ایس اے ساگر
مرکزی دارالحکومت کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سخت کشیدگی میں گھری ہوئی ہے. ایک طرف بایاں بازو ہے تو دوسری جانب اے بی وی پی تنی کھڑی ہے. واٹس ایپ عزیز احمد لکھتے ہیں کہ وہ سائنس کا اسٹوڈنٹ ہے، کمرے میں بیٹھ کے کتابوں میں سر کھپائے ہوئے اپنی پڑھائی میں مشغول ہے، ہاسٹل میں الیکشن کی سرگرمیاں عروج پہ ہیں، امیدوار بار بار کمرے میں آکے اپنا پرچار کر رہے ہیں، اس کی پڑھائی ڈسٹرب ہورہی ہے، اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے، آخرکار اس کا فرسٹریشن ایک امیدوار پہ نکل جاتا ہے، غصہ کے ساتھ پوچھتا ہے،
کیا ہے یہ؟
اور اس کے ہاتھ میں موجود مینی فیسٹو کی طرف اشارہ کرتا ہے، امیدوار کو لگتا ہے کہ یہ اس کے ہاتھ میں پہنے ہوئے دھاگے کی طرف اشارہ کرکے اس کے مذہب پہ اٹیک کر رہا ہے، وہ اس کو گالی دینا شروع کرتا ہے، اسے ملا، پاکستانی اور غدار کہتا ہے، اتنے ہی پہ بس نہیں کرتا, وہ اپنا فون اٹھاتا ہے، اور تیس پینتیس غنڈوں کو بلاتا ہے، سب اس کو مل کے مارنے لگتے ہیں، ہاسٹل کے دیگر افراد کو اس کی بھنک لگتی ہے, بھاگ کے اس کو بھیڑ کے چنگل سے بچاتے ہیں، ہاسٹل وارڈن اور چیف سیکورٹی کو فون کرتے ہیں، اور ان کے آنے تک اس کو کمرے میں بند کردیتے ہیں، باہر جمع بھیڑ بار بار دروازہ توڑنے کی کوشش کرتی ہے, پھر وارڈن آتا ہے, اور لڑکے کو کمرے سے نکال کر اس کے آفس تک پہونچانے کے لئے کہتا ہے، لڑکے کے کمرے سے وارڈن کے آفس تک تقریبا 100 میٹر یا اس سے کچھ زیادہ کا فاصلہ ہوگا، کمرے سے نکالتے ہی سیکورٹی کے ذمہ داران، اور وارڈن کی موجودگی میں غنڈے اس پہ حملہ کرتے ہیں, راستے کی لائٹ بند کردیتے ہیں، اسے لاتوں سے، گھونسوں سے، ہتھیاروں, اور ڈنڈوں سے مارتے ہیں, اور اسے جان سے مار دینے کی کوشش کرتے ہیں، کسی طرح سے گرتا پڑتا وارڈن کے آفس تک پہونچتا ہے, وہاں پہونچ کے یہ غنڈے وارڈن سے کہتے ہیں، صرف پانچ منٹ دیدو، ہم اس کا خاتمہ کردیں گے، اسے گالیاں دیتے ہیں، بار بار جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں, پھر کسی طرح اس دن معاملہ سلجھ جاتا ہے.
دوسرے دن تقریبا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ اپنی ماں کو فون کرتا ہے، اور ان سے ملنے کے لئے کہتا ہے، پھر اس کے آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے روم سے غائب ہوجاتا ہے، اس کا لیپ ٹاپ آن ہوتا ہے، اس کا موبائل، اس کا والیٹ، اس کا چپل، جوتا، سب کچھ کمرے میں موجود ہوتا ہے، صرف وہ کمرے سے غائب ہوتا ہے، آج تین دن ہونے کو ہیں، ابھی تک اس کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے، اس کی ماں روتے روتے بے حال ہوچکی ہے، ان گنت مرتبہ بے ہوشی کی حد میں داخل ہو چکی ہے، اس کے بھائی کے چہرے پہ لاچاری اور بے بسی ثبت ہوکے رہ گئی ہے، اس بندے کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے.
پھر شام کو اسی ہاسٹل کے کامن روم میں ایک خون سے لکھی ہوئی تحریر ملتی ہے,
"All Muslims Are Terrorist"
سارے مسلمان دہشت گرد ہیں، اور اسی ہاسٹل کے باتھ روم میں بھی یہ تحریر ملتی ہے کہ سارے مسلمان، غدار اور پاکستانی ہیں.
یہ کہانی ہے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سائنس کے اسٹوڈنٹ نجیب احمد کی، یونیورسٹی کے ماہی مانڈوی ہاسٹل میں وہ سکونت پذیر تھے، ABVP کے غنڈوں سے بحث ہوتی ہے، وہ لوگ جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر سب کے سامنے جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں، اور جو لوگ ساتھ دیتے ہیں ان کو بھی دیکھ لینے کی دھمکی دیتے ہیں، پھر فائنلی وہ روم سے پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں.
جے این یو میں ایسا ہوجائیگا کبھی سوچا نہ تھا، ایسی یونیورسٹی جو اخلاق کے قاتلوں کے خلاف لڑائی لڑتی ہے، روہت ویمولا پہ حکومت کو تگنی کا ناچ نچاتی ہے، جہاں سوشل جسٹس اور ایکولٹی کی ہوائیں چلتی ہیں، جہاں لوگ مذہب نہیں دیکھتے، صرف انسانیت کی بات کرتے ہیں، جہاں ڈیبیٹ اور بحث و مباحثہ کا رواج ہے، سیاسی اختلاف ہونے کے باوجود لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، ماحول کتنا ہی گرم کیوں نہ ہوجائے، کوئی کسی پہ ہاتھ نہیں چھوڑتا، اسی یونیورسٹی میں یہ حادثہ وقوع پذیر ہوجائیگا، کسی اسٹوڈنٹ کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا.
یہ حکومت جب سے منظر عام پہ آئی ہے، غنڈوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، کبھی اخلاق کو قتل کرتے ہیں، کبھی گجرات میں دلتوں کی پٹائی کرتے ہیں، کبھی ٹرک ڈرائیوروں کو مارتے ہیں، کبھی ٹرینوں میں، کبھی اسٹیشنوں پہ، سیدھے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ جب سے یہ حکومت بنی ہے، ملک میں لڑائی، جھگڑا اور فساد برپا ہے، عام لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہے، لوگوں کے توقعات خاک میں مل چکی ہیں، لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہیں، ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کب، کہاں، کس وقت بھیڑ جمع ہوجائے اور ماردے، ابھی تک تو یونیورسٹیاں محفوظ سمجھی جاتیں تھیں، اب وہ بھی محفوظ نہ رہیں، اور وہ بھی جے این یو جیسی یونیورسٹی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے، اگر ہندوستان میں کہیں اصل جمہوریت موجود ہے تو وہ جے این یو میں ہے، جہاں حکومت کے خلاف بولنے کی آزادی ہے، لکھنے کی آزادی ہے، جہاں پوچھنے کی آزادی ہے، جہاں لڑنے کی آزادی ہے، اس میں اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے.
واقعی جے این یو میں اس طرح کے واقعہ کا پیش آنا نہایت ہی تکلیف کی بات ہے، اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اس کے ایڈمنسٹریشن کا رویہ ہے، تین گزر گئے، ابھی تک انہوں نے ایف آئی آر نہیں درج کروائی ہے، اور نہ ہی کسی اس کی بازیابی کی سیرئس کوشش کی ہے.
اس کے علاوہ میڈیا کا رویہ بھی کافی تکلیف دہ ہے، جس میڈیا نے 9 فروری کے حادثے کی ایک ایک پل رپورٹنگ کی تھی، جن کے کیمرے چوبیس گھنٹے آن رہتے تھے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا سے بحث کرواتے پھرتے تھے، ان کو حادثے کی ابھی تک بھنک نہیں لگی، اور لگے بھی کیسے، اس معاملے میں حکومت کے پروردہ غنڈوں کا جو ہاتھ ہے.
آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اس مسلم بچے کی صحیح سلامت واپسی کی دعا کریں..
آج تین دن ہونے کو ہیں..
ابھی تک اس کا کوئی پتہ نہیں ہے...
روتے روتے اس کی ماں کے آنسو سوکھ چکے ہیں، اس کے بھائی کے چہرے پہ بیچارگی ثبت ہوکے رہ گئی.
آپ لوگ دعا کریں کہ اللہ اسے حفظ و امان میں رکھے، اور جلد از جلد اسے اس کے گھر والوں سے ملا دے....
