Wednesday, 19 October 2016

یبتغون فضلا من الله و رضوانا

ایس اے ساگر  

محمد رسول الله والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من الله ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ذلک مثلھم فی التوراة ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج شطأہ فآزرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار وعد الله الذین آمنوا وعملوا الصلحت منھم مغفرة واجراعظیما

قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالٰی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بتدریج ترقی کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا، پھر اس کی کمر مضبوط کی پھر موٹا ہوا، پھر کھڑا ہو گیا اپنی جڑی پر بھلا لگتا ہے کھیتی والوں کو، تاکہ جلائے اس سے جی کافروں کا، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ آج امت میں سے وہ چیز کوسوں دور چلی گئی ہے جبھی تو علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ بھی اپنے فکر انگیز تجزیہ میں مسلمانوں کی تر قی اور تنزلی ؛ 
دونوں کا ایک ہی سبب بتاتے  ہیں کہ ؛ 
ان کا وقتی اور فوری جذبہ؛
وہ سیلاب کی مانند پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں ؛ 
لیکن کوہ کن کی طرح ایک ایک پتھر کو جدا کر کے راستہ کو صاف نہیں کر سکتے۔
وہ بجلی کے مثل ایک خر من کو جلا کر خاک و سیاہ کر سکتے ہیں ؛ 
لیکن چیونٹی کی طرح ایک ایک دانہ نہیں ڈھو سکتے۔
وہ ایک مسجد کی مدافعت میں اپنی جان، اپنا خون پانی کی طرح بہا سکتے ہیں ؛ 
لیکن ایک منہدم مسجد کو دوبارہ بنانے کے لئے مسلسل کوشش جاری نہیں رکھ سکتے ۔
ہماری ناکامی کا اصل سبب کیا ہے ؟ 
وہ یہ ہے کہ ہم آندھی کی طرح آتے ہیں اور بجلی کی طرح گزر جاتے ہیں ، ہم کو دریا کے اس پانی کی مانند ہونا چاہئے؛
جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور سالہا سال میں کناروں کو کاٹ کر اپنا دہانہ وسیع کرتا جاتا ہے ۔
کامیابی صرف اور صرف مسلسل پائیدار کوشش میں ہے۔

منفردانہ عظمت :

الصحابة فی القرآن کے تحت مولانا حبیب الرحمان اعظمی رقمطراز ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس مقدس جماعت کا نام ہے وہ امت کے عام افراد کی طرح نہیں ہے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور امت کے درمیان ایک مقدس واسطہ ہونے کی حیثیت سے ایک خاص مقام ومرتبہ کے مالک ہیں اورعام امت سے امتیاز رکھتے ہیں، انہیں یہ امتیاز الله اور اس کے رسول کی جانب سے عطا ہوا ہے ، ذیل میں اس امتیاز وخصوصیت کی تھوڑی سی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔

﴿والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنہم ورضوا عنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھر خالدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم﴾․

جو مہاجرین او رانصار ( ایمان لانے میں سب سے ) سابق اورمقدم ہیں ( اور بقیہ امت میں ) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں الله ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب الله سے راضی ہوئے ، الله نے ان سب کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ بہت بڑی کام یابی ہے۔“

اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دو طبقے بیان کئے گئے ۔ایک سابقین اولین کا اور دوسرا بعد میں آنے والوں کا اور دونوں طبقوں کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ الله ان سے راضی اور وہ الله سے راضی ہیں اور ان کے لئے جنت کا مقام ودوام ہے ، سابقین اولین کون لوگ ہیں؟ اس پر بحث کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”ذھب جمھور العلماء الی ان السابقین فی قولہ تعالی: ﴿والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار﴾ ھم ھؤلاء الذین انفقوا من قبل الفتح وقاتلوا واھل بیعة الرضوان کلھم منھم، وکانوا اکثرمن الف واربعمائة، وقد ذھب بعضھم الی ان السابقین الاولین ھم من صلی الی القبلتین وھذا ضعیف“․

”جمہور علماء کے نزدیک سابقین اولین میں وہ صحابہ کرام داخل ہیں جنہوں نے قبل الفتح اپنی جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا او راس صفت سے تمام اہل بیعت رضوان متصف ہیں، جن کی تعداد چودہ سو سے اوپر تھی، بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ سابقین اولین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی جانب نماز ادا کی، مگر یہ قول ضعیف ہے۔“

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت جہاد کرنے والے تمام صحابہ سابقین اولین میں داخل ہیں اور صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبدالله سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا یدخل النار احد ممن بایع تحت الشجرة“․ ”جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں داخل ہو گا۔“ اس آیت پاک سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے تمام سابقین اولین او ران کے بعد صحابیت کا شرف حاصل کرنے والے تمام صحابہ کرام دوامی طور پر جنتی ہیں، جن میں بلاریب خلفائے اربعہ بھی داخل ہیں۔

حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں” جو شخص قرآن پر ایمان رکھتا ہے جب اس کے علم میں یہ بات آگئی کہ الله تعالیٰ نے بعض بندوں کو دوامی طور پر جنتی فرمایا ہے تو اب ان کے حق میں جتنے بھی اعتراضات ہیں سب ساقط ہو گئے، کیوں کہ الله تعالیٰ عالم الغیب ہے، وہ خوب جانتا ہے فلاں بندہ سے فلاں وقت میں نیکی اور فلاں وقت میں گناہ صادر ہوگا، اس کے باوجود جب باری تعالیٰ یہ اطلاع دیتا ہے کہ میں نے اسے جنتی بنا دیا تو اسی کے ضمن میں اس بات کا اشارہ ہو گیا کہ اس کی تمام لغزشیں معاف کر دی گئیں، لہٰذا اب کسی شخص کا ان مغفور بندوں کے حق میں لعن وطعن کرنا جناب باری تعالیٰ پر اعتراض کرنے کے مرادف ہو گا، اس لیے ان پر اعتراض کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ بندہ گنہ گار ہے، پھر الله تعالیٰ نے اسے کیسے جنتیبنا دیا؟ اور ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ پر اعتراض کفر ہے۔

﴿ولکن الله حبب الیکم الإیمان وزینہ في قلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون فضلا من الله ونعمة والله علیم حکیم﴾․

”لیکن الله نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین کر دیا اور کفر ، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسند کر دیا، ایسے ہی لوگ الله کے فضل ونعمت سے ہدایت یافتہ ہیں اور الله خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔“

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا استثناء تمام صحابہ کرام کے دلوں میں ایمان کی محبت اور کفر اور فسق ونافرمانی سے نفرت وکراہیت منجانب الله راسخ کر دی گئی تھی اور لفظ الی سے مستفاد ہوتا ہے کہ یہ ایمان کی محبت اور کفر وغیرہ سے کراہیت انتہا درجے کوپہنچی ہوئی تھی، کیوں کہ ” الیٰ“ ‘ عربی میں انتہا اور غایت کا معنی بیان کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے ،نیزاسی آیت پاک سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام سے جو لغزشیں صادر ہوئی ہیں وہ ضعف ایمان اور فسق وعصیان کو مستحسن سمجھتے ہوئے صادر نہیں ہوئی ہیں، بلکہ ان کا صدور بتقاضائے بشریت ہوا ہے ، اس لیے ان زلات اور لغزشوں کو بنیاد بنا کر ان کی شان میں لعن طعن کرنا اور ان کے بارے میں تنقید وتنقیص کا رویہ اختیار کرنا جہالت وزندقہ ہے۔

﴿والذین اٰمنوا وھاجروا وجاھدوا فی سبیل الله والذین آووا ونصروا اولئک ھم المؤمنون حقالھم مغفرة ورزق کریم﴾․

”او رجو لوگ ایمان لائے او رہجرت کی اور الله کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے انہیں جگہ دی او ران کی مدد کی وہی ہیں سچے مسلمان، ان کے لیے مغفرت ہے او رباعزت رزق ہے۔“

