Thursday, 29 June 2017

کیا خرگوش کھانا حرام ہے؟

کیا خرگوش کا گوشت کھانا حرام ہے؟  مجھے  یہ پیغام فیس بک پر ملا ہے کہ "خرگوش صدیوں سے کھایا جا رہا ہے اور کھایا جاتا رہے گا کیونکہ میرے کہنے سے کوئی تھوڑا ہی رکے گا.
بڑی معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ میں اس گوشت کو نہیں کھاتا اور مشورہ بھی یہ ہی دونگا کہ اسے نہ کھائیں.
اگر کوئی اس سلسلے میں حدیث لاتا ہے تو وہ بوگس ہوگی،
اللہ کا نظام قطعی درست ہے، اسے چیلنج کرنے والا غلط ہوگا
میں اس کو کیوں نہیں کھاتا حلال حرام کی کسوٹی جانور کے اندر خود قدرت نے رکھ دی اس کو کو ئی چیلنج نہیں کرسکتا
اس کسوٹی سے ایک عام آدمی بھی حلال و حرام جانور کو پہچان سکتا ہے؛
۱  حلال جانور کا پیر کھر ہوگا حرام کا پنجہ
۲ حلال جانور کے اوپر والے دانت نہیں ہوں گے حرام جانور کے اوپر کے دانت ہوںگے
۳ دودھ کی گول جگہ ہوگی حلال جانور کی  اور حرام جانور کی دودھ کی جگہ لمبائی میں ہوگی
۴ حلال جانور جب بھی زمین ہر بیٹھے گا تو پیلے اگلے گھٹنے زمیں پر ٹکائے گا  حرام جانور پہلے پچھلی ٹانگیں کلوز کرےگا اور اگلی ٹانگ سدھی رکھے گا
۵ حلال جانور کھانا کھانے کے بعد اسے دبارہ بارک کرے گا یعنی منہ میں لائے گا جس کو پنجابی میں جگالی کرنا کہتے ہیں  اور حرام جانور جگالی نہیں کرتے
ایک اور نوٹ جگالی صرف وہ جانور کرتے ہیں جن کے اندر  دو اوجھری ہوتی ہیں
ان سے معافی چاہوں گا جو خرگوش شوق سے کھاتے ہیں،
بس یہ دیکھ لیں کہ خرگوش میں ساری نشانیاں کتے بلی گیدڑ وغیرہ حرام جانورں کی ہیں، گائے بکری ہرن بھینس اونٹ وغیرہ حلال جانور کی ایک بھی نشانی نہیں ہے  خرگوش کے پیٹ میں حرام جانوروں کی طرح اوجھری بھی ایک ہے."
براہ کرم رہبری فرمائیں.

