پہلا باب : لباس :
یہ مضمون سید الانبیاء، وسید البشر، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے لباس کے بیان میں ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا اہم مقصد وغرض یہ ہے کہ ہم اپنے لباس میں حتی الامکان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کریں اور وہ لباس جس کی وضع وقطع اور پہننا غیر مسنون ہے اس سے پرہیز کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنایا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ﴿ لَقَدْ کَانَ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَ ﴾․(سورہٴ الاحزاب 21) ، تم سب کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذات بہترین نمونہ ہے۔
لباس مصدر ہے بمعنی ملبوس (یعنی پوشاک) جیساکہ کتاب بمعنی مکتوب۔ لباس کا لفظ عمامہ، ٹوپی، قمیص، جبہ، چادر، تہہ بند،پاجامہ اور جو کچھ پہننے میں آئے سب کو شامل ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے لباس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ﴿ یَا بَنِی آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذٰلِکَ خَیْر﴾(سورہٴ الاعراف 26) اے آدم علیہ السلام کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس بنایا، جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور بہترین لباس تقوی کا لبا س ہے۔ لِبَاسُ التقوی سے مراد وہ لباس ہے جس میں حیا ہو۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ﴾ (سورہٴ النحل 81) اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں ۔
قرآن وسنت کی روشنی میں علمائے کرام نے تحریر کیا ہے کہ انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے لحاظ سے چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے کیوں کہ لباس میں اصل جواز ہے، جیساکہ سورہٴ الاعراف آیت نمبر32 میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لباس اور کھانے کی چیزوں میں وہی چیز حرام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔
دوسرا باب : شرعی لباس کی چند بنیادی شرائط :
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں علمائے کرام نے لباس کی بعض حسب ذیل شرائط تحریرکی ہیں:
1..مرد حضرات کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے ،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ (نوٹ: یہاں لباس کا بیان ہے، نہ کہ پردے کا، غرضیکہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔ )
2..لباس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ (مثلاً مرد حضرات کے لیے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس)
3..ایسا تنگ یا خفیف لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں۔
4..مردوں کا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
5..مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوش بو والا نہ ہو۔
6..مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپرجب کہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔
7..کفار ومشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں علمائے کرام نے لباس کی بعض حسب ذیل شرائط تحریرکی ہیں:
1..مرد حضرات کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے ،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ (نوٹ: یہاں لباس کا بیان ہے، نہ کہ پردے کا، غرضیکہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔ )
2..لباس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ (مثلاً مرد حضرات کے لیے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس)
3..ایسا تنگ یا خفیف لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں۔
4..مردوں کا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
5..مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوش بو والا نہ ہو۔
6..مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپرجب کہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔
7..کفار ومشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔
تیسرا باب: آپ صلى الله عليه وسلم کا پسندیدہ لباس ”سفید پوشاک“ :
امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں اختصار کی وجہ سے صرف 2حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
٭...حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کرو،کیوں کہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (ترمذی / الجنائز994، ابو داوٴد/ اللباس 4061، ابن ماجہ/ باب ماجاء فی الجنائز، مسند احمد247/1 صحیح ابن حبان)
٭... حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو،کیوں کہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (النسائی ۔ الامر بلبس البیض من الثیاب، ترمذی، ابن ماجہ)
امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں اختصار کی وجہ سے صرف 2حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
٭...حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کرو،کیوں کہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (ترمذی / الجنائز994، ابو داوٴد/ اللباس 4061، ابن ماجہ/ باب ماجاء فی الجنائز، مسند احمد247/1 صحیح ابن حبان)
٭... حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو،کیوں کہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (النسائی ۔ الامر بلبس البیض من الثیاب، ترمذی، ابن ماجہ)
زیادہ پاکیزہ اس لیے کہ وہ بہت جلدی میلے ہوجاتے ہیں، اسی لیے زیادہ دھوئے جاتے ہیں،برخلاف رنگین کپڑوں کے، کیوں کہ دیر سے دھوئے جانے کی وجہ سے ان میں زیادہ گندگی ہوتی ہے۔ اچھے اس لیے کہ طبیعت سلیمہ ان کی طرف میلان کرتی ہے۔ (اشعة اللمعات ۔ کتاب اللباس) شیخ فقیہ ابو اللیث سمرقندی (متوفی 373ھ) نے اپنی کتاب ”بستان العارفین“ میں اور فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب ”رد المختار“ کے مصنف علامہ شامی نے تحریر کیا ہے کہ رنگوں میں پسندیدہ رنگ سفید ہے اور سفید لباس پہننا سنت ہے۔
چوتھا باب : رنگین لباس کے متعلق آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات وعمل :
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے، اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے استعمال کیے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا،کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص اور تہہ بند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے، اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے استعمال کیے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا،کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص اور تہہ بند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔
٭...حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے اس کو نہ پہنو۔ (مسلم 2077) ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو جلا ڈالو۔
٭...حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تو میں ارغوانی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور نہ پیلے رنگ کے کپڑے پہنوں گا، جوریشمی حاشیہ والے ہوں اور فرمایا کہ خبردار رہو کہ مردوں کی خوش بو وہ خوش بو ہے جس میں رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوش بو وہ خوش بو ہے جس میں خوش بو نہ ہو، رنگ ہو۔ (مشکوة ص 375) ارغوان ایک سرخ رنگ کا پھو ل ہے، اب ہر سرخ رنگ کو ارغوانی کہا جاتا ہے، وہی یہاں مراد ہے۔
