Tuesday 13 June 2017

خواتین کا اعتکاف؛ فضائل و مسائل

ایس اے ساگر
رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار مہینہ ہے اسی وجہ سے اس میں کچھ ایسی زائدعبادتیں بھی آئیں جن سے دوسرے مہینے خالی ہیں۔ مثلاً: قرآن پاک کا نزول، رمضان میں بیس تراویح کا اہتمام، تلاوت، قرآن، سحری وافطاری نفل کا اجر فرض کے برابر ایک فرض ستر فرائض کے برابر، جنت کے دروازوں کا کھلنا، جہنم کے دروازوں کا بند ہونا، شیاطین کا قید ہونا وغیرہ اس میں اللہ رب العزت نے کا خاص اپنی رحمت کو خلقت میں بانٹنا جس کی وجہ سے لو گ آپس میں ہمدردی اورغم خواری کرتے ہیں اس ماہ مبارک میں صفت غفوریت کا بھی ظہور ہوتاہے کہ روزانہ ایک جم غفیر کے لئے جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔ اس مہینہ کی کس کس عبادت عظیمہ کا تذکرہ کیا جائے اس مبارک مہینے میں کئی عبادتیں ایسی ہیں کہ جن میں تلاش محبوب یعنی اللہ تعالی کے لئے ورافتگی عشق میں بھوک وپیاس سے بے نیاز ہوکر محبت سے سرشار ادائیں قابل دید ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک اہم عبادت اعتکاف ہے ۔
کیا ہے اعتکاف؟
’’روزہ دا ر کاتمام مشاغل دنیا سے خالی ہوکر اپنے اللہ کے حضور سپرد کرکے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں بیٹھنے کو۔‘‘ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا سنت موکدۃ علی الکفایۃ ہے۔
یعنی محلے والوں میں سے اگر کچھ نے کرلیا تو تمام سے ساقط ہوجائے گا، اگر کسی نے بھی نہ کیا تو تمام کے تمام گناہ گار ہوں گے کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف بڑے اہتمام اور پابندی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
فضیلت اعتکاف:
ترجمان القرآن، صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اس کے گناہ روک دئے جاتے ہیں اور تمام نیکیاں (یعنی تمام اچھے کام جن کو وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکتا، ان کا اجر) نیکی کرنے والے کی طرح جاری کردیا جاتا ہے۔ اسی لئے تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں:
اعتکاف کرنے والے پر نہ مریض کی عیادت ہے اورنہ نماز جنازہ وغیر ہ پڑھنا سنت ہے۔
اعتکاف کاوقت:
جو آدمی اعتکاف کرنا چاہے تو وہ بیس رمضان المبارک کے دن نماز عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے سے پہلے اپنی اعتکاف کی جگہ میں بیٹھ جائے اور انتیس یا تیس رمضان کو (یعنی عید کا چاند دیکھنے کے بعد)بعد از مغرب اعتکاف سے نکلے اور دوران اعتکاف آدمی بغیر کسی شرعی ضرورت کے(مثلا قضائے حاجت وغیرہ) اعتکاف کی جگہ سے نہ نکلے۔
اعتکاف کہاں کرے ؟
مرد کے لئے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لئے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں ہی اعتکاف کرنا افضل ہے اور عورت کا گھر میں اعتکاف کرنا یہی حنفیہ کا مذہب ہے عقل انسانی کا تقاضا بھی یہ کہ جب عورت کے لئے نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے تو پھر اعتکاف بھی گھر میں ہی کرنا افضل ہوگا۔
عورت کی مسجد:
مذکورہ بالاحوالہ جات سے معلوم ہواکہ مرد کا مسجد اور عورت کا اپنے گھر میں اعتکاف کرنا افضل ہے اور عورت کے نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسجد ہی قرار دیا ہے دیکھئے حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ عورتوں کی بہترین مسجدیں ان کے اپنے گھروں کے تہہ خانے ہیں۔
اسی طرح ام حمید الساعدیۃ رضی اللہ عنہ نے نبی علیہ السلام کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کی درخواست کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کی کو پسند کرتی ہے تو پھر تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے اور اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا یہ میری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘
یہ سن کرحضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر والوں کو گھر میں مسجد بنانے کا حکم دیا تو ان کیلئے گھر کے ایک کونے میں مسجد تیار کی گئی اور آپ آخر دم تک اسی مسجد میں ہی نماز پڑھتی رہیں (نہ کہ مسجد نبوی میں)
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عورت کی مسجد اس کا گھر (مخصوص جگہ) ہے تو اللہ رب العزت نے بھی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ذکر فرمایا:
وانتم عاکفون فی المساجد
اسی وجہ سے مرد مسجد عرفی میں اور عورت اپنے گھر والی مسجد میں ہی اعتکاف کرے لیکن آج کے اس دور میں عورتوں کو اصل تعلیمات اسلامیہ سے ہٹاکر نام نہاد اسلام کے ’شیوخ ‘ نے عورتوں کو مردوں کی ہم نشینی میں کھلے آسمان تلے اعتکاف کروا کے مزید اس بدعت اور اخلاق باختگی کو فروغ دیا اور اپنے اس عمل یعنی مسجد میں عورت کے اعتکاف کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی ناکام وبے فائدہ کوشش کی ہے ۔مثلاً:
قرآن میں ہے وانتم عاکفون فی المساجد
(البقرہ)
تم مسجدوں میں بیٹھنے والے ہو، اس سے یہ سمجھا کہ مرد وعورت مسجد میں ہی اعتکاف کریں جب کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں مرد اور عورت کی الگ الگ مسجد کو دلائل کی روشنی سے ثابت کردیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے گھر کو ہی عورت کی مسجد بتلایا ہے مزید برآں اسی آیت کے ذیل میں مفسرِقرآن ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ (وفات ۳۷۰؁ھ) نے فرمایا ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم فقط مردوں کیلئے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی کسی عورت کا عملاً مسجد میں اعتکاف کرنا یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دینا کہ عورت مسجد میں اعتکاف کرے کسی صحیح، صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
وساوس وشبہات:
لیکن اس کے باوجو د عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے بخاری ج۱ص۲۷۱ ،۲۷۳ سے دو حدیثیں دکھاتے ہیں کہ
(۱) حضور کے بعد آپ کی گھر والیوں نے اعتکاف کیا
(۲) حضرات امہات المومنین نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لئے خیمے لگائے۔
کاش کہ یہ لوگ ضد اور تعصب سے بالا تر ہو کر حدیث کو پڑھیں تو بات بہت آسان ہے حدیث میں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں مسجد نبوی میں مخصوص جگہ بنا کر اعتکاف کرتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اجازت لی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ انھوں نے بھی اپنا خیمہ لگایا پھر ان کی دیکھا دیکھی حضرت حفصہ، حضرت زینب رضی اللہ عنہما نے بھی اپنا اپناخیمہ لگالیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد میں خیمے دیکھے تو تعجباً سوال کیا:
یہ کیوں لگائے گئے ہیں؟ اور کس چیز نے ان (یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) کو اس نیکی (یعنی مسجد نبوی میں اعتکاف) پر اُبھارا ہے؟
اور دوسری روایت میں ہے کہ،
یہ خیمے لگا کر اعتکاف کو تم نیکی سمجھتی ہو؟
اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خیموں کے اکھاڑنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ تو مسجد نبوی سے ازواج مطہرات کے خیمے (دوران اعتکاف ہی) اکھاڑ دئے گئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اعتکاف بھی توڑ دیا پھر شوال میں اس قضاء فرمائی۔ اگر عورت کے لئے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا؟ اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم کیوں دیا؟ اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے؟ اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا؟ اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا؟اتنی عام فہم حدیث کے باوجو د بھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا یہ ا طاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ صرف اور صرف نفسانی خواہشات کی اتباع ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی خلاف ورزی ہے ۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ شارح بخاری حضرت ابراھیم بن علیۃؒ کا قول نقل کرتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیںاور مزید لکھتے ہیں:’’ عورت کے لیے افضل بات یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف نہ کرے اور امام شافعیؒ کے ہاں عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔
فقہائے کرام کی نظر میں:
مردوں کی طرح خواتین بھی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اس عبادت کی فضیلت حاصل کرسکتی ہیں، لیکن عورتیں اپنے گھروں میں اعتکاف کریں اور اس مقصد کے لیے گھر میں اس جگہ کو مخصوص کرلیں جہاں نماز یں پڑھی جاتی ہیں، اگر گھر میں کوئی ایسی جگہ نہ ہو تو کسی کونے میں بیٹھ جائیں اور اسی جگہ کو اعتکاف کے لیے مخصوص کرلیں مردوں کی بہ نسبت عورتوں کے لئے اعتکاف کی سنت ادا کرنا زیادہ سہل ہے، وہ بیٹھے بیٹھے گھر کے کاموں کی نگرانی بھی کرسکتی ہیں اور اعتکاف بھی جاری رکھ سکتی ہیں، اس کے باوجود عورتیں اعتکاف کا اہتمام نہیں کرتیں اور ایک عظیم سنت سے محروم رہ جاتی ہیں، یہ بڑے افسوس کا مقام ہے، روایات میں ہے کہ ازواج مطہراتؓ اپنے حجروں میں اعتکاف فرمایا کرتی تھیں، ایک حدیث میں ہے کہ عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کا اندرونی حصہ ہے،
(مسند احمد بن حنبل: ۶/۲۹۷، رقم الحدیث: ۲۶۵۸۴، صحیح ابن خزیمہ: ۳/ ۹۲، رقم الحدیث: ۱۶۸۳)
شادی شدہ عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہ کریں، کیوں کہ ان کی اجازت کے بغیر اعتکاف کرنا جائز نہیں ہے، البتہ شوہروں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کو اجازت دے دیا کریں، خواہ مخواہ انہیں ثواب سے محروم نہ کریں، اگر کسی عورت نے شوہر کی اجازت سے اعتکاف شروع کیا، بعد میں اس نے اجازت واپس لے لی اب بیوی کے لئے اس کی تعمیل ضروری نہیں ہے اسے اعتکاف پورا کرنا چاہئے ،عورت کے اعتکاف کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ وہ حیض ونفاس سے پاک ہو، یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اعتکاف کی تاریخوں میں ایام شروع نہ ہوں، اگر اعتکاف کے دوران حیض آگیا تو اعتکاف چھوڑ دینا چاہئے اور جس دن حیض شروع ہوا ہے اس کی قضا بعد میں کر لینی چاہئے، جو جگہ اعتکاف کے لیے گھر میں متعین کرلی گئی ہے اس کا حکم وہی ہے جو مسجد کا ہے ،بلا ضرورت اس جگہ سے اٹھ کر جانا جائز نہیں، جائے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا، عورتوں کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ سے ہٹنے کے وہی احکام ہیں جو مردوں کے ہیں، جن ضروریات کی وجہ سے مرد مسجد سے باہر نکل سکتے ہیں انہی ضرورتوں کی وجہ سے عورتیں بھی نکل سکتی ہیں، جن کاموں کے لیے مردوں کو باہر نکلنا جائز نہیں ان کاموں کے لئے عورتوں کو بھی اپنی جگہ سے اٹھنا جائز نہیں ہے۔
(فتاوی شامی: ۳/۳۸۶ فتاوی عالمگیری: ۱/۲۱۱، خیر الفتاوی: ۴/۱۴۲)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو اٹھالیا پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں۔(بخاری)
● ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ایک بیوی نے استحاضہ کی حالت میں اعتکاف کیا اور وہ سرخی اور زردی دیکھتی تھیں، اکثر ہم لوگ ان کے نیچے ایک طشت رکھ دیتے تھے اور وہ نماز پڑھتی تھیں۔(بخاری)
● مسلم کی روایت میں فرماتی ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری عشرہ میں داخل ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور عبادت میں خوب کوشش کرتے اور تہبند مضبوط باندھ لیتے۔
فائدہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے گھروں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں، اسی لئے فقہا نے لکھا ہے کہ عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ مسجد البیت یعنی گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں، اگر مسجد البیت نہ ہو تو مکان کے کسی حصہ کو مسجد قرار دے کر اس میں اعتکاف کریں، بلا ضرورت اس حصہ سے باہر نہ نکلیں، مکان کا وہ حصہ ہی ان کے حق میں مسجد کے حکم میں ہو جائے گا چنانچہ عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔
(مستفاد از مظاہر حق)
*فتاوی یوسفی میں ہے کہ:
عورت بھی اِعتکاف کرسکتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر میں جس جگہ نماز پڑھتی ہے اس جگہ کو یا کوئی اور جگہ مناسب ہو تو اس کو مخصوص کرکے وہیں دس دن سنت اِعتکاف کی نیت کرکے عبادت میں مصروف ہوجائے، سوائے حاجاتِ شرعیہ کے اس جگہ سے نہ اُٹھے، اگر اِعتکاف کے دوران عورت کے خاص ایام شروع ہوجائیں تو اِعتکاف ختم ہوجائے گا، کیونکہ اِعتکاف میں روزہ شرط ہے۔
*فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ:*
عورتوں کو مسجد کے احاطہ میں اعتکاف کرنا درست نہیں،{للأدلة الدالة علی منع الخروج من بیتھا} عورتوں کے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز کے لئے مقرر کر رکھی ہو اور اگر اس کے گھر میں کوئی جگہ نماز کے لئے مقرر نہیں ہے تو کسی جگہ کو نماز کے لئے مقرر کرکے وہاں پر اعتکاف کریں، عالمگیری (۱/ ۲۱۱) میں ہے :
{والمرأة تعتکلف فی مسجد بیتها إذا اعتکفت فی مسجد بیتها فتلک البقعة في حقها کمسجد الجماعة فی حق الرجل}
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے تو آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں، لیکن ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں۔
(مرقاة ۴/ ۳۲۶ امدادیه)
● اگر عورت حالت استحاضہ میں ہو تو اعتکاف کرسکتی ہے، البتہ حالتِ حیض ونفاس میں اعتکاف درست نہیں، کیونکہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے، اور اگر دورانِ اعتکاف حیض یا نفاس شروع ہوگیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
{قال فی البدائع (۲؍۲۷۴) والطهارۃ عن الجنابة والحیض والنفاس، وأنها شرط للجواز في نوعَی الإعتکاف الواجب والتطوع جمیعا}
*قال فی الشامی ( ۳ ؍۴۳۰ زکریا ) والحائض والنفساء لیسا بأهل للصلاۃ أي فلا یصح اعتکافهما
*ایام روکنے کے لئے دوا کا استعمال کرنا
● عورت کے لئے اپنے اعتکاف کے دنوں میں دوا استعمال کرنا جائز تو ہے مگر دوا استعمال نہ کرنا بہتر ہے، کیونکہ دوا سے صحت پر بھی برا اثر پڑے گا، جس روز ماہواری آئے، اعتکاف ختم کردے کیونکہ ماہواری کی حالت میں اعتکاف نہیں ہوتا، پھر بعد میں ایک روزہ کے ساتھ اعتکاف کی قضا کرلے۔
(دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
*اعتکاف میں کھانا پکانا
● اگر اس کا کوئی کھانا پکانے والا نہ ہو تو مسجد البیت میں کھانا پکاسکتی ہے، مسجد البیت پر تمام احکام مسجد کے جاری نہیں ہوتے۔
(فتاوی محمودیہ جلد پندرہ)
*دایہ کا خدمت انجام دینا
● عورت کا معتکف مسجد کے حکم میں نہیں ہے، لہٰذا اس معتکف میں اگر وہ کسی عورت کو بچہ جنوائے، تو اس سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں آئے گا، تاہم بہتر یہی ہے کہ بحالتِ اعتکاف ایسا عمل نہ کرے۔ (فتاوی محمودیہ)
*{قال فی البدائع (۲؍۲۸۲-۲۸۱) ومسجد بیتها لیس بمسجد حقیقة، بل ھو اسم للمکان المعد للصلوۃ في حقها، حتی لایثبت له شيء من أحکام المسجد الخ}* (مستفاد از کتاب النوازل جلد ششم)
*خواتین کا مسجد میں اعتکاف کرنا جائز نہیں
عورتوں کے مسجد میں آنے کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ کرنا شروع کردیا، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی زندگی میں دیکھ لیتے تو خود ہی ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا۔
(بخاری ۱/ ۱۲۰)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس دور کی بات کررہی ہیں، جو خیر القرون کا زمانہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کافی تعداد موجودتھی، معاشرہ برائیوں سے پاک تھا، اس وقت کے حالات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نظر میں اس قابل تھے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا جائے، موجودہ دور تو اس دور سے بہت مختلف ہے، اب تو ہر طرف بدامنی، فحاشی، عریانی اور بے حیائی پھیلی ہوئی ہے تو آج کل تو بدرجہ اولیٰ ان کو مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے، نیز اگرچہ کتابوں میں عورتوں کے مسجد میں اعتکاف کے بارے میں کراہت تنزیہی کا قول منقول ہے لیکن علامہ طحطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف کے مسئلہ کو بھی نماز کے مسئلہ پر قیاس کیا جائے یعنی جس طرح عورتوں کا نماز کیلئے مسجد میں آنا مکروہ تحریمی ہے، اسی طرح اعتکاف کیلئے بھی مسجد میں آنا مکروہ تحریمی ہے تاکہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کے مسئلے میں کوئی تردد باقی نہ رہے، نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے، اس لئے علماء کرام نے عورتوں کے مسجد میں آنے کے بارے میں (خواہ نماز پڑھنے کیلئے ہو یا اعتکاف وغیرہ کیلئے ہو) ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔
*{لمافی المسلم (۱۸۳/۱) عن عمرۃ بنت عبدالرحمن انھا سمعت عائشۃ زوج النبی ﷺ تقول: لو ان رسول ﷲ ﷺ رای ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل قال: فقلت لعمرۃ النساء بنی اسرائیل منعن المسجد قالت نعم}
*عورت کا اعتکاف کیلئے پورا کمرہ مختص کرنا:
گھر میں جو جگہ نماز کیلئے مختص ہو، عورت اسی جگہ میں اعتکاف کیلئے بیٹھ سکتی ہے، اگر کوئی جگہ نماز کیلئے مختص نہ ہو تو پہلے ایک جگہ کو مختص کرنا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر اعتکاف میں عورت کیلئے بیٹھنا جائز نہیں ہے چنانچہ اگر پورا کمرہ نماز کیلئے مختص ہے تو اس میں اعتکاف درست ہے اور اگر کمرہ نماز کیلئے مختص نہیں ہے تو پہلے پورے کمرے کو نماز کیلئے مختص کریں، پھر اس میں اعتکاف درست ہوگا۔
*دورانِ اعتکاف کھانا پکانا
دورانِ اعتکاف کھانا پکانے کا حکم یہ ہے کہ اگر گھر میں اور کوئی نہ ہو جو کھانا پکاسکے تو ضرورت کی وجہ سے اپنے اعتکاف کی جگہ میں ہی کھانا پکاسکتی ہیں۔
{لمافی الھندیۃ (۲۱۱/۱) والمرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ فی حقھا کمسجد الجماعۃ فی حق الرجل لاتخرج منہ الالحاجۃ الانسان کذا فی شرح المبسوط للامام السرخسی}
*معتکف سے بلا ضرورت نکلنا جائز نہیں
عورت کو اپنے گھرمیں اس جگہ سے جہاں نماز پڑھتی ہو یا اس جگہ سے جس کو اعتکاف کیلئے مخصوص کرلیا ہو، سوائے ضروری حاجات (پیشاب، پاخانہ،غسل جنابت) کے باہر نکلنا جائز نہیں، جب حاجت کیلئے نکلے تو حاجت پوری کرنیکے بعد فورا اپنی جگہ واپس آجائے۔
*گھر والوں سے بات چیت کرنا
دوران اعتکاف قرآن مجید کی تلاوت، ذکر و تسبیحات و نوافل وغیرہ جیسے مشاغل میں مصروف رہے، بلا ضرورت بات چیت سے احتراز کرے، کھانا، پینا، سونا اعتکاف کی جگہ ہی میں کرے، عورت اپنے گھر والوں کیلئے اپنے اعتکاف کی جگہ سے نکل کر سحری وغیرہ نہیں پکا سکتی اور نہ ہی باہر نکل کر گھر والوں کے ساتھ سحری و افطاری کرسکتی ہے، البتہ اپنے اعتکاف کی جگہ رہتے ہوئے اہم بات چیت ہر وقت کرسکتی ہے، بلا ضرورت اور تفصیلی بات چیت سے احترازکرے۔
(مستفاد از نجم الفتاوی جلد سوم)
*خواتین کے لئے اعتکاف میں معمولات
اعتکاف میں کوئی خاص ذکر منقول نہیں ہے، اتنی عبادت کریں کہ آئندہ دنوں کے لئے بشاشت رہے، ابتداء میں جوش ہو اور بعد میں طبیعت میں سستی آجائے تو یہ مناسب نہیں، خواتین کو چاہیئے کہ وہ کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کریں، دعاؤں کا اہتمام کریں اور ساتھ ساتھ یہ اذکار کریں :
1- استغفار : استغفر اللہ الذی لا اله الا ھو الحی القیوم وأتوب إلیه
2- کلمہ طیبہ : لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ
3-  تیسرا کلمہ: سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰه الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم
4- درود شریف : اللہم صل علی محمد النبی الأمی وعلی آله وصحبه وسلم
یہ اذکار کم از کم صبح وشام سو سو مرتبہ پڑھیں اور کثرت سے شب قدر میں یہ دعا پڑھیں :
اللہم إنک عفو تحب العفو فاعف عنا۔
اس کے ساتھ ساتھ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین پڑھنے کا اہتمام کریں۔
(مستفاد از فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
بعض لوگ دینی معاملات میں مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے. حالانکہ مرد وعورت کے طریقہ عبادت میں فرق کا ہونا عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔
عبادات دو طرح کی ہیں:
نمبر 1:بدنیہ: جن کا تعلق انسان کے بدن کے ساتھ ہے.