اور اس کے ہاتھ میں موجود مینی فیسٹو کی طرف اشارہ کرتا ہے، امیدوار کو لگتا ہے کہ یہ اس کے ہاتھ میں پہنے ہوئے دھاگے کی طرف اشارہ کرکے اس کے مذہب پہ اٹیک کر رہا ہے، وہ اس کو گالی دینا شروع کرتا ہے، اسے ملا، پاکستانی اور غدار کہتا ہے، اتنے ہی پہ بس نہیں کرتا, وہ اپنا فون اٹھاتا ہے، اور تیس پینتیس غنڈوں کو بلاتا ہے، سب اس کو مل کے مارنے لگتے ہیں، ہاسٹل کے دیگر افراد کو اس کی بھنک لگتی ہے, بھاگ کے اس کو بھیڑ کے چنگل سے بچاتے ہیں، ہاسٹل وارڈن اور چیف سیکورٹی کو فون کرتے ہیں، اور ان کے آنے تک اس کو کمرے میں بند کردیتے ہیں، باہر جمع بھیڑ بار بار دروازہ توڑنے کی کوشش کرتی ہے, پھر وارڈن آتا ہے, اور لڑکے کو کمرے سے نکال کر اس کے آفس تک پہونچانے کے لئے کہتا ہے، لڑکے کے کمرے سے وارڈن کے آفس تک تقریبا 100 میٹر یا اس سے کچھ زیادہ کا فاصلہ ہوگا، کمرے سے نکالتے ہی سیکورٹی کے ذمہ داران، اور وارڈن کی موجودگی میں غنڈے اس پہ حملہ کرتے ہیں, راستے کی لائٹ بند کردیتے ہیں، اسے لاتوں سے، گھونسوں سے، ہتھیاروں, اور ڈنڈوں سے مارتے ہیں, اور اسے جان سے مار دینے کی کوشش کرتے ہیں، کسی طرح سے گرتا پڑتا وارڈن کے آفس تک پہونچتا ہے, وہاں پہونچ کے یہ غنڈے وارڈن سے کہتے ہیں، صرف پانچ منٹ دیدو، ہم اس کا خاتمہ کردیں گے، اسے گالیاں دیتے ہیں، بار بار جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں, پھر کسی طرح اس دن معاملہ سلجھ جاتا ہے.
دوسرے دن تقریبا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ اپنی ماں کو فون کرتا ہے، اور ان سے ملنے کے لئے کہتا ہے، پھر اس کے آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے روم سے غائب ہوجاتا ہے، اس کا لیپ ٹاپ آن ہوتا ہے، اس کا موبائل، اس کا والیٹ، اس کا چپل، جوتا، سب کچھ کمرے میں موجود ہوتا ہے، صرف وہ کمرے سے غائب ہوتا ہے، آج تین دن ہونے کو ہیں، ابھی تک اس کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے، اس کی ماں روتے روتے بے حال ہوچکی ہے، ان گنت مرتبہ بے ہوشی کی حد میں داخل ہو چکی ہے، اس کے بھائی کے چہرے پہ لاچاری اور بے بسی ثبت ہوکے رہ گئی ہے، اس بندے کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے.
پھر شام کو اسی ہاسٹل کے کامن روم میں ایک خون سے لکھی ہوئی تحریر ملتی ہے,
"All Muslims Are Terrorist"
سارے مسلمان دہشت گرد ہیں، اور اسی ہاسٹل کے باتھ روم میں بھی یہ تحریر ملتی ہے کہ سارے مسلمان، غدار اور پاکستانی ہیں.
یہ کہانی ہے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سائنس کے اسٹوڈنٹ نجیب احمد کی، یونیورسٹی کے ماہی مانڈوی ہاسٹل میں وہ سکونت پذیر تھے، ABVP کے غنڈوں سے بحث ہوتی ہے، وہ لوگ جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر سب کے سامنے جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں، اور جو لوگ ساتھ دیتے ہیں ان کو بھی دیکھ لینے کی دھمکی دیتے ہیں، پھر فائنلی وہ روم سے پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں.
جے این یو میں ایسا ہوجائیگا کبھی سوچا نہ تھا، ایسی یونیورسٹی جو اخلاق کے قاتلوں کے خلاف لڑائی لڑتی ہے، روہت ویمولا پہ حکومت کو تگنی کا ناچ نچاتی ہے، جہاں سوشل جسٹس اور ایکولٹی کی ہوائیں چلتی ہیں، جہاں لوگ مذہب نہیں دیکھتے، صرف انسانیت کی بات کرتے ہیں، جہاں ڈیبیٹ اور بحث و مباحثہ کا رواج ہے، سیاسی اختلاف ہونے کے باوجود لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، ماحول کتنا ہی گرم کیوں نہ ہوجائے، کوئی کسی پہ ہاتھ نہیں چھوڑتا، اسی یونیورسٹی میں یہ حادثہ وقوع پذیر ہوجائیگا، کسی اسٹوڈنٹ کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا.
یہ حکومت جب سے منظر عام پہ آئی ہے، غنڈوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، کبھی اخلاق کو قتل کرتے ہیں، کبھی گجرات میں دلتوں کی پٹائی کرتے ہیں، کبھی ٹرک ڈرائیوروں کو مارتے ہیں، کبھی ٹرینوں میں، کبھی اسٹیشنوں پہ، سیدھے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ جب سے یہ حکومت بنی ہے، ملک میں لڑائی، جھگڑا اور فساد برپا ہے، عام لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہے، لوگوں کے توقعات خاک میں مل چکی ہیں، لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہیں، ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کب، کہاں، کس وقت بھیڑ جمع ہوجائے اور ماردے، ابھی تک تو یونیورسٹیاں محفوظ سمجھی جاتیں تھیں، اب وہ بھی محفوظ نہ رہیں، اور وہ بھی جے این یو جیسی یونیورسٹی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے، اگر ہندوستان میں کہیں اصل جمہوریت موجود ہے تو وہ جے این یو میں ہے، جہاں حکومت کے خلاف بولنے کی آزادی ہے، لکھنے کی آزادی ہے، جہاں پوچھنے کی آزادی ہے، جہاں لڑنے کی آزادی ہے، اس میں اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے.
واقعی جے این یو میں اس طرح کے واقعہ کا پیش آنا نہایت ہی تکلیف کی بات ہے، اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اس کے ایڈمنسٹریشن کا رویہ ہے، تین گزر گئے، ابھی تک انہوں نے ایف آئی آر نہیں درج کروائی ہے، اور نہ ہی کسی اس کی بازیابی کی سیرئس کوشش کی ہے.
اس کے علاوہ میڈیا کا رویہ بھی کافی تکلیف دہ ہے، جس میڈیا نے 9 فروری کے حادثے کی ایک ایک پل رپورٹنگ کی تھی، جن کے کیمرے چوبیس گھنٹے آن رہتے تھے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا سے بحث کرواتے پھرتے تھے، ان کو حادثے کی ابھی تک بھنک نہیں لگی، اور لگے بھی کیسے، اس معاملے میں حکومت کے پروردہ غنڈوں کا جو ہاتھ ہے.
آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اس مسلم بچے کی صحیح سلامت واپسی کی دعا کریں..
آج تین دن ہونے کو ہیں..
ابھی تک اس کا کوئی پتہ نہیں ہے...
روتے روتے اس کی ماں کے آنسو سوکھ چکے ہیں، اس کے بھائی کے چہرے پہ بیچارگی ثبت ہوکے رہ گئی.
آپ لوگ دعا کریں کہ اللہ اسے حفظ و امان میں رکھے، اور جلد از جلد اسے اس کے گھر والوں سے ملا دے....
گزشتہ چھ دن سے مظاہرہ کررہے جے این یو کے طلباء نے آج وزارت داخلہ کے
سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے اسے تلاش کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا۔اس کے
بعد ان میں سے تقریباََ سو کو حراست میں لیاگیا۔مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ
سنگھ نے کل دہلی پولیس کو لاپتہ طالب علم کا پتہ لگانے کے لئے خصوصی ٹیم
کی تشکیل کاحکم دیاتھا۔مظاہرین طلبہ نے وائس چانسلر اور دیگر کچھ اعلیٰ
حکام کو 20گھنٹے سے بھی زیادہ وقت تک مبینہ طورپریرغمال
بنایاتھا۔بایوٹیکنالوجی اسکول کا طالب علم نجیب احمد احاطے میں جھگڑے کے
بعد ہفتہ کو مبینہ طور پر لاپتہ ہو گیاتھا۔طالب علم کے والدین کی شکایت
ملنے کے بعد وسنت وہار کنج تھانے میں کل ایک شخص کے اغوا اور غلط طریقے سے
یرغمال بنانے کی ایف آئی آر درج کی گئی تھی جے این یو طلبہ یونین صدر موہت
پانڈے نے کہاکہ سات دن ہو چکے ہیں اور نجیب کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ہاسٹل کے
سینئر وارڈن، سکیورٹی اور بہت سے طلبہ کے سامنے اسے پیٹاگیا۔تمام عینی
شاہدین نے پہچانے گئے طلبہ کے خلاف بیان دیے ہیں لیکن وہ کھلے عام گھوم رہے
ہیں۔پولیس حکام کے مطابق تقریباََ 80. 100طلبہ کواحتیاطی قدم اٹھاتے ہوئے
حراست میں لیا گیا۔اس سے پہلے یہاں مظاہرہ کا خدشہ کو دیکھتے ہوئے رائے
سینا ہل پر سیکورٹی بڑھا دی گئی تھی۔رائے سینا روڈ پر گاڑیوں کی نقل و حرکت
روک دی گئی اور پولیس اور نیم فوجی فورسز کو علاقے کے آس پاس تعینات
کیاگیا۔پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ یونیورسٹی کے طلبہ مظاہرہ کیلئے یہاں
پہنچیں گے۔طلبا نے وزارت داخلہ کے حکام کو ایک میمورنڈم سونپ کر اس معاملے
کی تیزی سے جانچ کرانے کی مانگ کی تھی۔
JNU student missing
after altercation with
ABVP activists
JNU student missing
after altercation with
ABVP activists
The disappearance of a
JNU student after altercation with his ABVP hostel-mates point towards the communally-charged atmosphere of the Mahi Mandavi hostel that is home to freshers, according to University students and faculty.
A first-year biotechnology student, Najeeb Ahmed, went missing on Friday, days before the hostel elections.
Delhi Police has filed an FIR on charges of kidnapping after his mother Fatima Nafees filed a complaint.
Students who spoke to News18 for this story said the Mahi Mandavi was becoming a cause of worry with communal graffiti on the walls and “targeted attacks on students from particular community".
“There are 450 students living in the hostel, some cases were brought to our notice but we found no evidence. The trend of making such (inflammatory) speeches and actions is disturbing. We are concerned. For this we have held meetings twice in the day; in future also we will hold conferences and workshops and encourage students to not indulge in these activities. We need them to get back to normal hostel life by holding such meetings,” senior warden of Mahi Mandavi, Dr Sushil Kumar, told News18.
Kumar blamed the troubles of the hostel on “lack of senior junior interactions".
“Most of the students residing here are new to campus and they don’t have seniors around to guide them. We have demanded single seaters for the senior students to stay,” he said.
Mahi Mandavi was supposed to have its elections on Monday, where the President and the 12-member hostel committee members were to be elected. The polls have since been postponed after Friday’s incident.
JNU hostel elections are different from the students’ union polls as the candidates may or may not be backed by the political parties. There are other determining factors in winning these elections - like the candidates’ social standing in the hostel.
Girls’ hostels like Ganga and Godavari have already wrapped up the process while the elections in the boys’ hostel Periyar were politically charged.
Mahi Mandavi, one of the hostels left to elect its president, witnessed a strenuous campaign.
JNUSU president Mohit Pandey – of the left-leaning AISA – in a statement said there are concerted efforts to communally polarize the campus and spread rumours about the incident.
“We feel it is pertinent to report the facts of the incident to dispel this rumour-mongering being done by ABVP. The administration has to initiate further steps to ensure the safety of the students and take necessary steps to stop communal polarization of stakeholders of the university.”
ABVP’s Vikrant Kumar, who was campaigning for Mahi Mandavi hostel president’s post, told News18 he had went to Ahmed’s room because his “religious sentiments were hurt for wearing thread on his wrist.”
A JNUSU statement said there was a scuffle between Ahmed and others.
“The residents of the hostel heard the noise and commotion and when they reached Room no 106, they witnessed three students assaulting Ahmed. Worried about his security, the students locked Ahmad in his room first and later in the washroom. It was while he was being taken for meeting the wardens that 10-15 students started intimidating and communal targeting of Ahmed. Those who had come to stop the attack were also assaulted,” the statement said.
The statement said he was subject to communal abuses in the presence of the wardens and security.
Mahi Mandavi Hostel president, Alimuddin Khan, too issued a statement condemning the event and expressing worry on the “political and religious escalation of the whole issue.”
He said that the issue was resolved between the students but due to some external influence it got escalated.
Khan, a PhD scholar in Arabic, said the hostel had always had a harmonious atmosphere with iftars and milans throughout the year.
Another Arabic PhD scholar Hamid Raza, who is contesting for president of the hostel, told News 18 that he had ran for polls before in JNU but it was in Mahi Mandavi where his identity became an impediment.
