السلام علیکم
مفتی صاحب
صورت مسئلہ یہ ھے ایک ضلع ھے جس میں پورا رمضان آخری دس سورتوں کی ھی تراویح پڑھتے ھیں۔
چونکہ وہ ائمہ حضرات کئی سال سے امام مسجد ھیں تو وہ اپنے لئے دلیل بھی دیتے ھیں کہ ایسا کرنا درست ھے۔
(جس زمانے میں ان ائمہ حضرات کا اس ضلع کی مساجد میں تقرر ھوا اس وقت وھاں پر کوئی حافظ نہیں تھا جبکہ اب علماء بھی ھیں)
معلوم یہ کرنا ھے کہ مستقل دس سورتوں کی تراویح کا کیا مسئلہ ھے۔اور ختم قرآن تراویح میں کرنے کی کیا فضیلت ھے
اور اس کو ترک کرنے والے کے بارے میں کیا حکم ھے
حوالہ جات کے ساتھ تفصیل سے آگاہ فرمائیں.
صورت مسئلہ یہ ھے ایک ضلع ھے جس میں پورا رمضان آخری دس سورتوں کی ھی تراویح پڑھتے ھیں۔
چونکہ وہ ائمہ حضرات کئی سال سے امام مسجد ھیں تو وہ اپنے لئے دلیل بھی دیتے ھیں کہ ایسا کرنا درست ھے۔
(جس زمانے میں ان ائمہ حضرات کا اس ضلع کی مساجد میں تقرر ھوا اس وقت وھاں پر کوئی حافظ نہیں تھا جبکہ اب علماء بھی ھیں)
معلوم یہ کرنا ھے کہ مستقل دس سورتوں کی تراویح کا کیا مسئلہ ھے۔اور ختم قرآن تراویح میں کرنے کی کیا فضیلت ھے
اور اس کو ترک کرنے والے کے بارے میں کیا حکم ھے
حوالہ جات کے ساتھ تفصیل سے آگاہ فرمائیں.
جواب: تراویح مَردوں اور عورتوں کے حق میں سنتِ مؤکدہ ہے، اس پر سلف سے خلف تک کا توارث چلا آرہا ہے۔
قد اختلف العلماء فی التراویح، ھل تسمی سنۃ؟ فقال بعضھم لا ھی من النوافل، و تسمی مستحبۃ، وقال بعضھم تسمی سنۃ، وھوالاصح، وھی سنتۃ مؤکدۃ للرجال و النساء، توارثھا الخلف عن السلف۔
(ما ثبت بالسنہ)
واضح رہے کہ یہ دو سنتیں الگ الگ ہیں؛
(1) تمام کلام اللہ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا، یہ مستقل سنت ہے اور
(2) پورے رمضان شریف کی تراویح مستقل سنت ہے۔
(فضائلِ رمضان)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک ختم کو سنت فرمایا ہے، اور وہ تابعی ہیں، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے سلف کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا اور سناہوگا۔
(امداد الاحکام)
کان عمر بن عبد العزیز یأمر الذین یقرؤن فی رمضان فی کل رکعۃ بعشر آیات عشر آیات۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
وفی مختارات النوازل: انہ یقرأ فی کل رکعۃ عشر آیات وہو الصحیح؛ لأن السنۃ فیہا الختم؛ لأن جمیع عدد رکعات فی جمیع الشہر ست مائۃ رکعۃ، وجمیع آیات القرآن ستۃ آلاف، ونص فی الخانیۃ علی أنہ الصحیح۔
(البحر الرائق)
والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا أفضل ولایترک الختم لکسل القوم لکن فی الاختیار: الأفضل فی زماننا مالا یثقل علیہم وأقرہ المصنف وغیرہ قال الشامی: لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ، حلیہ عن المحیط۔ وفیہ اشعار بأن ہذا مبنی علی اختلاف الزمان فقد تتغیر الأحکام لاختلاف الزمان فی کثیر من المسائل علی حسب المصالح ولہٰذا قال فی البحر: فالحاصل أن المصحح فی المذہب أن الختم سنۃ لکن لایلزم منہ عدم ترکہ اذ لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیر من المساجد خصوصاً فی زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم۔
(درمختار مع الشامی)