نمبر2:مالیہ: جن کا تعلق مال کے ساتھ ہے.
مرد وعورت کے چونکہ مال میں فرق نہیں یعنی نصاب زکوۃ، شرائط زکوۃ وغیرہ میں، اس لیے عبادات مالیہ میں بھی فرق نہیں ہے۔ اس کے برخلاف جب مرد وعورت کے جسم کی ساخت میں فرق ہے تو لامحالہ ان کی عبادات بدنیہ میں فرق ہو گا۔
چند مثالیں:
1: مرد رمضان کے پورے روزے رکھتا ہے جب کہ عورت مخصوص ایام میں روزے نہیں رکھتی۔
2: وجوب حج کا نصاب تو ایک ہے لیکن مرد اکیلا جاسکتا ہے جب کہ عورت کے لیے محرم کا ہونا بھی شرط ہے۔
3: احرام کے کپڑوں میں فرق ہے۔
4: مرد تلبیہ اونچی آواز سے کہتا ہے جب کہ عورت آہستہ آواز سے کہتی ہے۔
5: طواف کے دوران مرد رمل یعنی اکڑ کر چلتا ہے جب کہ عورت میانہ رفتار سے چلتی ہے۔
6: مرد احرام کی چادر بازو کے نیچے سے نکالتا ہے جب کہ عورت کے لیے اس طرح کرنا جائز نہیں۔
7: دوران سعی مرد کو دوڑنا چاہیے جب کہ عورت کو نہیں دوڑنا چاہیے۔
8: مرد کے لیے حلق [سر منڈانا] افضل ہے جب کہ عورت کے لیے حلق جائز نہیں ہے۔
9: مرد وعورت کی شرعی حدود میں فرق ہے۔
10: مرد عورت کے کفن ودفن میں فرق ہے۔
یہ فروق بدن کی ساخت اور پردے کی وجہ سے ہیں۔اعتکاف بھی چونکہ بدنی عبادت ہے اس لیے اس میں بھی فرق ہونا چاہیے اور یہ فرق قرآن وحدیث اور عمل متوارث سے ثابت ہے۔اس لیے فقہاء نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ لکھا ہے کہ مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
(الہدایہ: ج 1ص209)
قرآن کریم:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ
(سورۃ البقرہ:187)
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوبکر الجصاص م 370ھ فرماتے ہیں:
وأما شرط اللبث في المسجد فإنه للرجال خاصة دون النساء۔
(احکام القرآن للجصاص :ج1ص333)
ترجمہ: مسجد میں ٹھہرنے کی شرط (اعتکاف کے لیے) صرف مردوں کے لیے نہ کہ عورتوں کے لیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےایک مرتبہ فرمایا کہ میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کروں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی (کہ وہ بھی اعتکاف کریں گی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے بھی اجازت دلا دو، انہوں نے اجازت دلا دی۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (خدام کو خیمہ لگانے کا) حکم دے دیا۔ چنانچہ ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے تو بہت سارے خیموں کو دیکھ کر فرمانے لگے: یہ خیمے کیسے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے لگائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا انہوں نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے؟ “فامر بخبائہ فقوض” پهر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا.
(صحیح البخاری: ج1ص274 باب من أراد أن يعتكف ثم بدا لہ أن يخرج)
یہی روایت صحیح مسلم میں بهی موجود ہے.
قارئین کرام! اس حدیث مبارک سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم نہ دیتے۔ اور امی عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو جو اجازت ملی وہ ان کے ساتھ خاص ہے.
احناف فقہاء کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے.
(حاشیہ ابن عابدین جلد 2 صفحہ 440)
اسی طرح شوافع فقہاء کرام بهی فرماتے ہیں کہ جوان خاتون کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے.
(الموسوعة الفقهية الکویتیة جلد 5 صفحہ 210)
معروف عرب عالم شیخ محمد بن صالح العثيمين بهی فرماتے ہیں کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا باعثِ فتنہ ہے.
(الشرح الممتع علی زاد المستقنع جلد 6 صفحہ 510)
جو علماء خواتین کے مسجد میں اعتکاف کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک بهی گهر میں اعتکاف کرنا افضل اور زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے تو کیوں غیر افضل کو افضل پر ترجیح دی جائے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔

No comments:

Post a Comment