اسی سورہ کے شروع میں ارشاد خدا وندی ہے :﴿الذین یقیمون الصلوٰة ومما رزقناھم ینفقون اولئک ھم المومنون حقا لھم درجة عند ربھم ومغفرة ورزق کریم﴾․

”وہ لوگ جو نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہم نے ان کو جوروزی دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، وہی سچے مسلمان ہیں، ان کے واسطے درجے ہیں ان کے رب کے پاس او رمغفرت او رعزت کی روزی۔“

ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ حضرات مہاجرین وانصار کے اعمال ظاہرہ نماز روزہ، حج، زکوٰة ، جہاد وغیرہ قطعی طور پر نفاق ومکر کی بنا پر نہیں تھے ان کا ایمان الله کے نزدیک متحقق وثابت تھا اس لیے حضرات صحابہ بالخصوص خلفائے ثلثہ کی جانب نفاق کی نسبت کرنا خدائے بزرگ وبرتر کے ساتھ معارضہ کرنا ہے۔

﴿محمد رسول الله والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من الله ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ذلک مثلھم فی التوراة ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج شطأہ فآزرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار وعد الله الذین آمنوا وعملوا الصلحت منھم مغفرة واجراعظیما﴾․

”محمد الله کے رسول ہیں او رجو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں ۔( اے مخاطب!) تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع میں ہیں او رکبھی سجدے میں، ڈھونڈتے ہیں الله کے فضل او راس کی خوشی کو ان کی نشانی سجدوں کے اثر سے ان کے چہرے پر نمایاں ہے، یہ مثال ہے ان کی تورات میں او رانجیل میں ان کی مثال ہے جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا، پھر اس کی کمر مضبوط کی پھر موٹا ہوا، پھر کھڑا ہو گیا اپنی جڑی پر بھلا لگتا ہے کھیتی والوں کو، تاکہ جلائے اس سے جی کافروں کا، وعدہ کیا ہے الله نے ان سے، جو یقین لائے ہیں او رکیے ہیں بھلے کام، معافی کا اور بڑے ثواب کا۔

امام قرطبی اور عامہٴ مفسرین کہتے ہیں کہ ﴿والذین معہ﴾ عام ہے۔ اس میں تمام صحابہٴ کرام داخل ہیں۔ اسآیت کریمہ میں تمام صحابہ کی عدالت ، ان کی پاک باطنی او رمدح وثنا خود مالک کائنات نے فرمائی ، ابو عروہ زبری کہتے ہیں کہ ایک دن امام مالک کی مجلس میں ایک شخص کے متعلق یہ ذکر آیا کہ وہ صحابہٴ کرام کو برا کہتا ہے ، امام مالک نے یہ آیت ﴿لیغیظ بھم الکفار﴾ تک تلاوت کی اور پھر فرمایا کہ جس شخص کے دل میں اصحاب رسول میں سے کسی کے متعلق غیظ ہو، وہ اس آیت کی زد میں ہے، یعنی اس کا ایمان خطرہ میں ہے، کیوں کہ آیت میں کسی صحابی سے غیظ، کفار کی علامت قرار دی گئی ہے۔

﴿للفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم یبتغون فضلا من الله ورضوانا وینصرون الله ورسولہ اولئک ھم الصادقون، والذین تبوؤا الدار والایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ولا یجدون فی صدورھم حاجة مما اتوا ویؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصة ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفحلون والذین جاؤا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا ربنا انک رؤف رحیم﴾․

”(اور مال غنیمت کا حق) ان مفلس مہاجرین کا ہے جو جدا کر دیے گئے ہیں اپنے گھروں سے او راپنے مالوں سے وہ الله کے فضل او ررضا مندی کے طالب ہیں اور وہ الله او ر اس کے رسول ( کے دین) کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ ( ایمان کے) سچے ہیں اور ان لوگوں کا( بھی حق ہے) جو دارالاسلام میں او رایمان میں ان مہاجرین سے پہلے قرار پکڑے ہیں، جو ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں او رمہاجرین کو جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ انصار لوگ اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور (مہاجرین کو) اپنے سے مقدم رکھتے ہیں، اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو اور واقعی جو شخص طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ( او ران لوگوں کا بھی اس مال فیء میں حق ہے ) جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم کوبخش دے او رہمارے ان بھائیوں کو ( بھی) جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ آنے دیجیے ، اے ہمارے رب !آپ بڑے شفیق ورحیم ہیں۔“ 