خلاصہ یہ کہ تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کریم مکمل کرنا سنت ہے ،اورجو فقہا نے لکھا ہے کہ جب مقتدیوں پر طویل قراء ت بوجھ ہو تو اس وقت چھوٹی سورتوں سے تراویح پڑھنا چاہئے، یہ بالکل مجبوری کی صورت میں ہے، یہ مجبوری ہمارے زمانے میں ایسی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر مسجدوں میں اس سنت کو ترک کردیا جائے بلکہ تمام مساجد میں قرآنِ کریم ختم ہوتا ہے اور مقتدی ذوق و شوق سے تراویح پڑھتے اور سنتے ہیں ، لہٰذا اس سنت کو مساجد میں بغیر مجبوری کے ترک نہ کرنا چاہئے۔
(فتاویٰ عثمانی،فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)
البتہ ایک عذر فی زمانہ ایسا ہے جس کی وجہ سے تراویح میں ختمِ قرآن کی سنت کو چھوڑا جا سکتا ہے ، جیسا کہ مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ تحریر فر ماتے ہیں کہ اجرت پر قرآن شریف پڑھنا درست نہیں ہے اور اس میں ثواب نہیں ہے اور بہ حکم ’المعروف کا لمشروط‘ جن کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے۔ اس حالت میں صرف تراویح پڑھنا اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف تراویح ادا کر لینے سے قیامِ رمضان کی فضیلت حاصل ہو جاے گی۔
(فتاویٰ دارا لعلوم)
نیز ایسے موقعوں پر الم ترکیف سے تراویح پڑھنا نہ صرف جائز اور درست ہے، بلکہ محققین نے اسی پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ فقیہِ ملت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چھو ٹی سورتوں سے نمازِ ترا ویح ادا کریں، اجرت دے کر قرآن نہ سنیں، کیوں کہ قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے ۔
(جوا ہر الفقہ)
دوسرے مقام پر فر ماتے ہیں کہ اجرت لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گناہ ہے، اس لئے تراویح میں چند مختصر سورتوں سے بیس رکعت پڑھ لینا بلا شبہ اس سے بہتر ہے کہ اجرت دے کر پورا قرآن پڑھوائیں۔
(امداد المفتیین)
نیز فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں، دینے والے اور لینے والے دونوں گنہگار ہوں گے اور ثواب سے محروم رہیں گے، اگر بلا اجرت سنانے والا نہ ملے تو ’الم تر کیف‘ [یا جو سورتیں یاد ہوں ان] سے تراویح پڑھیں۔
(فتا ویٰ محمودیہ)
قد اختلف العلماء فی التراویح، ھل تسمی سنۃ؟ فقال بعضھم لا ھی من النوافل، و تسمی مستحبۃ، وقال بعضھم تسمی سنۃ، وھوالاصح، وھی سنتۃ مؤکدۃ للرجال و النساء، توارثھا الخلف عن السلف۔
(ما ثبت بالسنہ)
واضح رہے کہ یہ دو سنتیں الگ الگ ہیں؛
(1) تمام کلام اللہ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا، یہ مستقل سنت ہے اور
(2) پورے رمضان شریف کی تراویح مستقل سنت ہے۔
(فضائلِ رمضان)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک ختم کو سنت فرمایا ہے، اور وہ تابعی ہیں، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے سلف کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا اور سناہوگا۔
(امداد الاحکام)
کان عمر بن عبد العزیز یأمر الذین یقرؤن فی رمضان فی کل رکعۃ بعشر آیات عشر آیات۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
وفی مختارات النوازل: انہ یقرأ فی کل رکعۃ عشر آیات وہو الصحیح؛ لأن السنۃ فیہا الختم؛ لأن جمیع عدد رکعات فی جمیع الشہر ست مائۃ رکعۃ، وجمیع آیات القرآن ستۃ آلاف، ونص فی الخانیۃ علی أنہ الصحیح۔
(البحر الرائق)
والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا أفضل ولایترک الختم لکسل القوم لکن فی الاختیار: الأفضل فی زماننا مالا یثقل علیہم وأقرہ المصنف وغیرہ قال الشامی: لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ، حلیہ عن المحیط۔ وفیہ اشعار بأن ہذا مبنی علی اختلاف الزمان فقد تتغیر الأحکام لاختلاف الزمان فی کثیر من المسائل علی حسب المصالح ولہٰذا قال فی البحر: فالحاصل أن المصحح فی المذہب أن الختم سنۃ لکن لایلزم منہ عدم ترکہ اذ لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیر من المساجد خصوصاً فی زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم۔
(درمختار مع الشامی)
خلاصہ یہ کہ تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کریم مکمل کرنا سنت ہے ،اورجو فقہا نے لکھا ہے کہ جب مقتدیوں پر طویل قراء ت بوجھ ہو تو اس وقت چھوٹی سورتوں سے تراویح پڑھنا چاہئے، یہ بالکل مجبوری کی صورت میں ہے، یہ مجبوری ہمارے زمانے میں ایسی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر مسجدوں میں اس سنت کو ترک کردیا جائے بلکہ تمام مساجد میں قرآنِ کریم ختم ہوتا ہے اور مقتدی ذوق و شوق سے تراویح پڑھتے اور سنتے ہیں ، لہٰذا اس سنت کو مساجد میں بغیر مجبوری کے ترک نہ کرنا چاہئے۔
(فتاویٰ عثمانی،فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)
البتہ ایک عذر فی زمانہ ایسا ہے جس کی وجہ سے تراویح میں ختمِ قرآن کی سنت کو چھوڑا جا سکتا ہے ، جیسا کہ مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ تحریر فر ماتے ہیں کہ اجرت پر قرآن شریف پڑھنا درست نہیں ہے اور اس میں ثواب نہیں ہے اور بہ حکم ’المعروف کا لمشروط‘ جن کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے۔ اس حالت میں صرف تراویح پڑھنا اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف تراویح ادا کر لینے سے قیامِ رمضان کی فضیلت حاصل ہو جاے گی۔
(فتاویٰ دارا لعلوم)
نیز ایسے موقعوں پر الم ترکیف سے تراویح پڑھنا نہ صرف جائز اور درست ہے، بلکہ محققین نے اسی پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ فقیہِ ملت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چھو ٹی سورتوں سے نمازِ ترا ویح ادا کریں، اجرت دے کر قرآن نہ سنیں، کیوں کہ قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے ۔
(جوا ہر الفقہ)
دوسرے مقام پر فر ماتے ہیں کہ اجرت لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گناہ ہے، اس لئے تراویح میں چند مختصر سورتوں سے بیس رکعت پڑھ لینا بلا شبہ اس سے بہتر ہے کہ اجرت دے کر پورا قرآن پڑھوائیں۔
(امداد المفتیین)
نیز فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں، دینے والے اور لینے والے دونوں گنہگار ہوں گے اور ثواب سے محروم رہیں گے، اگر بلا اجرت سنانے والا نہ ملے تو ’الم تر کیف‘ [یا جو سورتیں یاد ہوں ان] سے تراویح پڑھیں۔
(فتا ویٰ محمودیہ)
سوال: تراویح میں ایک بار مکمل قرآن کریم کا سنا سنت مؤ کدہ ھے ؟
اسکی دلیل عنایت فرمادیں
نیز شامی کی عبارت عکس بھی ارسال فرمائیں،
اسکی دلیل عنایت فرمادیں
نیز شامی کی عبارت عکس بھی ارسال فرمائیں،
جواب: سنت مؤکدہ ہے
والختم مرۃسنة ومرتين فضيلة وثلاثاافضل ولايترك الختم لكسل القوم...شامى٤٩٧/٢
السنة فى التراويح انماهوالختم مرة فلايترك لكسل القوم.. ..هندية١٧٧/١
مفتى محمد نصيرالدين..
فاضل جامعة محمود للبحوث والدراسات الاسلامية
والختم مرۃسنة ومرتين فضيلة وثلاثاافضل ولايترك الختم لكسل القوم...شامى٤٩٧/٢
السنة فى التراويح انماهوالختم مرة فلايترك لكسل القوم.. ..هندية١٧٧/١
مفتى محمد نصيرالدين..
فاضل جامعة محمود للبحوث والدراسات الاسلامية
.....
