Friday, 28 October 2016

مسئلہ حلالہ کا

حلالہ کا مسئلہ بڑا عجیب مسئلہ ہے.....
اس مسئلے پر اغیار تو اغیار، اپنوں کے طعنے بھی سننے میں آتے ہیں....اس کی وجہ کج فہمی، کم علمی اور کور مغزی کے سوا کچھ نہیں.....اس میں کوئی شک نہیں "حلالہ" کی بعض شکلیں حرام ہیں، مگر ایسا بھی نہیں کہ ساری شکلیں حرام ہوں....اس سلسلے میں تفصیل آگے آرہی ہے.....سب سے پہلے تو حلالہ کی حقیقت سمجھئے:
اگر مرد اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے یا متفرق اوقات میں تین طلاقیں دے، تو ایسی صورت میں یہ عورت اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے....دونوں کا سیدھا سادہ نکاح اب ممکن نہیں ....
نکاح کا بس ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے ....یہ راستہ بڑا پیچ دار، صبر آزما، غیرت انگیز اور تکلیف دہ ہے....وہ یہ کہ یہ عورت اپنی عدت گذار کر کسی مرد سے شادی کر لے اور وہ مرد اس سے جسمانی تعلق قائم کرنے کے بعد طلاق دے دے، یا اسے موت آجائے، تو عدت گذار کر اب یہ عورت اپنے سابق شوہر کے لئے براے نکاح  "حلال " ہو جاتی ہے.....یہاں یہ بھی خیال رکھئے کہ "حلالہ " کے سلسلے میں ایک حدیث بڑی سخت قسم کی ہے، اسی کے پیشِ نظر لوگ "حلالہ " کے عمل کو گناہِ عظیم باور کرتے ہیں.....وہ حدیث یہ ہے:
عن علی قال: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن المحلل والمحلل لہ .....
یہ حدیث ترمذی میں ہے اور نمبر ہے ۱۱۰۱ .....
اسی قسم کی حدیث حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ .....
یہ حدیث بھی ترمذی میں ہے اور نمبر ۱۱۰۲ ہے.....ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ،
'حلالہ کرنے والے مرد' اور 'جس کے لئے عورت کو حلال کیا جائے' دونوں پر رسول اللہ صلی اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے.....
اس حدیث سے بعض علما نے یہ سمجھا ہے کہ 'حلالہ' کا عمل حرام ہے اور اس نیت سے جو نکاح ہوتا ہے، وہ درست ہی نہیں ہوتا، نتیجتاً عورت اپنے سابق شوہر کے لئے حلال نہیں ہوپاتی....
احناف کے یہاں حلالہ کی نیت سے جو بھی نکاح ہو، اس سے عورت حلال ہوجاتی ہے، لیکن حلال ہونے کے لئے نئے شوہر سے جسمانی تعلق (جماع) شرط ہے....اس کے بغیر عورت حلال نہیں ہوگی.....یہاں تفریح طبع کے لئے ایک لطیفہ سنانا دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا.... ایک مرد نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ....پھر پریشان ہوا ...اپنے کسی جان کار دوست سے مسئلہ معلوم کیا تو دوست نے کہا:
حلالہ کروانا پڑے گا....اس کے علاوہ کوئی شکل نہیں....
تو وہ کہتا ہے کہ:
کوئی بات نہیں، بکرا آٹھ دس ہزار سے زیادہ کا تھوڑی آئے گا!! میں تیار ہوں.....
دوست کو ہنسی چھوٹ گئی ....پھر اسے حقیقت بتائی گئی تو کانپ گیا......
اب سنئے، حلالہ کی چار شکلیں ہیں: 
پہلی شکل:
کوئی شخص مطلقہ مغلظہ (وہ عورت، جسے تین طلاقیں پڑ چکی ہوں) کو، یا اس کے شوہر کو، یا دونوں کو پریشان دیکھ کر ذہن میں پلان بنائے، جس سے نہ پہلا شوہر واقف ہو، نہ عورت....اور وہ اس عورت سے نکاح کرے، پھر جماع کرنے کے بعد طلاق دے دے تاکہ وہ عدت کے بعد پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے .....یہ صورت نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ بعض اکابر سے ایسا کرنا ثابت ہے
دوسری شکل:
کسی عورت نے خالی الذہن ہوکر مطلقہ مغلظہ سے نکاح کیا....اتفاق سے میاں بیوی میں نباہ نہ ہوسکا....مرد نے صحبت کرنے کے بعد طلاق دے دی، یا اس کا انتقال ہوگیا، تو عورت عدت کے بعد پہلے شوہر کے لئے حلال ہے اور اس صورت میں بھی کوئی قباحت نہیں ......ان دونوں صورتوں میں کوئی بھی لعنت کا مستحق نہیں ہوگا، نہ محلل اور نہ محلل لہ......
تیسری شکل:
زیر زمین اسکیم تیار کی گئی، جس کے مطابق صحبت کر کے طلاق دے دی، تاکہ وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے ...حدیث میں اس صورت کا ذکر ہے ....نبی کریم علیہ السلام نے دونوں شوہروں پر لعنت بھیجی ہے.....ایک حدیث میں دوسرے شوہر کو "مستعار بکرا " کہا گیا ہے......یہ صورت نہایت مکروہ اور گناہ کبیرہ ہے.....لیکن حرام ہونے کے باوجود یہ عورت اپنے سابق شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی....
چاروں ائمہ یہی کہتے ہیں.....
غیرمقلدین کے نزدیک اس صورت میں عورت حلال نہیں ہو سکتی.....
چوتھی شکل:
تحلیل کی شرط کے ساتھ ایجاب و قبول کیا جائے، مثلاً:
