Wednesday 7 June 2017

فتنہ خلق قرآن

ایس اے ساگر
اللہ کی بے شمار نعمتوں میں قرآن بھی شامل ہے. قرآن مخلوق ہے یا قدیم ۔ اس بحث کا آغاز عباسی دور میں ہوا۔ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے، قدیم نہیں، رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر معانی کا القاء ہوتا تھا اور آپ انھیں الفاظ کا جامہ پہنا دیتے تھے۔ مامون الرشید کے دور میں حکومت کا مسلک اعتزال تھا۔ لہذا یہ مسئلہ 827ء میں شدت اختیار کر گیا۔ اور علمائے اسلام سے جبراً یہ اقرار لیا گیا کہ قرآن کلام قدیم نہیں بلکہ مخلوق ہے بہت سے علماء نے انکار کر دیا اور قید وبند کی مصیبتوں میں گرفتار ہوئے۔ امام احمد بن حنبل پر بھی اس سلسلے میں بڑے ظلم ڈھائے گئے لیکن وہ اپنے نظرئیے پر قائم رہے۔
امام صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان خلقِ قرآن کا فتنہ تھا۔ یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل تھا۔ معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن  مخلوق ہے۔ اس عقیدے کی اشاعت کی جانی چاہئے اور دراصل یہ یہودیوں کا عقیدہ تھا۔ اسلام سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ اس شخص نے قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ بشر مدلیسی سے لیا تھا۔ بشر مدلیسی نے جہم بن صفوان سے ٗجہم بن صفوان نے جعدبن درہم سے ٗ جعدبن درہم نے ربان بن سمعان سے اور ربان بن سمعان نے لبید بن اعصم یہودی کے بھانجے طالوت سے سیکھا تھا۔ یہ لبیدبن اعصم وہی یہودی ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کروایا تھا ٗ یہ تورات کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا۔ طالوت بددین اور زندیق تھا۔ سب سے پہلے اس نے اس موضوع پر کتاب لکھی تھی۔ قاضی احمد کی بات مان کر خلیفہ نے سن 218 ہجری میں پورے عالمِ اسلام میں سرکاری حکم جاری کردیا کہ ہر مقام کا امیر اور حاکم اپنے ہاں کے علماء سے اس کا اقرار لے۔ کوئی انکار کرے تو اسے گرفتار کرکے خلیفہ کے دربار میں بھیج دے۔
بغداد کے پولیس آفیسر اسحاق بن ابراہیم کو یہ حکم پہنچا۔ اس نے وہاں کے علماء کو بلا لیا۔ ان میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی تھے۔ ان کے سامنے مامون کا حکم سنایا گیا اور کہا گیا،
سب لوگ اقرار کریں کہ قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فوراً کہا
قرآن اللہ کا کلام ہے۔
آپ کے ساتھ تین اور محدثین نے بھی قرآن کو مخلوق ماننے سے انکار کیا۔ اسحاق بن ابراہیم نے انہیں قید میں ڈال دیا۔ دوسرے دن اس نے چاروں کو جیل سے نکلوایا اور کہا
اقرار کر لو کہ قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔
ان میں سے ایک نے اقرار کر لیا۔ امام صاحب اور ان کے باقی دو ساتھیوں کو پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ تیسرے دن اس نے تینوں کو بلا کر پھر اقرار کروانا چاہا۔ آج بھی ان میں سے ایک نے اقرار کرلیا۔ اب امام صاحب کے ساتھ صرف ایک ساتھی رہ گئے۔ ساتھی کا نام محمد بن نوح تھا۔ ان دونوں کو حالتِ قید ہی میں طرسوس روانہ کر دیا گیا۔ محمد بن نوح طرسوس کے راستے میں انتقال کرگئے۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی تجہیز و تکفین کی۔
ایسے حالات میں ایک دن مامون کا ایک درباری روتا ہو آپ کے پاس آیا اور بولا
ابو عبداللہ! معاملہ بہت سخت ہے۔ مامون نے تلوار نیام سے نکال لی ہے اور قسم کھا کر کہہ رہا ہے ٗ اگر احمد نے خلقِ قرآن کا اقرار نہ کیا تو میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑادوں گا۔
یہ سن کر امام احمد بن حنبل نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیک دیا اور آسمان کی طرف دیکھا ٗ پھر بولے
اے اللہ!  اس فاجر کو تیرے حلم نے اتنا مغرور کر دیا ہے کہ اب وہ تیرے دوستوں پر بھی ہاتھ اُٹھانے سے باز نہیں آرہا… اے اللہ! اگر قرآن تیرا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ… اور میں اس کے لئے ساری مشقیں برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔
یہ دُعا ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ رات کے آخری حصے میں مامون کی موت کی خبر آگئی۔ حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں ٗ
مجھے یہ خبر سن کر بہت خوشی ہوئی… لیکن پھر مجھے معلوم ہوا کہ معتصم کو خلیفہ بنایا گیا ہے اور محمد بن ابی داؤد اس کا وزیر مقرر ہوا ہے تو صورتِ حال اور زیادہ خوفناک محسوس ہونے لگی۔
خلیفہ مامون کے بعد معتصم خلیفہ بنا تھا۔ مامون نے اس بارے میں اسے تاکید کی تھی کہ علماء سے یہ مسئلہ منوایا جائے۔ اس نے خلیفہ بنتے ہی حکم دیا کہ ان علماء کو پیش کیا جائے۔
امام صاحب اور ان کے ساتھیوں کو جیل خانے میں ڈال گیا ۔ اس حالت میں بھی ان کی بیڑیاں نہ کھولی گئیں۔ امام صاحب بیڑیوں میں رہ کر قیدیوں کی امامت کرواتے رہے۔ امام صاحب کو جیل سے نکال کر بھرے دربار میں پیش کیا جاتا۔ معتصم قرآن کے مخلوق ہونے کے بارے میں بحث کرتا۔ جب آپ نہ مانتے تو جیل میں بھجوا دیتا۔ آخر اس نے ایک دن کہا،
اگر آپ نہیں مانیں گے تو پھر آپ کو کوڑے لگوائے جائیں گے۔
امام صاحب کہتے ہیں
اس بات سے میں خوف زدہ ہو گیا… کوڑوں کی سزا میرے لئے خوفناک تھی اور میرا خیال تھا کہ میں برداشت نہیں کرسکوں گا… لیکن انھی حالات میں ایک دن جب خلیفہ نے بات کرنے کے لئے بلایا تو ایک دیہاتی راستے میں آپ کے سامنے آگیا۔ اس کا نام جابر بن عامر تھا۔ اس نے امام احمد کو سلام کیا اور کہا،
امام صاحب ! آپ کی ذات اس وقت مُسلمانوں کے لئے بہت اہم ہے۔ آپ اس وقت مُسلمانوں کے نمائندے بن کر بادشاہ کے دربار میں جا رہے ہیں۔ اللہ کے لئے آپ مُسلمانوں کو شرمندہ نہ کروائیے گا۔ ہر گز ہرگز خلقِ قرآن کا اقرار نہ کیجئے گا۔ اگر آپ اللہ کو دوست رکھتے ہیں تو صبر کیجئے گا… بس جنت اور آپ میں آپ کے شہید ہونے کی دیر ہے… اور موت تو بہر حال آنے والے ہے… اگر آپ اس فتنے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کی دُنیا اور آخرت دونوں بن جائیں گی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی یہ باتیں میرے دل پراثر کرگئیں اورمیں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ خلیفہ کی بات ہرگز نہیں مانوں گا۔
اس کے علاوہ ایک اور واقعہ یہ پیش آیا کہ امام شافعی رحمہ اللہ  نے ایک خط ربیع کے ہاتھ امام احمد کی طرف بھیجا۔ ربیع کہتے ہیں
جس وقت میں ان کے پاس پہنچا ٗ وہ صبح کی نماز سے فارغ ہوکر واپس ہو رہے تھے۔ میں نے خط انہیں پیش کیا۔ آپ نے پوچھا
:تم نے اس خط کو پڑھا ہے۔"
میں نے بتایا کہ نہیں ٗ میں نے خط نہیں پڑھا۔ اب آپ نے خط کھول کر پڑھا۔
امام شافعی رحمہ اللہ  نے لکھا تھا،
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے. وہ فرماتے ہیں کہ احمد کی میرا سلام کہو… اور انھیں اطلاع دو کہ عن قریب خلقِ قرآن کے مسئلے میں ان کی آزمائش ہو گی… خبر دار خلقِ قرآن کا اقرار نہ کریں… اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان کے علم کو قیامت تک برقرار رکھیں گے۔
خط پڑھ کر امام احمد رونے لگے ۔ پھر اپنا کرتا اُتار کر مجھے دیا۔ میں اسے لے کر مصر واپس آگیا اور امام شافعی رحمہ اللہ  سے سفر کے حالات بیان کئے۔ اس کرتے کا بھی ذکر کیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ  نے سن کر فرمایا،
میں وہ کرتا تو تم سے نہیں مانگتا… ہاں اتنا کرو کہ اسے پانی میں تر کرکے ٗ وہ پانی مجھے دے دو… تاکہ میں اس سے برکت حاصل کروں۔
بیہقی
ان واقعات سے آپ کو بہت حوصلہ ملا۔ آپ کو 18ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئی تھیں۔ اسی حالت میں آپ قیدیوں کی امامت کرتے رہے۔ آخر18ماہ بعد اور بعض روایات کے مطابق تیس ماہ بعد آپ کو قید خانے سے نکال کر معتصم کے سامنے لایاگیا۔ بھاری بیڑیوں کی وجہ آپ کے لیے چلنا حد درجے دشوار ہو رہا تھا۔ امام صاحب فرماتے ہیں،
اس وقت حالت یہ تھی کہ بیڑیوں کو ازاربند سے باندھا اور ہاتھوں سے اُٹھا کر کچھ دور تک چلا ٗ پھر سواری لائی گئی۔ کوئی سواری پر بیٹھنے میں مدد دینے کو تیار نہیں تھا ٗ خود ہی ہزار دِقّت کے ساتھ سوار ہوا۔ اس طرح دارالخلافہ لایا گیا۔ یہاں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ کمرے میں چراغ تک نہیں تھا۔ وضو کی ضرورت پیش ائی تو اندھیرے میں ٹٹولنے لگا۔ ایک کونے میں پانی کا برتن مل گیا ہے۔ اس سے وضو کیا۔ نماز کے لئے اس طرح کھڑا ہو ا کہ قبلے کی سمت معلوم نہیں تھی۔ پھر دن نکلنے پر مجھے معتصم کے سامنے پیش کیا گیا۔ ابن ابی داؤد بھی موجود تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا
امیر المومنین! میرا تو خیال تھا ٗ یہ کوئی جوان آدمی ہوگا۔ یہ تو ادھیڑ عمر معلوم ہوتا ہے۔
پھر میں معتصم کے قریب چلا گیا۔ اس نے اورنزدیک ہونے کے لئے کہا ٗ میں اور نزدیک ہوگیا اور سلام کیا۔ اس کے بعد میں نے کہا
امیر المومنین! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کی طرف دعوت دی تھی؟
معتصم نے کہا
لاالہ الا اللہ کی طرف۔
میں نے کہا؟
تو میں گواہی دیتا ہوں ٗ اللہ ایک ہے ٗ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
اب اس نے پوچھا
قرآن کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟
میں نے جواب دیا،
قرآن اللہ کا کلام ہے جس نے اللہ کے کلام کو مخلوق کہا ٗ اس نے کفر کیا۔
اس پر سارے درباری طیش میں آگئے اور بول اُٹھے،
اس نے ہم سب کو کافر کہا ہے۔
معتصم نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اب معتزلی گروہ نے آپ سے سوالات شروع کئے۔ آپ ہر سوال کا مکمل جواب دیتے رہے۔
تمام دن سوالات اور جوابات ہوتے رہے… آخر بات دوسرے دن پرگئی… دوسرے دِن پھر سوالات شروع ہوئے… وہ دن بھی گزر گیا… پھر تیسرے دن مناظرہ شروع ہوا… آپ کی ایک اکیلی آواز سب پر بھاری رہی… ادھر معتصم ان سے بار بار یہ کہہ رہا تھا
احمد ! تم میرے مسلک کی تائید کرو ٗ میں تمھیں اپنا خاص مقرب بناؤں گا۔ پھر تم ان لوگوں میں سے ہو جاؤگے جن کو میرے اس قیمتی فرش پر چلنے کا فخر حاصل ہے۔
اس کے جواب میں آپ یہی فرماتے،
نہیں! میں اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول سے اس کی دلیل چاہتا ہوں۔
ادھر معتزلیوں نے دیکھا ٗ امام ان کے سوالات کی زد میں بالکل نہیں آرہے تو معتصم سے کہنے لگے،
امیر المومنین! یہ شخص کافر ہے ٗ گمراہ ہے ٗ اسے ضرور سزا ملنی چاہئے ٗ اگر اسے چھوڑ دیا گیا تو یہ بات خلافت کے خلاف ہوگی۔ پھر آپ کی کیا عزت رہ جائے گی۔
معتصم کا اپنا ذہن معتزلی تھا۔ اپنے درباریوں کی باتیں سن کر اس نے سخت لہجے میں کہا
اللہ تیرا برا کرے ٗ میں نے تو تجھے اپنی طرف لانے کی پوری کوشش کی تھی ٗ لیکن تو بہت ضدی اور ناسمجھ نکلا۔
پھر اس نے حکم دیا
اسے کوڑے لگائے جائیں۔
تب میرے دونوں ہاتھ باندھ دئے گئے۔ کوڑے مارنے والے نزدیک آئے تو میں نے معتصم سے کہا،
امیر المومنین ! اللہ اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں… اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات کے ہوتے ہوئے میرا خون حلال کیا جا رہا ہے ٗ کیا میں مُسلمان نہیں ہوں… قیامت کے دن آپ میرے اس خون کا حساب کیسے دیں گے؟
میری یہ بات سن کر معتصم بہت متاثر ہوا اور قریب تھا کہ مجھے چھوڑ دینے کا حکم دے دیتا ٗ لیکن شریر لوگوں کی جماعت نے بھی یہ بات بھانپ لی۔ وہ پکاراُٹھے
امیر المومنین! یہ شخص بدترین گمراہ ہے… سزا ضرور ملنی چاہئے۔
آخر کوڑے مارنے والوں نے کوڑے مارنا شروع کئے۔
جب پہلا کوڑا پڑا ٗ میں نے کہا ٗ بسم اللہ ! دوسرا کوڑا مارا گیا تو میں نے کہا لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔ تیسر کوڑا مارا گیا تو میں نے کہا ٗ القرآن کلام اللہ
ادھر کوڑے مارنے والے کہتے تھے،
اللہ تمھارا برا کرے ٗ اپنی نافرمانی کا بدلہ چکھو۔
مجھے یہاں تک کوڑے مارے گئے کہ میں بے ہوش ہوگیا۔ کوڑے روک دئے گئے… ہوش آیا تو معتصم نے پھر پوچھا،
میں نے کوئی جواب نہ دیا تو کوڑے پھر برسنے لگے۔ غرض خلیفہ نے بار بار کوڑے لگوائے… آخر میں پھر بے ہوش ہوگیا۔ ہوش آیا تو ایک کوٹھری میں بند تھا۔ یہ واقعہ 25 رمضان المبارک سن221 ہجری کا ہے۔ اس کے بعد خلیفہ نے مجھے میرے گھر پہنچانے کا حکم دیا.
کہا جاتا ہے… آپ کو اسّی کے قریب کوڑے لگائے گئے۔ آپ کو گھر کی طرف لے جایا گیا تو راستے میں آپ اسحاق بن ابراہیم کے ہاں بھی ٹھہرے۔ آپ روزے سے تھے۔ کھانے کے لئے ستور وغیرہ لایا گیا تو آپ نے انکار کردیا۔ اسی تکلیف کی حالت میں روزہ پورا کیا۔ ظہر کی نماز بھی جماعت سے پڑھی۔ کسی نے اشکال کیا،
آپ نے خون بہنے کی حالت میں نماز پڑھی ہے؟
آپ نے جواب دیا،
ہاں!  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی حالت میں نماز پڑھی تھی کہ ان کے زخم سے خون فوارے کی طرح نکل رہا تھا۔
کوڑے لگنے کے وقت کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس وقت اپ کا ازار بند کھل گیا اور آپ کو بے ستر ہونے کا خوف لاحق ہو گیا تھا ٗ چنانچہ آپ نے ان الفاظ میں دُعا فرمائی تھی
اے اللہ! اگر یہ مشقت میں حق کے لئے برداشت کر رہا ہوں تو میری ستر پوشی فرما۔
آپ کی اس دُعا کی وجہ سے پاجامہ سرک کر اپنی جگہ پر آگیا اور بدن سے چمٹ گیا۔
جرح نے آپ کا علاج کیا اور آپ تندرست ہو گئے ٗ لیکن ان زخموں کی تکلیف موسمِ سرما میں عود کر آتی تھی۔ وفات تک یہ صورت رہی۔ اپ نے معتزلہ کے سوا سب کے قصور معاف کر دئے۔ انھیں اس لئے معاف نہ کیا کہ وہ اہلِ بدعت تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے:
اپنے کسی مومن بھائی کو اپنے لئے تکلیف دینا اچھا نہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دینے کے لئے بلائے گا تو وہی شخص پہلے جائے گا جس نے دُنیا میں کسی کا قصور معاف کیا ہوگا۔
آپ کے ساتھ یہ حضرات بھی اسی مسئلے میں ڈٹے رہے اور شہادت پائی،
محمد بن نوح نیشا پوری ٗ نعیم بن حماد خزاعی ٗ ابویعقوب یوطی۔
پھر آپ نے معتصم کو بھی معاف کردیا۔ معتصم کے بعد واثق خلیفہ تھا ٗ یہ بھی معتزلی تھا۔ اس نے بھی اس مسئلے پر علماء کو جمع کیا اور خلقِ قرآن کے مسئلے میں انہیں مشکل میں ڈالا لیکن امام احمد بن حنبل کو اس نے نہیں چھیڑا۔ وہ جانتا تھا کہ انہیں ستانے کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ البتہ اس نے امام صاحب کو یہ پیغام بھیج دیا کہ آپ اس شہر میں نہ رہیں ٗ چنانچہ امام صاحب واثق کے دور میں روپوشی کی زندگی بسر کرتے رہے۔
واثق کے بعد متوکل خلیفہ ہوا۔ اس نے اس فتنے کو ختم کیا اور علماء کو ہدایت کی درس و تدریس کی مجلس قائم کریں اور معتزلہ اور اس جیسے دوسرے فرقوں کا رد کریں۔
.....
مامون اپنے بھائی معتصم کو جو اس کا جانشین ہوا سخت تاکید کر گیا کہ میرے بعد کوشش کر کے اس 'مشرکانہ' عقیدے کو مٹا دینا ۔ بھائی کی وصیت نیز احمد بن داؤد راس الاعتزال کے اثر سے جو یحیٰ بن اکثام کی جگہ قاضی القضاۃ بھی تھا اور وزیر بھی معتصم نے 220 ہجری میں مجلس مناظرہ منعقد کی امام احمد بن حنبل پابچولاں لائے گئے خلیفہ اور وزیر دونوں جاہ جلال کے ساتھ جلوس فرما تھے دیگر علماء معتزلہ بھی جمع تھے قضاۃ فقہا امراء و روساء سے دربار بھرا ہوا تھا وہ معتصم کے سامنے بٹھائے گئے۔
معتصم: قران کی بابت کیا کہتے ہو ؟
امام احمد: کوئی آیت یا روایت پیش کی جائے اس کے مطابق کہنے کو تیار ہوں
ایک معتزلی: قران میں ہے “ما یاء تیھم من ذکر من ربھم محدث“ کیا محدث مخلوق نہیں ؟
امام احمد: قران کے لئے الذکر کا لفظ آیا ہے الف الم کے ساتھ اس میں ذکر بغیر الف لام کے ہے اسلئے اس سے قران مقصود نہیں۔
دوسرا معتزلی: قران میں ہے “اللہ خالق کل شئی” کیا قران شے نہیں ہے ؟
امام احمد: اللہ نے قران میں کئی جگہ اپنے لئے “نفس” کا لفظ استعمال کیا ہے مثلاً “کتب علی نفسۃ الرحمۃ” پھر فرماتا ہے “کل نفس ذائقۃ الموت” کیا تمھارے خیال میں نفس الہٰی کے لیے یہی موت ہے ؟
تیسرا معتزلی: عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ” ان اللہ خلق الذکر “
امام احمد: اس روایت کا صحیح لفظ ہے “ان اللہ کتب الذکر”
چوتھا معتزلی: حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ “ما خلق اللہ من جنۃ ولا سماء ولا رض اعظم من ایۃ الکرسی”
امام احمد: خلق کا فعل جنت نار سماء اور ارض سے متعلق ہے نہ کہ ایتہ الکرسی سے ۔
پانچواں معتزلی: کلام اللہ کو غیر مخلوق کہنے سے اس کی مشابہت اللہ کے ساتھ لازم آتی ہے۔
امام احمد: اللہ احمد ہے صمد ہے نہ کوئی اس کا شبہیہ ہے نہ عدیل۔
لیس کمثلہ شئیی 1
معتصم: ہاں تم کیا کہتے ہو ؟
امام احمد: کوئی روایت یا آیت دیجیے تو اس کے مطابق کہوں ۔ ایک معتزلی نے عقلی دلائل دینے شروع کیے۔
امام احمد: میں اس کو نہیں جانتا ۔ نہ یہ آیت ہے نا روایت۔
معتزلی: (خلیفہ سے مخاطب ہو کر) امیر المومنین ! جب ان کو کوئی دلیل نظر آتی ہے تو ہمارے اوپر جھپٹ پڑتے ہیں اور جب ہم کچھ کہتے ہیں تو بول اٹھتے ہیں کہ میں اس کا نہیں جانتا۔
احمد بن داؤد: امیر المومنین ! یہ گمراہ ہے گمراہ کن اور بدعتی !
اس بحث کے بعد قید خانے واپس بھیج دئیے گئے دوسرے دن پھر لائے گئے اور مناظرہ ہوا تیسرے دن جب اہل دربار تھک کر مایوس ہو گئے تو اس وقت معتصم نے تازیانہ مارنے کا حکم دیا ۔ مسعودی کے مطابق 38 کوڑے لگائے گئے تھے کہ جسم سے خون جاری ہو گیا اور بے ہوش ہو گئے ۔
اس فتنے کے دوران متعدد علمائے کرام قتل ہوئے لیکن معتصم نے امام موصوف کے قتل کی جرات اسلئے نہیں کی کیونکہ:
(1) امام احمد کے ساتھ جمہور کی عقیدت بہت زیادہ تھی اس لئے ڈرا کہ ان قتل سے فتنہ عام برپا ہو جائے گا جسے مٹا نا نہایت دشوار ہو گا۔
(2) معتصم خود شجاع تھا اور شجاعت کا قدر دان امام موصوف کے مناظرے سے ان کے استقلال اور ثبات کا نقش اس کے دل میں بیٹھ گیا جس کی وجہ سے ان کو قتل کرنا گوارا نہ کیا
(3) اس نے ان کے بشرہ سے ان کی راست بازی اور خلوص کو دیکھا اور سمجھ گیا کہ وہ صرف اس وجہ سے قران کو غیر مخلوق کہتے ہیں کہ مخلوق کہنے کی کوئی دلیل نہیں پاتے۔
آخر کار ان کو چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد سات سال تک زندہ رہا مگر پھر ان سے کچھ نہیں بولا ۔ 227 ہجری میں اس کے مرنے پر واثق خلیفہ ہوا وہ خلق قران کے عقیدہ کی حمایت کرتا رہا یہاں تک کہ احمد بن نصر کو اس کی مخالفت پر خود اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ لیکن امام احمد سے کبھی کچھ تعرض نہیں کیا۔
جب متوکل خلیفہ ہوا اور اس نے دیکھا کہ اس فضول بحث سے نہ خلافت کو کوئی فائدہ ہے نہ امت کو بلکہ دن بدن نفرت کی خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ 234 ہجری میں تمام صوبوں میں حکم بھیج دیا کہ کوئی قران کو مخلوق نہ کہے۔ اس پر سارے ملک میں خوشی منائی گئی اور جو لوگ معتزلہ کی سختیوں سے تنگ تھے، خوش ہو گئے بلکہ رائے عامہ ان کے خلاف اس قدر بڑھک اٹھی کہ جمہور نے ان سے انتقام لینا شروع کیا متوکل نے محدثین کی مدارات کے لئے ان کو سامرہ میں بلا کر انعامات دئیے اور صفات اور رویت کی احادیث روایت کرنے کی آزادی عطا کی،
معتزلہ کا زوال:
چنانچہ ان کی مجالس میں غیر معمولی مجمع ہونے لگا امام احمد بن حنبل جو اس امتحان میں پورے اتر گئے تھے محدثوں کے سردار مانے گئے یہاں تک یہ اصول مسلمہ ہو گیا کہ جس کو وہ ثقہ کہہ دیں وہ ثقہ ہے جس کو ضعیف کہہ دیں وہ ضعیف۔ لوگ متوکل کے شکرے کے ساتھ اس کے لئے دعائے خیر کہنے لگے۔ اور اس قدر تعریف کی کہ بعض حنابلہ نے اس بد تدبیر اور عیاش خلیفہ کو جس کے محل میں بقول ابوبکر خوارزمی 12،000 حرم تھیں خلفاء راشدین کے برابر قرار دیا۔ حنبلیوں کا زور اس قدر بڑھ گیا کہ انھوں نے بغداد میں احتساب اپنے ہاتھ میں لے لیا معتزلہ خوف سے چھپ گئے اور جماعتی لحاظ سے ان کا وجود ختم ہو گیا۔
تو ضیح مسئلہ​:
خلق قران کا مسئلہ جس نے نا صرف امت بلکہ عباسی سلطنت میں تزلزل ڈال دیا تھا۔ محض فلسفیانہ غلو اور قران کی ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوا تھا۔ معتزلہ سمجھتے تھے کہ غیر مخلوق کہہ دینے سے قران قدیم ہو جاتا ہے جس سے قدماء کا تعدد لازم آتا ہے اسلیے یہ عقیدہ مشرکانہ ہے لہذا خلیفہ اسلام کا یہ فرض ہے کہ ایسے عقیدے کو جو توحید کے خلاف ہو قوت سے مٹائے ، دوسری طرف محدثوں کے پاس بھی غیر مخلوق کہنے کے دلائل اس قدر واضح نہ تھے کہ معتزلی کی تشفی کر سکتے نتیجہ یہ ہوا کہ تعصب درمیان میں ایا اور معاملہ بہت بڑھ گیا محدثین کے پاس اس کے علاوہ کیا چارہ تھا کہ رسول اللہ کی حدیثیں سنا سنا کر عوام کے ایمان کو جو ایمان کی قوت تھے تازہ رکھیں چناچہ متعدد حدیثیں اس مضمون کی کہ “القران کلام اللہ غیر مخلوق” مختلف پیرایوں میں رسول اللہ سے روایت کی گئیں اور وعظ و تذکیر کے ذریعے سے لوگوں میں پھیلائی گئیں لیکن اگر قران میں غور کیا جاتا تو یہ مسئلہ بالکل واضح ہو جاتا اور روایات کی مطلق ضرورت نہ پڑتی۔
امام احمد بن حنبل نے اپنے رسالہ رد جہمیہ میں سورہ اعرعاف کی آیت “الا لہ الخلق والامر” سے یہ استدلال کیا ہے کہ “خلق اور امر دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ قران میں یہ اصول عام ہے کہ جب وہ ایک ہی چیز کا مختلف الفاظ میں ذکر کرتا ہے تو ان کے درمیان فصل کے لئےواؤ نہیں لاتا مثلا ً سورہ حشر میں ہے “الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر” اور جب دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں تو ان کے درمیان واؤ عاطفہ داخل کرتا ہے جیسے سورہ فاطر میں ہے۔
“و ما یستوی الا عمٰی والبصیر ولا الظلمات ولا النور ا ولا الظل ولا الحرور اوما یستوی الا حیاء ولا الاموات”
سورہ تحریم میں ایک ہی آیت میں دیکھو
“ازواجاً خیراً منکن مسلمت مومنات فانتات تائبات عابدات ثیبات و ابکاراً”
جہاں تک ایک ہی چیز کے مختلف اسماء اور صفات تھے وہاں تک بلا فصل رکھا لیکن ثیبا اور بکر دو مختلف صفتیں ہیں جن کا باہم اجتماع نہیں ہو سکتا اسلئے ان میں واؤ لا کر فصل کر دیا لہذا خلق کا اطلاق امر پر اور امر کا اطلاق خلق پر نہیں ہو سکتا قران امر ہے۔ سورہ طلاق میں ہے
” ذالک امر اللہ انزلہ الیکم”
اس لئے اس کو خلق نہیں کہہ سکتے یہ استدلال ان کا صحیح ہے لیکن عالم امر کی مزید حقیقت ان کے اوپر منکشف نہیں تھی کہ وہ عالم خلق کی طرح حادث ہے اور محدث کا لفظ اس کے لئے بولا جا سکتا ہے اس وجہ سے معتزلہ کے استدلال “ما یاء تیھم من ذکر من ربھم محدث” کا ٹھیک جواب وہ نہ دے سکے۔
اصلیت یہ ہے کہ امر کا لفظ جس طرح قران میں جا بجا بہت سے معنوں میں مستعمل ہوا ہے اسی طرح اس کی متعدد نوعیتیں بھی قران سے ثابت ہوتی ہیں۔
امر تکوینی یعنی اشیاء کی تخلیق کا حکم ۔
سورہ یسین میں ہے “انما امرہ اذا اراد شیاء ان یقول لہ کن فیکون“
اس کا حکم جب کہ وہ کسی شے کی تخلیق کا ارادہ کرتا ہے یہی ہے کہ اس سے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔
امر تدبیری یعنی عالم خلق کے انتظامی اور تدبیری احکام سورہ یونس میں ہیں
“خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامرا”
آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر براجا تدبیر کرتے ہوئے امر کی۔
آیت زیر بحث “الا لہ الخلق والامر” میں جو امر مذکور ہے وہ تدبیری ہے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے ان کے انتظام کی تدبیر کے لئے اپنے اوامر نافذ فرمائے۔
سورہ حم سجدہ میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے کہ ہم نے دو دن میں زمین پیدا کی پھر دو دن میں پہاڑ اور زمین کے جملہ اندرونی ذخیرے بنائے پھر دونوں دن میں ساتوں آسمان کھڑے کئے اس کے بعد
“اوحی فی کل اسماء امرھا” ساتوں بلندیوں میں ان کے تدبیر ی اور انتظامی اوامر نافذ کئے ایسا ہی ساتوں پستیوں کے مطلق
سورہ طلاق میں فرمایا
“خلق سبع سموات و من الارض مثلھن ینزل الامیر بینھن”
سات بلندیاں پیدا کیں اور ویسی ہی سات پستیاں جن میں اوامر اترتے ہیں۔
اس طرح بلندیوں اور پستیوں سب میں اوامر تدبیری نافذ ہیں۔ سورہ سجدہ میں ہے
“یدبر الامر من السماء الی الارض” وہ امر کی تدبیر کرتا ہے بلندی سے پستی تک۔
اب واضح ہو گیا کہ عالم امر عالم خلق کے بعد ہے جس کی ان آیات کے علاوہ بھی متعدد آیتوں میں تصریح ہے۔ سورہ سجدہ میں ہے
“خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش”
پیدا کیا آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پھر عرش پر مستولی ہوا۔
عرش اسی کا نام رکھا جہاں سے اوامر تدبیری نافذ ہوتے ہیں۔ اور جن کا نفاذ رحمت کی تجلی سے ہوتا ہے۔
“الرحمن علی العرش استوی” اس لئے عرش استواء علی العرش اور تنفیذ اوامر تدبیری سب خلق کے بعد کی چیزیں ہیں اور عالم خلق اور عالم امر دونوں حادثات ہیں اور دونوں کی ہر شے پر محدث کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔
اسی امر تدبیری کے ذیل میں امر تشریعی ہے وہ بھی حادث اور محدث ہے بنی اسرائیل کے بارے میں سورہ جاثیہ میں ہے
“وایتنا ھم بینات من الامر” اور ہم نے کھلی دلیلیں امر (شریعت) کی ان کو دیں
خاتم النبین سے اسی سورہ میں خطاب ہے
“ثم جعلنک علی شریعۃ من الامر” پھر ہم نے جھ کو عالم امر سے ایک شریعت پر لگا دیا
وحی اور کلام الہٰی اسی تشریعی امر میں داخل ہے سورہ طلاق میں ہے
“ذلک امر اللہ انزلہ الیکم” یہ امر الہٰی ہے جس کو اس نے تمھاری طرف اتارا۔
سورہ شورٰی میں ہے
” و کذالک اوحینا الیک روحاً من امرنا” ایسا ہی ہم نے تیری طرف اپنے امر کی ایک روح (قران) کی وحی کی
اس لئے قران جو امر تشریعی ہے حادث ہے اور محدث ہے مگر عالم امر سے ہے عالم خلق سے نہیں ہے لہذہ   اس کو مخلوق کہنا قران کے خلاف ہے۔
......