“In the general body meeting of the hostel, it was pointed out to me that how can I, with a beard and kurta pyjama, represent the hostel. We have lived with amity, there was no such problem, but things are changing, as a handful of people are inclined to spoiling the atmosphere,” he said.
ABVP’s Kumar, who is allegedly one of the students who had had a scuffle with Ahmed, said “the issue is being given a political turn".<http://www.news18.com/…/student-disappearance-puts-spotligh…>
< https://www.google.co.in/amp/indianexpress.com/article/india/india-news-india/jnu-student-missing-after-altercation-with-abvp-activists-3086616/lite/?client=ms-android-samsung>
JNU student after altercation with his ABVP hostel-mates point towards the communally-charged atmosphere of the Mahi Mandavi hostel that is home to freshers, according to University students and faculty.
A first-year biotechnology student, Najeeb Ahmed, went missing on Friday, days before the hostel elections.
Delhi Police has filed an FIR on charges of kidnapping after his mother Fatima Nafees filed a complaint.
Students who spoke to News18 for this story said the Mahi Mandavi was becoming a cause of worry with communal graffiti on the walls and “targeted attacks on students from particular community".
“There are 450 students living in the hostel, some cases were brought to our notice but we found no evidence. The trend of making such (inflammatory) speeches and actions is disturbing. We are concerned. For this we have held meetings twice in the day; in future also we will hold conferences and workshops and encourage students to not indulge in these activities. We need them to get back to normal hostel life by holding such meetings,” senior warden of Mahi Mandavi, Dr Sushil Kumar, told News18.
Kumar blamed the troubles of the hostel on “lack of senior junior interactions".
“Most of the students residing here are new to campus and they don’t have seniors around to guide them. We have demanded single seaters for the senior students to stay,” he said.
Mahi Mandavi was supposed to have its elections on Monday, where the President and the 12-member hostel committee members were to be elected. The polls have since been postponed after Friday’s incident.
JNU hostel elections are different from the students’ union polls as the candidates may or may not be backed by the political parties. There are other determining factors in winning these elections - like the candidates’ social standing in the hostel.
Girls’ hostels like Ganga and Godavari have already wrapped up the process while the elections in the boys’ hostel Periyar were politically charged.
Mahi Mandavi, one of the hostels left to elect its president, witnessed a strenuous campaign.
JNUSU president Mohit Pandey – of the left-leaning AISA – in a statement said there are concerted efforts to communally polarize the campus and spread rumours about the incident.
“We feel it is pertinent to report the facts of the incident to dispel this rumour-mongering being done by ABVP. The administration has to initiate further steps to ensure the safety of the students and take necessary steps to stop communal polarization of stakeholders of the university.”
ABVP’s Vikrant Kumar, who was campaigning for Mahi Mandavi hostel president’s post, told News18 he had went to Ahmed’s room because his “religious sentiments were hurt for wearing thread on his wrist.”
A JNUSU statement said there was a scuffle between Ahmed and others.
“The residents of the hostel heard the noise and commotion and when they reached Room no 106, they witnessed three students assaulting Ahmed. Worried about his security, the students locked Ahmad in his room first and later in the washroom. It was while he was being taken for meeting the wardens that 10-15 students started intimidating and communal targeting of Ahmed. Those who had come to stop the attack were also assaulted,” the statement said.
The statement said he was subject to communal abuses in the presence of the wardens and security.
Mahi Mandavi Hostel president, Alimuddin Khan, too issued a statement condemning the event and expressing worry on the “political and religious escalation of the whole issue.”
He said that the issue was resolved between the students but due to some external influence it got escalated.
Khan, a PhD scholar in Arabic, said the hostel had always had a harmonious atmosphere with iftars and milans throughout the year.
Another Arabic PhD scholar Hamid Raza, who is contesting for president of the hostel, told News 18 that he had ran for polls before in JNU but it was in Mahi Mandavi where his identity became an impediment.
“In the general body meeting of the hostel, it was pointed out to me that how can I, with a beard and kurta pyjama, represent the hostel. We have lived with amity, there was no such problem, but things are changing, as a handful of people are inclined to spoiling the atmosphere,” he said.
ABVP’s Kumar, who is allegedly one of the students who had had a scuffle with Ahmed, said “the issue is being given a political turn".<http://www.news18.com/…/student-disappearance-puts-spotligh…>
< https://www.google.co.in/amp/indianexpress.com/article/india/india-news-india/jnu-student-missing-after-altercation-with-abvp-activists-3086616/lite/?client=ms-android-samsung>
No comments:
Post a Comment