Tuesday, 20 June 2017

حرمت ِمصاہرت؛ کچھ نئے کچھ پرانے زاویے

نوٹ: اہل ِعلم و اِفتاء سے گزارش ہے کہ وہ اِس مضمون کا مطالعہ فرمائیں اور جو بات غلط نظر آئے اُس کی نشاندہی فرمائیں۔ ہم حق کے سامنے آنے پر انشاء اللہ اپنی بات پر اِصرار نہ کریں گے۔
وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٍ ۔
بِسْمِ اللّٰہِ حَامِدًا وَّمُصَلِّیًا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا
حرمت ِمصاہرت سے کیا مراد ہے؟ 
جب کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اُس کے نتیجہ میں قرآن و حدیث کی رُو سے مندرجہ ذیل رشتوں سے نکاح کرنا حرام ہوجاتا ہے :
-i اپنی ساس سے اور ساس کی دادی اور نانی وغیرہ سے۔
-ii بیوی کے ساتھ تنہائی بھی ہوچکی ہو تو سوتیلی بیٹی سے۔
-iii عورت کے لیے سوتیلے بیٹے سے۔
-iv مرد کے لیے اپنے بیٹے اور پوتے کی بیوی سے اور عورت کے لیے اپنی بیٹی اور پوتی کے شوہر سے۔
نکاح کی اِس حرمت کو حرمت ِ مصاہرت یا آسان لفظوں میں سُسرالی حرمت کہتے ہیں۔
حرمت ِ مصاہرت کے چند اور مواقع :
کسی مرد نے کسی اجنبی عورت سے زنا کیا تو اَب اُس مرد کا اُس عورت کی ماں سے اور اُس عورت کی بیٹی سے نکاح کرنا دُرست نہیں رہتا اور یہی حکم اُس وقت ہے جب مرد نے زنا تو نہیں کیا لیکن شہوت سے عورت کے جسم پر ہاتھ پھیرا ہو خواہ بلاحائل ہو یا ایسا باریک کپڑا بیچ میں حائل ہو جو جسم کی حرارت محسوس ہونے سے مانع نہ ہو۔ اگر عورت کا بوسہ لے یا عورت کی اندرونی شرمگاہ پر شہوت سے نظر ڈالے تو اُس کا بھی یہی حکم ہے۔ اِسی طرح اگر کسی عورت نے شہوت سے کسی مرد کو ہاتھ لگایا یا اُس کا بوسہ لیا تو اَب اُس عورت کی ماں اور بیٹی سے اِس مرد کو نکاح کرنا حرام ہوجاتا ہے۔
اجنبی عورت سے جماع یا دواعی جماع یعنی شہوت سے ہاتھ پھیرنا یا بوسہ لینا یا شہوت سے اندرونی شرمگاہ پر نظر ڈالنا اِن سے حرمت ِ مصاہرت کا ثبوت حدیث و آثار میں ہے:
-i عَنْ اَبِیْ ھَانِئِی الْخَوْلَانِی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ نَّظَرَ اِلٰی فَرْجِ امْرَأَةٍ لَمْ یَحِلُّ لَہ اُمُّھَا وَلَابِنْتُھَا(اعلاء السنن ص٣٢ ج١١)
ابوہانی خولانی کہتے ہیں رسول اللہ ۖ نے فرمایا جس نے کسی عورت کی (اندرونی) شرمگاہ کی طرف دیکھا تو اُس کے لیے اُس عورت کی ماں اور بیٹی حلال نہ رہی۔
-ii عَنْ مُّجَاہِدٍ اِذَا قَبَّلَھَا اَوْلَامَسَھَا اَوْ نَظَرَ اِلٰی فَرْجِھَا مِنْ شَھْوَةٍ حَرُمَتْ عَلَیْہِ اُمُّھَا وَ بِنْتُھَا۔(اعلاء السنن ص ٣٤ ج ١١)
بڑے تابعی مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مرد کسی اجنبی عورت کا بوسہ لے یا اُس کو شہوت سے چھوئے یا شہوت سے اُس کی شرمگاہ کو دیکھے تو اُس عورت کی ماں اور بیٹی اُس مرد پر حرام ہوجاتی ہیں۔
-iii عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّّبِ وَالْحَسَنِ قَالَا اِذَا زَنَی الرَّجُلُ بِامْرَأَةٍ فَلَیْسَ لَہ اَنْ یَّتَزَوَّجَ ابْنَتَھَا وَلَا اُمَّھَا۔ (اعلاء السنن ص ٣٣ ج١١)
سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں جب آدمی کسی عورت سے زنا کرلے تو وہ اُس عورت کی بیٹی اور ماں سے نکاح نہیں کرسکتا۔
-iv عَنْ اَبِیْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ فِیْمَنْ زَنٰی بِامْرَأَةٍ لَایَصْلُحُ لَہ اَنْ یَّتَزَوَّجَ ابْنَتَھَا اَبَدًا۔ (اعلاء السنن ص ٣٣ ج١١)
ابو سلمہ بن عبد الرحمن اور عروہ بن زبیر رحمہما اللہ کہتے ہیں جو شخص کسی عورت سے زنا کرے تو وہ اُس عورت کی بیٹی سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔
نکاح کی حرمت کے اِس مسئلہ کو حنفی فقہاء نے عقلی زاویہ سے اِس طرح سے بیان کیا کہ اِس حرمتکا اصل سبب جماع ہے اور وہ بھی اِس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ وہ زنا ہے بلکہ اِس اعتبار سے کہ وہ بچے کا سبب بنتا ہے جس سے مرد اور عورت کے درمیان جزئیت قائم ہوتی ہے۔
اِس جزئیت کو اِس طرح سے سمجھئے کہ جب کوئی عورت کسی غیر کے بچے کو دُودھ پینے کی عمر میں دُودھ پلاتی ہے تو اُس کا جزو یعنی دُودھ بچے کے پیٹ میں جاتا ہے اور اِس طرح سے وہ بچے کا جزو بن کر اُس کی نشو و نما کا باعث بنتا ہے۔ جب عورت کا جزو بچے کے بدن کا جزو بنتا ہے تو شریعت اِس جزو بدن بننے والی اور بدن کی تشکیل کرنے والی جزئیت کا اعتبار کرتے ہوئے بچے کو دُودھ پلانے والی کا جزو قرار دیتی ہے اور بچے پر خود اُس عورت کے اُصول و فروع کو حرام قرار دیتی ہے جیسا کہ وہ خود اُس عورت پر حرام تھے۔
اِسی طرح جب کوئی مرد کسی بھی عورت سے جماع کرے خواہ وہ اُس کی منکوحہ ہو یا اجنبی ہو اور اِس سے حمل ٹھہرجائے تو جنین عورت کا جزو ہوتا ہے اور دیگر اجزاء کی طرح جنین کو بھی عورت کے ذریعہ سے غذا ملتی ہے۔ لیکن جنین کی تشکیل میں اصل دار و مدار مرد کے نطفہ کے کِرم (Sperm ) پر ہوتا ہے کہ در اصل اِسی کی نشو و نما سے جنین وجود میں آتا ہے۔ چونکہ نطفہ جنین کا جزو ہے اور جنین عورت کا جزو ہے اور قاعدہ ہے کہ اصل کے جزو کا جزو خود اصل کا جزو قرار پاتا ہے لہٰذا مرد کا نطفہ عورت کا جزو بدن شمار ہوگا اور اُوپر ذکر کیے گئے رضاعت کے قاعدے کے مطابق جیسے بچہ عورت کا جزو قرار پایا تھا اِسی طرح عورت مرد کا جزو قرار پائے گی اور عورت پر وہ مرد اور اُس کے اُصول و فروع حرام ٹھہریں گے جیسا کہ مرد پر اُس کے اپنے اُصول و فروع حرام ہوتے ہیں۔ لیکن اگر میاں بیوی پہلے بچے کی وجہ سے آپس میں حرام ٹھہریں تو خاندانی نظام اور توالد و تناسل کا سلسلہ مختل ہوکر رہ جائے اِس لیے میاں بیوی کے تعلق کو خلاف ِ قیاس حرمت سے مستثنٰی رکھا گیا ہے۔
غرض فقہاء کی عقلی توجیہ کے مطابق حرمت ِ مصاہرت میں جو اصل معنی معتبر ہے وہ جزئیت ہے لیکن جزئیت کو ہر حال میں معلوم کرنا دُشوار ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حمل ٹھہرگیا ہو لیکن ابتدائی دنوں ہی میں عورت کو کچھ بھی معلوم ہوئے بغیر علقہ ساقط ہوگیا ہو جیسے سفر میں قصر میں جو اصل معنی معتبر ہے وہ مشقت ہے لیکن چونکہ مشقت کو ضبط میں لانا بہت مشکل ہے اِس لیے سفر کو جوکہ مشقت کا مظنہ یعنی مشقت کا موقع ہے مشقت کے قائم مقام کرکے سفر کو ہی قصر کا سبب قرار دے دیا گیا اِسی طرح چونکہ جزئیت کے وقوع کو ہر حال میں ضبط کرنا مشکل ہے اِس لیے جماع کو جوکہ جزئیت کے قائم ہونے کا موقع ہے جزئیت کے قائم مقام کردیا گیا اور اس کوحرمت ِ مصاہرت کا سبب قرار دے دیا گیا۔
پھر حدیث میں چونکہ اجنبی عورت میں دواعی ِجماع پر بھی حرمت ِ نکاح کا حکم آیا ہے اِس لیے فقہاء نے عقلی توجیہ کو اور آگے اِس طرح بڑھایا کہ دواعی ِجماع چونکہ جماع تک پہنچاتے ہیں اور مقام احتیاط کا ہے اِس لیے دواعی ِجماع کو جماع کے قائم مقام بناکر اِن پر بھی وہی حکم لاگو کیا گیا جو جماع کا تھا۔
فقہاء کی ذیل کی عبارتیں اِس مضمون پر صریح ہیں :
تبیین الحقائق میں ہے:
لَنَا قَوْلُہ تَعَالٰی وَلاَ تَنْکِحُوْا مَانَکَحَ آبَائُکُمْ ۔ وَالنِّکَاحُ ھُوَ الْوَطْئُی حَقِیْقَةً وَلِھٰذَا حَرُمَ عَلَی الْاِبْنِ مَا وَطِیَ اَبُوْہُ بِمِلْکِ الْیَمِیْنِ وَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَنْ نَّظَرَ اِلٰی فَرْجِ امْرَأَةٍ لَمْ تَحِلُّ لَہ اُمُّھَا وَلَا ابْنَتُھَا وَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَنْ مَّسَّ امْرَأَةً بِشَھْوَةٍ حَرُمَتْ عَلَیْہِ اُمُّھَا وَ ابْنَتُھَا وَھُوَ مَذْھَبُ عُمَرَ وَ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ وَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ وَ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ وَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَمْہُوْرِ التَّابِعِیْنَ ……… وَ تَثْبُتُ بِہ حُرْمَةُ الْمُصَاھَرَةِ وَالْوَطْئُ اِنَّمَا صَارَ مُحَرِّمًا مِنْ حَیْثُ اِنَّہ سَبَب لِلْجُزْئِیَّةِ بِوَاسِطَةٍ وَلَدٍ یُضَافُ اِلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَاکَمُلًا ……… وَالْقِیَاسُ اَنْ تَحْرُمَ الْمَوْطُوْئَةُ لِاَنَّھَا جُزْئُ ہ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ لٰکِنْ اُبِیْحَتْ لِلضَّرُوْرَةِ لِاَنَّھَا لَوْ حَرُمَتْ عَلَیْہِ لَاَدّٰی اِلٰی فَنَائِ الْاَمْوَالِ اَوْ تَرْکِ الزِّوَاجِ ……… وَالْمَسُّ بِشَھْوَةٍ کَالْجِمَاعِ لِمَا رَوَیْنَا وَلِاَنَّہ' یُفْضِیْ اِلَی الْجِمَاعِ فَاُقِیْمَ مَقَامَہ'۔ 
(زیلعی ص ١٠٦ ج٢)