مسلمانوں کا عام عقیدہ یہی ہے کہ قرآن چونکہ کلام الہی ہے اس لئے قدیم ہے۔ مسئلہ خلق قرآن ہے جو معتزلہ نے پیدا کیا تھا اور وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے والوں کو مشرک قرار دیتے تھے۔ خلفائے بنو عباس بالخصوص مامون الرشید معتزلہ کے عقائد سے شدید متاثر تھا۔ اس نے بہت سے علماء کو محض اس بنا پر قتل کردیا تھا کہ وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے تھے اور امام احمدبن حنبل نے اسی مسئلہ کی خاطر مدتوں قید و بند اور مارپیٹ کی سختیاں جھیلی تھیں۔ بالآخر خلیفہ واثق باللہ کے عہد میں ایک سفید ریش بزرگ خلیفہ کے پاس آیا اور درباری معتزلی عالم ابن ابی داؤاد سے مناظرہ کی اجازت طلب کی۔ خلیفہ نے اجازت دے دی تو اس بزرگ نے ابن ابی دؤاد سے کہا:
میں ایک سادہ سی بات کہتا ہوں جس بات کی طرف نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی اور نہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے، تم اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہو اور اسے منوانے کے لئے زبردستی سے کام لیتے ہو تو اب دو ہی باتیں ہیں۔
1. ایک یہ کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو اس مسئلہ کا علم تھا لیکن انھوں نے سکوت اختیار فرمایا تو تمھیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہئے۔
2. اور اگر تم کہتے ہو کہ ان کو علم نہ تھا تو اے گستاخ ابن گستاخ ! ذرا سوچ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا اور نہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہوا تو تمھیں کیسے اس کا علم ہوگیا ؟
ابن ابی داؤاد سے اس کا کچھ جواب نہ بن پڑا۔ واثق باللہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دوسرے کمرہ میں چلا گیا وہ زبان سے باربار یہ فقرہ دہراتا تھا کہ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو ہوا اس کا علم تجھے کیسے ہوگیا ؟ مجلس برخاست کردی گئی خلیفہ نے اس بزرگ کو عزت و احترام سے رخصت کیا اور اس کے بعد امام احمد بن حنبل پر سختیاں بند کردیں اور حالات کا پانسا پلٹ گیا اور آہستہ آہستہ مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ جس نے بے شمار مسلمانوں کی ناحق جان لی تھی، ختم ہوگیا۔
....
قرآن مجید کو مخلوق کہنا اور سمجھنا کیسا ہے؟
الجواب: ولفظنا بالقرآن مخلوق وکتابتنا لہ مخلوقۃ وقرأتنا لہ مخلوقۃ والقرآن غیر مخلوق … والحروف مخلوقۃ لأنہا أفعال العباد وکلام اﷲ سبحانہ وتعالیٰ غیر مخلوق؛ لأن الکتابۃ والحروف والکلمات والآیات کلہا آلۃ القرآن لحاجۃ العباد إلیہا، وکلام اللّٰہ تعالیٰ قائم بذاتہ۔ (شرح فقہ أکبر ۳۸، صفاتِ متشابہات اور سلفی عقائد ۱۵۲)
القرآن کلام اللّٰہ تعالیٰ غیر مخلوق ولا محدث، والمکتوب في المصاحف دال علی کلام اللّٰہ تعالیٰ وأنہ مخلوق۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۸؍۵ رقم: ۲۷۸۵۳ زکریا)
وإن القرآن کلام اللّٰہ، منہ بدأ بلا کیفیۃ قولاً، وأنزلہ علی رسولہ وحیاً، وصدَّقہ المؤمنون علی ذٰلک حقاً، وأیقنوا أنہ کلام اللّٰہ تعالیٰ بالحقیقۃ، لیس بمخلوق ککلامۃ البریۃ۔ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن أبي العز الدمشقي ۱۰۲ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
العبد محمد عفی عنہ

No comments:

Post a Comment