ایس اے ساگر
شہید الاسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے نزدیک نماز تو چاہے فرض ہو، چاہے سنت و نفل، سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہوتی ہیں، یہ خیال غلط ہے کہ سنتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں۔ فرض نماز میں جو کمی (یعنی خشوع و خضوع میں جو کمی) رہ جاتی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے سنتیں اور نفل ہیں۔ جس چیز کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر پابندی فرمائی ہو، اور جس کے ترک کو لائقِ ملامت قرار دیا گیا ہو، وہ سنتِ موٴکدہ ہے، اور جس چیز کی ترغیب دی گئی ہو، مگر اس کے چھوڑنے پر ملامت نہ کی گئی ہو، وہ سنتِ غیرموٴکدہ ہے، اور اسی کو مستحب اور مندوب بھی کہا جاتا ہے۔ خطبات فقیر میں شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم رقمطراز ہیں کہ
فتاوی تاتار خانیہ میں لکھا ہے جو شخص فجر کی سنتیں گھر پڑھ کر مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالی اسے تین انعام عطاء فرماتا ہے.
اس کے گھر کے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں. ( آج دیکھو تو شاید نوے فیصد لوگ کہیں گے کہ
گھر کی مصیبتیں ہیں ،
اولاد کی نافرمانی ،
بیوی کی پریشانی ،
گھر کےتقاضے پورے نہیں ہوتے ،
میاں بیوی کے درمیان نہیں بنتی ،
تو فجر کی سنتیں گھر پڑھنے کا
پہلا انعام یہ ہوا کہ اللہ تعالی اس کو ان پریشانیوں سے نجات عطاء فرما دیتا ھے.
اللہ تعالی
دوسرا انعام یہ دیتا ہے کہ اس بندے کے رزق میں کشادگی پیدا کر دیتا ھے.
(یعنی ملازمت اور کاروبار کے مسئلے ختم ، قرضوں کے مسئلے ختم. وغیرہ وغیرہ )
تیسرا انعام جو سب سے بڑا ھے کہ اللہ تعالی موت کے وقت ایمان کی سلامتی کے ساتھ دنیا سے جانے کی توفیق عطاء فرماتا ہے.
سبحان اللہ!
نوٹ، فجر کی سنتیں گھر پڑھنا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل سنت ہے ، لہذا سنتیں پڑھنے کا ثواب اور انعام تو الگ ملے گا ،
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر کے گھر پڑھنے کا اجر الگ. اور سنت سے محبت کرنے والے کے بارے میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے میری سنت سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا.
سنتیں گھر پر پڑھنا افضل ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی حدیث شریف میں ہے۔۔
ملاحظہ ہوں
عام حالات میں بھی یہ سنتیں گھر ہی سے پڑھ کر مسجد میں جانا افضل ہے؛ کیوں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہی تھا۔
عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ علیہ وسلم فی حدیث … فصلوا أیہا الناس في بیوتکم، فإن أفضل الصلاۃ صلاۃ المرء في بیتہ، إلا المکتوبۃ۔ (صحیح البخاري کتاب الأذان / باب صلاۃ اللیل رقم: ۷۳۱، صحیح مسلم صلاۃ المسافر وقصرہا / باب استحباب صلاۃ النافلۃ في بیتہ رقم: ۷۸۱)
وأخرج أبو داؤد في سننہ بلفظ: صلاۃ المرء في بیتہ أفضل من صلاتہ في مسجدی ہٰذا إلا المکتوبۃ۔ (سنن أبي داؤد الصلاۃ/ باب صلاۃ الرجل التطوع في بیتہ رقم: ۱۰۴۴، وسنن الترمذي رقم: ۴۵۰)
والأفضل في النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا لحدیث الصحیحین: علیکم بالصلاۃ في بیوتکم، فإن خیر صلاۃ المرء في بیتہ إلا المکتوبۃ۔ (شامي۲؍۴۶۴ زکریا )
لاتفاق کلمۃ المشایخ علی أن الأفضل فی السنن حتی سنۃ المغرب المنزل، أي فلا یکرہ الفصل بمسافۃ الطریق۔ (شامي ۲؍۲۴۷کراچی) فقط واﷲ تعالی اعلم
.............
عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا قضى أحدكم الصلاة في مسجده فليجعل لبيته نصيباً من صلاته فإن الله جاعل في بيته من صلاته خيراً " .
رواه مسلم ( 778 ) .
قال المناوي :
" إذا قضى أحدكم الصلاة في مسجده " : يعني : أدى الفرض في محل الجماعة ، وخص المسجد لأن الغالب إقامتها فيه ، " فليجعل لبيته " : أي : محل سكنه ، " نصيبا " : أي : قِسما ، " من صلاته " : أي : فليجعل الفرض في المسجد والنفل في بيته لتعود بركته على البيت وأهله كما قال " فإن الله تعالى جاعل في بيته من صلاته " : أي : من أجلها وبسببها ، " خيراً " : أي كثيراً عظيماً ، لعمارة البيت بذكر الله وطاعته ، وحضور الملائكة ، واستبشارهم ، وما يحصل لأهله من ثواب وبركة .
وفيه : أن النفل في البيت أفضل منه في المسجد ولو بالمسجد الحرام …
" فيض القدير " ( 1 / 418 ) .
والأدلة على ذلك أكثر من هذا ، فصلاته صلى الله عليه وسلم الرواتب ، وقيام الليل ، والضحى كل ذلك كان في بيته صلى الله عليه وسلم ، وقد تركنا ذلك اختصاراً وفيما سبق كفاية ، وقد ذكر بعض العلماء لذلك حِكَماً :
قال ابن قدامة :
والتطوع في البيت أفضل … ولأن الصلاة في البيت أقرب إلى الإخلاص ، وأبعد من الرياء ، وهو من عمل السر ، وفعله في المسجد علانية والسر أفضل .
" المغني " ( 1 / 442 ) .
وفيه أيضاً : تذكير الناسي ، وتعليم الجاهل من أهل البيت أو من يراه .
مراقی الفلاح:
مراقی الفلاح جو فقہ کی مشہورومعروف کتاب ہے اس میں ایک حدیث ہے.
قال النبی ﷺ من صلی رکعتی الفجر ای سنة فی بیت یوسع له فی رزقه ویقل المنازع بینه وبین اهله ویختم له بالایمان.او کما قال النبی ﷺ
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکه
جو شخص فجر کی دو رکعت سنت اپنے گھر میں پڑهے
تواسکے رزق میں وسعت کردی جائےگی
اوراسکے اور اسکے گھر والوں میں منازعات ( جھگڑے ) کم هوجائیں گے
اور اس کا خاتمه ایمان پر هوگا....
اس حديث پر علامہ سخاوی فرماتے ہیں لا اصل لہ
No comments:
Post a Comment