Wednesday, 26 October 2016

حدِ زنا جاری کرنے کا موضوع قصہ

ایس اے ساگر
متعدد حوالوں سے ثابت ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی الله عنه حق پرست، انصاف پرور، اجراء حدود الٰہی میں عزیز و بے گانہ تھے نیز رعیت کیساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے شرعی برتاؤ کی بیشمار روشن اور درخشاں مثالیں ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ آپ کے فرزند ابو شحمہ کے متعلق ایک بے بنیاد و بے اصل واقعہ کے ذریعہ کوشش کی جاتی ہے کہ آپ اقربا پروری سے بے نیاز تھے۔ نہ صرف اہل علم بلکہ مورخین کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی الله عنه  بے نظیر انصاف پرور تھے. آپ رضی اللہ عنہ کی عدل گستری آپ رضی الله عنه کے دور خلافت کے طریق کار یہ سب ایسے صحیح اور معتبر تاریخی روایات سے ثابت اور مشہور ہیں کہ ان کے بعد اس قسم کے گھڑے ہوئے قصوں کے ذریعے ان کی انصاف پروری اور دینی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی مطلقاً ضرورت نہیں ہے. اس کے باوجود حضرت ابوشحمہ کے متعلق قصہ داستان گو واعظین، غیر محتاط صوفیاء اور غیر محقق واقعہ نگاروں کی رنگ آمیزیوں کا کیا کیجئے۔ اصل حقیقت کچھ او رہے جو ان کی رنگ آمیزیوں میں گم ہوکر رہ گئی او رحضرت ابوشحمہ کا پاک دامن غلط کاری کے مکروہ و معیوب دھبوں سے داغدار ہوگیا بعض مصنفین نے ایک ایسے واقعہ کو جس کا تعلق برگزیدہ مقدس ہستیوں سے ہے، تاریخ اور اصول روایت کے مطابق چھان بین کئے بغیر شائع کردیا۔ اس واقعہ کے متعلق ماہرین فن اور معتبر مستند مؤرخین کی تصریحات درج کی جاتی ہیں تاکہ اصل واقعہ معلوم ہوجائے اور یہ حقیقت ذہن نشین ہوجائے کہ ابوشحمہ کا دامن معصیت کے داغ سے پاک و صاف ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنه کا اپنے بیٹے پر حدِ زنا جاری کرنے کا قصہ موضوع ہے:
سوالـ: کیا یہ واقعہ صحیح ہے کہ حضرت عمر صنے اپنے بیٹے ابو شحمہ پر حدِ زنا جاری کی اور آخری کوڑے پر اس کا انتقال ہوگیا جیسا کہ تنقیح القول فی شرح لباب الحدیث للنووی ؒ میں مذکور ہے؟
جواب: یہ قصہ محدثین کی نظر میں صحیح نہیں ،بلکہ موضوع ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے الاصابۃ میں اس روایت کے بارے میں واہٍ فرمایا ہیں،علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سند میں عبد العزیز بن الحجاج اور محمد بن علی بن عمر المذکر مجہول اور متروک ہیں ۔
نیز علامہ سیوطی ؒ نے بھی اللآلی المصنوعۃ میں اس کو موضوع قرار دیا ہے۔ملاحظہ ہو:
اللآلی المصنوعۃ میں ہے:
موضوع:فیہ مجاھیل قال الدار قطنی: حدیث مجاھد عن ابن عباسصفی حدیث أبی شحمۃ لیس بصحیح وقد روی من طریق عبد القدوس بن الحجاج عن صفوان عن عمر ص وعبد القدوس یضع وصفوان بینہ وبین عمرصرجال۔(اللآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ ۲/۱۶۷،کتاب الأحکام والحدود، حدیث شیرویہ بن شھریار) 
لسان المیزان میں ہے:
عبد العزیزبن الحجاج عن صفوان منسوب بقصۃ أبی شحمۃ ولد عمرفی جلد عمرایاہ فی الزنا وعنہ الفضل بن العباس ذکرہ الجوزقانی فی کتاب الأباطیل۔(لسان المیزان۴/۲۸/۷۴)
