ولدالزنا کے ساتھ زانی باپ کے نام کا لاحقہ؟
ولدالزنا کی محلہ، گاؤں، ضلعی، صوبائی عالمی پیمانے پر ہونے والی رسوائی کے تناظر میں اگر اس بچہ کے ساتھ ماں کی بجائے زانی باپ کے نام کا لاحقہ سرکاری دستاویزات مثلا آدھار کارڈ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ سرکاری منصوبوں نیز مدرسہ اسکول کے اندراج نام کے رجسٹر میں سرکاری یوجناؤں میں نام کا لاحقہ لگائے تو کیا یہ درست ہے...؟؟؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بچہ ضائع کرنا جائز نہیں
زانی مزنیہ دونوں کا آپس میں نکاح کرنا درست ہے
اس صورت میں بچے کی کوئی غلطی نہیں
سارا قصور والدین کا ہے
“کرے کوئی اور بھرے کوئی.“
یہ اسلامی اصول نہیں۔
بچہ کی مکمل شفقت ومحبت سے دیکھ بھال و پرورش کی جائے
اگر زانی نے خود مزنیہ حاملہ سے نکاح کرلیا ہو
اور بچہ نکاح کرنے سے چھ ماہ سے پہلے پہلے پیدا ہوگیا ہو
تو اس بچہ کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوگا
بلکہ ماں سے اس کا نسب چلے گا، بچہ صرف اپنی ماں کی جائیداد کا وارث بنے گا
باپ کی جائیداد کا نہیں
لیکن بچہ چھ ماہ سے پہلے پیدا ہوجائے اور زانی زناء کا ذکر کئے بغیر مطلق اس بچے کا باپ ہونے کا دعوی واقرار کرے
اور سرکاری دستاویزات میں باپ کی جگہ اپنا نام درج کروادے تو احتیاطا بچہ کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا:
کتاب المسائل ج ۵ ص ۴۲۶، یونیکوڈ۔ (مسائل بہشتی زیور ۵۵۱ ، کتاب النوازل ۸ ؍ ۱۷۰)
فلو لأقل من ستۃ أشہرٍ من وقت النکاح لا یثبت النسب، ولا یرث منہ إلا أن یقول: ہٰذا الولد مني، ولا یقول من الزنا۔ خانیۃ۔ وظاہر أن ہٰذا من حیث القضاء، أما من حیث الدیانۃ فلا یجوز أن یدعیہ؛ لأن الشرع قطع نسبَہ منہ، فلا یحل لہ استلحاقہ بہٖ، ولذا لو صرح لأنہ من الزنا لا یثبت قضائً أیضًا، وإنما یثبت
لو لم یُصرّح لاحتمال کونہ بعقد سابقٍ أو بشبہۃٍ حملاً لحال المسلم علی الصلاح۔ (شامي، کتاب النکاح / فصل في المحرمات، قبیل مطلب: فیما لو زوج المولیٰ أمتہ ۴ ؍ ۱۴۲ زکریا)
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment