Thursday, 1 June 2017

چاند پر اشکالات کا کیا ہے حل؟

ایس اے ساگر
عوام االناس میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر پچھلا اسلامی مہینہ 29 کا تھا تو یہ مہینہ 30 کا ہوگا یا اگر پچھلے دو مہینے 29 کے تھے تو یہ مہینہ یقینا 30 کا ہی ہوگا جبکہ فن فلکیات کے اعتبار سے یہ ایک ناقابل اعتبار صورت حال ہے کیوں کہ اکثر ماہرین فلکیات کے مطابق 29 کے مہینے مسلسل تین جمع ہوسکتے ہیں اور بعض ماہرین کے مطابق تو چار بھی جمع ہوسکتے ہیں اور 30 کے مہینے بالاتفاق چار جمع ہوسکتے ہیں ۔
حوالہ کے لئے فلکیات جدیدہ، مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمہ اللہ صفحہ 345 سے رجوع کیا جاسکتا ہے.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلسل 29 یا 30 کے چاندوں سے اگلے مہینے کے ہلال پر کیا اثر پڑتا ہے؟

پہلی کے چاند پر اشکال:

اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ انتیس دنوں کے بعد نظر آنے والا چاند تیس دنوں کے بعد نظر آنے والے چاند سےباریک ہوتا ہے اگر کوئی چاند دو انتیس دنوں والے مہینے کے بعد نظر آرہا ہے تو وہ اور زیادہ باریک ہوگا اور تین انتیس دنوں والے مہنے کے بعد نظر آنے والا چاند اور زیادہ باریک ہوگا اس کے برعکس دو تیس دنوں کے مہینے کے بعد نظر آنے والا چاند ایک تیس دنوں والے مہینے کے بعد نظر آنے والے چاند سے زیادہ موٹا ہوگا اسی طرح ایسے تین مہینوں کے بعد نظر آنے والا چاند اور زیادہ موٹا ہوگا۔ مختصر یہ ہے کہ جو چاند جتنے مسلسل انتیس دنوں والے مہنوں کے بعد آئے گا اتنا زیادہ باریک ہوگا اور جو جتنے زیادہ تیس دنوں والے مہینے کے بعد آئے گا وہ اتنا زیادہ موٹا ہوگا ۔
اس کی ایک انوکھی مثال یہ ہے کہ 1432 ھجری کے دوران جنوبی افریقہ میں ایک انوکھے واقعے نے ماہرین فلکیات کو چونکا دیا جب جنوبی افریقہ میں اس سال پانچ مہینے مسلسل 29 کے ہوگئے۔ محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی اور جمادی الاولیٰ۔
عام طور پر لوگ یہ اشکال کرتے ہیں کہ اکثر و بیشتر پہلی کا چاند بہت موٹا ہوتا ہے جس کو دیکھ کر بہت سے لوگ یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ دوسری کا چاند ہے۔
یہ طرز عمل ٹھیک نہیں کیونکہ ایک تو حدیث میں اس کو قیامت کی علامات میں سے کہا گیا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’چاند کا موٹا ہونا قرب قیامت کی علامت ہے اور پہلی کا چاند دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ یہ دوسری کا ہے. بحوالہ طبرانی و ابن شیبہ.

کیا کہتے ہیں محققین؟

دوسری بات یہ ہے کہ انتیس دنوں کے بعد نظر آنے والا چاند تیس دنوں کے بعد نظر آنے والے چاند سےباریک ہوتا ہے. محققین کے نزدیک چار مہینے مسلسل انتیس دنوں کے ہوسکتے ہیں اور اسی طرح چار مہینے مسلسل تیس دنوں کے بھی ہوسکتے ہیں اب اگر کوئی چاند دو انتیس دنوں والے مہینے کے بعد نظر آرہا ہے تو وہ اور زیادہ باریک ہوگا اور تین انتیس دنوں والے مہنے کے بعد نظر آنے والا چاند اور زیادہ باریک ہوگا اس کے برعکس دو تیس دنوں کے مہینے کے بعد نظر آنے والا چاند ایک تیس دنوں والے مہینے کے بعد نظر آنے والے چاند سے زیادہ موٹا ہوگا اسی طرح ایسے تین مہینوں کے بعد نظر آنے والا چاند اور زیادہ موٹا ہوگا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو چاند جتنے مسلسل انتیس دنوں والے مہنوں کے بعد آئے گا اتنا زیادہ باریک ہوگا اور جو جتنے زیادہ تیس دنوں والے مہینے کے بعد آئے گا وہ اتنا زیادہ موٹا ہوگا لہذا محض چاند کے پتلے یا موٹے ہونے کی بنیاد ہر تاریخ کا فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔

موٹائی سے نہ کھائیں دھوکہ:

تیسری بات یہ ہے کہ بعض مرتبہ مطلع کے بدلنے سے بھی چاند کے سائز میں فرق آجاتا ہے اسے بطور مثال یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلا چاند پیدا ہونے کے سولہ گھنٹے بعد اس کے نظر آنے کا امکان ہے اب ایک جگہ جب سورج غروب ہوا تو اس وقت چاند کو پیدا ہوئے 15 گھنٹے گزرے تھے اس لئے چاند نظر نہیں آسکا لیکن 15 درجے طول البلد کا سفر طے کرنے کے بعد جب چاند کو سولہ گھٹے گزرگئے تو دوسری جگہ پر چاند نظر آگیا، اگلے روز (24 گھنٹے گزرنے کے بعد) جب پہلی جگہ کے افق پر نظر آئے گا تو اس وقت اس کی عمر انتالیس گھنٹے ہوگی (24+ 15 = 39) ظاہر ہے کہ یہ چاند کافی موٹا ہوگا لیکن پہلی کا چاند ہوگا جبکہ دوسری جگہ کے افق پر دوسرے دن چالیس گھنٹے کا چاند ہوگا (24+16 =40) اور دوسری رات کا ہوگا۔ دونوں چاند پہلی رات کے ہیں دوسری جگہ کے افق پر اس کی عمر دگنا ہوجانے کے باعث چاند اسی قدر موٹا دکھائی دے گا اور اسی حساب سے افق سے کافی بلند ہوگا جسے لوگ غلطی سے دوسری رات کا چاند خیال کریں گے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ محض چاند کے قدرے موٹے ہونے کی بنیاد پر اسے دوسری تاریخ کا چاند کہنا درست نہیں۔ تصدیق کے لئے مولانا اعجاز احمد صمدانی کی کتاب، آسان فلکیات، صفحہ :75 سے رجوع کیا جاسکتا ہے.

کافی لمبا دن ہو تو کیا کریں؟

طویل النہار مقامات میں یعنی جن علاقوں میں دن کافی لمبا ہو ان میں، روزے کا کیا حکم ہوگا ؟؟ وہ ممالک جو قطب شمالی وجنوبی North and South Pole کے قریب واقع ہیں ان میں بعض مقامات پر دن کافی لمبا ہوتا ہے صبح صادق سے غروب کا کل وقت 23 گھنٹے سے بھی اوپر ہوجاتا ہے ان مقامات میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اتنا لمبا روزہ رکھیں یا اس کی کوئی اور صورت ہوگی ؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دن چھوٹا بڑا ہونے سے نماز روزے میں کوئی اثر نہیں پڑتا دن بڑا ہونے کی صورت میں اگر چوبیس گھنٹے کے اندر غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کچھ کھانے پینے کا وقت مل جاتا ہو تو غروب تک روزہ رکھنا فرض ہے البتہ اس کا تحمل نہ ہو تو چھوٹے دنوں میں قضا رکھے، اوراگر غروب کے بعد بقدر ضرورت کھانے کا وقت نہ ہو یا چوبیس گھنٹے کے اندر غروب ہی نہ ہو تو اس میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنے یک گنجائش ہے :
۱۔ قول شافعی رحمہ اللہ کے مطابق اس قریب تر علاقے میں جہاں غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کھانے ہینے کا وقت مل جاتا ہو اس کے مطابق عمل کرے ۔
۲۔ ہر چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے پہلے صرف اتنے وقت کے لئے روزہ چھوڑا جائے جس میں بقد ضرورت کچھ کھا سکے ۔ ان دونوں اقوال میں نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔
۳۔دوسرے معمولی ایام میں روزے قضا رکھے ۔
۴۔ چوبیس گھنٹے کے اندر غروب والے ایام میں سب سے آخری دن میں ابتدا وقت عصر سے جتنی دیر بعد غروب ہوا تھا، عصر سے اتنی دیر بعد افطار کرلے ۔
یہ آخری قول موافق استصحاب حال و حدیث دجال و اقرب الی قول الشافعی ہونے کے علاوہ اسہل یعنی زیادہ آسان بھی ہے ۔
قطبین کے قریب سال بھر میں کسی بھی عام معمول کے مطابق چوبیس گھنٹے میں شب و روز پورے نہیں ہوتے ، اس مقام میں آخری دو اقوال پرعمل نہیں ہوسکتا لہذا وہاں پہلا اور دوسرا قول ہی عمل کے لئے متعین ہوگا اس کا تحمل نہ ہوتو قول شافعی کے مطابق قریب ترین علاقے کے چھوٹے دنوں میں ان کی مقدار کے مطابق روزے رکھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
بحوالہ : احسن افتاویٰ صفحہ 113 جلد 2
کسی کو اشکال ہو تو تصویر سے رجوع کیا جاسکتا ہے جس  میں دائیں جانب سویڈن کی ایک مسجد کے اوقات نماز دکھائے گئے ہیں ان اوقات کے مطابق مغرب سے فجر میں صرف 38 منٹ کا فرق ہے جبکہ دن 23 گھنٹے اور 22 منٹ پر مشتمل ہے۔

اختلاف کیسے ختم ہو؟

پشاور مسجد قاسم علی خان میں کم و بیش 50 گواہ پیش ہوئے جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ وہ افراد ہے جنھوں نے شام کو انتہائی ناقص الاحوال چاند جس کی بلندی پشاور میں کہیں بھی 5.7  درجے سے زیادہ نہیں تھی۔ ایسے ناقص الاحوال چاند کے موقع ہر اکثر ماہرین فلکیات کی طرف سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ جس علاقے میں بھی لوگ ایسا ناقص چاند دیکھنے کا دعویٰ کریں اور وہاں کی رویت ہلال کمیٹیوں کے ذمہ داران ان گواہوں کو معتبر جان کر چاند نظر آنے کا فیصلہ کردیں تو انھیں چاہئے کہ وہ گواہوں کے نام ،مقام، تعداد اور ا ن سے پوچھے گئے سوالات پر مشتمل اپنے فیصلے کی تحریری تفصیل شائع کریں تاکہ عالمی سطح پر کام کرنے والے ماہرین فقہ و فلکیات فیصلے کے مندرجات پر غور کرکے اپنی تحقیق میں مزید بہتری لاسکیں یا فیصلہ کرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ گواہی دینے والے غلظ فہمی میں مبتلا تھے۔ مسجد قاسم علی خان میں گواہوں کے نام مقام و تعداد کو تو تحریر کیا جاتا ہے لیکن گواہوں سے پوچھے گئے سوالات نہیں تحریر کئے جاتے۔ ان سے سوال ہی نہیں کیا جاتا کہ چاند کس وقت دیکھا ؟ کس طرف دیکھا ؟ چاند کی نوکیں کس طرف تھیں؟ وغیرہ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مسلمان گواہی دے رہا ہے کہ چاند دیکھا ہے تو یہ جھوٹ تو نہیں بول سکتا؟  اور ویسے بھی ایسے سوالات کرنے کے ہم پابند نہیں کیوں کہ عہد رسالت میں گواہوں سے ایسے کوئی سوالات نہیں کئے جاتے تھے ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ بالکل نہیں بول سکتا لیکن کبھی انسان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے ہوسکتا ہے جس کو وہ چاند سمجھ رہا ہو وہ چاند نہ ہو اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ اس سے فنی سوالات کئے جائیں اگر اس سے فنی سوالات کئے گئے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ واقعی اس نے چاند دیکھا ہے یا غلط فہمی ہوئی ہے ۔ بس اتنی آسان سی بات ہے یہی واحد طریقہ ہے جس سے یہ اختلاف ختم ہوسکتا ہے۔

چاند کی شکلیں:

چونکہ چاند آفتاب کی روشنی کے انعکاس سے چمکتا ہے نہ کہ اپنی ذاتی روشنی سے، اس لئے ہمیں چاند مختلف اشکال اور ہیئات یعنی بدر، ہلال، تربیع وغیرہ میں نظر آتا ہے ۔

چاند کی چار شکلیں معروف ہیں :
1۔ محاق
2۔ ہلال
3۔ تربیع
4۔ بدر
احدب کا معنٰی ’کبڑا‘ Kubra ہے یعنی وہ شخص جس کی پیٹھ جھک گئی ہو چونکہ چاند کی شکل بھی اس وقت جھکی ہوئی کمر کی طرح ہوتی ہے اسی لئے اسے ’احدب‘ کہتے ہیں.

محاق :
New Moon : Mahaq

ہلال :
Cresent : Hilal

تربیع :
'Quarter : Trabee

بدر :
Full Moon : Badr

احدب :
Gibbous : Ahdab

No comments:

Post a Comment