ان آیات میں الله تعالیٰ نے عہد رسالت کے تمام موجود اور آئندہ آنے والے مسلمانوں کو تین طبقوں میں تقسیم کرکے ہر طبقہ کا الگ الگ ذکر کیا ہے ، پہلا مہاجرین کا طبقہ ہے، جنہوں نے محض الله اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی کسی دنیوی غرض کے لیے ان کی ہجرت نہیں تھی، جیسا کہ خود باری تعالیٰ ان کی شان میں فرماتے ہیں ﴿اولئک ھم الصادقون﴾ یعنی یہ حضرات اپنے قول ایمان او رفعل ہجرت میں سچے ہیں ۔ دوسرا طبقہ حضرات انصار کا ہے، جن کی صفات بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ مہاجرین سے محبت رکھتے ہیں او ران پر حسد نہیں کرتے ہیں ، ان صفات کے ذکر کے بعد فرمایا ﴿فاولئک ھم المفلحون﴾ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، تیسرا طبقہ ان مؤمنین کا ہے جو مہاجرین وانصار کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اس بات کی بھی دعا کرتے ہیں کہ اے الله! ہمارے دلوں میں ان کی طرف سے کینہ وعداوت نہ ڈالیے، یقینا آپ مہربان اور رحمت کرنے والے ہیں ، لہٰذا اپنے فضل ورحمت سے ہماری دعا قبول کر لیجیے ، ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ فلاح پانے والے وہی لوگ ہیں جو حضرات مہاجرین سے محبت رکھتے ہیں اوران کی شان میں طعن وتشنیع نہیں کرتے، کیوں کہ طعن وتشنیع تقاضائے محبت کے خلاف ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ خلفائے اربعہ جو مہاجرین اولین میں یقینی طور پر شامل ہیں ان کی محبت فلاح کی ضامن او ران سے بغض وعناد خسران کا سبب ہے ، اسی طرح تیسری آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ حضرات صحابہ کے لیے دعا خیر کرتے ہیں اور ان سے بغض وعناد کو برا سمجھتے ہوئے اس سے محفوظ رہنے کی بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے ہیں، وہی زمرہٴ مؤمنین میں داخل ہیں، اس کے برعکس جو گروہ اس مقدس جماعت سے محبت کے بجائے عداوت رکھتا ہے او ران کے حق میں دعائے خیر کے بجائے لعن وطعن کی زبان دراز کرتا ہے وہ اہل اسلام کے زمرے سے خارج ہے، کیوں کہ ان آیات میں مستحقین غنیمت کے جن تین طبقوں کا الله تعالیٰ نے ذکر فرمایا یہ لعن طعن کرنے والے ان سے خارج ہیں۔

اس موقع پر بغرض اختصار ان پانچ آیات پر اکتفا کیا جارہا ہے، ورنہ قرآن مجید میں حضرات صحابہ کے فضائل ومزایا سے متعلق سینکڑوں آیات ہیں۔

الصحابة فی الحدیث
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام بالخصوص حضرات خلفائے ثلثہ ابوبکر، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی الله عنہم کے فضائل ومناقب اور مزایا وخصوصیات اس کثرت وشدت اور تواتر وتسلسل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں کہ ان سب کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے او رنہ اس موقع پر اس کی ضرورت ہے ، لہٰذا ان بے شمار احادیث میں سے چند کو یہاں نقل کیا جارہا ہے ، اس سلسلہ میں پہلے ان احادیث کو پیش کیا جائے گا جن سے پوری جماعت صحابہ کی منقبت وفضیلت ثابت ہوتی ہے، پھر خلفائے ثلثہ کے فضائل میں وارد احادیث ذکر کی جائیں گی۔