ہدایہ میں ہے:
وَمَنْ زَنٰی بِامْرَأَةٍ حَرُمَتْ عَلَیْہِ اُمُّھَا وَ بِنْتُھَا …… وَلَنَا اَنَّ الْوَطْئَ سَبَبُ الْجُزْئِیَّةِ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ حَتّٰی یُضَافَ اِلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا کَمُلًا فَتَصِیْرُ اُصُوْلُھَا وَفُرُوْعُھَا کَاُصُوْلِہ وَفُرُوْعِہ وَکَذٰلِکَ عَلَی الْعَکْسِ وَالْاِسْتِمْتَاعِبِالْجُزْئِ حَرَام اِلَّا فِیْ مَوْضَعِ الضَّرُوْرَةِ وَھِیَ الْمَوْطُوْئَةُ۔ وَالْوَطْئُ مُحَرَّم مِنْ حَیْثُ اِنَّہ سَبَب لِلْوَلَدِ …… وَمَنْ مَّسَّہ امْرَأَة بِشَھْوَةٍ حَرُمَتْ عَلٰی اُمِّھَا وَ بِنْتِھَا …… لَنَا اَنَّ الْمَسَّ وَالنَّظْرَ سَبَب دَاعٍ اِلَی الْوَطْئِ فَیُقَامُ مَقَامَہ فِیْ مَوْضَعِ الْاِحْتِیَاطِ۔
عنایہ میں ہے :
لَنَا اَنَّ الْوَطْئَ سَبَبُ الْجُزْئِیَّةِ وَتَقْرِیْرُہ اَلْوَلَدُ جُزْئُ مَنْ ھُوَ مِنْ مَّائِہ وَالْاِسْتِمْتَاعُ بِالْجُزْئِ حَرَام ۔ اَمَّا اَنَّ الْوَلَدَ جُزْئُ مَنْ ھُوَ مِنْہُ فَلِاَنَّ سَبَبَ الْجُزْئِیَّةِ مَوْجُوْد وَھُوَ الْوَطْئُ فَاِنَّہ سَبَب لِلْجُزْئِیَّةِ مِنَ الْوَالِدَیْنِ وَالْوَلَدُ لَامَحَالَةَ وَکَذَا بَیْنَ الْوَالِدَیْنِ بِسَبَبِ الْوَلَدِ حَتّٰی یُضَافَ اِلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا کَمُلًا یُقَالُ ابْنُ فُلَانٍ وَابْنُ فُلَانَةٍ ………… وَمَنْ مَّسَّتْہُ امْرَأَة بِشَھْوَةٍ بَیَانُ اَنَّ الْاَسْبَابَ الدَّاعِیَةَ اِلَی الْوَطْئِ فِیْ اِثْبَاتِ الْحُرْمَةِ کَالْوَطْئِ فِیْ اِثْبَاتِھَا۔
فتح القدیر میں ہے:
وَالْجَوَابُ اَنَّ الْعِلَّةَ ھُوَ الْوَطْئُ ۔ اَلسَّبَبُ لِلْوَلَدِ وَثُبُوْتِ الْحُرْمَةِ بِالْمَسِّ لَیْسَ اِلَّا لِکَوْنِہ سَبَبًا لِھٰذَا الْوَطْئِ …… وَقَوْلُنَا قَوْلُ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ فِی الْاَصَحِّ وَعِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ وَجَابِرٍ وَاُبَی وَعَائِشَةَ وَجَمْھُوْرِ التَّابِعِیْنَ کَالْبَصْرِیْ وَالشَّعْبِیْ وَالنَّخْعِیْ وَالْاَوْزَاعِیْ وَطَاؤُسٍ وَعَطَائٍ وَمُجَاھِدٍ وَسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَسُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ وَالثَّوْرِیْ وَاِسْحَاقَ بْنِ رَاھْوَیْہِ …… وَقَدْ بَیَّنَّا فِیْہِ اِلْغَائُ وَصْفٍ زَائِدٍ عَلٰی کَوْنِہ وَطْأً وَظَھَرَ اَنَّ حَدِیْثَ الْجُزْئِیَّةِ وَاِضَافَةِ الْوَلَدِ اِلٰی کُلٍّ مِّنْھُمَا کَمُلًا لَایَحْتَاجُ اِلَیْہِ فِیْ تَمَامِ الدَّلِیْلِ اِلَّا اَنَّ الشَّیْخَ ذَکَرَہ بَیَانًا لِحِکْمَةِ الْعِلَّةِیَعْنِیْ اَنَّ الْحِکْمَةَ فِیْ ثُبُوْتِ الْحُرْمَةِ بِھٰذَا الْوَطْئِ کَوْنُہ سَبَبًا لِّلْجُزْئِیَّةِ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ الْمُضَافِ اِلٰی کُلٍّ مِّنْھُمَا کَمُلًا وَھُوَ اِنِ انْفَصَلَ فَلَابُدَّ مِنَ اخْتِلَاطِ مَائٍ وَلَایَخْفٰی اَنَّ الْاِخْتِلَاطَ لَایَحْتَاجُ تَحَقُّقُہ اِلَی الْوَلَدِ وَاِلَّا لَمْ تَثْبُتِ الْحُرْمَةُ بِوَطْئِ غَیْرِ مُعَلَّقٍ وَالْوَاقِعُ خِلَافُہ فَتَضَمَّنَتْ جُزْؤَہ …… وَمَنْ مَّسَّتْہُ امْرَأَة بِشَھْوَةٍ …… ثُمَّ رَأَیْتُ عَنْ اَبِیْ یُوْسُفَ اَنَّہ ذَکَرَ فِی الْاَمَالِیْ مَایُفِیْدُ ذَالِکَ قَالَ امْرَأَةُ قَبَّلَتْ اِبْنَ زَوْجِھَا وَقَالَتْ کَانَتْ عَنْ شَھْوَةٍ اِنْ کَذَّبَھَا الزَّوْجُ لَایُفَرَّقُ بَیْنَھُمَا وَلَوْصَدَّقَھَا وَقَعَتِ الْفُرْقَةُ ۔
نور الانوار میں ہے :
وَعِنْدَنَا کَمَا تَثْبُتُ بِالنِّکَاحِ بِالزِّنَا وَدَوَاعِیْہِ مِنَ الْقُبْلَةِ وَاللَّمْسِ وَالنَّظَرِ اِلَی الْفَرَجِ الدَّاخِلِ بِشَھْوَةٍ وَذَالِکَ لِاَنَّ دَوَاعِیَ الزِّنَا مُفْضِیَة اِلَی الزِّنَا وَالزِّنَا مُفْضٍ اِلَی الْوَلَدِ وَالْوَلَدُ ھُوَ الْاَصْلُ فِی اسْتِحْقَاقِ الْحُرُمَاتِ اَیْ یَحْرُمُ عَلَی الْوَلَدِ اَوَّلًا اَبُ الْوَاطِیْ وَابْنُہ اِذَا کَانَتْ اُنْثٰی وَاُمُّ الْمَوْطُوْئَةِ وَبِنْتُھَا اِذَا کَانَ ذَکَرًا ثُمَّ تَتَعَدّٰی مِنَ الْوَلَدِ اِلٰی طَرْفَیْہِ فَتَحْرُمُ قَبِیْلَةُ الْمَرْأةَ عَلَی الزَّوْجِ وَقَبِیْلَةُ الزَّوْجِ عَلَی الْمَرْأَةِ لِاَنَّ الْوَلَدَ اَنْشَأَ جُزْئِیَّةً وَاتِّحَادًا بَیْنَھُمَا۔ (ص٦٦)
