندی جیسی روحانی امراض سے رہائی پانے اور مکمل حضور و اطمینان کےحصول سے ظہور پزیر ہوتی ہے اس کا نور سبز ہے۔
جیسے جسم میں اعضاء کی جگہ مقرر ہے ایسے ہی لطائف کی جگہ بھی مقرر ہے۔ جس طرح ہر عضو رئیسہ کی مادی خوراک ہے اسی طرح ہر لطیفہ کی خوراک ایک نور ہے۔ ان انوارات کے مخصوص رنگ ہیں اور ہر لطیفہ کا نور اللہ تعالٰی کی ذات سے اس لطیفہ پر کسی نبی علیہ السلام کے ذریعہ وارد ہوتا پے۔
ہر لطیفہ کی اپنی مخصوص بیماری ہے۔ جب خدا نخواستہ وہ بیماری حملہ آور ہو جائے تو اس لطیفہ کا تعلق اللہ تعالٰی سے کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شیطان انہی پانچ بیماریوں سے حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ بیماریاں لطائف سے اس طرح وابستہ ہیں:
1۔ لطیفہ قلب۔ شہوت
2۔ لطیفہ روح۔ غصہ
3۔ لطیفہ خفی۔ لالچ
4۔ لطیفہ سر۔ حسد
5۔ لطیفہ اخفی۔ تکبر
ہر لطیفہ کی اپنی تعلیم ہے۔ جیسے جیسے اس لطیفہ کا تعلق اللہ تعالٰی سے مضبوط ہوتا جاتا ہے ویسے ہی اس لطیفہ سے منسلک بیماری پر کنٹرول ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
لطائف کے کمالات
لطائف عالم امر کو کمالات ولایت کے ساتھ مناسبت اور لطائف عالم خلق کو کمالات نبوت کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے عالم امر کے پانچوں لطیفوں میں سے ہر ایک کو لطیفہ عالم خلق کے کسی نہ کسی لطیفہ کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اور یہی ان کی اصل بھی ہیں، مثلاً لطیفہ قلب کو لطیفہ نفس کے ساتھ لطیفہ روح کو لطیفہ آب کے ساتھ لطیفہ سر کو لطیفہ باد کے ساتھ لطیفہ خفی کو لطیفہ نار کے ساتھ اور لطیفہ اخفیٰ کو لطیفہ خاک کے ساتھ نسبت بھی ہے اور یہی ان کی اصل بھی ہیں۔
لطیفہ نفس
یہ عالم خلق کا پہلا لطیفہ ہے سلسلہ نقشبندیہ میں اس کا مقام وسط پیشانی یا ام الدماغ ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مقام زیر ناف ہے اگرچہ بظاہر اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن ارباب عرفان کے نزدیک ابتداء اور انتہاء کا فرق ہے۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے یوں تطبیق فرمائی ہے کہ اس کا سر ام الدماغ یا وسط پیشانی ہے اور اس کا قدم متصل زیر ناف ہے (اہل کشف کے نزدیک ہر دو مقام نفس کے لحاظ سے برابر ہیں) اس کا نور سبز اور نیلگوں ہے اس کی تاثیر نفسانیت اور سرکشی کے مٹ جانے عجز و انکسار کا مادہ پیدا ہونے اور ذکر میں ذوق و شوق بڑھ جانے سے ظاہر ہوتی ہے۔
لطیفہ قالبیہ
یہ عالم خلق کا بظاہر دوسرا لطیفہ ہے لیکن درحقیقت چاروں لطائف( ) پر مشتمل ہے اس کا مقام سارا قالب (جسم) ہے (بعض کے نزدیک متصل ناف ہے) اس کی علامت ہر ہر جزو بدن اور بال بال سے ذکر کا جاری ہوجانا اس کی تاثیر رذائل بشریہ اور علائق دینویہ سے رہائی پالینے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا نور آتش نما ہے۔[5] 
حضرت عبد اللہ بن خراز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو علماء جانتے ہیں، اشاروں کو دانا جانتے ہیں جبکہ لطائف کو سرداران مشائخ جانتے ہیں۔ 
اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو ان انوارات کا حصول عطا فرما کر شیطان کے چنگل سے رہائی عطا فرمائے۔ آمین 
بحرمت سید المرسلین۔
صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
↑ المعجم الوسیط عربی سے اردو طبع مکتبہ رحمانیہ لاہور
↑ المنجد عربی اردو کتب خانہ دار الاشاعت کراچی
↑ انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد 3 صفحہ 422، علی محمد، سورۃ الشوری، 19، مکتبہ سید احمد شہید لاہور
↑ تفسیر ضیاء القرآن - پیر کرم شاہ صاحب سورۃ البقرۃ آیت 30
↑ البینات شرح مکتوبات از ابو البیان محمد سعید احمد مجددی صفحہ 127 تا 131طابع تنظیم الاسلام پبلیکیشنز گوجرانوالہ
↑ طبقات الصوفیہ 202 أبو عبد الرحمن السلمي ادارہ پیغام القرآن لاہور

No comments:

Post a Comment