جب تخصص فی الافتاء کے نام پر جامعہ دار العلوم کراچی میں فقہائے وقت کے جوتوں میں بیٹھ کر فقہ و فتوی سے کچھ مناسبت پیدا کرنے کا موقع ملا تو ہمیشہ یہی سننے اور سیکھنے اور دیکھنے کو ملا کہ اپنے آپ کو مولانا، عالم اور مفتی لکھنا بولنا اور سمجھنا حرام ہے۔ اس کے بعد سے الحمد للہ یہی بات طبعیت کا حصہ بنی اور اس حد تک بنی کہ آج تک اپنے نام کے ساتھ کوئی ایسا بولنے کی تو کیا لکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ جبکہ اپنے ماحول میں ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک صاحب کسی کو فون کر رہے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ مولانا اور مفتی لگا کر خود بتا رہے ہیں میں مفتی ۔۔۔ بول رہا ہوں۔ میں مولانا ۔۔۔ بول رہا ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے کمپوز کئے ہوئے کتابچوں اور رسائل اور پمفلٹس پر اپنے ساتھ مفتی لکھ رہے ہیں۔ فیس بک پر آئی ڈیز بناتے ہوئے اپنے ناموں کے ساتھ خود ہی تعظیمی القاب لکھے جا رہے ہیں۔ حتی کہ ای میل آئی ڈی جس میں اپنا نام بھی پورا لکھنا کوئی کمال کی بات نہیں، اس میں بھی اپنے ناموں کے ساتھ مفتی کا سابقہ یا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ ایک وقت تک تو میری سوچ یہ تھی کہ جن لوگوں کو ایسا کرتے دیکھتا تو انہیں غیر سنجیدہ سمجھ کر نظر انداز کرتا۔ جن فیس بک آئی ڈیز پر مفتی کا سابقہ لگا ہوتا ان کو ریجیکٹ کر دیتا۔ لیکن پھر مجھے اس خیال پر نظر ثانی کرنی پڑی بعض عزیز شخصیات کو بھی اپنے لئے یہی کام کرتے دیکھا تو اصول میں کچھ ترمیم کرنی پڑی۔ اب کافی حد تک برداشت کر لیتا ہوں۔ ہر کوئی اپنی سوچ کا حامل ہے یہ تاویل کرکے دل کو بہلا لیتا ہوں۔ لیکن کیا کیا جائے اس گھول گھول کر پلائی گئی دوا کا جو تین سال تک مسلسل پلائی ہی جاتی رہی ہے۔ اب اس سے کیسے گلوخلاصی ہو؟ کیسے اس طرح کے طرز اختیار کرنے والوں کے رویے برداشت کرنے کی ہمت ہو؟ گذشتہ دنوں ایک بہت ہی پیارے پس رو مولانا صاحب جو بہت قدر کرتے ہیں، ان کے ہاں سے چھپے ہوئے چھوٹے چھوٹے رسائل دیکھے تو نام کے ساتھ بے دھڑک لکھا ہوا مفتی نظر آیا۔ سوچا کسی کاتب نے لکھ دیا ہو گا۔ نظر انداز کر دیا۔ اس کے بعد تو سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ اپنی محنت کی تائید کے لئے رسائل بھیجتے جائیں اور میری اذیت میں اضافہ ہوتا جائے۔ آخر بہت پیار سے ان کو ڈرتے ڈرتے چند الفاظ سمجھانے کی کوشس میں کہہ ڈالے۔ اللہ انہیں خوش رکھے انھوں نے قبول بھی کیا اور شکریہ بھی ادا کیا۔ اب وہی سلسلہ اور بہت سے متخصصین سے سامنے آتا ہے۔ کیا کیا جائے اس کا؟؟؟؟ اب کس کس کو فیس بک سے اس جرم سے ان فرینڈ کریں۔ کس کس کو واٹس ایپ سے بلاک کریں؟ کس کس کو علیحدگی میں سمجھائیں؟؟؟ بھائی خدارا ! یا تو اس طرز کو بدل لیں یا بزرگوں سے کہہ دیں کہ اس اصول میں کچھ ترمیم کر دیں یا از کار رفتہ سمجھ کر اس کی تربیت کرنا چھوڑ دیں، یا اس مجموعہ کی برکت سے سب اہل علم عصر حاضر کی ضرورتوں کے پیش نظر اجتہاد کر کے سب کے لئے جواز کا فتوی دیں تا کہ سبھی کو جرات کرنے کا جواز مل جائے ۔۔۔
فالی اللہ المشتکی ۔۔۔
اللہم اہد قلبی و سدد خطای۔
(مولانا راقم صاحب)
ہمارے ایک ہم سبق جو دورہ حدیث کے بعد اسم فعل حرف کی تمیز سے بھی عاری تھے، ایک جامعہ میں ایک سال مزید گزار کر منسب مفتی کی مسند پر مسند نشین ھیں.....
اب وہ بھی وہی دلائل دیتے ھیں جو دیگر آنجناب دے رھے ھیں.....
یہ مسئلہ اب لا ینحل ھے بعض شاگرد مفتی نہ کہنے پر ناراض ھو جاتے ھیں.....
(مفتی عبید صفدر)
فالی اللہ المشتکی ۔۔۔
اللہم اہد قلبی و سدد خطای۔
(مولانا راقم صاحب)
ہمارے ایک ہم سبق جو دورہ حدیث کے بعد اسم فعل حرف کی تمیز سے بھی عاری تھے، ایک جامعہ میں ایک سال مزید گزار کر منسب مفتی کی مسند پر مسند نشین ھیں.....
اب وہ بھی وہی دلائل دیتے ھیں جو دیگر آنجناب دے رھے ھیں.....
یہ مسئلہ اب لا ینحل ھے بعض شاگرد مفتی نہ کہنے پر ناراض ھو جاتے ھیں.....
(مفتی عبید صفدر)
دس بیس سال بعد مفتی کا سابقہ لگایاجائے:
تخصص، افتاء سے مناسبت کے لئے ہوتا ہے نہ کےمفتی کےتمغہ کے لئے !
بندہ کا کسی مسئلے میں حضرت مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب کو میسج میں یوں لکھنا ہوا کہ (اس مسئلہ میں میری رائی یہ ہے آپ کی کیا رائے ہے)
تو حضرت والا نے جواب دیا کہ فقہ و فتاوی میں رائے دینے کی سوج بوجھ کسی دارالإفتاء میں دس بیس سال فتوی لکھنے کے بعد پیدا ہو جائے تو خوش نصیبی کی بات ہے اور ساتھ ہی یہ نصیحت کی کہ جب تک کسی دار الإفتاء میں دس بیس سال گزار نا لو اپنے آپ کو مفتی نہ سمجھنا.
بندہ کا کسی مسئلے میں حضرت مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب کو میسج میں یوں لکھنا ہوا کہ (اس مسئلہ میں میری رائی یہ ہے آپ کی کیا رائے ہے)
تو حضرت والا نے جواب دیا کہ فقہ و فتاوی میں رائے دینے کی سوج بوجھ کسی دارالإفتاء میں دس بیس سال فتوی لکھنے کے بعد پیدا ہو جائے تو خوش نصیبی کی بات ہے اور ساتھ ہی یہ نصیحت کی کہ جب تک کسی دار الإفتاء میں دس بیس سال گزار نا لو اپنے آپ کو مفتی نہ سمجھنا.
دو مقاصد:
مفتی کا سابقہ لگانے کے دو مقاصد ہوتے ہیں: شناخت اور تعظیم.
ہمارے عرف میں یہ سابقہ عموما تعظیما ہی کے لئے لگایا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے اکابر اس طرح کے سابقے خود لگانے کو ہمیشہ ناپسند کرتے رہے ہیں.
مگر گزشتہ 50 سال میں جو معاشرتی ساخت بدلی ہے اور شناخت کے معیارات قائم ہوئے ہیں، اس کے نتیجے میں بسا اوقات اس کی ضرورت پڑتی ہے کہ بولنے یا لکھنے والا اپنے دینی تعلیمی درجے کی کوئی شناخت ساتھ بیان کرے تاکہ اس کی بات پڑھنے اور سننے والا اس کی بات کا درجہ طے کرے. یہ ایک ایسی ضرورت ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اب اس کی ضرورت ہوتی ہے بشمول علماء کے طبقے کے کہ ان کو خود ایسی شناخت دوسروں سے درکار ہوتی ہے. اگر کوئی شخص امراض قلب پر کچھ لکھے یا بولے اور پوچھے جانے پر ہماری طرح یہ بول دے کہ "بندہ تو طالبعلم ہے" تو ہمارے ذہن میں کیسے کیسے خدشات پیدا ہوتے ہیں.
میں کتنے ایسے لوگوں سے ملا ہوں جن کو یہ سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ ایک مفتی برسوں سے فتوی دینے کے باوجود مفتی کیوں نہیں لکھتا. جب وجہ "تعظیم نفس" سے بچنا بتاؤ تو وہ پوچھتا ہے کہ شناخت کا پھر کیا طریقہ ہو؟
ہمارے کچھ احباب نے اپنے آپ کو "متخصص" لکھنا شروع کیا جو بجائے خود ایک عوام کیلئے ایک معرکہ آراء لفظ ہے کہ اس کا تلفظ کیا ہے. تخصص میں 3 یا 2 سال لگانے والا اپنے آپ کو کیا لکھے، کہیں پر اپنے تعلیمی درجے کی شناخت کیسے کروائے؟ یہ بھی تو وہ مسائل ہیں جن سے ہمارے طلبہ اور فضلاء دوچار ہیں.
اس وجہ سے اس معاملے میں ہمیں دونوں جہتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.
حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کا ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا کہ وہ کہیں سفر میں گئے اور کسی کے ہاں قیام فرمایا رات کو تہجد کیلئے اٹھے اور بیت الخلاء جا رہے تھے تو چوکیدار نے آواز لگائی کون ہے؟
حضرت ڈپٹ کر بولے،
"ہم ہیں بڑے مولانا".
حضرت جیسی معرفت رکھنے والی شخصیت نے یہ جملہ "شناخت" کے پیش نظر فرمایا کیونکہ محل ومقام ایسا تھا.
عصری تعلیمی معیار کے مطابق پی ایچ ڈی کرنے والا "ڈاکٹر" کی شناخت لکھ لیتا ہے مگر دینی اعلی تعلیم حاصل کرنے والے کی کوئی شناخت ہی نہیں سوچی.
( مفتی ارشاد احمد اعجاز)
دو مقتدی حضرات ایک مسئلہ میں گئے کہ قربانی کا جانور گھر پر آنے کے بعد فرش پر اس انداز سے پھسلا کہ گویا چیرا لگ گیا ہو اور اب وہ کھڑے ہونے کی بجائے بیٹھنے کو پسند کرتا ہے ۔ ایک کے نزدیک قربانی نہیں ہوسکتی جبکہ دوسرے کے نزدیک ہوسکتی تھی۔ مسئلہ امام مسجد کے سامنے پیش ہوا امام نے کہا کہ قربانی ہوسکتی ہے۔ منع کرنے والے نے کہا،
ارے یہ تو مولوی صاحب ہیں مولوی!!! چلو چلیں کسی مفتی صاحب سے معلوم کرتے ہیں یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امام نے تکمیل دورہ حدیث کے 12 سال بعد تخصص میں داخلہ لیا اور مولوی نوراللہ خالد سے سے مفتی نوراللہ خالد بن گئے ۔
(مفتی نور اللہ خالد)
ایک مرتبہ اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کے ایک موضوع پر کراچی میں مفتیان کرام کو دعوت دینے کا فیصلہ کیا۔ سدات حیدر آڈٹ فرم کے توسط سے دعوت دی گئی۔ اس وقت مسئلہ پیش آیا کہ کن مفتیان کرام کو بلایا جائے۔ ایک معروف مفتی صاحب کہ اس وقت تک نام کے ساتھ مفتی نہیں لکھا جاتا تھا، ان کے بارے میں تکرار ہوگئی۔ مجھے معلوم تھا کہ جناب واقعی مفتی بلکہ فتاوی کے مصحح اور شعبہ افتاء کے نگران ہیں لیکن ادارے کی انتظامیہ بضد تھی کہ چونکہ یہ مولانا کے لقب سے معروف ہیں لہذا یہ اس لائق نہیں کہ ان کو دعوت دی جائے۔
(مفتی جاوید احمد)
ایک اخبار میں ایک مفتی صاحب نے مسائل لکھنا شروع کئے تو انہیں اخبار والوں نے کہا کہ آپ کے ای میل ایڈریس میں پہلے مفتی لکھا ہونا چاہئے.
(مفتی عاصم صاحب)
مفتی رشید احمد صاحب ایک مرتبہ کسی دوست کے گھر گئے، وہ تھے نہیں بچے کو کہا کہ جب ابو آئیں تو بتانا کہ "رشید احمد" آپ سے ملنے آئے تھے ۔۔۔ چند دن بعد وہ صاحب آئے تو مفتی صاحب نے گلہ کیا کہ آپ کے گھر پیغام دے آیا تھا مگر آپ نے رابطہ نہ کیا تو وہ کہنے لگے ارے آپ تشریف لائے تھے؟ مجھے تو بچے نے بتایا کہ "مسٹر رشید احمد" آئے تھے ملنے ۔۔
اس کے بعد سے وہ مفتی لکھنے لگے اس نیت سے کہ "مسٹر" سے "مفتی" بننا اچھا ہے۔
"انما الاعمال بالنیات" کے تحت اگر لکھنے والا ریا، کبر کی نیت سے لکھے تو برا ہے ۔۔ لیکن اگر تعارف یا سائل کے اطمینان کی وجہ سے لکھا جائے تو حرج نہیں ہونا چاہئے!
(مفتی جاوید احمد عبداللہ)
جب اپنا تعارف علماء اور بڑے حضرات کے سامنے کروایا جائے تو ان القابات سے گریز کرنا چاہئے اور اگر عوام مین تعارف کروایا جاے تو اپنی مکمل شناخت کروانی چاہئے!
(مفتی عبدالماجد بنگش)
.......
(مفتی عمران گجراتی)
ہمارے عرف میں یہ سابقہ عموما تعظیما ہی کے لئے لگایا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے اکابر اس طرح کے سابقے خود لگانے کو ہمیشہ ناپسند کرتے رہے ہیں.
مگر گزشتہ 50 سال میں جو معاشرتی ساخت بدلی ہے اور شناخت کے معیارات قائم ہوئے ہیں، اس کے نتیجے میں بسا اوقات اس کی ضرورت پڑتی ہے کہ بولنے یا لکھنے والا اپنے دینی تعلیمی درجے کی کوئی شناخت ساتھ بیان کرے تاکہ اس کی بات پڑھنے اور سننے والا اس کی بات کا درجہ طے کرے. یہ ایک ایسی ضرورت ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اب اس کی ضرورت ہوتی ہے بشمول علماء کے طبقے کے کہ ان کو خود ایسی شناخت دوسروں سے درکار ہوتی ہے. اگر کوئی شخص امراض قلب پر کچھ لکھے یا بولے اور پوچھے جانے پر ہماری طرح یہ بول دے کہ "بندہ تو طالبعلم ہے" تو ہمارے ذہن میں کیسے کیسے خدشات پیدا ہوتے ہیں.
میں کتنے ایسے لوگوں سے ملا ہوں جن کو یہ سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ ایک مفتی برسوں سے فتوی دینے کے باوجود مفتی کیوں نہیں لکھتا. جب وجہ "تعظیم نفس" سے بچنا بتاؤ تو وہ پوچھتا ہے کہ شناخت کا پھر کیا طریقہ ہو؟
ہمارے کچھ احباب نے اپنے آپ کو "متخصص" لکھنا شروع کیا جو بجائے خود ایک عوام کیلئے ایک معرکہ آراء لفظ ہے کہ اس کا تلفظ کیا ہے. تخصص میں 3 یا 2 سال لگانے والا اپنے آپ کو کیا لکھے، کہیں پر اپنے تعلیمی درجے کی شناخت کیسے کروائے؟ یہ بھی تو وہ مسائل ہیں جن سے ہمارے طلبہ اور فضلاء دوچار ہیں.
اس وجہ سے اس معاملے میں ہمیں دونوں جہتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.
حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کا ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا کہ وہ کہیں سفر میں گئے اور کسی کے ہاں قیام فرمایا رات کو تہجد کیلئے اٹھے اور بیت الخلاء جا رہے تھے تو چوکیدار نے آواز لگائی کون ہے؟
حضرت ڈپٹ کر بولے،
"ہم ہیں بڑے مولانا".