٭... حضرت ابی رِمثہ رفاعہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ (ابو داوٴد4065، ترمذی2813)
٭...حضرت براء فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قد درمیانی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سرخ دھاریوں والی چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوب صورت منظر نہیں دیکھا۔ (بخاری 258/10 ومسلم2337)
٭...حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سرخ دھاریوں والی یمنی چادر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ (بخاری ومسلم)
وضاحت… بعض روایات میں وارد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سرخ پوشاک استعمال کی ہے، جبکہ دیگر احادیث میں مردوں کو سرخ اور پیلے کپڑے پہننے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس بظاہر تضاد کی محدثین وعلماء نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خالص سرخ یا خالص پیلے کپڑے نہیں پہننے چاہیے، البتہ سرخ یا پیلے رنگ کی دھاریوں والے (یعنی ڈیزائن والے) کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔
پانچواں باب : آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص :
٭...حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔ (ترمذی 1762، ابو داوٴد4025)
٭...حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔ (ترمذی 1762، ابو داوٴد4025)
آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کے جو اوصاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔ (ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد، صحیح ابن حبان وغیرہ)
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داوٴد، ابن ماجہ)
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داوٴد ج2ص203، ترمذی) کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔
٭...آپ صلى الله عليه وسلم کی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔ (ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد، صحیح ابن حبان وغیرہ)
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داوٴد، ابن ماجہ)
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داوٴد ج2ص203، ترمذی) کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔
٭...آپ صلى الله عليه وسلم کی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔
چھٹا باب : آپ صلى الله عليه وسلم کا عمامہ :
آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتاتھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ عموماً 6۔7 ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتاتھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ عموماً 6۔7 ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔
٭...حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ شریف کا ”شملہ“ دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ (مشکوة ص 374)
٭...حضرت جابر سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مسلم، ترمذی)
٭...حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔ (ترمذی)
٭...حضرت جابر سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مسلم، ترمذی)
٭...حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔ (ترمذی)
نوٹ: شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی کم از کم مقدار چار انگل ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ ہے۔
ساتواں باب : آپ صلى الله عليه وسلم کی ٹوپی :
حضور اکرم صلى الله عليه وسلم عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ صلى الله عليه وسلم سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے، البتہ آپ صلى الله عليه وسلم کے سفر کی ٹوپی اٹھی ہوئی ہوتی تھی۔ علامہ ابن القیم اپنی بلند پایہ کتاب ”زاد المعاد فی ہدی خیر العباد“ میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ صلى الله عليه وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ صلى الله عليه وسلم ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے ۔نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورہ الاعراف 31) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے۔ لہٰذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ امام ابوحنیفہ نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے محدث شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اپنی کتاب” تمام المنة“ کے صفحہ164 پر تحریر کیا ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
حضور اکرم صلى الله عليه وسلم عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ صلى الله عليه وسلم سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے، البتہ آپ صلى الله عليه وسلم کے سفر کی ٹوپی اٹھی ہوئی ہوتی تھی۔ علامہ ابن القیم اپنی بلند پایہ کتاب ”زاد المعاد فی ہدی خیر العباد“ میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ صلى الله عليه وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ صلى الله عليه وسلم ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے ۔نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورہ الاعراف 31) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے۔ لہٰذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ امام ابوحنیفہ نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے محدث شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اپنی کتاب” تمام المنة“ کے صفحہ164 پر تحریر کیا ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
آٹھواں باب :آپ صلى الله عليه وسلم کا جبہ :
٭...حضرت اسماء بنت ابوبکر سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا، جس کا گریبان ریشم کا تھااور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے اور فرمایا کہ یہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا جبہ ہے، جو ام الموٴمنین حضرت عائشہ کے پاس تھا، جب وہ وفات پاگئیں تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے بیماریوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مشکوة ص 374)
٭...حضرت اسماء بنت ابوبکر سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا، جس کا گریبان ریشم کا تھااور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے اور فرمایا کہ یہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا جبہ ہے، جو ام الموٴمنین حضرت عائشہ کے پاس تھا، جب وہ وفات پاگئیں تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے بیماریوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مشکوة ص 374)
٭... آپ صلى الله عليه وسلم نے رومی اور شامی اونی جبوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
نواں باب : آپ صلى الله عليه وسلم کا ازار (یعنی تہہ بند وپائجامہ وغیرہ) :