جو بات ہم نے اُوپر ذکر کی ہے اَب ہم اِس پر ہونے والے اعتراضوں کا جواب دیتے ہیں۔
پہلا اعتراض:
تم نے یہ کہا ہے کہ حرمت ِ مصاہرت میں اصل معنی جو معتبر ہے وہ جزئیت ہے اِس طرح سے تم نے جزئیت کو اصل علت بنادیا ہے حالانکہ ابن ِہمام رحمہ اللہ نے فتح القدیر میں جزئیت کے حکمت ہونے کی تصریح کی ہے اور حکم کا مدار علت پر ہوتا ہے نہ کہ حکمت پر۔
ابن ہمام رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اِلاَّ اَنَّ الشَّیْخَ ذَکَرَہ بَیَانًا لِحِکْمَةِ الْعِلَّةِ یَعْنِیْ اَنَّ الْحِکْمَةَ فِیْ ثُبُوْتِ الْحُرْمَةِ بِھٰذَا الْوَطْئِ کَوْنُہ سَبَبًا لِّلْجُزْئِیَّةِ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ۔
جواب: ہم کہتے ہیں کہ ایک ہے حکم کی حکمت اور ایک ہے علت کی حکمت۔ حکم کی حکمت کا ترتب تو حکم پر ہوتا ہے اور حکم کا مدار واقعی اِس پر نہیں، علت پر ہوتا ہے۔ لیکن جو علت کی حکمت ہوتی ہے وہ مختلف چیز ہے۔ علت کا تحقق اُسی وقت ہوتا ہے جب وہ حکمت پائی جارہی ہو یا اُس کا احتمال ہو۔ اگر کہیں اِس حکمت کا احتمال ہی نہ ہو تو علت کا تحقق بھی نہ ہوگا۔
ابن ہمام رحمہ اللہ کی عبارت کو دوبارہ ملاحظہ کیا جائے :
اَنَّ الشَّیْخَ ذَکَرَہ بَیَانًا لِحِکْمَةِ الْعِلَّة یَعْنِیْ اَنَّ الْحِکْمَةَ فِیْ ثُبُوْتِ الْحُرْمَةِ بِھٰذَا الْوَطْئِ کَوْنُہ سَبَبًا لِّلْجُزْئِیَّةِ بِوَاسِطَةِ الْوَلَدِ۔
صاحب ِہدایہ نے اِس کو علت کی حکمت کو بیان کرنے کے لیے ذکر کیا ہے جو یہ ہے کہ اُس وطی سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے وہ اِس وجہ سے کہ وہ وطی بچے کے واسطہ سے جزئیت کا سبب ہے۔ اِس کا حاصل یہ ہے کہ وطی سے جو حرمت ثابت ہے تو اِس حکمت سے کہ وہ جزئیت کا سبب ہے اور یہاں حکمت سے مراد وہ اَثر نہیں جو حکم پر مترتب ہوتا ہے بلکہ مراد عقلی وجہ ہے۔ لہٰذا مطلب یہ بنے گا کہ وطی سے حرمت ثابت ہونے کی عقلی وجہ یہ ہے کہ وطی جزئیت کا سبب ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں حکمت اور عقلی وجہ کا احتمال ہو یعنی وطی کے جزئیت کا سبب بننے کا احتمال ہو وہاں وطی کو حرمت ِ مصاہرت کی علت مانا جائے گا اور جہاں یہ امکان نہیں ہے وہاں اِس کو حرمت کی علت نہیں مانا جائے گا۔
مثلا آدمی اپنی بیٹی سے وطی کر بیٹھے تو چونکہ اِس کی بیٹی تو پہلے ہی سے اِس کا جزو حقیقی ہے اِس لیے وطی سے اُس میں جزئیت پیدا ہونے کا احتمال نہیں لہٰذا بیٹی سے وطی کی وجہ سے حرمت ِمصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ اِسی طرح اگر بیٹا اپنی ماں سے زنا کر بیٹھے تو بیٹا تو اپنی ماں کا مِنْ کُلِّ الْوَجْہٍ جز و ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اِس کی ماں اِس کا جزو بن سکے۔ لہٰذا اِس میں بھی حرمت ِمصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ ہاں اجنبی عورت میں جزئیت کا احتمال ہے اِس میں حرمت مصاہرت ثابت ہوگی۔ 
دُوسرا اعتراض:
تم نے اُوپر کہا ہے کہ جیسے سفر کو مشقت کا مظنہ (موقع) سمجھ کر سفر کو قصر کے لیے علت بنالیا گیا ہے اِسی طرح جزئیت کے مظنہ کی وجہ سے وطی کو حرمت کا سبب بنایا گیا ہے اور سفر میں تو تم ایسی کوئی تفصیل نہیں کرتے تو وطی میں کیوں کرتے ہو۔
جواب: ہم کہتے ہیں کہ سفر شرعی کے ہر فرد میں مشقت کا احتمال موجود ہے جبکہ جیسا کہ ہم نے مثالوں سے واضح کیا ہے ہر ہر وطی میں جزئیت کا احتمال موجود نہیں ہے اِس وجہ سے ہم وطی میں تفصیل کرتے ہیں کہ ایک وہ وطی ہے جس میں اُس کی وجہ سے جزئیت کے پائے جانے کا احتمال ہے اور دُوسری وہ ہے جس میں یہ احتمال موجود نہیں کیونکہ جزئیت پہلے سے موجود ہے۔
تیسرا اعتراض:
تم نے حدیث کے الفاظ مَنْ زَنٰی بِامْرَأَةٍ میں بِامْرَأَةٍ کا ترجمہ اجنبی عورت سے کیا ہے حالانکہ حدیث میں اجنبی کی قید نہیں ہے بلکہ وہ مطلق ہے اور ہر عورت کو شامل ہے خواہ وہ اپنی منکوحہ ہو یا بیٹے کی منکوحہ ہو یا اپنی بیٹی ہو یا اجنبی ہو۔
جواب : ہم کہتے ہیں کہ حدیث میں اِمْرَأَة کو مطلق مان کر ہر قسم کی عورت مراد لینا درُست نہیں ہے کیونکہ مرد کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح ہوتے ہی اُس عورت کی ماں یعنی مرد کی ساس مرد پر حرام ہوجاتی ہے بعد میں مرد اپنی بیوی سے جماع کرے یا دواعی جماع کرے تو اِس سے ساس میں کوئی مزید حرمت نہیں آتی جبکہ حدیث میں اُس حرمت کا ذکر ہے جو جماع یا دواعی جماع سے آئے۔ اِسی طرح اگر معاذ اللہ بیٹا اپنی ماں سے بدفعلی کرے تو اِس سے اُس کی اپنی نانی اور اپنی بہن میں مزید حرمت نہیں آئے گی بلکہ حرمت تو پہلے سے موجود ہے۔
پھر فقہاء نے جو جزئیت والی جو حکمت ذکر کی ہے اُس سے بھی اِس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ بیٹی اور ماں کا ذکر ہم اُوپر کرچکے ہیں کہ اِن میں وطی کی وجہ سے جزئیت پائے جانے کا احتمال ہی نہیں ہے۔اِسی طرح بہو میں بیٹے کی جزئیت پہلے ہی قائم ہے جو خود اپنا جزو ہے، تو بہو بھی اپنا جزو بنی۔ جب اِس میں جزئیت پہلے سے موجود ہے تو وہ اپنے تحقق میں سسر سے وطی کی محتاج نہیں رہی اور وطی سے جزئیت پیدا ہونے کا احتمال نہیں رہا لہٰذا سسر بہو سے وطی کرے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔
بیوی میں اپنی جزئیت وطی یا دواعی وطی سے ثابت ہوچکی۔ شوہر جب اپنی ساس سے وطی کرے گا تو ساس میں تو جزئیت آئے گی اور ساس کی اور بیٹیاں یعنی اُس کی سالیاں ساس کا جزو ہونے کی وجہ سے حرام ہوجائیں گی لیکن اپنی بیوی جزئیت اور حرمت ِمصاہرت کی وجہ سے حرام نہیں ہوگی کیونکہ اُس میں اِس شخص کی جزئیت براہِ راست موجود ہے جو مضر نہیں تو بالواسطہ جزئیت کیسے مضر ہوگی۔ بالفاظِ دیگر جب بیوی میں جزئیت پہلے سے موجود ہے تو ساس سے وطی کرنے سے بیوی میں جزئیت پیدا ہونے کا احتمال نہیں ہے۔
اِس پر اگر کوئی کہے کہ ہم ایسی مثال پیش کرتے ہیں جہاں دو دفعہ جزئیت آتی ہے یعنی یہ کہ ایک شخص کی دو بیویاں ہیں ایک بڑی بالغ اور ایک چھوٹی دو سال سے کم عمر کی۔ اَب بڑی بیوی نے اپنی شیرخوار سوکن کو اپنا دُودھ پلادیا تو رضاعت سے قائم ہونے والی جزئیت سے شیر خوار بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ شیرخوار بچی قابل ِشہوت ہی نہیں ہے لہٰذا جماع اور دواعی جماع سے حاصل ہونے والی جزئیت کا اِس میں سرے سے احتمال ہی نہیں ہے۔ البتہ محض رضاعت کی وجہ سے جزئیت پائی گئی اور اِس سے وہ شیرخوار بیوی شوہر پر حرام ہوگئی اور بڑی اِس وجہ سے حرام ہوگی کہ وہ شیرخوار بیوی کی ماں بن گئی اور یہ ہم اُوپر بتاچکے ہیں کہ ساس میں حرمت بیوی سے وطی یا دواعی وطی پر موقوف نہیں ہے۔
ماقبل کی بحث کا خلاصہ:
-1 حرمت ِ مصاہرت صرف اُس وطی (جماع) سے آتی ہے جس سے جزئیت پیدا ہونے کا احتمال ہو۔ ایسا صرف اجنبی عورت میں ہے۔ ساس، بہو، بیٹی اور ماں سے وطی کرنے سے حرمت ِ مصاہرت نہیں آتی کیونکہ اِن میں وطی کی وجہ سے جزئیت پائے جانے کا احتمال نہیں ہے۔
-2 چونکہ حدیث میں اجنبی عورت سے دواعی وطی سے بھی اُس کی ماں بیٹی کی حرمت کا ذکر ہے اِس لیے فقہاء نے عقلی توجیہ کو وسعت دے کر دواعی وطی کو وطی کے قائم مقام کیا وہ بھی ہم تسلیم کرتے ہیں۔غرض اجنبی عورت کے ساتھ وطی پائی جائے یا دواعی وطی پائے جائیں اُس کی ماں بیٹی سے وہ مرد نکاح نہیں کرسکتا ۔اتنی بات طے شدہ ہے۔
محرموں کے ساتھ وطی یا دواعی وطی پائے جانے میں کیا حکم ہوگا ؟
ہم یہ بات پہلے ہی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اِس شق میں ہمیں فقہائے حنفیہ سے اختلاف ہوا ہے اگرچہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے لیکن اوّل تو ہم نے فقہائے حنفیہ کے اُصول اور اُن ہی کی تعلیل کی پیروی کی ہے پھر اُنہوں نے احتیاط کے پہلو کی طرف زیادہ توجہ کی ہے جو اُن کے دَور کے حالات کے زیادہ موافق تھا جبکہ ہمارے دَور کے بدلے ہوئے حالات میں وہ احتیاط اَب زحمت کا باعث بننے لگی ہے اِس لیے ہمارے اختلاف کو حالات کے تغیر پر محمول کیا جائے اور حاشا و کلا ہمارا اَیسا کوئی اِرادہ نہیں کہ ہم اُن کی تنقیص و تحقیر کریں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ اُن حضرات کو اگر ہمارے جیسے حالات سے واسطہ پڑتا تو شاید وہ بھی اِسی طرح مسئلہ کو بیان کرتے۔
فقہائے حنفیہ کے پیش ِ نظر چونکہ احتیاط تھی لہٰذا اُنہوں نے سابقہ حدیثوں میں جن میں یہ ذکر ہے کہ مَنْ زَنٰی بِامْرَأَةٍ یعنی جو کوئی کسی عورت سے وطی یا دواعی وطی کرے اُس عورت کی ماں بیٹی اُس مرد پر حرام ہوجاتی ہیں۔ اِمْرَأَة سے اجنبی عورت نہیں بلکہ کوئی بھی عورت کو مراد لیا ہے خواہ وہ اجنبی ہو یا مرد کی محرم ہو۔ اور وہ کہتے ہیں کہ آدمی جب اپنی ساس سے جماع کرتا ہے تو ساس میں اِس کی جزئیت آجاتی ہے اور ساس کی تمام لڑکیاں چونکہ اُس کا جزو ہیں لہٰذا وہ سب اِس مرد کا بھی جزو بن جاتی ہیں اور نتیجہ میں مرد کی سالیاں اِس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہیں اور اپنی بیوی کے ساتھ اِس کا نکاح فاسد ہوجاتا ہے۔
اِسی طرح وہ کہتے ہیں کہ مرد جب اپنی بہو سے وطی یا دواعی وطی کرتا ہے تو وہ اِس کا جزو بن جاتی ہے اور اِس طریقہ سے اُس کی بہو اُس کے بیٹے کی بہن جاتی ہے اور اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے۔
اور جو روایات و آثار ہم آگے ذکر کریں گے جن کا مضمون یہ ہے کہ جو شخص اپنی ساس سے زنا کر بیٹھے اُس پر اُس کی ساس کے ساتھ اُس کی بیوی بھی حرام ہوجاتی ہے اِن کو وہ محض تائید کے طور پر لیتے ہیں۔
پھر وہ احتیاط کے ضابطہ کے تحت محرم میں بھی دواعی وطی کو بھی وطی ہی کا حکم دیتے ہیں۔ یہ باتمندرجہ ذیل جزئیات سے عیاں ہے :
-i قَالَ اَبُوْیُوْسُفَ : اِمْرَأَة قَبَّلَتِ ابْنَ زَوْجِھَا وَقَالَتْ کَانَ مِنْ شَھْوَةٍ اِنْ کَذَّبَھَا الزَّوْجُ لَایُفَرَّقُ بَیْنَھُمَا وَلَوْصَدَّقَھَا وَقَعَتِ الْفُرْقَةُ۔
عورت نے اپنے سوتیلے بیٹے کا بوسہ لیا اور کہا کہ ایسا شہوت سے کیا ہے اگر شوہر عورت کو جھوٹا بتائے تو اُن کے درمیان تفریق نہ کی جائے گی اور اگر سچا بتائے تو تفریق واقع ہوگی۔
-ii رات کو اپنی بیوی کو جگانے کے لیے اُٹھا مگر غلطی سے لڑکی پر ہاتھ پڑگیا یا ساس پر ہاتھ پڑگیا اور بیوی سمجھ کر شہوت سے اُس پر ہاتھ پھیرا تو اَب وہ مرد و عورت ایک دُوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئے۔ اَب کوئی صورت جائز ہونے کی نہیں ہے اور مرد پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے۔ (بہشتی زیور)
-iii کسی لڑکے نے اپنی سوتیلی ماں پر بدنیتی سے ہاتھ ڈال دیا تو اَب وہ عورت اپنے شوہر پر بالکل حرام ہوگئی۔ اَب کسی صورت سے حلال نہیں ہوسکتی اور اگر سوتیلی ماںنے سوتیلے لڑکے کے ساتھ ایسا کیا تب بھی یہی حکم ہے۔ (بہشتی زیور)
-iv بیوی اپنے شوہر کے اُصول و فروع مثلا سسر کے ساتھ کوئی فعل موجب حرمت ِ مصاہرت کربیٹھے یا سسر نے اِس قسم کے فعل کا اِرتکاب کیا ہو تو اِن صورتوں میں یہ بیوی اپنے اِس خاوند پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے خواہ یہ افعال کسی نے دانستہ کیے ہوں خواہ بھول چوک میں ہوگئے ہوں ہر حال میں ایک حکم ہے۔ (حیلہ ناجزہ)
ہم کہتے ہیں جیسا کہ ہم اُوپر واضح کرچکے ہیں کہ محرم میں وطی سے جزئیت کے پیدا ہونے کا احتمال ہی نہیں ہے لہٰذا اِن میں حرمت ِ مصاہرت ثابت ہی نہ ہوگی نہ وطی سے اور نہ دواعی وطی سے۔
لیکن آثار میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ساس یا اپنی بیوی کی بیٹی سے خواہ وہ اپنی ہو یا سوتیلی ہو زنا کربیٹھے تو اُس کی بیوی بھی اُس پر حرام ہوجاتی ہے۔
-i عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ فِیْمَنْ فَجَرَ بِاُمِّ امْرَأَتِہحَرُمَتَا عَلَیْہِ۔ (اعلاء السنن)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو شخص اپنی ساس سے بدکاری و زنا کرے اُس پر اُس کی ساس اور اُس کی بیوی دونوں حرام ہوجاتی ہیں۔
-ii ذَکَرَ الثَّوْرِیُّ فِیْ جَامِعِہ مِنْ طَرِیْقِہ وَلَفْظُہ اَنَّ رَجُلًا قَالَ اِنَّہ اَصَابَ اُمَّ امْرَأَتِہ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ حَرُمَتْ عَلَیْکَ امْرَأَتُکَ وَذٰلِکَ بَعْدَ اَنْ وَلَدَتْ مِنْہُ سَبْعَةَ اَوْلَادٍ کُلُّھُمْ بَلَغَ مَبْلَغَ الرِّجَالِ ۔ (اعلاء السنن ص ٣٣ ج١١)
فتح الباری میں جامع سفیان ثوری سے مذکور ہے کہ ایک شخص نے آکر بتایا کہ وہ اپنی ساس سے زنا کربیٹھا ہے۔ اِس سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی ہے۔ یہ قصہ اُس وقت ہوا جبکہ اُس شخص کے اُس بیوی سے سات لڑکے تھے جو سب بلوغت کو پہنچ چکے تھے۔
اگرچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی منقول ہے کہ اِذَا زَنٰی بِھَا لَا تَحْرُمُ۔ (بخاری) کوئی شخص اپنی ساس سے زنا کربیٹھے تو اُس کی بیوی اُس پر حرام نہیں ہوتی۔ لیکن اِس قاعدے کے تحت کہ محرم کو مبیح پر ترجیح ہوتی ہے اِن کے حرمت والے قول کو اختیار کیا جائے گا۔
-iii عَنْ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَامِرِ الشَّعْبِیْ فِیْ رَجُلٍ وَقَعَ عَلٰی اُمِّ امْرَأَتِہ قَالَا حَرُمَتَا عَلَیْہِ کِلْتَاھُمَا۔ (اعلاء السنن ص ٣١ ج ١١)
ابراہیم نخعی اور عامر شعبی رحمہما اللہ کہتے تھے جو شخص اپنی ساس سے زنا کربیٹھے اُس پر اُس کی بیوی اور ساس دونوں حرام ہوجاتی ہیں۔
-iv عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ سَمِعْتُ عَطَائً یَقُوْلُ اِذَا زَنٰی رَجُل بِاُمِّ امْرَأَتِہ اَوْ بِنْتِھَا حَرُمَتَا عَلَیْہِ جَمِیْعًا۔ (اعلاء السنن ص ٣٣ ج١١)
ابن ِ جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عطاء رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنی ساس یا بیوی کی بیٹی سے زنا کرے تو ساس اور بیٹی کے ساتھ بیوی بھی حرام ہوجاتی ہے۔مذکورہ صورت میں بیوی کے حرام ہونے کی کیا وجہ ہے؟ :
اَب دیکھنا یہ ہے کہ مذکور صورت میں بیوی کس وجہ سے حرام ہوئی ہے۔ چونکہ حرمت ِ مصاہرت کی تو اِس میں کچھ گنجائش نہیں لہٰذا ہمارے پاس صرف ایک ہی وجہ رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ شریعت نے اِس کو تعزیر کے طور پر حرام کیا ہے۔ منکوحہ کی ماں اور بیٹی دونوں شوہر پر حرام تھیں۔ جب اِس نے اِس حرمت کا لحاظ نہیں رکھا تو شریعت نے اِس کے لیے یہ سزا تجویز کی کہ اِس کی اپنی منکوحہ کو اِس پر حرام کردیا۔
چونکہ یہ حکم خلافِ قیاس ہے لہٰذا اِس پر دُوسرے محرموں کے ساتھ وطی یا دواعی وطی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اِس لیے اگر کوئی شخص معاذ اللہ اپنی سگی ماں یا اپنی بہو کے ساتھ وطی یا دواعی وطی میں سے کچھ کربیٹھے تو اگرچہ یہ سخت گناہ کے کام ہیں لیکن اِن سے حرمت ِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
اعتراض : ساس اور سوتیلی بیٹی میں حرمت کا خیال نہ رکھنے پر سزا ہوئی تو دلالت النص سے ثابت ہوا کہ بہو سگی بیٹی اور ماں میں حرمت کا لحاظ نہ رکھنے پر بھی سزا ہو۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ ساس اور سوتیلی بیٹی میں خود مرتکب زنا یعنی شوہر کو سزا ملتی ہے کہ اس کی بیوی پر حرام ہوجاتی ہے جبکہ بہو اور ماں سے بدفعلی کرنے پر سزا دُوسرے کو ملتی ہے مرتکب کو نہیں۔
تنبیہ : چونکہ محرموں میں وطی سے جزئیت کے پیدا ہونے کا احتمال ہی نہیں ہے اِس لیے دواعی وطی سے حرمت ِ مصاہرت بطریق ِ اَولیٰ ثابت نہ ہوگی۔ علاوہ ازیں وہ سزا جو شریعت نے کامل جنایت پر رکھی ہے اس کو ناقص جنایت پر جاری کرنا عقل و نقل کے بھی خلاف ہے۔
حاصل ِکلام :
-1 مرد اگر کسی اجنبی عورت سے وطی یا دواعی وطی کربیٹھے تو اُس عورت کی ماں یا بیٹی سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔
-2 مرد اگر اپنی ساس سے دواعی جماع کربیٹھے تو اپنی کسی سالی سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگر اُس سے زنا کربیٹھے تو اِس حکم کے ساتھ ساتھ سزا کے طور پر اِس کی بیوی بھی اِس پر حرام ہوجاتی ہے۔مرد اگر اپنی بہو سے جماع یا دواعی جماع کرلے تو وہ بہو کی ماں سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا البتہ بہو بیٹے کا نکاح باقی رہے گا۔
-4 مرد اگر اپنی بیوی کی بیٹی سے خواہ وہ اُس (مرد) کی اپنی ہو یا سوتیلی ہو بدفعلی کربیٹھے تو سزا کے طور پر اُس کی بیوی اُس پر حرام ہوجائے گی۔
-5 بیٹا اپنی ماں سے کوئی غلط حرکت کربیٹھے تو اُس کے ماں باپ کا نکاح فاسد نہیں ہوگا۔
-6 عورت اگر سوتیلے بیٹے سے ملوث ہوجائے تو اُس عورت کا اپنا نکاح فاسد نہیں ہوگا۔
-7 مرد اگر اپنی ساس یا بیٹی سے صرف دواعی جماع کا مرتکب ہوا ہو تو اِس سے اُس کی بیوی اُس پر حرام نہیں ہوگی۔
(حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب)
...............................

