اگر قرض خواہ کی وفات ہوجائے اور کوئی وارث نہ چھوڑے تو اس کے قرض کا کیا کریں؟
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ حضرت مسٸلہ یہ کے میرے پاس ایک غیرمسلم کا پانچ ہزار روپے ہے اب اس شخص کا انتقال ہو گیاہے اس کا کوٸ بھی رشتہ دار نہیں ہے یہ ہے بھی تو مجھے معلوم نییں ہے. اب اس پیسے کو مدرسہ میں دے سکتے ہیں یا کسی غریب کو دے سکتے ہیں؟
کیا اس میں مسلم و غیرمسلم کا مسئلہ الگ ہوگا یا ایک ہی ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق :
اگر قرض دینے والا کافر انتقال کرگیا تو اس قرض کی رقم کا مالک اس کے ورثاء واہل خانہ ہونگے
مالک مال کو اس کا مال “حتی المقدور “ واپس کرنا ضروری ہے
اگر اس مرنے والے صاحب دین کے وارث کا باوجود تتبع وکوشش کے کچھ سراغ نہ لگے
تو اب ردالمال ممکن نہ رہا؛ لہذا اس کا وجوب بھی ساقط ہوجائے گا
صاحب حق خواہ مسلم ہو یا کافر دونوں کا حکم ایک ہی ہے
کہ جب مالک کا امکانی حد تک تلاش کے باوجود بھی سراغ نہ لگ سکے تو اس مال کو مصالح مسلمین میں صرف کردیا جائے گا۔ انہی مصالح میں سے صدقہ کرنا بھی ہے
لہذا اس مال کو عام ضرورت مندوں کی ضروریات میں صدقہ کردیا جائے
اس سے مقروض ان شاء اللہ بری الذمہ ہوجائے گا اور عند اللہ ماخوذ نہ ہوگا
لیکن اگر بعد میں کبھی اس کے ورثاء کا پتہ چل جائے تو مال اس کے حوالے کرنا ضروری ہے ۔
شیخ السلام ابن تیمیہ جمہور ائمہ کا یہی موقف نقل فرماتے ہیں:
"الذي لا نعرف مالكه يسقط عنا وجوب رده إليه، فيصرف في مصالح المسلمين والصدقة من أعظم مصالح المسلمين؛ وهذا أصل عام في كل مال جهل مالكه بحيث يتعذر رده إليه، كالمغصوب والعواري والودائع، تصرف في مصالح المسلمين على مذهب مالك وأحمد وأبي حنيفة وغيرهم". وقال أيضًا: (29/ 321): "المال إذا تعذر معرفة مالكه صرف في مصالح المسلمين عند جماهير العلماء كمالك وأحمد وغيرهما، فإذا كان بيد الإنسان غصوب أو عوار أو ودائع أو رهون قد يئس من معرفة أصحابها، فإنه يتصدق بها عنهم أو يصرفها في مصالح المسلمين، أو يسلمها إلى قاسم عادل يصرفها في مصالح المسلمين المصالح الشرعية.
(شيخ الإسلام ابن تيمية في "مجموع الفتاوى" (29/ 263)
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment