نرینہ اولاد کے لئے طبی دوائوں کا استعمال؟؟
مفتی صاحب! آج کل عورتیں لڑکا پیدا ہونے کی دوائیاں استعمال کرتی ہیں کہ جس سے لڑکا پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور یہ فقط امکان تک ہی ہے کوئی ضروری نہیں تو ان دوائیوں کا استعمال کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
رہنمائی فرمائیں
الحواب وباللہ التوفیق:
دوران حمل لڑکا یا لڑکی کے اختیار کی موجودہ ترقی یافتہ زمانے میں کافی شکلیں رائج ہوگئی ہیں
دنیا کے ممتاز متخصصین فقہ وطب نے تمام ترقی یافتہ شکلوں پہ غور وخوض کرکے شرعی احکام بھی بتائے ہیں
عالمی پیمانے پہ عرب علماء نے اس پہ فقہی سیمینار منعقد کئے اور اس حوالے سے امت کو کافی کچھ شرعی رہنمائی فراہم کی ہے
خدا تعالی نے عالمی نظام میں توازن وہم آہنگی لانے کے لئے مذکر ومؤنث کی تخلیق کی قدرت واختیار صرف اور صرف اپنے پاس رکھی ہے
بعض افراد کے گھر صرف لڑکے ہی پیدا ہوتے ہیں، ایسوں کو لڑکی تولد کی خواہش رہتی ہے، جبکہ بعض کے یہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتیں تو انہیں اولاد نرینہ کی تلاش و خواہش رہتی ہے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے "رب هب لي من الصالحين" کے ذریعہ اولاد نرینہ کی دعا فرمائی تھی، اللہ تعالی نے "فبشرناه بغلام حليم" کی بشارت دی اور انہیں اولاد نرینہ عطا فرمائی
اس آیت سے پتہ چلا کہ اولاد نرینہ کی طلب و خواہش یا دعاء کرنا باری تعالی کے قبضہ وقدرت واختیارات میں دخل اندازی نہیں ہے
جس طرح اولاد نرینہ کی دعاء کرنا جائز ہے؛ اسی طرح اس کی طبعی، غذائی، یا علاجِ امراض کے طور پہ اختیار ِاسباب کی حیثیت سے ایسی دوائوں کا استعمال بھی جائز ہوگا جو تلقیح مادہ منویہ، بے شرمی، کشف عورت، اجانب سے اختلاط سے بالکلیہ پاک اور مقاصد شرع کے منافی نہ ہو
اولاد نرینہ کی دعاء یا رقیہ شرعیہ جب جائز ہے تو اس کے لئے غذائی یا موافقِ شرع علاج معالجہ کے اسباب اختیار کرنے میں بھی، میں شرعی حرج نہیں سمجھتا
وسائل و اسباب کی حیثیت سے یہ عمل تصرفات باری تعالی میں دخل اندازی کے زمرے میں بھی نہیں آتا ہے؛ کیونکہ ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بیٹا اور بیٹی کی پیدائش سببِ طبعی تحت ہی ہوتی ہے، جس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں نشاندہی فرمائی ہے:
’تم جانتے ہو؟ مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آجائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے۔‘‘
هل تَعلَمونَ أنَّ ماءَ الرَّجلِ أبيضُ غَلِيظٌ، وأنَّ ماءَ المرأةِ أصفَرُ رَقيقٌ، فأيُّهما عَلَا كان له الوَلَدُ بإذنِ اللهِ، وإذا عَلَا ماءُ الرَّجلِ ماءَ المرأةِ كان الوَلَدُ ذَكَرًا بإذنِ اللهِ، وإذا عَلَا ماءُ المرأةِ ماءَ الرَّجلِ كان الوَلَدُ أُنثى بإذنِ اللهِ
(عن ابن عباس .أخرجه أحمد (2514)، والطيالسي (2854)، والطبراني (12/246) (13012) باختلاف يسير..)
لیکن مشروط گنجائش ظن وامکان واختیار اسباب تک ہی ہے، اولاد دینے یا نہ دینے یا بیٹا و بیٹی دینے کا سارا اختیار تنہا ذات باری کو حاصل ہے
اس پہ پختہ ایمان رکھنا ضروری ہے:
{لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ * أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ} [الشورى 49-50]
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment