ایک حکیم صاحب کا بیان نظر سے گذرا جس میں انہوں نے دو دعوے کئے
*1. گائے کا گوشت مضر صحت ہے
*2. گائے کا گوشت صحابہ کے دور میں نہیں کھایا گیا
اس دعوے کو اگر تحقیقی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات شریعت کی دونوں بنیادوں قرآن اور حدیث کے خلاف نظر آتا ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے حلال جانوروں میں سے گائے کو بھی ذکر فرمایا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی، ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ جس چیز میں ضرر ہو اور اللہ تعالی اس کو حلال قرار دے یا آپ علیہ السلام اس کو قربانی میں پیش کریں.
قد أحل الله لعباده لحم البقر وامتن به عليهم فمن المحال أن يمتن الله على عباده بما هو داء وضرر عليهم قال تعالى: {ومن الإبل اثنين ومن البقر اثنين}.
وفي الصحيحين عن عائشة رضي الله عنها "أن النبي صلى الله عليه وسلم ضحى عن نسائه بالبقر".
اور جہاں اللہ تعالٰی نے دودھ کو بطور نعمت ذکر فرمایا وہیں پر گوشت کے کھانے کو انعام کے طور پر ذکر فرمایا.
التحقيق الذى لا محيص عنه، أن لحومها كألبانها وسمنانها كلَّها شفاءٌ ودواءٌ، كما قال تعالى: {وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ}
لہذا یہ دعوی کہ صحابہ نہیں کھاتے تھے یا یہ مضر ہے قرآن کی رو سے یہ دعوی صحیح نہیں.
روایات کی تحقیق
گائے کے گوشت کے متعلق دو روایات مختلف طرق سے وارد ہیں.
*[الأول]* "عَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ، فَإِنَّهَا ترُمُّ مِنْ كُلِّ الشَّجَرِ، وَهُو شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ"
اس روایت میں گائے کا دودھ پینے کا حکم ہے کہ یہ ہر درخت سے چرتی ہے لہذا اس میں شفا ہے.
*[الثانى]* "عَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ وَ سُمْنَانِهَا، وَإِيَّاكُمْ وَلُحُومَهَا، فَإِنَّ أَلْبَانَهَا وسُمْنَانَهَا دَوَاءٌ وَشِفَاءُ، وَلُحُومَهَا دَاء".
اس روایت میں گائے کا دودھ اور مکھن کھانے کا حکم ہے اور گوشت کو بیماری فرمایا گیا.
*روایات کی تحقیق اور حکم*
*پہلی روایت* صحیح الاسناد والمتن ہے کہ سند بھی درست اور متن بھی قرآن کے حکم کے موافق ہے.
- قال النسائى "السنن الكبرى"
(4/193/6863): أخبرنا عبيد الله بن فضالة نا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ يعنى الثَّوْرِىَّ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَنْزَلَ اللهُ دَاءً إِلا أَنْزَلَ لَهُ دَوَاءً، فَعَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ، فَإِنَّهَا ترُمُّ مِنْ الشَّجَرِ كُلِّهِ".
وأخرجه كذلك البزار (1450) عن سلمة بن شبيب، والطحاوى "شرح المعانى"(4/326) عن أبى بشر الرقى، وابن حبان (6075) عن حميد بن زنجويه، وابن عساكر "تاريخ دمشق" عن الفضل بن يعقوب، أربعتهم عن محمد بن يوسف الفريابى عن الثورى به.
قلت: وهذا إسناد صحيح على رسم البخارى.
محدثین کرام نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے جس میں صرف دودھ پینے کا تذکرہ ہے.
*دوسری روایت* جس میں گائے کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے اس روایت کو متقدمین میں سے امام حاکم اور متاخرین میں سے البانی نے صحیح قرار دیا ہے،
لیکن یہ روایت سند اور متن کے اعتبار سے صحیح نہیں،
سندا تو اسلئے کہ کسی سند پر صحت کا حکم لگانے میں امام حاکم کا تساہل معروف ہے جبکہ اس سند میں ایک راوی انتہائی ضعیف ہے.
"عَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ وَسُمْنَانِهَا، وَإِيَّاكُمْ وَلُحُومَهَا، فَإِنَّ أَلْبَانَهَا وسُمْنَانَهَا دَوَاءٌ وَشِفَاءُ، وَلُحُومَهَا دَاءٌ".
قال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه.
قلت: بل منكر الإسناد والمتن، وله آفات:
*1.* سَيْفُ بْنُ مِسْكِينٍ السُّلَمِيُّ الْبَصْرِيُّ. قال ابن حبان فی "المجروحين"
(1/3477): يأتي بالمقلوبات والأشياء الموضوعات، لا يحل الاحتجاج به لمخالفته الأثبات فى الروايات على قلتها.
وقال الدارقطني: ليس بالقوي.
*2.* المخالفة على إسناده ومتنه.
فقد رواه الأثبات من أصحاب المسعودى عن قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْن مَسْعُودٍ عَنْ النَّبيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: "عَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ، فَإِنَّهَا ترُمُّ مِنْ كُلِّ الشَّجَرِ"، وفيه الاقتصار على ذكر الألبان.
*3.* النكارة فى متنه، وهى أبينُ شئٍ وأوضحه فى قوله "وَإِيَّاكُمْ وَلُحُومَهَا، فَإِنَّ لُحُومَهَا دَاءٌ"، إذ الوصف بكونها داء، فى مقابل وصف الألبان والسمنان بأنها شفاء، فيه تنفير شديد عن جميع وجوه الانتفاع بلحوم البقر، وليس مقتصراً على النهى عن أكلها فقط. والعجب فى ذا الوصف؛ أنه مناف للحكمة من خلقها لمن عقل قول الله عزَّ وجلَّ: {وَمِنَ الأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً كُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ وَلا تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ}.
اور متن کے اعتبار سے اس روایت میں نکارت ہے کہ اللہ رب العزت نے جس چیز کو انعام و اکرام کے طور پر فرمایا اس کا آدھا حصہ نافع اور آدھا نقصاندہ ہو ایسا ممکن نہیں.
وقد أجاد ابن الجوزي في قوله:
"فكل حديث رأيته يخالف المعقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع، فلا تتكلف اعتباره".
علامہ ابن جوزی نے اس کے متعلق بہت اعلی بات فرمائی کہ
ہر وہ روایت جو اصول یا عقول کے خلاف ہو تو اس کو موضوع روایت ہی شمار کیا جائے.
*البانی کی تصحیح*
شیخ ابن العیثمین سے جب اس روایت اور شیخ البانی کی تصحیح کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے نہایت جامع بات فرمائی کہ
"غلطی سے پاک اور معصوم صرف اللہ کا نبی ہے باقی ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے اور یہ شیخ کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے".
فالحديث المخالف للقرآن يجب رده.
ولهذا نقول: من صححه من المتأخرين وإن كان على جانب كبير من علم الحديث فهذا غلط، يعتبر تصحيحه غلطاً، واﻹنسان يجب أﻻ ينظر إلى مجرد السند بل عليه أن ينظر إلى السند والمتن، ولهذا قال العلماء في شرط الصحيح والحسن: يشترط أﻻ يكون معلﻼً وﻻ شاذاً.
لكن إذا تأملت أخطاء العلماء رحمهم الله ووفق اﻷحياء منهم علمت بأنه ﻻ معصوم إﻻ الرسول عليه الصﻼة والسﻼم، كل إنسان معرض للخطأ؛ إما أن يكون خطأً يسيراً أو خطأ فادحاً، أنا أرى أن هذا من الخطأ الفادح، أن يقول: إن لحمها داء ولبنها شفاء أو دواء، كيف؟ سبحان الله!! احكم على هذا الحديث بالضعف وﻻ تبالي.
(ابن عثيمين رحمه الله)
*خلاصہ کلام*
گائے کے گوشت میں کوئی نقصان نہیں، البتہ اگر کسی کے مزاج پر خشکی کا غلبہ ہو یا اس علاقے کی آب وهوا خشک ہو تو پرہیز کرلیا جائے ورنہ پاک ھے حلال کھانا جائز ھے.
والله اعلم
gaay (cow) ka gosht khana jayaz aur halaal hy. SAHI MUSLIM-345/1 me hadees hy
١٧١ - (١٠٧٥) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ - وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى -، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمِ بَقَرٍ فَقِيلَ: هَذَا مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: «هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ»
Hazarat AAISHA r.a farmati hain ke aap sollallahu alaihi wa sallam ke paas gaay ka gosht laaya gaya to kisi ne kaha ke ye to wo gosht hy jisko hazarat bareera r.a ke liye sadqa kiya gaya hy to HUZUR sollallahu alaihi wa sallam ne farmaya ke ye gosht bareera ke liye sadqa hy aur hamare liye hadiya hy
To is se saaf zahir hota hy ke aap sollallahu alaihi wa sallam ne bhi usko khaya hy. Kyuo ke aap ne usko apne liye hadiya farmaya hy jis ki wajah to yahi malum hoti hy ke aap sollallahu alaihi wa sallam usko khana pasand far ma rahe the.
: سرخاب اور گائے کا گوشت کھانا حضور ﷺ سے ثابت ہے یانہیں؟
سوال: نشرالطیب میں جو مضمون مفتی الٰہی بخش صاحب کی کتاب سے لیا اس کے باب ماکولات میں ایک روایت حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ حضور سرور کائنات ا کو روغن زیتون، شہد، کدومرغوب تھا، اور حضور سرور عالم ا نے سرخاب، گائے کا گوشت تناول فرمایا ہے، یہ روایت کس کتاب اور کس باب کی ہے، یا شفاء قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ یا شمائل ترمذی اگرحضور والا کو آسانی سے مل جائے تو تحریر فرمایاجائے؟
الجواب: قال فی زادالمعاد اکل (ا ) الحلویٰ والعسل وکان یحبھم واکل لحم الجزوروالضان والدجاج ولحم الحباری ولحم حمارالوحش والارنب وطعام البحر، معلوم ہوا کہ حضور ا نے سرخاب کاگوشت کھایا اور گائے کے گوشت کے بارے میں مسلم کی روایت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کی طرف رغبت ظاہرفرمائی ، اور طلب فرمایا، جس سے بظاہر تناول مفہوم ہوتا ہے، صراحۃً نہیں، روی مسلم فی اٰخر کتاب الزکوٰۃ عن عائشۃ قالت اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلحم بقر فقیل ھٰذاماتصدق بہ علیٰ بریرۃ فقال ھولھا صدقۃ ولنا ھدیۃ، واللہ اعلم،
از امداد الاحکام
12/06/17, 5:51:16 PM: Shahjahan: ثبوت لحم بقر خوردن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم
سوال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گائے کا گوشت کھائے یا نہیں اگر کھائے تو کون کتاب میں ، آگاہ فرما کر سرفراز فرمائیں۔
الجواب:
عن ابی الزبیر عن جابر قال ذبح رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا بقرۃ یوم النحر (صحیح مسلم کتاب الحج صفحہ ۴۲۴جلد۱)
وعن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا واتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلحم بقر فقیل ھذا ما تصدق بہ علی بریرۃ فقیل ھو لھا صدقۃ ولنا ھدیۃ
(صحیح مسلم کتاب الزکوۃ صفحہ ۳۴۵جلد۱)
حدیث اول سے ذبح بقرہ اور حدیث ثانی سے دسترخوان پر لحم بقرہ کا حاضر ہونا اور مانع عن الاکل کا جواب دینا جس کا لازم عادی ہے نوش فمرانا یہ سب تصریحاً حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
۱۷ ذی الحجہ ۱۳۴۵ھ
از بوادر النوادر
No comments:
Post a Comment