رُوِیَ اَنَّہُ عَلَیَہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ قَالَ مَنْ تَرَکَٔ الصَّلٰوۃَ حَتّٰی مَضٰی وَ قْتُھَا ثُمَّ قَضٰی عُذِّبَ فِی النَّارِ حُقْبًا وَ الْحُقْبُ ثَمَانُوْنَ سَنَۃً وَالسَّنَۃُ ثَٰلثُمِا ئَۃٍ وَّسِتُّوْنَ یَوْمًا کُلُّ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضا کر دے گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہو گا (اس حساب سے) ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی۔
(کذافی مجالس الابرار قلت لم اجدہ فیما عندی من کتب الحدیث الاان مجالس الابرار مدحہ شیخ مشائخنا الشاہ عبد العزیز الدہلوی ثم قال الرغب فی قولہ تعالی لا بثین فیہا الحقابا قیل جمع الحقب ای الدہر قیل والحقبۃ ثمانون عاما والصحیح ان الحقبۃ مدۃ من الزمان مبہمہ و اخراج ابن کثیر فی تفسیر قولہ تعالی فویل للمصلین الذین ہم عن صلوتہم ساہون عن ابن عباس ان فی جہنّم لوادیا تسعیذ جہنّم من ذلک الوادی فی کل یوم ار بماتۃ مرۃ اعد ذلک الوادی للمرائتین من امت محمد الحدیث وذکر ابو للیث السمرقندی فی قرۃ العیون عن ابن عباس وہو مسکن من یوخر الصلوۃ عن وقتہا و عن سعد بن ابی وقاص مرفوعا الذین ہم عن صلوتہم ساہون قال ہم الذین یوخرون الصلوۃ عن وقتہا وصحح الحاکم البیہقی وقفہ وخراج الحاکم عن عبد اللّٰہ فی قولہ تعالی فسوف یلقون غیا قال واد فی جہنّم بعید القعر خبیث الطعم وقال صحیح الاسناد)۔
رقم الحديث: 3271
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِرْدَاسٍ ، ثنا أَبُو الْمُعَلَّى سُلَيْمَانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيَّ : هَلْ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ أَحَدٌ ؟ فَقَالَ : حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " وَاللَّهِ لا يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ أَحَدٌ حَتَّى يَمْكُثُ فِيهَا أَحْقَابًا ، قَالَ : وَالْحِقَبُ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ سَنَةً ، كُلُّ سَنَةٍ ثَلاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ يَوْمًا مِمَّا تَعُدُّونَ " .
قَالَ الْبَزَّارُ : لا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنِ التَّيْمِيِّ عَنْ نَافِعٍ إِلا سُلَيْمَانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، وَهُوَ بَصْرِيٌّ مَشْهُورٌ .
حقب کی تحقیق:
جواب: رُوِیَ اَنَّہُ عَلَیَہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ قَالَ مَنْ تَرَکَٔ الصَّلٰوۃَ حَتّٰی مَضٰی وَ قْتُھَا ثُمَّ قَضٰی عُذِّبَ فِی النَّارِ حُقْبًا وَ الْحُقْبُ ثَمَانُوْنَ سَنَۃً وَالسَّنَۃُ ثَٰلثُمِا ئَۃٍ وَّسِتُّوْنَ یَوْمًا کُلُّ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضا کر دے گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہو گا ( اس حساب سے ) ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی۔
( کذافی مجالس الابرار قلت لم اجدہ فیما عندی من کتب الحدیث الاان مجالس الابرار مدحہ شیخ مشائخنا الشاہ عبد العزیز الدہلوی ثم قال الرغب فی قولہ تعالی لا بثین فیہا الحقابا قیل جمع الحقب ای الدہر قیل والحقبۃ ثمانون عاما والصحیح ان الحقبۃ مدۃ من الزمان مبہمہ و اخراج ابن کثیر فی تفسیر قولہ تعالی فویل للمصلین الذین ہم عن صلوتہم ساہون عن ابن عباس ان فی جہنّم لوادیا تسعیذ جہنّم من ذلک الوادی فی کل یوم ار بماتۃ مرۃ اعد ذلک الوادی للمرائتین من امت محمد الحدیث وذکر ابو للیث السمرقندی فی قرۃ العیون عن ابن عباس وہو مسکن من یوخر الصلوۃ عن وقتہا و عن سعد بن ابی وقاص مرفوعا الذین ہم عن صلوتہم ساہون قال ہم الذین یوخرون الصلوۃ عن وقتہا وصحح الحاکم البیہقی وقفہ وخراج الحاکم عن عبد اللّٰہ فی قولہ تعالی فسوف یلقون غیا قال واد فی جہنّم بعید القعر خبیث الطعم وقال صحیح الاسناد)۔
ف: حقب کے معنی لغت میں بہت زیادہ زمانہ کے ہیں اکثر حدیثوں میں اس کی مقدار یہی آئی ہے جو اوپر گذری یعنی اسی سال در منژور میں متعدد روایات سے یہی مقدار منقول ہے حضرت علی ؓ نے ہلال ہجری سے دریافت فرمایا کہ حقب کی کیا مقدار ہے انہوں نے کہا کہ حقب اسی برس کا ہوتا ہے اور ہر برس بارہ مہینے کا اور ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن ایک ہزار برس کا حضرت عبداﷲبن مسعود سے بھی صحیح روایت سے اسی برس منقول ہین حضرت ابو ہریرہ نے خود حضور اقدس ﷺ سے یہی نقل کیا ہے کہ ایک حقب اسی سال کا ہوتا ہے اور ایک سال تین سو ساٹھ دن کا اور ایک دن تمھارے دنوں کے اعتبار سے ( یعنی دنیا کے موافق) ایک ہزار سال کا یہی مضمون حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے بھی حضورﷺ سے نقل فرمایا ہے اس کے بعد حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس بھروسہ پر نہیں رہنا چاہئے کہ ایمان کی بدولت جہنم سے آکر نکل جائیں گے اتنے سال یعنی دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس جلنے کے بعد نکلنا ہو گا وہ بھی جب ہی کہ اور وجہ زیادہ پڑے رہنے کی نہ ہو اس کے علاوہ اور بھی کجھ مقدار اس سے کم و زیادہ حدیث میں آئی ہے مگر اول تو اوپر والی مقدار کئی حدیثوں کمیں آئی ہے اسلئے یہ مقدم ہے دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ آدمیوں کی حالت کے اعتبار سے کم و بیش ہو۔
بحوالہ: فضائل اعمال
شیخ زکریا رحمہ اللہ
No comments:
Post a Comment