یہ کہا جائے کہ یہ عورت تحلیل کے لئے تمہارے نکاح میں دی جاتی ہے، یا یہ عورت تمھارے نکاح میں اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ صحبت کرکے تم اس کو طلاق دے دو .....مرد نے قبول کیا اور اس طرح شادی کر کے طلاق دے دی......اس صورت میں اختلاف ہے کہ عورت حلال ہوگی یا نہیں؟ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شرط باطل ہے اور نکاح ہمیشہ کے لئے ہوگیا، لہذا طلاق کے بعد عورت حلال ہوجائے....البتہ یہ عمل گناہِ کبیرہ ہے، ازروے حدیث دونوں شوہر، عورت پر اور شرکائے مجلس لعنت کے مستحق ہوں گے......
دوسرے اماموں کے نزدیک اس صورت میں چوں کہ نکاح ہی درست نہیں ہوا، اس لئے عورت حلال بھی نہیں ہوگی......
( یہ چاروں شکلیں حضرت الاستاذ مفتی سعید پالن پوری مدظلہ کی کتاب: تحفۃ الالمعی /ج ۳، ص ۵۴۷.۵۴۸  سے ماخوذ ہیں)
اس پوری تقریر سے یہ بات سامنے آئی کہ
'لعنت والی حدیث' کا تعلق صرف آخری دو شکلوں سے ہے اور آج کل انہیں دو شکلوں میں سے ایک کو اختیار کیا جاتا ہے.....یہ دونوں شکلیں حرام اور ناجائز ہیں، مگر ان کے باوجود عورت حلالہ ہوجائے گی......ملک میں جتنے بھی 'حلالہ سینٹر' قائم ہیں، سب کا تعلق انہی آخری دو شکلوں سے ہے.....میں نے ممبئی کے بھنڈی بازار میں واقع وزیربلڈنگ میں حلالہ سینٹر دیکھا ہے ....اس سلسلے کا یہ واقعہ بھی پڑھے جانے کے قابل ہے.....
ایک عورت کو اس کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں.....وہ ایک مولی ساب کے پاس گیا اور مسئلہ معلوم کیا تو یہی حلالہ کی صورت سامنے رکھی....مرد نے کہا کہ حضرت، آپ ہی حلال کر دیجئے ....
مولی ساب نے ہامی بھر لی....
نکاح اس شرط کے ساتھ ہوگیا کہ کل صبح اسے طلاق دے دی جائے گی....
عورت خوب صورت تھی، مولی ساب نے دیکھا تو نیت بدل گئی.....
شب باشی ہوئی ....
صبح ہوئی تو شوہر آدھمکا کہ میری بیوی میرے حوالے کیجئے!
مولی ساب نے کہا کہ،
یہ تیری بیوی کہاں سے ہوئی؟ یہ تو میری ہوگئی!! شرعی مسئلے کی رو سے میں اسے آخری زندگی تک اپنے پاس رکھنے کا مالک ہوں......میں طلاق نہیں دوں گا......
تکرار ہوئی.....بات بڑھی.....شوہر 'ناکام و نامراد' چلا گیا....کچھ دیر کے بعد واپس آیا تو مولی ساب نے دیکھا کہ پانچ چھ کڑیل نوجوان بھی ساتھ ہیں اور سب لاٹھی شریف لئے ہوئے.....پھر وہی تکرار ہوئی.....مولی ساب کی ایک ہی رٹ کہ طلاق نہیں دینی....
شوہر سابق اور پانچوں نوجوانوں نے مولی ساب کی پھر جو مرمت کی، ساری شریعت بھول گئے اور طلاق دینی پڑگئی.......یہ سچا واقعہ ہے، جس مولی ساب کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، میں اسے جانتا ہوں..... یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ حلالہ کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی......اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ.....
اگر شوہر تیسری طلاق بھی دے دی تو اب وہ اس شوہر کے لئے اسی وقت حلال ہوگی، جب عورت دوسرے مرد سے شادی کر لے......اور حدیث یہ ہے:
عن عائشۃ قالت: جاءت امرأۃ رفاعۃ القرظی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت:انی کنت عند رفاعۃ فطلقنی فبت طلاقی فتزوجت عبدالرحمن الزبیر وما معہ الا مثل ھدبۃ الثوب فقال: اتریدین ان ترجعی الی رفاعۃ؟ لا، حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک
(ترمذی شریف، حدیث نمبر ۱۱۰۰)
مفہومِ حدیث: 
رفاعہ قرظی نامی صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی عورت کو طلاق مغلظہ دیں، بیوی نے دوسری جگہ نکاح کرلیا، مگر وہاں معامل ٹھیک نہیں تھا، چناں چہ اس نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں پہلے رفاعہ کے پاس تھی، اس نے میری طلاق کو قطعی کر دیا، یعنی مجھے تین طلاقیں دے دیں.....پھر میں نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کیا، مگر اس کے پاس کپڑے کے پھندنے کی مانند ہے.....یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی.....
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ارادہ سمجھ گئے ....آپ نے فرمایا:
کیا تم رفاعہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہو؟ جب تک دوسرا شوہر تمھار کچھ شہد نہ چکھے اور تم اس کا کچھ شہد نہ چکھو، پہلے شوہر کی طرف نہیں لوٹ سکتی.............
قرآن و حدیث میں حلالہ کا حکم موجود ہونے کے بعد حلالہ کی مشروعیت کا انکار کفر ہے.....جو شخص یہ کہے کہ میں حلالہ کی کسی بھی صورت کو جائز نہیں مانتا، اس کے کفر میں شک نہیں......

علامہ فضیل احمد ناصری
.........
عمدہ مضمون ہے.....
یی چاروں صورتین تحفۃ الالمعی سے بعینہ منقول ہین؟
پہلی صورت تو بالکل ہی واضح ہے ....یہ جو اکابر والی بات اسمین درج ہے.....
یہ ہر ایک کے لئے مفید نہین بلکہ بعض مرتبہ مضر ہے...کیونکہ اصل معترض تو وہی ہین جو اکابر کے دشمن ہین
تو یا یہ لفظ ہی حذف ہوجائے یا اس کی کوئی مثال لکھ دی جائے
تحفۃ الالمعی ایک خاص طبقہ کے لئے ہے....اس لئے اس مین کوئی اشکال نہین...یہ مضمون سوشل میڈیا کا ہے.
ھذا ماعندی
...................
میں نے تحفۃ الالمعی سے جو صورتیں نقل کی ہیں،
ان میں سے پہلی صورت اجر و ثواب کی ہے....یہ بات مفتی سعید صاحب نے تنہا نہیں لکھی ہے، بلکہ درس ترمذی جلد سوم میں بھی ایسا ہی لکھا ہے، اس کی عبارت ملاحظہ ہو:
دل میں یہ نیت ہو کہ کچھ دن اپنے پاس رکھ کر چھوڑدوں گا، تو حنفیہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے، بلکہ امام ابوثور کا قول ہے کہ ایسا کرنے والا ماجور ہوگا....یعنی ثواب پاے گا.....
اسی درس ترمذی کے حاشیہ پر یہ عبارت بھی درج ہے:
بلکہ کتب احناف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماجور بھی ہوگا، چناں چہ شیخ ابن ھمام فرماتے ہیں:
اما لو نویاہ ولم یقولاہ فلاعبرۃ بہ ویکون الرجل ماجوراً لقصدہ الاصلاح ( فتح القدیر، ج 4، ص، 34 ) .....
اسی قسم کی بات نظام الفتاویٰ جلد سوم میں بھی موجود ہے، مفتی نظام الدین اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کسی نے دیکھا کہ اس کا گھر برباد ہورہا ہے، لہذا اس کا گھر آباد کرنے کے لیے اس نے اس شخص کی مطلقہ ثلاثہ سے خود اپنی مرضی سے نکاح کر کے طلاق دے دیا تاکہ اس کا گھر آباد ہوجاے تو عنداللہ ماجور بھی ہوگا......مفتی صاحب نے اس کے لیے البحرالرائق جلد چہارم کا حوالہ دیا ہے اور عبارت بھی نقل کی ہے.....خلاصہ یہ کہ پہلی صورت نہ صرف جائز، بلکہ ثواب والی ہے..........
علامہ فضیل احمد ناصری
.........................................
طلاق کی نیت سے نکاح میں کوئی قباحت نہین....
کیونکہ نیت طلاق سے طلاق واقع نہین ہوجاتی ....صحت عقد مین تو کوئی اشکال ہی نہین....
البتہ جب اسے طلاق دے تو ضرور نیت کی وجہ سے تفصیل ہے:
1⃣بلاضرورت طلاق دی ہے اور کوئی نیت فاسد یا صالح نہین خالی الذہن ہوکر دی ہے تو نفس تطلیق معصیت نہین....
2⃣بنیت اصلاح دی ہو جیسا کہ مضمون کی پہلی شکل مین ہے تو بقول بعض فقہاء امید اجر ہے 
3⃣تلذذ وشہوت یا ایذاء زوجہ کی نیت سے ہے تو ضرور نیت کا گناہ ہوگا.
ذواقین وذواقات پر لعنت، نیز ایذاء مسلم کے عام دلائل کی بنا پر
نکاح موقت مین توقیت  ہوتی ہے یہاں توقیت نہین.
بندہ توصیف
......
حلالہ کیوں ؟
یہ خیال غلط ہے 'حلالہ' کوئی تدبیر ہے جس پر عورت کو مجبور کیا جارہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ کی مقرر کی ہوئی تمام حدود کو پامال کرکے تین طلاقیں دیدیں ،وہ اب اس لائق نہیں کہ ایک شریف عورت اس کے پاس رہے۔لہذا حکم یہ ہے کہ اب اس سے نکاح نہ کرو۔کوئی اور شوہر تلاش کرو۔ہاں اگر اس شوہر سے بھی نبھائو نہ ہو اور وہ ازخود طلاق دیدے تو اس صورت میں امید ہے کہ پہلا شوہر کچھ سبق حاصل کرچکا ہوگا۔اس لئے اگر اب اس سے نکاح کرنے پر بیوی رضامند ہو تو اس کی اجازت دے دیگئی ہے۔ اور یہ جو محض حیلہ کے طور پر حلالہ کیا جاتا ہے وہ شریعت کے منشاء کے خلاف ہے۔ فتاوی عثمانی 138/1۔
اسلامی شریعت عورت کو مجبور نہیں کرتی کہ جس شوہر نے بیوی کو تین طلاقیں ایکبارگی دے دیں پہر وہ اسی کے پاس آئے ۔عورت کو اجازت ہے کہ اس کا منہ کبھی نہ دیکھے۔ اس کے پاس کبھی نہ آئے ۔ لیکن جب دوسرے شوہر سے نکاح کرلینے کے بعد وہ پہر اسی شوہر کے پاس آنے کے لئے آمادہ ہے۔ تو پھر شریعت اسلامیہ اسے اس کا حق بھی دیتی یے۔ اسی حق کے تحفظ کو 'حلالہ' کہتے ہیں۔

شکیل منصور القاسمی

हलाला क्यों?
यह विचार गलत है "हलाला" कोई उपाय है जिस पर महिला को मजबूर किया जा रहा हे.ासल यह है कि जिस व्यक्ति ने अल्लाह की निर्धारित की हुई सभी सीमाओं को कुचल कर तीन तलाकें दीदें, वह अब इस योग्य नहीं कि एक शरीफ औरत अपने पास रहे.लहज़ा आदेश यह है कि अब इस से निकाह न करो.कोई और पति खोज करो.हाँ अगर उसके पति से भी निभाई न हो और वह ाज़सुद तलाक दे दे तो इस मामले में उम्मीद है कि पहला पति कुछ सीख चुका होगा । इसलिए अगर अब इससे विवाह करने पर पत्नी राज़ी हो तो उसकी अनुमति दीगई। और यह जो महज हीला के रूप में हलाला है वह शरीअत के मंशा के खिलाफ हे.फ़्तावी उस्मानी 138/1।
इस्लामी शरीयत औरत को मजबूर नहीं करती कि जिस पति ने पत्नी को तीन तलाकें एकबारगी दे पहर वह उसी के पास आए .िर अनुमति है कि उसका मुँह कभी न दीखे.ास पास कभी न आए। लेकिन जब दूसरे पति से निकाह कर लेने के बाद वे दोपहर इसी पति के पास आने के लिए तैयार है.तू पहर व्यवस्था इस्लामिया उसे उसका अधिकार भी देती ए.ासी अधिकार संरक्षण को "हलाला" कहते हैं।
शकील मंसूर कासमी

No comments:

Post a Comment