Saturday 9 November 2019

حائضہ و جنبی کے لئے تلاوت و کتابت قرآن پاک کا حکم

نفاس میں منزل پڑھنا جس میں سورہ فاتحہ بھی ہے کیسا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
سورہٴ فاتحہ یا وہ آیاتِ مبارکہ کہ جن میں دعاء کا مضمون ہے اُن کو دعاء کی نیت سے پڑھ لے تو جائز ہے، تلاوت کا قصد ان کے پڑھنے میں نہ کرے اور جن آیاتِ شریفہ اور سورتوں میں دعا کا مفہوم نہیں ہے ان کے پڑھنے میں غیرِ قرآن کا قصد کرنا موٴثر نہیں پس اُن کو نفاس وحیض کی حالت میں پڑھنا بھی جائز نہیں: وقراء ة قرآن بقصدہ اھ درمختار وفي شرحہ الفتاوی رد المحتار (قولہ بقصدہ) فلو قرأت الفاتحة علی وجہ الدعاء أو شیئًا من الآیات التي فیہا معنی الدعاء ولم ترد القرأة لا بأس بہ کما قدمناہ عن العیون لأبي اللیث وإن مفہومہ إن ما لیس فیہ معنی الدعاء کسورة أبي لہب لا یوٴثر فیہ قصد غیر القرآنیة اھ ج ۱ص ۱۹۵ (باب الحیض)
------------------------------------------------
ناپاکی کی حالت میں قرآن پڑھنے کا حکم
سوال: کیا عورت ناپاکی کی حالت میں قرآن کی کوئی آیت جیسے آیۃ الکرسی معوذتیں وغیرہ بطور وظیفہ کے پڑھ سکتی ہے؟
فتویٰ نمبر:103
الجواب حامداً و مصلیاً:
حیض ونفاس اور جنابت کی حالت میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں ۔ البتہ جو آیات دعا کے مضمون پر مشتمل ہوں یا حمد و ثنا ء کے مضمون پر مشتمل ہوں انہیں دعا  وظيفہ یا حمد وثناء کی نیت سے پڑھنا جائز ہے. تلاوت کی نیت سے پڑھنا ان آیات کو بھی جائز نہیں۔ اور اگر کسی کیلئے کو حمد و ثناء اور دعا پر مشتمل آیات اور دوسری آیات میں فرق کرنا دشوار ہو تو وہ حیض ونفاس یا جنابت کی حالت میں قرآنی آیات پڑھنے سے ہی احتراز کرے ۔
لہذا حیض کی حالت میں آیت الکرسی، سورۃ فاتحہ، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃالناس حمد وثناء، وظیفہ اور دعا کی نیت سے پڑھنا جائز ہے، کیونکہ ان سورتوں کے مضامین حمد وثناء اور دعا کے ہیں۔ لیکن سورۃ الکافرون کا مضمون چونکہ حمد وثناء یا دعاء پر مشتمل نہیں ہے اس لئے سورۂ کافرون کو حیض کی حالت میں کسی بھی نیت سے پڑھنا جائز نہیں۔ تنبیہ: حضراتِ فقہاءِ کرام رحمہم اللہ کی عبارات کی روشنی میں حیض کی حالت میں معوذتین، سورۂ اخلاص، سورۂ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑھنے کا اصولی حکم وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ اس حکم کا مدار آیات کے مضمون اور نیت پر ہے کہ اگر آیات کا مضمون دعا وثناء والا ہو اور پڑھنے والے کی نیت بھی دعا و ثناء کی ہو توپڑھنا جائز ہے ورنہ نہیں ۔ اس فرق کو مدِ نظر رکھنا اور اس کے مطابق اپنی نیت کا استحضار کرنا اہلِ عرب کے لئے آسان ہے۔ لیکن عجمی خواتین کے لئے آیات کے مضامین کا فرق کرنا اور اس کے مطابق اپنی نیت کا استحضار کرنا مشکل ہے، کیونکہ عجمی خواتین ایک سے زائد آیات عام طور پر تلاوت ہی کی نیت سے پڑھتی ہیں اس لئے عجم کی جو خواتین اس تفصیل کو ملحوظ نہ رکھ سکیں ان کو حیض ونفاس کی حالت میں مذکورہ سورتیں اور آیۃ الکرسی پڑھنے سے بچنا چاہئے اسی میں احتیاط ہے۔ ہاں جو خواتین آیات کے مضامین سے پوری طرح واقف ہوں اور پڑھتے ہوئے بآسانی دعاء وثناء کی نیت کا استحضار بھی کرسکیں ان کے لئے حمد و ثناء اور دعا کی نیت سے مذکورہ سوتیں پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار – (1 / 29)
(و) يحرم به (تلاوة قرآن) ولو دون آية المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء أو افتتاح أمر أو التعليم ولقن كلمة كلمة حل في الاصح،حتى لو قصد بالفاتحة الثناء في الجنازة لم يكره إلا إذا قرأ المصلي قاصدا الثناء فإنها تجزيه لانها في محلها، فلا يتغير حكمها بقصده
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 172)
(قوله: فلو قصد الدعاء) قال في العيون لأبي الليث: قرأ الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم يرد القراءة لا بأس به. وفي الغاية: أنه المختار واختاره الحلواني، لكن قال الهندواني: لا أفتي به وإن روي عن الإمام واستظهره في البحر تبعا للحلية في نحو الفاتحة؛ لأنه لم يزل قرآنا لفظا ومعنى معجزا متحدى به، بخلاف نحو – الحمد لله – ونازعه في النهر بأن كونه قرآنا في الأصل لا يمنع من إخراجه عن القرآنية بالقصد، نعم ظاهر التقييد بالآيات التي فيها معنى الدعاء يفهم أن ما ليس كذلك كسورة أبي لهب لا يؤثر فيها قصد غير القرآنية، لكن لم أر التصريح به في كلامهم. اهـ. مطلب يطلق الدعاء على ما يشمل الثناء أقول: وقد صرحوا بأن مفاهيم الكتب حجة، والظاهر أن المراد بالدعاء ما يشمل الثناء؛ لأن الفاتحة نصفها ثناء ونصفها الآخر دعاء، فقول الشارح أو الثناء من عطف الخاص على العام.
(قوله: أو افتتاح أمر) كقوله بسم الله لافتتاح العمل تبركا بدائع.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
صُفَّہ اسلامک ریسرچ سنٹر
-------------------
حائضہ وجنبی کے لئے تلاوت وکتابت قرآن پاک کا حکم
(تدوین: ایس اے ساگر)


No comments:

Post a Comment