جواب: خرگوش ایسا جانور ہے کہ جو گھاس ودانہ کھاتا ہے مردار یا نجاست اُس کی غذا نہیں ہے، نہ ہی وہ اپنے پنجوں یا چونچ سے شکار کرتا ہے، پس شرعی طریق پر ذبح کرکے اس کو کھانا بلاکراہت جائز اور حلال ہے، حضرت نبیٴ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے خرگوش کا گوشت تناول فرمانا ثابت ہے، چنانچہ ہدایہ اخیرین میں ہے ولا بأس بأکل الأرنب لأن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أکل منہ حین أہدي إلیہ مشویًا وأمر أصحابہ بالأکل منہ ولأنہ لیس من السباع ولا من أکلة الجیف فأشبہ الظبي (ص: ۴۲۳، کتاب الذبائح) در مختار میں وحل غراب الزرع الذي یأکل الحب والأرنب إھ ج۵ص۳۶۸ (کتاب الذبائح)
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم دیوبند
.......
خرگوش کا حکم
سوال: خرگوش دوقسم کے ہیں دونوں قسم کے گوشت کھانادرست ہیں یا نہیں بعض کے کان بلی کی طرح کے ہیں اور بعض کے بکری کی طرح۔ فقط
جواب: خرگوش دونوں قسم کے مباح ہیں۔
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
فتاوی رشیدیہ
..........
حلال و حرام چیزوں کا بیان
مسئلہ: جو جانور اور جو پرندے شکار کر کے کھاتے رہتے ہیں یا ان کى غذا فقط گندگى ہے ان کا کھانا جائز نہیں جیسے شیر بھیڑ یا گیدڑ بلى کتا بندر شکرا باز گدھ وغیرہ. اور جو ایسے نہ ہوں جیسے طوطا مینا فاختہ چڑیا بٹیر مرغابى کبوتر نیل گائے ہرن بطخ خرگوش وغیرہ سب جائز ہیں.
بہشتی زیور
.........
جن جانور ں کا شکار ہندوستان کے قانون کے حساب سے جرم ہے جیسے مور، ہرن ، خرگوش وغیرہ تو کیا شریعت میں ان کا شکار کرکے کھانا جائز ہے یا کیسا ہے؟
Jul 28,2015
Answer: 59712
Fatwa ID: 918-914/B=10/1436-U
قانونی جرم کرکے اپنی جان کو اور عزت وآبرو کو خطرہ میں نہ ڈالنا چاہئے اور اپنے پیسوں کو ضائع نہ کرنا چاہئے، قرآن میں آیا ہے،
”وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ“
اگر کسی نے اتفاق سے قانونی جرم کرلیا یعنی ہرن کا شکار کرلیا اور شرعی طریقہ پر اسے ذبح کرلیا تو اس کا گوشت کھانا شرعاً حلال ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
........
الجواب :
الحمد لله
الأرنب من الحيوانات التي يجوز أكلها ؛ لما روى البخاري (5535) ومسلم (1953) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه أنه صاد أرنباً ، وأتي بها أبا طلحة (فَذَبَحَهَا فَبَعَثَ بِوَرِكِهَا وَفَخِذَيْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَيْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَهُ) .
قال النووي رحمه الله : " وَأَكْل الْأَرْنَب حَلَال عِنْد مَالِك وَأَبِي حَنِيفَة وَالشَّافِعِيّ وَأَحْمَد وَالْعُلَمَاء كَافَّة , إِلَّا مَا حُكِيَ عَنْ عَبْد اللَّه بْن عَمْرو بْن الْعَاصِ وَابْن أَبِي لَيْلَى أَنَّهُمَا كَرِهَاهَا . دَلِيل الْجُمْهُور هَذَا الْحَدِيث مَعَ أَحَادِيث مِثْله , وَلَمْ يَثْبُت فِي النَّهْي عَنْهَا شَيْء " انتهى من "شرح مسلم للنووي" .
وجاء في الموسوعة الفقهية (5/134) : " الأرنب حلال أكلها عند الجمهور ، وقد صح عن أنس أنه قال : ... وذكروا الحديث المتقدم ... ، وعن محمد بن صفوان (أو صفوان بن محمد) أنه قال : (صدت أرنبين فذبحتهما بمروة , فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمرني بأكلهما) ، ثم إنها من الحيوان المستطاب , وليست ذات ناب تفترس به , ولم يرد نص بتحريمها , .. وقد أكلها سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه ورخص فيها أبو سعيد الخدري وعطاء وابن المسيب والليث وأبو ثور وابن المنذر " انتهى .
.......
شرعی مسائل میں عقل کے گھوڑے باندھے جائیں۔۔۔
اور حدیث کو نعوذ باللہ بوگس کہنے والے سائل سے کہئے کہ تجدید ایمان ونکاح وتوبہ کریں۔

2 comments:

  1. حدیث کے لئے بو گس کا لفظ بے ادبی ہو جائے گی۔ البتہ شک کی صورت میں غیر مستند یا ضعیف کہنا مناسب ہو گا۔

    ReplyDelete
  2. اوپر نمبر 2 میں یہ کہنا کے حلال جانور کے اوپر کے دانت نہیں ہونگے۔ ۔ میں یہ اضافہ ہونا چاہئے کہ حلال جانور میں اوپر کے دانتوں میں نوکیلے دانت نہیں ہوتے جیسا کہ درندہ یا گوشت خور میں ہوتے ہیں۔ ۔ ۔

    ReplyDelete