ایس اے ساگر
حضرت عیسی علیہ السلام کے ضمن میں شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں "جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچواں سوال یہ کیا کہ پھر ایسی نشانیاں ہی بتادیجئے جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ اب قیامت قریب ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں قیامت کی دو نشانیاں بتائیں۔
اول یہ کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے․․․․․۔ اس کی تشریح اہل علم نے کئی طرح کی ہے، سب سے بہتر توجیہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں اولاد کی نافرمانی کی طرف اشارہ ہے، مطلب یہ کہ قربِ قیامت میں اولاد اپنے والدین سے اس قدر برگشتہ ہوجائے گی کہ لڑکیاں جن کی فطرت ہی والدین کی اطاعت، خصوصاً والدہ سے محبت اور پیار ہے، وہ بھی ماں باپ کی بات اس طرح ٹھکرانے لگیں گی جس طرح ایک آقا اپنے زرخرید غلام لونڈی کی بات کو لائق توجہ نہیں سمجھتا، گویا گھر میں ماں باپ کی حیثیت غلام لونڈی کی ہوکر رہ جائے گی۔
دوسری نشانی یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگ جن کی کل تک معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی، جو ننگے پاوٴں اور برہنہ جسم جنگل میں بکریاں چرایا کرتے تھے وہ بڑی بڑی بلڈنگوں میں فخر کیا کریں گے۔ یعنی رذیل لوگ معزز ہوجائیں گے۔ ان دو نشانیوں کے علاوہ قربِ قیامت کی اور بہت سی علامتیں حدیثوں میں بیان کی گئی ہیں۔ مگر یہ سب قیامت کی “چھوٹی نشانیاں” ہیں، اور قیامت کی بڑی بڑی نشانیاں جن کے ظاہر ہونے کے بعد قیامت کے آنے میں زیادہ دیر نہیں ہوگی، یہ ہیں:
۱:…حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظاہر ہونا اور بیت اللہ شریف کے سامنے رکن اور مقام کے درمیان لوگوں کا ان کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرنا۔
۲:…ان کے زمانے میں کانے دجال کا نکلنا اور چالیس دن تک زمین میں فساد مچانا۔
۳:…اس کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا۔
۴:…یاجوج ماجوج کا نکلنا۔
۵:…دابة الارض کا صفا پہاڑی سے نکلنا۔
۶:…سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور یہ قیامت کی سب سے بڑی نشانی ہوگی، جس سے ہر شخص کو نظر آئے گا کہ اب زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوا چاہتا ہے اور اب اس نظام کے توڑ دینے اور قیامت کے برپا ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ اس نشانی کو دیکھ کر لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہوجائے گا مگر یہ اس عالم کی نزع کا وقت ہوگا، جس طرح نزع کی حالت میں توبہ قبول نہیں ہوتی، اسی طرح جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اس قسم کی کچھ بڑی بڑی نشانیاں اور بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قیامت ایک بہت ہی خوفناک چیز ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے لئے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور قیامت کے دن کی رسوائیوں اور ہولناکیوں سے اپنی پناہ میں رکھیں۔"
حضرت عیسی علیہ السلام کو بنوت کتنی عمر میں ملی؟
حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت کتنی عمر میں ملی؟ اور رفع سماوی سے قبل اوربعد کے زمانہ کو ملا کرآپ کی مجموعی عمرکتنی ہوگی؟....
واضح رہے کہ روایات میں تیس سے پینتیس سال کی عمر کے درمیان رفع سماوی کا تذکرہ ملتاہے کماذکرہ الشیخ المفتی شفیع العثمانی فی معارف القرآن
تو کیا اس وقت آپ نبی نہیں تھے، کیوں کہ اہل سنت والجماعت کامشہور قول یہی ہے کہ ہر نبی کو نبوت چالیس کی عمر میں ملتی ہے، پھر بقول علامہ سیوطی
«في تفسيرالجلالين»
رفع سماوی سے قبل اور بعد دونوں کے زمانہ کو ملاکر حضرت عیسی علیہ السلام کی کل عمر چالیس سال ہوگی، تو جب عمر ہی صرف چالیس کی ہوئی تو نبوت کا فریضہ باضابطہ کب انجام دیا؟......
