Tuesday 13 June 2017

مسلمانوں کی بے حسی، ائمہ کرام اور موذنین کی حالت زار

ایس اے ساگر

مساجد کے ائمہ کرام، مدرسین اور موذنین کی حالت کسی سے مخفی نہیں ہے، غنیمت ہے کہ اس موضوع پر گاہے بگاہے آواز بلند ہوتی رہتی ہے، گزشتہ روز اس سلسلہ میں جہاں ایک خبر شائع ہوئی وہیں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک پوسٹ نے حساس طبقہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا.
"وہ شخص جو پورے محلے کو عید کی نماز پڑھاتا ہے خود اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کپڑے بھی نہیں خرید سکتا!
5 ذی الحج کو بڑی بیٹی نے کہا،

بابا عید میں پانچ دن رہ گئے ہیں ہم نے کچھ بھی خریداری نہیں کی.
مولوی صاحب نے کہا، اچھا میرا پتر! ابھی بہت دن ہیں خرید لیں گے چاند رات سے ایک دن قبل سب کچھ لے لیں گے.
مولوی صاحب یہ بات کررہے تھے کہ آذان سنائی دی. مولوی صاحب جو آنکھیں بیٹی کو جھوٹی تسلی دینے پر شرمندگی سے جھکائے ہوئے تھے، ان کو موقع مل گیا اور مسجد کی طرف چل دئے،
عید سے ایک دن قبل جب مولوی صاحب ہر طرف سے ناامید ہوگئے کیونکہ مانگنے سے عزت نفس جاتی ہے اور قرض لینا نہیں کیونکہ واپسی کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں اور خود سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کیونکہ مولوی صاحب کے بچوں کے کون سے دل ہوتے ہیں جو مچلتے ہوں، ان کے کون سے احساسات ہوتے ہیں، وہ کون سا 'فیلنگ' رکھتے ہیں، انھوں نے کونسا باہر نکلنا ہے،
تو مولوی صاحب جو کہ تاویلوں کے بے تاج بادشاہ تھے، دلیل تو انکے گھر کی لونڈی تھی سمجھانے میں تو ماہر تھے، جب کوئی انتظام نہ ہوا تو سوچا آج جتنی منطق اور استقراء قیاس پڑھا ہے، سب کو بروئے کار لاکر بیٹی کو قائل کروں گا کہ بیٹا بڑی عید پر کوئی کپڑے نہیں پہنتا یہ تو قربانی کی عید ہے لیکن دھڑکا تھا کہ بیٹی بھی تو مولوی کی ہے، یہ کہہ دیا کہ قربانی بھی تو آپ نہیں کررہے،
خیر سارا علم مستحضر کرکے گھر پہنچے تو بیٹیاں ہاتھوں میں پرچیاں لیکر منتظر تھیں کہ بابا جان نے آج کا وعدہ کیا ہے تو ہمیں مطلوبہ چیزیں لادیں گے،
جیسے مولوی صاحب کھنگورا مارتے داخل ہوئے تو مولون سمجھ چکی تھی کہ بیٹوں کے دل ٹوٹنے والے ہیں تو وہ جلدی سے گئی، پیاز لے آئی کہ پیاز کاٹنے کے بہانے آنسو بہالے گی،
کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے، اس کے آنسو اولاد کے لئے تو پلکوں کی منڈیر پر ہی بسیرا کرتے ہیں لیکن وہ بیٹیوں کے سامنے شوہر کو اور باپ بیٹیوں کو ٹوٹتا نہ دیکھ سکے،
مولوی صاحب بیٹھے تو چھوٹی آنے لگی کہ پرچی تھماوں،
مولوی صاحب نظریں جھکائے جرابیں اتارنے لگے اور ٹوپی لپیٹ کے رکھی جو کہ علامت ہوتی ہے کہ اس کے بعد اب باہر نہیں جانا کہ اچانک چھوٹی کو بڑی بیٹی بازو سے پکڑتی ہے اور اسے اشارے سے روکتی ہے اس کے ہاتھ سے پرچی لیکر اپنی پرچی میں رکھ کر چپکے سے چٹائی کے نیچے چھپاتی ہے.
یہ سب مولوی صاحب کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے، لیکن نہ دیکھنے کی کمال فنکاری کررہے تھے، مولون کے آنسو پیاز کے بہانے سیل رواں بنے ہوئے تھے. مولوی صاحب کا سارا علم زیرو ہوگیا. انھیں لگا جیسے وہ خود سب سے زیادہ جاہل اجڈ اور گنوار ہیں.
اس سے پہلے کہ مولوی صاحب کچھ کہتے تو بیٹی بولی،
بابا جان کل ہم نے نئے کپڑے نہیں لینے کیونکہ بڑی عید تو قربانی کی عید ہے اور کل آپ نے چاچو کے دو بیڑے (بچھڑے) بھی تو کرنے ہیں اور ہم نے وہاں آپکو بیڑے کرتے دیکھنا ہے، تو سارا دن تو قربانی میں لگ جائے گا، ہم کپڑے کس وقت پہنیں گے ؟؟؟ چھوٹی عید کے کپڑے پڑے ہوئے ہیں وہی پہن لیں گے. 