ہمیں بالکل اخیر میں جو لکھاہے اسپر انشراح نہیں ہے اسلئے کہ اسمیں لکھاہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بہو سے زنا کرے تو یہ بہو اسکے بیٹے پر حرام نہیں ہوگی کیا یہ درست ہے؟؟   اسی وقت لکھنے کا ارادہ تھا لیکن میں سوچاکہ پہلے تلاش کرلوں اسکے بعد؛ اور کئی جگہ تو سمجھ ہی نہیں آیا.
Noorulhasan Pratapgarhi
...........................................................
حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے لڑکی کا نو برس کا ہونا شرط ہے
سؤال
کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کی ایک لڑکی ہے جس کی عمر تقریباً آٹھ سال سے کچھ زائد ہے۔ رات کو بادل گرج رہے تھے لڑکی خوف کی وجہ سے اپنے والد کے ساتھ سوگئی۔ اسی رات کو باپ نےاپنی زوجہ سے صحبت کا ارادہ کیا تو حالت شہوۃ میں اس کا ہاتھ لڑکی کو لگ گیا۔ اس صورت میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ 
الجواب بعون الملک الوھاب
بچی چونکہ نابالغہ ہے اور وہ حد شہوۃ تک نہیں پہنچی یعنی عمر ۹ سال سے کم ہے، اس لئے حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی نیز باپ کے اس فعل پر شریعت میں اس سے کچھ مواخذہ گناہ وغیرہ کا نہ ہوگا البتہ اس عمر کی بچی کا والد کیساتھ سونا مناسب نہیں اس سے احتراز لازم ہے۔ 
لمافی الشامیۃ (۳۷/۳): قوله ( فدخلت فراش أبيها ) كنى به عن المس وإلا فمجرد الدخول بغير مس لا يعتبر ط قوله (ليست بمشتهاة به يفتى ) كذا في البحر عن الخانية ثم قال فأفاد أنه لا فرق بين أن تكون سمينة أو لا ولذا قال في المعراج بنت خمس لا تكون مشتهاة اتفاقا وبنت تسع فصاعدا مشتهاة اتفاقا وفيما بين الخمس والتسع اختلاف الرواية والمشايخ والأصح أنها لا تثبت الحرمة اھ
از نجم الفتاوی 
العبد محمد اسلامپوری
...................................................
دس سالہ، سوئی بیٹی کو دھوکہ سے بوسہ دیدینے کاحکم
سوال:ایک شخص نے رات کے اندھیرے میں نیم خوابی میں اپنی بیوی کے بستر پر سوئی ہوئی اپنی حقیقی دس سالہ بیٹی کو بیوی خیال کرتے ہوئے شہوت کے ساتھ بوسہ دیا بوسہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ لڑکی خود بوسہ کنندہ کی حقیقی لڑکی ہے اور بوسہ کنندہ کی بیوی نہیں ہے اور چوں کہ یہ دس سالہ لڑکی خود بوسہ کنندہ اور اس کی موجودہ منکوحہ بیوی کی دونوں کی حقیقی لڑکی ہے بعد میں یہاں کے علماء کرام کے سامنے اس مسئلہ کے بابت پوچھا گیا تو علماء کرام کی مختلف آراء ہوئیں بعض کا کہنا ہے کہ بیٹی کو بشہوت بوسہ لینے کی وجہ سے لڑکی کی ماں یعنی بوسہ دہندہ کی بیوی بوسہ دہندہ پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی یعنی حرمت مصاہرت ثابت ہوگئی گوکہ بوسہ خطا ء ً دیا گیا ہے اور بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ چوں کہ لڑکی کو جو بوسہ کیاگیا ہے وہ رات کے اندھیرے میں اور نیم خوابی میں خطا ء ً بوسہ کیا گیا ہے اور خطاء ً بوسہ لینے کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوسکتی اب وہ شخص نہایت پریشان ہے بیوی موجود ہے لیکن پہلے قول والوں کے قول کی وجہ سے بیوی سے ہمبستری کی ضرورت کے باوجود ہمبستری کی ہمت نہیں ہوئی ہے کہ حرمت مصاہرت کاارتکاب ہوگا یہاں کے علماء سے تسلی بخش جواب نہیں مل رہا ہے لہٰذا آپ کو دینے کی ضرورت پڑی۔
الجـواب وبـاﷲ التـوفـیـق
جواب:صورت مسئولہ میں حسب تحریر سوال حکم شرعی یہ ہے کہ اگر دس سالہ بچی نابالغہ غیرمشتہاۃ تھی جب تو حرمت مصاہرت کا سوال ہی نہیں اور اگر بالغہ یا مراہقہ مشتہاۃ تھی توحرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ مس کرتے وقت اگر شہوت نہ ہوتو پیدا ہوجائے اور اگر اس وقت شہوت تھی بڑھ جائے جیسا کہ اس عبارت سے معلوم ہوتاہے والعبرۃ للشہوۃعندالمس الخ اوزیادتہٗ الخ (درمختار علی ہامش الشامی نعمانی،ج:۲،ص:۲۸۰ )پس اگر علم ہوتے ہی کہ یہ تولڑکی ہے بیوی نہیں ہے ہٹ گیا اور افسوس ہوا تو ظاہر ہے کہ شہوت بڑھی نہیں اگر چہ پہلے سے شہوت تھی مگر ہٹ جائے اور ندامت وافسوس سے شہوت نہ ہونا ظاہر ہے ۔ پس اگر واقعی شہوت بڑھی نہیں ہے تو بیوی حرام نہیں ہوئی جیسا کہ اس عبارت (أما اذاظہر عدم الشہوۃ فلا تحرم ولوکانت القبلۃ علی الفم) شامی نعمانی،ج:۲،ص:۲۸۲۔اب اپنی دیانت سے خود آپ فیصلہ کرلیجئے کہ علم ہونے کے بعد کہ یہ تو بیوی نہیں ہے بلکہ لڑکی آپ کی شہوت اگر بڑھی نہیں بلکہ گھٹ گئی تو بیوی حرام نہیں ہوئی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
الجواب صحیح
الجواب صحیح
کتبہ الاحقر محمد نظام الدین غفرلہٗ
محمدظفیر الدین کفیل الرحمن نشاطؔ مفتی 

از نظام الفتاوی

No comments:

Post a Comment