ازراہ کرم اس حوالہ سے صحیح تحقیق باحوالہ مدلل ارسال فرمائیں.
تو کیا اس وقت آپ نبی نہیں تھے، کیوں کہ اہل سنت والجماعت کامشہور قول یہی ہے کہ ہر نبی کو نبوت چالیس کی عمر میں ملتی ہے، پھر بقول علامہ سیوطی
«في تفسيرالجلالين»
رفع سماوی سے قبل اور بعد دونوں کے زمانہ کو ملاکر حضرت عیسی علیہ السلام کی کل عمر چالیس سال ہوگی، تو جب عمر ہی صرف چالیس کی ہوئی تو نبوت کا فریضہ باضابطہ کب انجام دیا؟......
ازراہ کرم اس حوالہ سے صحیح تحقیق باحوالہ مدلل ارسال فرمائیں.
چالیس سال پر نبوت ملنا ، یہ کوئی قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ھے ، ھاں یہ ایک مشھور قول ھے ، باقی بعض انبیاء علیھم السلام کو چالیس سال سے پہلے ھی نبوت مل گئی تھی :
جیسے حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یحیی علیہ السلام حضرت عیسٰی علیہ السلام ۔
جیسے حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یحیی علیہ السلام حضرت عیسٰی علیہ السلام ۔
قال انی عبد اللہ آتانی الکتاب وجعلنی نبیا ۔
سورہ مریم
سورہ مریم
قال جل جلاله : { إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِين َ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ آل عمران / 45 – 46 ] .
۞ قال جل شأنه : { إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ } [ المائدة / 110 ] .
أشارت الآيتان إلى نزوله ، وذلك بذكرهما أنه يكلم الناس بالدعوة إلى الله ، وهو كهل ، وقد رفع إلى السماء وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة على الصحيح ، والكهولة فوق هذه السن .
الكهل : من جاوز الثلاثين وخطه الشيب . وقيل : من جاوز الأربعين .
الكهل : من جاوز الثلاثين وخطه الشيب . وقيل : من جاوز الأربعين .
҉ روى الطبرى فى تفسيره عن أبى زيد قال : كلمهم عيسى عليه السلام فى المهد ، وسيكلمهم إذا قتل الدجال ، وهو يومئذ كهل .
فالظاهر أنه رفع وهو ابن ثلاثين أو ابن ثلاث وثلاثين على الراجح .
وهو فى السماء الثانية على الراجح والصحيح أيضًا كما فى حادثة الإسراء والمعراج وغيرها من السنة ، والله أعلم .
وهو فى السماء الثانية على الراجح والصحيح أيضًا كما فى حادثة الإسراء والمعراج وغيرها من السنة ، والله أعلم .
وستجد أيضًا تحديد وتصريح سن رفعه فى سيرته فىكتاب قصص الأنبياء لابن كثير وغيره ممن سردوا الأحاديث والآثار فى هذا ، والله أعلم .
....
وقال الحسن البصري: كان عمر عيسى عليه السلام يوم رفع أربعا وثلاثين سنة، وفي الحديث: « إن أهل الجنة يدخلونها جردا مردا مكحلين أبناء ثلاث وثلاثين ».
....
وقال الحسن البصري: كان عمر عيسى عليه السلام يوم رفع أربعا وثلاثين سنة، وفي الحديث: « إن أهل الجنة يدخلونها جردا مردا مكحلين أبناء ثلاث وثلاثين ».
وفي الحديث الآخر على ميلاد عيسى وحسن يوسف. وكذا قال حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب أنه قال: رفع عيسى وهو ابن ثلاث وثلاثين سنة.
فأما الحديث الذي رواه الحاكم في (مستدركه) ويعقوب بن سفيان الفسوي في (تاريخه) عن سعيد بن أبي مريم، عن نافع بن يزيد، عن عمارة بن غزية، عن محمد بن عبد الله بن عمرو بن عثمان أن أمه فاطمة بنت الحسين حدثته: أن عائشة كانت تقول:
أخبرتني فاطمة أن رسول الله أخبرها: أنه لم يكن نبي كان بعده نبي إلا عاش الذي بعده نصف عمر الذي كان قبله، وأنه أخبرني أن عيسى بن مريم عاش عشرين ومائة سنة، فلا أراني إلا ذاهب على رأس ستين. هذا لفظ الفسوي فهو حديث غريب.
قال الحافظ ابن عساكر: والصحيح أن عيسى لم يبلغ هذا العمر، وإنما أراد به مدة مقامه في أمته، كما روى سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن يحيى بن جعدة قال: قالت فاطمة: قال لي رسول الله : إن عيسى بن مريم مكث في بني إسرائيل أربعين سنة. وهذا منقطع.
وقال جرير، والثوري، عن الأعمش: إن إبراهيم مكث عيسى في قومه أربعين عاما. ويروى عن أمير المؤمنين علي: أن عيسى عليه السلام رفع ليلة الثاني والعشرين من رمضان، وتلك الليلة في مثلها توفي علي بعد طعنة بخمسة أيام.
البدایہ والنھایہ
....
چالیس سال میں نبوت سے سرفراز ہونے کی بات کلی نہیں؛ بلکہ اکثری ہے، سیدنا حضرت عیسیٰ ویحییٰ علیہما السلام کے متعلق قرآنِ کریم میں صراحت ہے کہ انہیں بچپن میں نبوت سے سرفراز کردیا گیا تھا، حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:
{ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا}
البدایہ والنھایہ
....
چالیس سال میں نبوت سے سرفراز ہونے کی بات کلی نہیں؛ بلکہ اکثری ہے، سیدنا حضرت عیسیٰ ویحییٰ علیہما السلام کے متعلق قرآنِ کریم میں صراحت ہے کہ انہیں بچپن میں نبوت سے سرفراز کردیا گیا تھا، حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:
{ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا}
[ مریم: ۱۲]
اور حضرت عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدائش کے بعد جب پہلا کلام کیا اس میں یہ بھی فریاما: {وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا}
لہٰذا ان دونوں حضرات کی نبوت پر کوئی اشکال نہ ہونا چاہئے۔
وآتیناہ الحکم صبیا، إعلم أن في الحکم أقوالا: الأول: أنہ الحکمۃ۔ والثانی: أنہ العقل۔ والثالث: أنہ النبوۃ۔ فإن اللّٰہ تعالی أحکم عقلہ في صباہ وأوحی إلیہ، وذٰلک لأن اللّٰہ تعالیٰ بعث یحیی وعیسی علیہما السلام وہما صبیان، لا کما بعث موسی ومحمدا علیہما السلام، وقد بلغا الأشد۔ (تفسیر رازي بیروت ۱۱؍۱۹۲، ۲۱۵)
وقیل: النبوۃ وعلیہ کثیر۔ قالوا: أوتیہا وہو ابن سبع سنین، ولم ینبأ أکثر الأنبیاء علیہم السلام قبل الأربعین۔ (تفسیر روح المعاني ۹؍ ۱۰۵، معارف القرآن ۶؍ ۲۴، جلالین شریف مع الہامش ۲۵۴) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
العبد محمد عفی عنہ
لہٰذا ان دونوں حضرات کی نبوت پر کوئی اشکال نہ ہونا چاہئے۔
وآتیناہ الحکم صبیا، إعلم أن في الحکم أقوالا: الأول: أنہ الحکمۃ۔ والثانی: أنہ العقل۔ والثالث: أنہ النبوۃ۔ فإن اللّٰہ تعالی أحکم عقلہ في صباہ وأوحی إلیہ، وذٰلک لأن اللّٰہ تعالیٰ بعث یحیی وعیسی علیہما السلام وہما صبیان، لا کما بعث موسی ومحمدا علیہما السلام، وقد بلغا الأشد۔ (تفسیر رازي بیروت ۱۱؍۱۹۲، ۲۱۵)