وہ سارے دلائل جیسے کاپی پیسٹ کئے ہوں اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ عالم فاضل اور سمجھدار بیٹی ہی لگی،
بیٹی کی یہ بات سن کر مولوی صاحب نے نظریں اٹھائیں، ایک نظر بیٹی کے چہرے پر ڈالی کچھ دیر کو گردن فخر سے تن گئی، اپنی پگ کا شملہ اونچا بہت اونچا محسوس ہوا لیکن اگلے لمحے ہی بچیوں کی معصومانہ خواہشات کا یوں خود کشی کرنا ان کو توڑ گئی. انھیں اپنا آپ بے تحاشہ ناکام باپ جو عید پر بھی ضرورت کی خواہش نہ پوری کرسکا. ان سے یہ برداشت نہ ہوا، جلدی سے کمرے میں جاکر سونے کا کہہ کر بستر میں گھس گئے اور وہاں ہونٹ سی لئے منہ کو بھینچا اور آنکھوں سے کہا، تم آزاد ہو برس لو ورنہ غم کے اندر کے سونامی سے مر ہی جاوگئے!
صبح اٹھ کر مولوی صاحب نماز کے لئے چلے گئے، واپس آئے تو چھوٹی بیٹی نے دس بیس پچاس کے چند نوٹ ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے،
بولی بابا یہ پیسے ہیں آپ ایسے کریں کہ بھائی کو کپڑے لے دیں، اس نے کل آپکے ساتھ مسجد جانا ہے اور وہ چھوٹا ہے، گلی میں کھیلے گا تو سب کیا کہیں گے! 

یہ ایک اور دھماکہ تھا،
لیکن بہن کا بھائی کے لئے پیار کیا ہوتا ہے، وہ سب سمجھا گئے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر مولوی حضرات کی زندگی اسی طرح کی کشمکش کی شکار ہے وہ شخص جو پورے محلے کو عید کی نماز پڑھاتا ہے خود اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کپڑے بھی نہیں خرید سکتا ..نہ ان لوگوں کی تنخواہ خاطر خواہ ہوتی ہے، نہ ہی آمدن کا کوئی دیگر ذریعہ، ایسے میں ہم لوگوں کو ہی ان کی مدد کرنی چاہئے... ہم 1500 روپے کا سوٹ 5000 روپے میں تو خرید سکتے ہیں مگر کسی غریب کی مدد نہ کرنے کے ہزاروں بہانے ڈھونڈتے ہیں ... بڑے پلازہ میں جاکر دو کوڑی کی چیز ہزاروں روپے میں چپ چاپ خرید لیتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب 100، 50 مانگ لے تو فلا سفر بن کر اسے لیکچر دیتے ہیں ..ایک دوسرے کی مدد سے ہی زندگی کا اصل مقصد حاصل کیا جا سکتا ہیں۔"
تحریر نہ نامعلوم کس کی ہے لیکن عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے!

No comments:

Post a Comment