تراویح میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرنا (پڑھ کر یا سن کر) سنت مؤکدہ ہے۔
اگر کسی جگہ لوگ ایک مرتبہ بھی ختم نہ کرتے ہوں تو تراویح تو ہوجائیں گے۔ لیکن ترک سنت كا گناہ ہوگا۔۔اور سنت کے ثواب سے محروم بھی ہون گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والختم مرۃسنة ومرتين فضيلة وثلاثاافضل ولايترك الختم لكسل القوم...شامى٤٩٧/٢
السنة فى التراويح انماهوالختم مرة فلايترك لكسل القوم.. ..هندية١٧٧/١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والجمهور على أن السنة الختم مرة فلا يترك لكسل القوم ويختم في الليلة السابع والعشرين لكثرة الإخبار أنها ليلة القدر ومرتين فضيلة وثلاث مرات في كل عشر مرة أفضل كذا في الكافي ۔ البحر الرائق...
....
اللہم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ
وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ
......
ختم قرآن کے علاوہ دیگر مواقع پہ الٹا قرآن پڑھنا برا ہے ۔حدیث میں اس پہ سخت وعید آئی ہے
ختم قرآن کے موقع سے ایک ہی رکعت میں سورہ الناس اور البقرہ کی ابتدائی آیات پڑھنا جائز ہے کوئی کراہت نہیں۔
البتہ بہتر یہ ہے کہ انیس رکعت الناس تک بنائے۔بیسویں رکعت سورہ الفاتحہ اور البقرہ کی "المفلحون " تک پڑھے۔
ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ۔ (الدر المختار) قولہ: إلا إذا ختم…۔ وفي الولوالجیۃ: من یختم القرآن في الصلاۃ إذا فرغ من المعوذتین في الرکعۃ الأولیٰ یرکع، ثم یقرأ في الثانیۃ بالفاتحۃ وشيء من سورۃ البقرۃ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’خیر الناس الحال المرتحل‘‘ أي الخاتم المفتتح۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، فصل في القراء ۃ ۱؍۵۴۷ سعید ۲؍۲۶۹ زکریا، وکذا في مراقی الفلاح علی نور الإیضاح، کتاب الصلاۃ / فصل في المکروہات ۳۵۲ قدیمی، وکذا في حلبي الکبیر، تتمات فیما یکرہ من القرآن في الصلاۃ وما لا یکرہ ۴۹۴ سہیل اکیڈمی لاہور، والحدیث أخرجہ الإمام الطبراني في المعجم الکبیر ۱۲؍۱۶۸ رقم: ۱۲۷۸۳، والترمذي في سننہ رقم: ۴۰۱۸)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
......
وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ
......
ختم قرآن کے علاوہ دیگر مواقع پہ الٹا قرآن پڑھنا برا ہے ۔حدیث میں اس پہ سخت وعید آئی ہے
ختم قرآن کے موقع سے ایک ہی رکعت میں سورہ الناس اور البقرہ کی ابتدائی آیات پڑھنا جائز ہے کوئی کراہت نہیں۔
البتہ بہتر یہ ہے کہ انیس رکعت الناس تک بنائے۔بیسویں رکعت سورہ الفاتحہ اور البقرہ کی "المفلحون " تک پڑھے۔
ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ۔ (الدر المختار) قولہ: إلا إذا ختم…۔ وفي الولوالجیۃ: من یختم القرآن في الصلاۃ إذا فرغ من المعوذتین في الرکعۃ الأولیٰ یرکع، ثم یقرأ في الثانیۃ بالفاتحۃ وشيء من سورۃ البقرۃ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’خیر الناس الحال المرتحل‘‘ أي الخاتم المفتتح۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، فصل في القراء ۃ ۱؍۵۴۷ سعید ۲؍۲۶۹ زکریا، وکذا في مراقی الفلاح علی نور الإیضاح، کتاب الصلاۃ / فصل في المکروہات ۳۵۲ قدیمی، وکذا في حلبي الکبیر، تتمات فیما یکرہ من القرآن في الصلاۃ وما لا یکرہ ۴۹۴ سہیل اکیڈمی لاہور، والحدیث أخرجہ الإمام الطبراني في المعجم الکبیر ۱۲؍۱۶۸ رقم: ۱۲۷۸۳، والترمذي في سننہ رقم: ۴۰۱۸)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
......
فقط؛
ایس اے ساگر
No comments:
Post a Comment