عن جابر قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان الله اختار اصحابی علی الثقلین سوی النبیین والمرسلین․ ( رواہ البزار بسند رجالہ موثقون)

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرات انبیاء ومرسلین کے علاوہ الله تعالیٰ نے میرے اصحاب کو تمام انسانوں وجنات پر فضلیت دی ہے۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جمیع حضرات صحابہ الله تعالیٰ کے منتخب وبرگزیدہ ہیں، نبیوں اور رسولوں کے بعد انسانوں او رجنات میں سے کوئی بھی ان کے مقام ومرتبہ کو نہیں پاسکتا۔

عن انس قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم اصحابی فی امتی کالملح فی الطعام لا یصلح الطعام الابالملح․ (مشکوة شریف)

”رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں میرے صحابہ کا مقام ایسا ہے جیسے کھانے میں نمک ، کہ کھانا بغیر نمک کے بہتر نہیں ہوتا۔“

اس ارشاد عالیہ کے ذریعہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے سامنے صحابہٴ کرام کی اہمیت ایک مثال کے ذریعہ سے واضح فرمائی ہے کہ جس طرح لذیذ سے لذیذ تر کھانا بے نمک کے پھیکا اور بے مزہ ہوتا ہے، بعینہ یہی حال امت کا ہے کہ اس کی صلاح وفلاح اور اس کا تمام شرف ومجد انہیں صحابہ کی مقدس جماعت کا مرہون منت ہے، اگر اس جماعت کو درمیان سے الگ کر دیا جائے تو امت کے سارے محاسن وفضائل بے حیثیت ہو جائیں گے۔

قال النبی صلی الله علیہ وسلم: خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم فلا ادری ذکر مرتین او ثلاثة․ (بخاری ومسلم وغیرہ)

”انسانوں میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان کا جواس سے متصل ہیں ، پھر ان کا جو اس سے متصل ہیں ، راوی حدیث کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا کہ متصل لوگوں کا ذکر دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ“

اگر نبی علیہ الصلوٰة والتسلیم نے ”ثم الذین یلونھم“ کو صرف دو مرتبہ ذکر کیا ہے تو دوسرا قرن ( زمانہ) صحابہ کا اور تیسرا تابعین کا ہے او راگر اس جملہ کو تین بار فرمایا ہے تو چوتھا دور تبع تابعین کا بھی اس میں شامل ہو گا، بہرحال اس ارشاد نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام سے متعین طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر زمانہ صحابہ کرام کا ہے ، اصابہ کے مقدمہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”وتواتر عنہ صلی الله علیہ وسلم خیر الناس قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم الخ“․

جس سے معلوم ہو گیا کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث متواتر ہے، جس سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے ، ان تینوں حدیثوں کے بعد وہ احادیث نقل کی جارہی ہیں جو خاص طور پر خلفائے ثلثہ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

”ابوبکر وعمر سیدا کھول اھل الجنة من الاولین والآخرین الا النبیین والمرسلین“․ ( رواہ احمد والترمذی)

”حضرت صدیق وفاروق نبیوں اور رسولوں کے علاوہ درمیانی عمر کے تمام اگلے پچھلے جنتیوں کے سردار ہیں۔“

اس حدیث پاک سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد صدیق اکبر وفاروق اعظم تمام لوگوں سے افضل ہیں ، یہی بات قرآن مجید اور دیگر احادیث نبویہ، آثار صحابہ وتابعین سے بھی ثابت ہے او راسی پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے، اسی بنا پر حضرت علی کرم الله وجہہ فرماتے تھے ”من فضلنی علی ابی بکر وعمر جلدتہ حد المفتری“ جو مجھے ابوبکر وعمر پر ترجیح او رفضیلت دے گا میں اس پر افترا پرداز کی حد ( سزا) جاری کروں گا۔ اسی معنی کی ایک اور روایت کتاب الآثار للامام ابی یوسف میں بھی ہے۔

ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”اقتدوا من بعدی ابی بکر وعمر فانھما حبل الله الممدود، ومن تمسک بھم فقد تمسک بالعروة الوثقی، لا انفصال لھا“․ ( رواہ الطبرانی)

”میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتدا کرو کیوں کہ یہ دونوں الله کی دراز شدہ رسی ہیں جس نے ان دونوں کو پکڑ لیا اس نے مضبوط حلقہ تھام لیا۔“

حبل الله سے مراد دین الہیٰ ہے ، چناں چہ قرآن مجید میں ﴿واعتصموا بحبل الله جمیعا﴾ میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے ، یعنی سب لوگ مل کر الله کے دین کو قوت او رمضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور ﴿العروة الوثقی﴾ سے بھی دین خدا وندی ہی مراد ہے چناں چہ قرآن کا ارشاد ربانی ہے ﴿فقد استمسک بالعروة الوثقی﴾ اس نے مضبوط حلقہ یعنی دین اسلام کو تھام لیا، اس تفصیل وتحقیق سے معلوم ہو گیا کہ حضرات شیخین  کا طریقہ معیار دین ہے او ران کے طریقے پر چلنا درحقیقت دین اسلام پر چلنا ہے۔

ایک موقع پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان الله جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ“․ (رواہ الترمذی واحمد)

”لاریب کہ الله تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان او ردل پر رکھ دیا ہے۔

بعض روایتوں میں ”جعل“ کے بجائے ” وضع“ کا لفظ ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ روایت حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے او رامام داؤد اور امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت ابو ذر غفاری سے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”کنا لا نبعد ان السکینة علی لسان عمر“ ہم صحابہ اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ عمر کی زبان لسان الغیب کی ترجمان ہے، چنا ں چہ 26 احکام شرعیہ کا آپ کے قول کے مطابق نازل ہونا اس حدیث کی صداقت پر خدائی شہادت ہے۔

لکل نبی رفیق ورفیقی فیھا عثمان․ ( رواہ الترمذی )
”ہر نبی کے لیے جنت میں ایک ساتھی ہے اور میرے جنت کے رفیق عثمان ہیں۔“

اس حدیث سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نہ صرف جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے، بلکہ ان کی بلندی درجات پر بھی یہ حدیث دلالت کر رہی ہے۔

امام احمد اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ غزوہٴ تبوک کے موقع پر جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے لشکر کی تیاری اور سامان جنگ کی فراہمی کا کام شروع فرمایا تو حضرت عثمان غنی ایک ہزار اشرفی لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور آپ کی گود میں ڈال دیا ، راویٴ حدیث بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ( فرط مسرت سے) ان اشرفیوں کو الٹ پلٹ رہے تھے اور زبان وحی پر یہ الفاظ جاری تھے ”ماضر عثمان ماعمل بعد الیوم مرتین“ عثمان آج کے بعد جو کام بھی کریں گے وہ ان کے لیے مضرت رساں نہیں ہو گا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس جملہ کو بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا۔

اس حدیث پاک میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے صدقہ کی قبولیت کی بشارت کے ساتھ ان مخالفین اور ناقدین کے خیالات کی تردید بھی فرماد ی گئی ہے، جو مفسدین کی افترا پر دازیوں سے متاثر ہو کر یا اپنی کج روی کے زیر اثر حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ تعالٰی عنہ ان تمام اتہامات سے پاک اور بری ہیں جو معاندین ان پر ناحق تھوپ رہے ہیں، لیکن بالفرض یہ باتیں اگر کسی حد تک ثابت بھی ہو جائیں تو آپ کی عظمت شان اور کثرت طاعت کی بنا پر کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔

الله اور رسول کے ان فرمودات میں صحابہٴ کرام کے ایمان واخلاص اور فضائل ومناقب کی جوتصویر پیش کی گئی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے ان قدسی صفات جماعت کے مقام ومرتبہ کا اندازہ لگائیے، ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء․