ازار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ عموماً نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تہہ بند کا استعمال فرماتے تھے، کبھی کبھی آپ صلى الله عليه وسلم نے پائجامہ بھی استعمال کیا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کا تہہ بند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابہٴ کرام بھی عموماً تہہ بند استعمال کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وسلم کی اجازت سے پائجامہ بھی پہنتے تھے۔
ازار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ عموماً نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تہہ بند کا استعمال فرماتے تھے، کبھی کبھی آپ صلى الله عليه وسلم نے پائجامہ بھی استعمال کیا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کا تہہ بند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابہٴ کرام بھی عموماً تہہ بند استعمال کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وسلم کی اجازت سے پائجامہ بھی پہنتے تھے۔
٭...حضرت ابو سعید الخدری روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہیے۔ نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان اجازت ہے۔ لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (ابو داوٴد، ابن ماجہ)
٭...حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر عنایت نہیں فرمائے گا۔ (بخاری 217/10، مسلم 2085)
٭...حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (بخاری 218/10)
٭...حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لٹکانا تہہ بند ، قمیص اور عمامہ میں پایا جاتا ہے، جس نے ان میں سے کسی لباس کو بطور تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ (ابو داوٴد4094، نسائی 208/8)
٭...حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جو حکم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پائجامہ کے متعلق فرمایا وہی حکم قمیص کا بھی ہے۔ (ابو داوٴد)
٭...مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے اس مسئلہ کی مذکورہ شکلیں اس طرح تحریر فرمائی ہیں:
نصف پنڈلی تک لباس: نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی سنت
ٹخنوں تک لباس: رخصت یعنی اجازت
تکبر کے بغیرٹخنوں سے نیچے لباس : مکروہ
تکبرانہ ٹخنوں سے نیچے لباس : حرام
عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہیے۔
نصف پنڈلی تک لباس: نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی سنت
ٹخنوں تک لباس: رخصت یعنی اجازت
تکبر کے بغیرٹخنوں سے نیچے لباس : مکروہ
تکبرانہ ٹخنوں سے نیچے لباس : حرام
عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہیے۔
٭...حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ نے سوال کیا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک بالشت نیچے لٹکائیں۔ حضرت ام سلمہ نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر پھر بھی ان کے قدم کھلے رہیں؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک ذراع (شرعی پیمانہ جو تقریباً 30 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے) نیچے لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ (ابو داوٴد 4119، ترمذی 1736)
دسواں باب : آپ صلى الله عليه وسلم کے لباس میں میانہ روی:
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اعلیٰ وعمدہ وقیمتی لباس بھی پہنے ہیں، مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اعلیٰ وعمدہ وقیمتی لباس بھی پہنے ہیں، مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔
٭...حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : جس نے دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنا، بروز قیامت اللہ تعالیٰ اسے ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ (ابوداوٴد ۔ باب فی لباس الشہرة)
٭...حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے ام الموٴمنین حضرت عائشہ نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور موٹا تہہ بند نکالا ،پھر فرمایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی روح مبارکہ ان دونوں میں قبض کی گئی۔ (بخاری ج2ص865، مسلم)
٭...ام الموٴمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم انے فرمایا: اے عائشہ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو تمہیں دنیا سے اتنا کافی ہو جیسے سوار مسافر کا توشہ اور امیروں کی مجلس سے اپنے آپ کو بچاوٴ اور کسی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو، حتی کہ اس کو پیوند لگالو۔ (ترمذی1780) یہ انتہائی قناعت کی تعلیم ہے کہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار نہ ہو۔
٭...حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ (ترمذی 2820)
(یعنی اگر مال اللہ تعالیٰ نے دیا ہو تو اچھے کپڑے پہننے چاہییں۔)
(یعنی اگر مال اللہ تعالیٰ نے دیا ہو تو اچھے کپڑے پہننے چاہییں۔)
٭... حضرت معاذ بن انس روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ڈر سے لباس میں فضول خرچی سے اپنے آپ کو بچایا ،حالاں کہ وہ اس پر قادر تھا تو کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے اس کو بلائے گا اور جنت کے زیورات میں سے جو وہ چاہے گا اس کو پہنایا جائے گا۔ (ترمذی 2483)
٭...حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں گندے کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوا۔ آپ انے فرمایا : کیا اس شخص کو کوئی چیز نہیں ملی کہ یہ اپنے کپڑے دھوسکے؟ (نسائی، مسند احمد)
غرضیکہ حسب استطاعت فضول خرچی کے بغیر اچھے وصاف ستھرے لباس پہننے چاہییں۔
گیارہواں باب : لباس کے متعلق آپ صلى الله عليه وسلم کی بعض سنتیں :
دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت ہے:
٭...حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم جب قمیص زیب تن فرماتے تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔ (ترمذی ج1 ص302) اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے، پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے ۔
دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت ہے:
٭...حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم جب قمیص زیب تن فرماتے تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔ (ترمذی ج1 ص302) اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے، پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے ۔
نیا لباس پہننے کی دعا
٭...حضرت ابو سعید الخدری فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے، عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ، اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہِ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہ․ُ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ․ اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ابو داوٴد، ترمذی)
٭...حضرت ابو سعید الخدری فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے، عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ، اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہِ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہ․ُ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ․ اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ابو داوٴد، ترمذی)
No comments:
Post a Comment