المغنی میں ہے:
محمد بن علی بن عمرالمذکرالنیسابوری شیخ الحاکم لاثقۃ ولامأمون جاء من طریقہ قضیۃ أبی شحمۃ ولد عمروجلدہ بألفاظ رکیکۃ الوضع۔( المغنی فی الضعفاء ۲/۶۱۶/۵۳۸۳) 
الاصابۃ میں ہے:
أبوشحمۃ بن عمربن الخطابؓ جاء فی خبرواھٍ ان أباہ جلدہ فی الزنا فمات ذکرہ الجوزقانی فان ثبت فھومن أھل ہذا القسم۔(الاصابۃ ۷/۱۷۸/۱۰۱۱۸)
میزان الاعتدال میں ہے:
محمد بن علی بن عمرالمذکر:قال المزی:من المعروفین بسرقۃالحدیث،وقال الحاکم :أتی عن شیوخ أبیہ وأقرانہ بالمناکیر۔(میزان الاعتدال ۶/۲۶۳/۷۹۷۱)
العلل المتناھیۃ میں ہے:
المذکرعن أحمد بن الخلیل وکان ھذا المذکرکذابا معروفا بسرقۃ الحدیث۔(العلل المتناھیۃ۱/۱۵۴) 
البتہ صحیح قصہ نبیذ پینے کا ہے جس کے بعد انہوں نے خود اپنے آپ کو مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص ؓکے سامنے حد جاری کرنے کے لئے پیش کیا،انہوں نے گھر کے اندر حد جاری کی ،حضرت عمر ؓنے ان کو تنبیہ فرمائی اور مدینہ منورہ لوٹنے کے بعد ان پر دو بارہ حد جاری کی پھر ایک مہینے کے بعد بیمار ہوئے اور انتقال ہوا ۔ملاحظہ ہوا:
فتح الباری میں
اللآلی المصنوعۃ میں ہے:
والذی ورد فی ھذا ما ذکرہ الزبیر بن بکاروابن سعید فی الطبقات وغیرھما أن عبد الرحمن الأوسط من أولاد عمریکنی أبا شحمۃ کان بمصرغازیا فشرب لیلۃ نبیذا فخرج الی السکۃ فجاء الی عمروبن العاص فقال:أقم علی الحد فامتنع فقال لہ: انی أخبرأبی اذا قدمت علیہ فضربہ الحد فی دارہ ولم یخرجہ فکتب الی عمریکرمہ ویقول الافعلت بہ ما تفعل بجمیع المسلمین فلما قدم علی عمرضربہ واتفق أنہ مرض فمات۔(اللآلی المصنوعۃ ۲/۱۶۷،کتاب الأحکام والحدود، حدیث شیرویہ بن شھریار) 
مزید ملاحظہ ہو:استیعاب۲/۸۴۲ ،تھذیب الأسماء۱/۲۸۱،السنن الکبری للبیھقی ۸/۳۱۲،تاریخ بغداد ۵/۴۳۳۔
ان تمام کتب کی عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر ؓنے تادیباً کوڑے لگائے پھر ایک مہینہ تک زندہ رہے اور اس کے بعد بیمار ہوئے اور ان کا انتقال ہوا، لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ اخیر ی کوڑے پر انتقال ہوا یہ قصہ موضوعی ہے۔
وﷲ اعلم
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے بیٹے کو زنا پر سزا دینا اور اس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوجانا․․․ کیا یہ درست ہے؟ مفتی صاحب کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو زنا کرنے کے جرم میں کوڑوں کی سزا دی تھی اور اس وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا تھا؟ پڑھا ہے کہ یہ بات صحیح ہے، یہ آج کل انٹرنیٹ پر کافی مشہور ہورہا ہے کہ یہ بات سچ ہے؟
Jun 27,2012
Answer: 39923
فتوی: 1179-856/D=8/1433
حضرت عمر کا اپنے بیٹے کو زنا پر سزا دینے کا واقعہ جو مشہور کیا گیا ہے، غلط ہے، محدثین نے اس روایت کو موضوع اور باطل قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے اللآلي المصنوع في الأحادیث الموضوع، کتاب أحکام الحدد کامطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

https://www.youtube.com/watch?v=5_Kk8Anneg8

No comments:

Post a Comment