صحابہ کی تنقیص علمائے امت کی نظر میں
آیت کریمہ﴿محمد رسول الله والذین معہ﴾ الخ کی تفسیر کے ذیل میں معلوم ہو چکا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ﴿لیغیظ بھم الکفار﴾ کے پیش نظر فرمایا کہ حضرات صحابہ سے بغض رکھنے والے اس آیت کی زد میں ہیں ، یعنی کافر ہیں۔ اب ذیل میں چند او رعلمائے محققین کے اقوال ملاحظہ کیجیے۔

امام ابوزُرعہ رازی متوفی264ھ کا فیصلہ:
اذا رأیت الرجال ینتقص احداً من اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فاعلم انہ زندیق، لان الرسول صلی الله علیہ وسلم عندناحق، والقرآن حق، وانما ادی الینا ھذا القرآن والسنن اصحاب رسول الله وانما یریدون ان یجرحوا شھودنا لیبطلوا الکتاب والسنة، والجرح بھم اولی وھم زنادقة“․

”جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ صحابہٴ کرام میں سے کسی کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ یہ زندیق ہے، اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور قرآن وسنت کو ہم تک پہچانے والے یہی صحابہ ہیں ، تو یہ لوگ ہمارے شاہدوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ قرآن وسنت کو باطل ٹھہرا دیں۔ لہٰذا خود انہیں مجروح قرار دینا اولی ہے۔ (ایسا کرنے والے) زندیق ہیں“۔

اصطخری بیان کرتے ہیں کہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:”یا ابا الحسن اذا رأیت احدا یذکر اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم بسوء فاتھمہ علی الاسلام“․

”اے ابولحسن! جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ صحابہ کا ذکر برائی سے کرتا ہے تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔“

عمدة المفسرین محقق ابن کثیر لکھتے ہیں:”یاویل من ابغضھم او سبھم او سب بعضھم… فاین ھؤلاء من الایمان بالقرآن اذا سبوا من رضی الله عنھم؟!“

”عذاب الیم ہے ان لوگوں کے لیے جو حضرات صحابہ سے یا ان میں بعض سے بغض رکھے یا انہیں برا بھلا کہے ایسے لوگوں کا ایمان بالقرآن سے کیا واسطہ جوان حضرات کو برا کہتے ہیں جن سے الله نے راضی ہونے کا اعلان کر دیا۔،،

علامہ ابن تیمیہ اپنی مشہور تصنیف الصارم المسلول میں لکھتے ہیں:
”وقال القاضی ابو یعلی: الذی علیہ الفقھاء فی سب الصحابة ان کان مستحلا لذلک کفر،وان لم یکن مستحلا فسق“․

”قاضی ابو یعلی نے کہا ہے کہ اس پر تمام فقہاء متفق ہیں کہ جو شخص صحابہ کی برائی کو حلال وجائز سمجھتے ہوئے ان کی برائی کرے وہ کافر ہے او رجو حلال نہ سمجھتے ہوئے انہیں برا بھلا کہے وہ فاسق ہے“۔

علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:”ان من فضل علیا علی الثلاثة فمبتدع، وان انکر خلافة الصدیق او عمر رضی الله عنھما فھو کافر“․

”جو حضرت علی کرم الله وجہہ کو خلفائے ثلاثہ ( صدیق اکبر، فاروق اعظم او رعثمان غنی) پر فضیلت دے وہ بدعتی ہے او رجو شخص حضرت ابوبکریا حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے“۔

فتاوی عالم گیری میں ہے:”الرافضی اذ ا کان یسب الشیخین ویلعنھما، العیاذ بالله، فھو کافر، وان کان یفضل علیا کرم الله وجھہ علی ابی بکر رضی الله عنہ لا یکون کافرا الا انہ مبتدع“․

”رافضی جب شیخین کو برا بھلا اور لعن طعن کرتا ہو تو کافر ہے او راگر حضرت علی کرم الله وجہہ کو حضرت ابوبکر پر فضیلت دیتا ہے تو کافر نہیں ہو گا، ہاں! اس صورت میں وہ بدعتی قرار پائے گا“۔
http://saagartimes.blogspot.in/2016/10/blog-post_92.html?m=1
.......
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1307357295972907&id=194131587295489

No comments:

Post a Comment