وقیل: النبوۃ وعلیہ کثیر۔ قالوا: أوتیہا وہو ابن سبع سنین، ولم ینبأ أکثر الأنبیاء علیہم السلام قبل الأربعین۔ (تفسیر روح المعاني ۹؍ ۱۰۵، معارف القرآن ۶؍ ۲۴، جلالین شریف مع الہامش ۲۵۴) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
العبد محمد عفی عنہ
مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں "ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دجال کو قتل کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہے:
“پھر عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس جائیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے فتنے سے محفوظ رکھا ہوگا اور گرد و غبار سے ان کے چہرے صاف کریں گے اور جنت میں ان کے جو درجات ہیں وہ ان کو بتائیں گے۔ ابھی وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو خروج کی اجازت دی ہے جن کے مقابلے کی کسی کو طاقت نہیں، پس آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیے۔
اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر بلندی سے تیزی سے پھسلتے ہوئے اتریں گے، پس ان کے دستے بحیرہ طبریہ پر گزریں گے تو اس کا سارا پانی صاف کردیں گے اور ان کے پچھلے لوگ آئیں گے تو کہیں گے کہ کسی زمانے میں اس میں پانی ہوتا تھا۔ اور وہ چلیں گے یہاں تک کہ جب جبل خمر تک جو بیت المقدس کا پہاڑ ہے پہنچیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو ہم قتل کرچکے اب آسمان والوں کو قتل کریں۔ پس وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے تیر خون سے رنگے ہوئے واپس لوٹادے گا۔
اور اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور پر محصور ہوں گے اور اس محاصرہ کی وجہ سے ان کو ایسی تنگی پیش آئے گی کہ ان کے لئے گائے کا سر تمہارے آج کے سو درہم سے بہتر ہوگا۔ پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں کیڑا پیدا کردے گا، جس سے وہ ایک آن میں ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور سے زمین پر اتریں گے تو ایک بالشت زمین بھی خالی نہیں ملے گی جو ان کی لاشوں اور بدبو سے بھری ہوئی نہ ہو، پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ سے دعا کریں گے، تب اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے مثل پرندے بھیجے گا، جو ان کی لاشوں کو اٹھاکر جہاں اللہ کو منظور ہوگا پھینک دیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ اس سے کوئی خیمہ اور کوئی مکان چھپا نہیں رہے گا، پس وہ بارش زمین کو دھوکر شیشے کی طرح صاف کردے گی (آگے مزید قربِ قیامت کے حالات مذکور ہیں)۔”
(صحیح مسلم، مسند احمد، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، کنز العمال)
۲:…ترمذی کی حدیث میں ہے کہ وہ پرندے یاجوج ماجوج کی لاشوں کو نہبل میں لے جاکر پھینکیں گے اور مسلمان ان کے تیر کمان اور ترکشوں کو سات برس بطور ایندھن استعمال کریں گے۔ (مشکوٰة ص:۴۷۴)"
....
ربانی بکڈپو کی معارف القرآن جلد 6 صفحہ 28 کی عبارت عموم کو بتاتی ہے کہ کسی نبی کو چالیس سال سے پہلے نبوت نھیں دی جاتی ...
ربانی بکڈپو کی معارف القرآن جلد 6 صفحہ 28 کی عبارت عموم کو بتاتی ہے کہ کسی نبی کو چالیس سال سے پہلے نبوت نھیں دی جاتی ...
No comments:
Post a Comment