حضرت جیسی معرفت رکھنے والی شخصیت نے یہ جملہ "شناخت" کے پیش نظر فرمایا کیونکہ محل ومقام ایسا تھا.
عصری تعلیمی معیار کے مطابق پی ایچ ڈی کرنے والا "ڈاکٹر" کی شناخت لکھ لیتا ہے مگر دینی اعلی تعلیم حاصل کرنے والے کی کوئی شناخت ہی نہیں سوچی.
( مفتی ارشاد احمد اعجاز)
دو مقتدی حضرات ایک مسئلہ میں گئے کہ قربانی کا جانور گھر پر آنے کے بعد فرش پر اس انداز سے پھسلا کہ گویا چیرا لگ گیا ہو اور اب وہ کھڑے ہونے کی بجائے بیٹھنے کو پسند کرتا ہے ۔ ایک کے نزدیک قربانی نہیں ہوسکتی جبکہ دوسرے کے نزدیک ہوسکتی تھی۔ مسئلہ امام مسجد کے سامنے پیش ہوا امام نے کہا کہ قربانی ہوسکتی ہے۔ منع کرنے والے نے کہا،
ارے یہ تو مولوی صاحب ہیں مولوی!!! چلو چلیں کسی مفتی صاحب سے معلوم کرتے ہیں یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امام نے تکمیل دورہ حدیث کے 12 سال بعد تخصص میں داخلہ لیا اور مولوی نوراللہ خالد سے سے مفتی نوراللہ خالد بن گئے ۔
(مفتی نور اللہ خالد)
ایک مرتبہ اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کے ایک موضوع پر کراچی میں مفتیان کرام کو دعوت دینے کا فیصلہ کیا۔ سدات حیدر آڈٹ فرم کے توسط سے دعوت دی گئی۔ اس وقت مسئلہ پیش آیا کہ کن مفتیان کرام کو بلایا جائے۔ ایک معروف مفتی صاحب کہ اس وقت تک نام کے ساتھ مفتی نہیں لکھا جاتا تھا، ان کے بارے میں تکرار ہوگئی۔ مجھے معلوم تھا کہ جناب واقعی مفتی بلکہ فتاوی کے مصحح اور شعبہ افتاء کے نگران ہیں لیکن ادارے کی انتظامیہ بضد تھی کہ چونکہ یہ مولانا کے لقب سے معروف ہیں لہذا یہ اس لائق نہیں کہ ان کو دعوت دی جائے۔
(مفتی جاوید احمد)
ایک اخبار میں ایک مفتی صاحب نے مسائل لکھنا شروع کئے تو انہیں اخبار والوں نے کہا کہ آپ کے ای میل ایڈریس میں پہلے مفتی لکھا ہونا چاہئے.
(مفتی عاصم صاحب)
مفتی رشید احمد صاحب ایک مرتبہ کسی دوست کے گھر گئے، وہ تھے نہیں بچے کو کہا کہ جب ابو آئیں تو بتانا کہ "رشید احمد" آپ سے ملنے آئے تھے ۔۔۔ چند دن بعد وہ صاحب آئے تو مفتی صاحب نے گلہ کیا کہ آپ کے گھر پیغام دے آیا تھا مگر آپ نے رابطہ نہ کیا تو وہ کہنے لگے ارے آپ تشریف لائے تھے؟ مجھے تو بچے نے بتایا کہ "مسٹر رشید احمد" آئے تھے ملنے ۔۔
اس کے بعد سے وہ مفتی لکھنے لگے اس نیت سے کہ "مسٹر" سے "مفتی" بننا اچھا ہے۔
"انما الاعمال بالنیات" کے تحت اگر لکھنے والا ریا، کبر کی نیت سے لکھے تو برا ہے ۔۔ لیکن اگر تعارف یا سائل کے اطمینان کی وجہ سے لکھا جائے تو حرج نہیں ہونا چاہئے!
(مفتی جاوید احمد عبداللہ)
جب اپنا تعارف علماء اور بڑے حضرات کے سامنے کروایا جائے تو ان القابات سے گریز کرنا چاہئے اور اگر عوام مین تعارف کروایا جاے تو اپنی مکمل شناخت کروانی چاہئے!
(مفتی عبدالماجد بنگش)
.......
(مفتی عمران گجراتی)
No comments:
Post a Comment