Monday, 3 October 2016

عجب الذنب... دمچی رہے گی باقی

ایس اے ساگر
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابن آدم جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کا جسم تحلیل ہو جاتا ہے سوآئے اس چھوٹی سی ریڑھ کی ہڈی کے جو کہ اس کی پیٹھ کے سب سے نیچے ہوتی ہے۔ تو اہل علم حضرات کے نزدیک جب قیامت قائم ہو گی تو اللہ تعالی زمین پر بارش سے جسموں کو اگائے گا تو جسم اس ہڈی سے اگیں گے اور انسان کی دوبارہ پیدائش ہو گی جس طرح کہ وہ موت سے قبل تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا : (دونوں صوروں کی پھونک کے درمیان چالیس کا وقفہ ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ چالیس دن ؟ انھوں نے کہا، میں اس کا انکار کرتا ہوں. راوی کہتے ہیں کہ، چالیس مہینے ؟ انھوں نے کہا، میں اس کا انکار کرتا ہوں. راوی کہتے ہیں کہ چالیس سال؟ انھوں نے کہا، میں اس کا انکار کرتا ہوں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا، پھر اللہ تعالی آسمان سے پانی (بارش) نازل فرمآئے گا تو وہ اس طرح اگیں گے جس طرح کہ سبزی اگتی ہے، سوآئے ایک ہڈی کے انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی اور وہ ریڑھ کی ہڈی میں سب سے چھوٹی اور نچلی ہے تو اس سے قیامت کے دن مخلوق کی ترکیب ہوگی). صحیح بخاری، حدیث نمبر (4651) صحیح مسلم حدیث نمبر (2955). امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان :(دونوں صوروں کی پھونک کے درمیان چالیس کا وقفہ ہے شاگرد کہنے لگے، اے ابو ہریرہ چالیس دن ؟ انھوں نے کہا، میں اس کا انکار کرتا ہوں حدیث کے آخر تک). اس کے معنی یہ ہے کہ میں یقینی طور پر کہنے سے انکار کرتا ہوں کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ہوں گے بلکہ یہ یقینی چیز ہے وہ یہ کہ اس چالیس کو مجمل ہی رہنے دیا جائے اور مسلم کے علاوہ دوسری روایات میں اس کی تفسیر آئی ہے کہ اس سے مراد چالیس سال ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (عجب الذنب) یہ عین پر فتحہ (زبر) اور جیم پر سکون (جزم ) کے ساتھ ہے یعنی وہ پتلی اور چھوٹی سی ہڈی جو کہ پیٹھ میں سب سے نیچے ہوتی ہے اور وہ دم کی اصل اور اسے ( عجم ) میم کے ساتھ دم کی جڑ کہا جاتا ہے جو کہ انسان میں سب سے پہلے پیدا ہوتی ہے اور یہی باقی رہے گی تا کہ دوبارہ اس کی پیدائش کی جا ۓ ۔ مسلم کی شرح شرح المسلم (18 /92) تو جب اپنی قبر سے نکل کر اکٹھا ہونے کے بعد حساب وکتاب ہو جائے گا تو اسی طرح اس کا جسم باقی رہے گا جس طرح کہ موت سے پہلے تھا تو جب جنتی جنت اور جہنمی جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالی ان کی شکلوں اور صورتوں کو بدل دے گا ۔ جہنمیوں کی صفات : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( کافر کے دونوں کندھوں کے درمیان تیز چلنے والے سوار کے تین دن کی مسافت کا فاصلہ ہو گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر (6186) صحیح مسلم حدیث نمبر (2852) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( کافر کی داڑھ – یا کچلی والا دانت) احد پہاڑ کی مانند ہو گا اور اس کے چمڑے کی موٹائی تین کی مسافت ہو گی) صحیح مسلم حدیث نمبر (2851) جنتیوں کی صفات : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جنت میں سب سے پہلا گروہ اسی شکل میں داخل ہو گا جس طرح کہ چودھویں رات کا چاند ہو، پھر ان کے بعد اس ستارے کی مانند جو کہ آسمان میں سب سے زيادہ چمکدار اور روشن زیادہ ہے وہ نہ تو پیشاب کریں گے اور نہ ہی پاخانہ اور نہ ہی تھوکیں اور نہ ہی انہیں ناک آئے گا ان کی کنگھیاں سونے اور پسینے کی خوشبو مسک کستوری کی اور ان کی انگیٹھیوں میں اگر کی لکڑی ایک خوشبو دار لکڑی جلتی ہو گی اور ان کی بیویاں حور العین ہوں گی ان کی پیدائش ایک آدمی کی پیدائش ان کے باپ کی صورت پر آسمان میں ساٹھ ہاتھ ہو گی) صحیح بخاری حدیث نمبر (3149) صحیح مسلم حدیث نمبر (2834) رشحہم : ان کا پسینہ: مجامرہم : ان کے خوشبو کے دھونی دھان ۔ الالوۃ الالنجوج : یہ ایسی لکڑی ہے کہ جس سے خوشبو دار دھونی لی جائے ۔ النجوج الالوہ کی تفسیر ہے اور عود الطیب تفسیر کی تفسیر ہے فتح الباری میں اسی طرح ہے ۔ (6 / 367) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جنتی جنت میں ننگے اور بغير داڑھی اور آنکھوں میں سرمہ ڈالا ہوا اور تیس اور تینتیس سال کی عمر کی حالت میں داخل ہوں گے) سنن ترمذی حدیث نمبر (2545) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع (8072) میں صحیح کہا ہے ۔ واللہ اعلم . کیا کہتا ہے سائنس؟ ماہرین کے نزدیک قرآن مجید اور جدید سائنس کی ثابت شدہ حقیقتوں میں بے مثال مطابقت پائی جاتی ہے ۔ جو قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی بہترین دلیل ہے۔ طارق اقبال سوہدروی رقمطراز ہیں کہ دُمچی کی ہڈی (Coccyx) دُمچی کی ہڈی انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے ستون(Column) کی آخری ہڈی ہے۔ متعدد احادیث ِمبارکہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ انسانی ڈھانچے کی ابتدا دُمچی کی ہڈی سے شروع ہوتی ہے۔ مزید برآں مرنے کے بعد قبر میں انسان کے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے مگر دُمچی کی ہڈی سلامت رہے گی اور قیامت کے دن اسی سے آدمی کا ڈھانچہ دوبار کھڑا کیا جائے گا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''دونوں صوروں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہے لوگوں نے کہا یاا بوھریرہ، چالیس دن کا ؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، میں نہیں کہہ سکتا. پھر انھوں نے دریافت کیا، چالیس مہینوں کا ؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی مگر دُمچی کی ہڈی باقی رہے گی پھر قیامت کے دن اسی سے آدمی کا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا.'' (1) دوسری حدیث کے راوی بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، ''اولاد آدم کے جسم میں ایک ہڈی ایسی ہے جسے مٹی نہیں کھائے گی اور وہ دُمچی کی ہڈی ہے '' (2) چنانچہ مندرجہ بالا احادیث سے درج ذیل باتوں کا پتہ چلتاہے: 1۔ انسانی ڈھانچے کی ابتدا دُمچی کی ہڈی سے ہوتی ہے۔ 2۔ دُمچی کی ہڈی کو مٹی نہیں کھائے گی۔ اور 3۔ قیامت والے دن اسی ہڈی سے انسانی ڈھانچے کو ازسرنو زندہ کھڑ ا کر دیا جائے گا۔ جنین کی خلقت کے مراحل میں دُمچی کی ہڈی کا کردار انسانی نطفہ بیضے کو جب بارآور کرتاہے تو زائیگوٹ کے بننے سے جنین کی پیدائش کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ زائیگوٹ 'دو خلیوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور پھر دو خلیوں سے چار خلیے بن جاتے ہیں اور ان کی تقسیم اسی طرح جاری رہتی ہے تاآنکہ جنین ایک ڈسک کی شکل اختیارکرلیتا ہے جس کی دو تہیں ہوتی ہیں ایک بیرونی اور دوسری اندرونی۔ بیرونی تہہ کو Epiblast کہتے ہیں۔ یہ جنین کو رحم کی دیوار کے ساتھ جمادیتی ہے اور رحم کی دیوار کے غدودوں سے خارج ہونے والے مواد اورخون سے اس کی خوراک کا بندوبست کرتی ہے۔ اندرونی تہہ کو Hypoblast کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنین کے جسم کی ابتدا اسی تہہ سے کرتے ہیں اور تقریباً 15دن کے بعد جنین کی پشت یعنی پیٹھ پر ابتدائی لکیریں Primitive Streaks بننا شروع ہوجاتی ہیں جن کے سرے نوک دار ہوتے ہیں 'ان کو ابتدائی ابھار یا گلٹی Primitive Node کہا جاتاہے۔ ان ابتدائی لکیروں اورابھاروں سے جنین میں جو مختلف ریشے، بافتیں اورا عضا بنتے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ جلد کی بیرونی تہہ Ectoderm : اس سے جلد اورمرکزی اعصابی نظام تشکیل پاتا ہے۔ جنین کی درمیانی بافتی تہہ Mesoderm : اس سے نظام ہضم کے پٹھے، انسانی پنجر یا ڈھانچے کے پٹھے، نظام دورانِ خون، دل، جنسی اور پیشاب کے نظام، مثانوں کے علاوہ، زیر جلد پائی جانے والی بافتیں اور بافتوں میں پائے جانے والے بے رنگ مائع کا نظام Lymphatic System، تلی Spleen، اوردماغ کا بیرونی حصہ Cortex تشکیل پاتاہے۔ جنین کی اندرونی تہہ Endoderm : اس حصے میں نظام ہضم کے متعلقہ اعضا؛ مثلاً جگر ، لبلبہ وغیرہ)، نظام تنفس، مثانہ، غدۂ ورقیہ Thyroid Gland، اورکان کی نالی Hearing Canal پر استرکاری Linings ہوتی ہے۔ اس کے بعد ابتدائی لکیریں اور ابھار سوکھ جاتے ہیں اور ریڑھ کی ہڈی کے آخری حصے یعنی مقعد کی ہڈی کی جگہ ٹھہر جاتے ہیں، چنانچہ اسی سے دُمچی کی ہڈی تشکیل پاتی ہے۔ یعنی جنین میں پید ا ہونے والی ابتدائی لکیریں اور ابھار ہی دُمچی کی ہڈی کی شکل اختیا ر کرلیتے ہیں۔ جنین کی بناوٹ وتشکیل میں نقص Malformation جنین کی بناوٹ میں نقص اس بات کا ثبوت ہے کہ دُمچی کی ہڈی میں ماں کے وہ تمام خلیے پائے جاتے ہیں جو ایک انسان کی بافتوں کے لئے ضروری ہیں۔ جنین کی پیدائش اور بناوٹ کے بعد ابتدائی لکیریں اور ابھار پیڑو کے پیچھے کی تکونی ہڈی یعنی مقعد کی ہڈی (دُمچی کی ہڈی) میں ٹھہر جاتے ہیں اور اپنی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہیں. اگر کسی وجہ سے یہ پھر متحرک ہوجائیں تو یہ ایک نئے جنین کی طرح بڑھنا شروع ہوجائیں گے اور اس جگہ ایک گومڑ یا بڑا سا ابھار یا گلٹی بننا شروع ہوجائے گی جو ایک بے شکل جنین کی طرح ظاہر ہوگی کہ جس کے کچھ اعضا مثلاً ہاتھوں اور پاؤں کا ناخنوں سمیت بننا واضح ہوگا. چنانچہ یہ بات بالقین کہی جاسکتی ہے کہ دُمچی کی ہڈی میں ماں کے وہ تمام خلیے موجود ہوتے ہیں کہ جن سے ایک نئے انسان کی پیدائش ممکن ہے۔ مختصر یہ کہ دُمچی کی ہڈی اُن بتدائی لکیروں اور ابھاروں پر مشتمل ہوتی ہے کہ جن سے تین اہم حصے یعنی Ectoderm، Mesoderm اور Endoderm تشکیل پاتے ہیں جو جنین کی بناوٹ اور شکل کو مکمل کرتے ہیں۔ دُمچی کی ہڈی کو نقصان نہیں پہنچتا : ماہر ین نے معلو م کیا ہے کہ جنین کے خلیوں کی بناوٹ اور ترتیب ابتدائی لکیروں اور ابھاروں کی بدولت ہی شروع ہوتی ہے اور ان کی بناوٹ سے پہلے خلیوں کی مزید تقسیم نہیں ہوتی۔ ان ماہرین میں سے ایک مشہور شخصیت جرمن سائنس دان "Hans Spemann" کی ہے جس نے مختلف تجربات کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ اس نے تجربات کے ذریعے معلوم کیا کہ کسی جنین کی پیدائش اوربناوٹ وترتیب کا سبب ابتدائی لکیریں اور ابھار ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس نے ان کو ''ابتدائی ترتیب دینے والا'' The Primary Organizer کا نام دیا۔ اس نے اس کے ایک حصے کو ایک جنین سے کاٹا اور ایک دوسرے مہمان جسم کے اندر ابتدائی مرحلے کے جنین، تیسرے اور چوتھے ہفتے کی عمر والا، کے ساتھ مِلا Implant دیا۔ چنانچہ اس کٹے ہوئے جنین کے حصے نے مہمان جسم کے خلیوں کی بدولت پیدا ہونے والے اثر اور بناوٹ سے متاثر ہو کر ایک دوسرے جنین کی تشکیل شروع کردی۔ اس کے بعد جرمن سائنس دان نے اپنے تجربات کو بیک وقت پانی اور خشکی والے جانوروں پر کیا۔ اس نے ان کے Primary Organizer کو ایک دوسرے جنین کے ساتھ ملا دیا، جہاں وہ مکمل طورپر ایک دوسرے جنین کی بناوٹ اختیار کرگئے۔ 1931ء کے دوران اس نے ایک اور تجربہ کیا۔ اس مرتبہ اس نے اس Primary Organizer کو پانی میں اچھی طرح اُبال کر اسے ایک دوسرے ہم عمر جنین کے ساتھ کاشت کردیا مگر اُبالنے کے باوجود Primary Organizerمتاثر نہ ہوئے تھے اور انھوں نے ایک جنین کی بناوٹ کو تشکیل دے دیا۔ Primary Organizer کی اسی دریافت پر Hans Spemann کو 1935ء میں نوبل پرائز دیا گیا۔ 2001ء (ماہ رمضان 1423ھ)میں اسی طرح کا ایک تجربہ ڈاکٹر عثمان الجیلانی اورشیخ عبدالماجد الزندانی نے یمن کے شہر صنعاء میں کیا۔ شیخ عبدالماجد الزندانی نے اپنے گھر میں دمچی کی پانچ ہڈیوں کو گیس گن Gas Gun کے ذریعے پتھروں کے اوپر 10منٹ تک اس قدرجلایا کہ وہ آگ کا انگارہ بن گئیں اور جب ٹھنڈی ہوئیں تو بالکل سیاہ ہو چکی تھیں۔ انھوں نے ان جل کر کوئلہ بن جانے والی ہڈیوں کو ایک جراثیم سے پاک صندوق کے اندر محفوظ کیا اور صنعاء شہر کی سب سے بہترین لیبارٹری Al Olaki Laboratory میں تجزئیے کے لئے لے گئے۔ ڈاکٹر Al Olaki صنعاء یونیورسٹی میں نسیجوں اور بافتوں کے خوردبینی مطالعہ Histology اور علم تشخیص ِامراض Pathology کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے ان ٹکڑوں کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا کہ اس قدر جلنے کے باوجود دُمچی ہڈیوں کی بافتوں کے خلیے بالکل متاثر نہیں ہوئے ہیں اور وہ سلامت ہیں 'صرف چربیلی بافتوں والے پٹھے اور ہڈیوں کا گودا (Bone Marrow) متاثرہوا ہے۔ ( 3 ) پتہ یہ چلا کہ جدید سائنس نے آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمانِ اقدس پر تصدیق کی مہر ثبت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی برحق ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے اوراس میں اہل عقل وخرد کے لئے غوروفکر کا ایک واضح پیغام بھی موجود ہے۔ حواشی ( ١) ۔بخاری شریف، باب تفسیر سورة الزمر (2 ) ۔ایضاً ( 3) ۔ http://www.55a.net

الإعجاز العلمي في أحاديث في عجب الذنب
مقدمة:
خلق الله تعالى الإنسان في أحسن تقويم، وجعل خلقه هذا آية دالة على عظيم قدرته وبديع صنعه، ولهذا نجد الأمر منه سبحانه وتعالى للإنسان بالنظر والتفكر في خلقه، يقول الله تعالى: ﴿فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ﴾ [الطارق: 5]؛ وكل هذا لكي يتعرف الإنسان على ربه تعالى ويشهد بأنه الإله الحق.
وقد جاءت نصوص من الكتاب والسنة لترشد الإنسان إلى بعض أسرار خلقه وتعينه على النظر والتفكر، ومن ذلك أحاديث (عجب الذنب) التي أخبر فيها النبي الكريم صلى الله عليه وآله وسلم عن حقائق علمية بالغة الأهمية، وهي أن الإنسان يركب خلقه من عجب الذنب وذلك عند تكون الجنين، وأن هذا العظم لا يبلى، بل يركب الإنسان ويعاد خلقه منه يوم القيامة.
وفي هذا البحث سنتعرض لهذه الأحاديث بشيء من التوضيح، وبيان ما توصل إليه العلم الحديث في هذه المسألة، ومن ثم إظهار وجه الإعجاز فيها بمطابقتها للحقائق العلمية الحديثة.
الأحاديث التي جاء فيها الإخبار عن عجب الذنب:
جاءت بعض الأحاديث مخبرة عن عجب الذنب، فمنها ما جاء عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَفِيهِ يُرَكَّبُ»(1).
ومن ذلك أيضاً ما جاء عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إِنَّ فِي الْإِنْسَانِ عَظْمًا لَا تَأْكُلُهُ الْأَرْضُ أَبَدًا فِيهِ يُرَكَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالُوا: أَيُّ عَظْمٍ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: عَجْبُ الذَّنَبِ»(2).
والعَجْبُ بالسكون: وهو العظمُ الذي في أَسفل الصُّلْب عند العَجُز(3).
يقول النووي: "قوله: (عجب الذنب) هو بفتح العين وإسكان الجيم أي العظم اللطيف الذي في أسفل الصلب، وهو رأس العصعص، ويقال له: (عجم) بالميم، وهو أول ما يخلق من الآدمي، وهو الذي يبقى منه ليعاد تركيب الخلق عليه"(4).
ومن خلال الأحاديث السابقة نجد أنها أشارت إلى ثلاثة أمور:
1- أن الإنسان يبدأ خلقه في مرحلة التكوين من عجب الذنب.
2- أن عجب الذنب لا يبلى ولا تأكله الأرض.
3- منه يعاد خلق الإنسان يوم القيامة.
عجب الذنب (الشريط الأولي) في ضوء علم الأجنة:
أوضح علم الأجنة الحديث أن عجب الذنب هو الشريط الأولي Primitive Streakحيث إن هذا الشريط الأولي هو الذي يتكون إثر ظهوره الجنين بكافة طبقاته وخاصة الجهاز العصبي، ثم يندثر هذا الشريط ولا يبقى منه إلا أثر فيما يسمى عظم العصعصي (عجب الذنب).
تكوين الشريط الأولى:
يبدأ تكون الجنين عندما يصل المنوي القادم من ماء الرجل، فيدخل إلى البويضة ويقوم بتلقيحها، فتتكون النطفة الأمشاج (الزيجوت)، وبعد ذلك تبدأ في عملية الانقسام إلى خليتين وكل خلية تنقسم إلى خليتين وهكذا يستمر الانقسام وتكاثر الخلايا في الجنين، وفي اليوم السابع أو السادس بعد التلقيح تبدأ النطفة الأمشاج في الانغراس في جدار الرحم، وتستمر في عملية الانقسام وتكوين الخلايا حتى تتمايز إلى كتلتين من الخلايا هما:
أولاً: الكتلة الخارجية:
وهي تحتوي على الخلايا الآكلة Cytotrophoblasts التي تقضم جدار الرحم وتثبت الكرة الجرثومية فيه، كما أنـها تسمح بتغذية الكرة الجرثومية مما يتكون حولها من الدماء والإفرازات الموجودة في غدد الرحم.
ثانياً: الكتلة الداخلية:
التي منها يتكون الجنين بإذن الله تعالى، وهذه بدورها تنقسم إلى ورقتين:
1- خارجية وتدعى الإكتودرم Ectoderm
2- داخلية تدعى الإنتودرم Ectoderm
ففي اليوم الثامن من التلقيح تظهر طبقة الإنتوردم الداخلية، ويظهر شق صغير أعلى الطبقة الإكتودرمية الخارجية مكوناً بداية تجويف الأمنيون (السلي)، ويكون سقف تجويف السلي من الخلايا الآكلة بينما قاعدته من خلايا الإكتودرم.
وفي اليوم التاسع يمتد من خلايا الطبقة بخلايا الإنتودرم شريط من الخلايا ويتصل بخلايا الميزودرم الخارجية Extra Embryonic Mesoderm مكوناً كيس المخ الأوليprimary Yolk Sac.
وفي اليوم الثالث عشر تنمو من الخلايا الآكلة الخارجية Cytotrophoblasts نتوءات تعرف بحملات الغشاء المشيمي Chorionic Villi التي تثبت كيس الجنين بالرحم، ثم تتفرع بعد ذلك مثل فروع الشجرة.
كما تنمو خلايا الإنتودرم الداخلية مكونة كيس المخ الثاني والذي يصغر الكيس الأولي بكثير.
وفي نـهاية الأسبوع الثاني يكون الجنين ممثلاً بقرصين متلاحقين:
1- القرص الخارجي (الإكتودرم) ويكون قاع تجويف الأمنيون.
2- القرص الداخلي (الإنتودرم) الذي يكون سقف تجويف كيس المخ.
ويلتصق القرصان في الجزء الأمامي أو ما سيعرف لاحقاً بجهة الرأس Cephalic Portion نتيجة ثخانة خلايا الإنتودرم، وتعرف هذه المنطقة باسم الصفيحة سالفة القلب Prochordal Plate. وكذلك يلتصق القرصان في المنطقة المؤخرية (الذيلية)Caudal Portion مكونة صفيحة Cloacal Plate مستقبلاً.
وفي اليوم الرابع عشر يستطيل القرصان حتى يأخذا الشكل الكمثري فيكون الجزء العريض هو الجزء الأمامي بينما يدق الجزء المؤخري، وتنشط خلايا الإكتودرم في الجزء المؤخري مكونة الشريط الأولي Primitive Streak الذي يظهر لأول مرة في اليوم الخامس عشر منذ بدء التلقيح. ويظهر انقسام سريع ونمو متكاثر في الشريط الأولي وتهاجر الخلايا يمنة ويسرة بين طبقة الإكتودرم الخارجية وطبقة الإنتوردم الداخلية مكونة طبقة جديدة هي الطبقة المتوسطة (الميزودم)Mesoderm(5).
ونتيجة لظهور الشريط الأولي يبدأ تكون الجهاز العصبي والنوتوكورد(سالفة العمود الفقري)، كما تتكون الطبقة المتوسطة(الميزودرم)، ويشهد الجنين بداية تكوين الأعضاء.
أما عند غياب أو عدم تكون الشريط الأولى فإن هذه الأعضاء لا تتكون وبالتالي لا يتحول القرص الجنيني البدائي إلى مرحلة تكون الأعضاء بما فيها الجهاز العصبي.
ولأهمية هذا الشريط الأولي فقد جعلته لجنة وارنك البريطانية (المختصة بالتلقيح الإنساني والأجنة) العلامة الفاصلة بين الوقت الذي يسمح فيه للأطباء والباحثين بإجراء التجارب على الأجنة المبكرة الناتجة عن فائض التلقيح الصناعي في الأنابيب (الأطباق)، فقد سمحت اللجنة بإجراء هذه التجارب قبل ظهور الشريط الأولي ومنعته منعاً باتاً بعد ظهوره على اعتبار أن ظهور هذا الشريط يعقبه البدايات الأولى للجهاز العصبي(6).
وعند ظهور الشريط الأولي ونتيجة نشاطه الجم الغزير يظهر الآتي:
1- النوتوكورد (أو الحبل الظهري أو سالفة العمود الفقري) ويمتد إلى جهة الرأس من العقدة الأولية Primitive node والتي تعرف أيضاً بعقدة هانسن(7).
2- يتحول القرص الجنيني المستدير بظهور الشريط الأولي إلى شكل كمثري، بحيث يمكن تمييز طرفيه، ويدعي الطرف العريض الجهة الرأسية.. والطرف الدقيق الجهة الذيلية أو الذنبية.
3- تظهر بداية الجهاز العصبي من الطبقة الخارجية(الإكتودرم) في نـهاية الأسبوع الثالث(20-21 يوماً) مكونة الصفيحة العصبية Neural Plate التي تمتد من جهة الرأس إلى الشريط الأولي وتستطيل هذه الصفيحة وتنثني مكونة الانثناء أو الالتفاف العصبي Neural Folds، وتكوّن الجهة المنخفضة ما يعرف باسم الميزاب العصبي Neural groove. وسرعان ما يلتف هذا الميزاب ليقفل مكوناً أنبوبة تدعى الأنبوبة العصبية Neural tube، وتكون فتحة هذا الأنبوب في طرفيه الرأسي والذيلي، وتدعى الفتحة الرأسية(الفتحة الأمامية العصبية Anterior Neural Pore أو الفتحة المنقارية (Rostral Neuro Pore.. وتقفل الفتحة العصبية الأمامية في اليوم الخامس والعشرين بينما تقفل الفتحة الخلفية في اليوم السابع والعشرين، وبهذا يقفل الأنبوب العصبي، ويشكل أغلبية الأنبوب الدماغ بينما يشكل الجزء الأخير(الذنبي) النخاع الشوكي.
ويتكون الدماغ في الثلثين العلويين للأنبوب العصبي بينما يتكون النخاع الشوكي في الثلث الأسفل وذلك من مستوي الكتلة (الرابعة - الخامسة). حيث إن الكتل البدنية Somites الأربع الأولى تكون جزءاً من قاع الجمجمة.
4- تتكون طبقة الميزودرم التي تتكثف حول المحور الجنيني مكونة الكتل البدنيةSomites والتي تشكل العمود الفقري والعضلات كما يخرج منها بدايات الأطراف العليا والسفلى.. وهي التي تكون الجهاز الهيكلي والعضلي.
وتنقسم طبقة الميزودرم إلى ثلاثة أقسام:
القسم الأول: الميزودرم بجانب المحور وهو الجزء الملامس لمحور الجنين حيث الحبل الظهري والميزاب العصبي ومنه تتكون الكتل البدنية Somites والتي تكون أبرز ما في الجنين فيما بين الأسبوع الثالث إلى الخامس، ومنها يتكون الجهاز الهيكلي والعضلي كما يبرز من تلك الكتل البدنية الطرف العلوي والطرف السفلي.
القسم الثاني: وهو الجزء المتوسط من هذه الطبقة ويعرف بالميزودرم المتوسطIntermediate Mesoderm، ومنها يخلق الله سبحانه وتعالى الجهاز البولي والتناسلي.
القسم الثالث: وهو الميزودرم الحشوي Lateal Mesoderm وينقسم هذا أيضاً إلى قسمين جداري وحشوي وبينهما تجويف يعرف بالتجويف الجنيني الداخلي Intra Embryonic Ceolom ويخلق الله سبحانه وتعالى منه غشاء البطن الداخلي وغشاء الرئتين وغشاء القلب على التوالي، كما يخلق الله سبحانه وتعالى الأوعية الدموية والقلب وعضلات الجهاز الهضمي من القسم الحشوي.
وهكذا فإن تكون الشريط الأولي علامة هامة على بداية تمايز أنسجة الجنين وتكون الطبقات المختلفة ومنها الأعضاء، والواقع أن ما يعرف بمرحلة تكون الأعضاء Organogenesis لا تبدأ إلا بعد تكون الشريط الأولى والميزاب العصبي والكتل البدنية وتستمر من بداية الأسبوع الرابع إلى نـهاية الأسبوع الثامن، بحيث يكون الجنين في نـهاية هذه الفترة قد استكمل وجود جميع الأجهزة الأساسية فيه، وتكونت أعضاؤه ولم يبق إلا التفصيلات الدقيقة والنمو(8).
مصير الشريط الأولى Primitive Streak:
إن الشريط الأولي كما أسلفنا ذو أهمية بالغة؛ لأن نشاطه الجم يؤدي إلى تكون النوتوكورد(سالفة العمود الفقري)، وإلى تكون الطبقة المتوسطة الداخلية(الميزودرم Mesoderm)، ولا يكاد ينتهي الشريط الأولي من مهمته تلك في الأسبوع الرابع حتى يبدأ في الاندثار ويبقى كامناً في المنطقة العجزية - العصعصية - في الجنين ثم في المولود، ويندثر ما عدا ذلك الأثر الضئيل الذي لا يرى بالعين المجردة(9).
هذا بالنسبة للمسألة الأولى التي ذكرتها الأحاديث النبوية وهي أن الإنسان يبدأ خلقه من عجب الذنب، وننتقل إلى المسألة الثانية التي ذكرت في الأحاديث وهي أن عجب الذنب لا يبلى.
عجب الذنب لا يبلى:
لقد اكتشف العلماء أن الذي يقوم بالتخليق والتنظيم لجميع خلايا الجنين هو الشريط الأولي، وأول من اكتشف ذلك من العلماء هو العالم الألماني الشهير (هانسن سبيمان) حيث قام بدراسات وتجارب على الشريط الأولي والعقدة الأولية وأكتشف أن الخيط الأولي والعقدة الأولية هما اللذان ينظمان خلق الجنين وأطلق عليهما اسم(المنظم الأولي أو المخلق الأولي ¬(Primary Organizer وقام بقطع الشريط الأولي وزرعه في جنين آخر في المراحل الجنينية المبكرة في الأسبوع الثالث والرابع فأدى ذلك إلى نمو جنين ثانوي من هذه القطعة المزروعة في الجنين المضيف؛ حيث تقوم هذه القطعة المزروعة بالتأثير على البيئة التي حولها والمكونة من خلايا الجنين المضيف، بحيث تؤثر عليها وتنظمها ويتخلق منها جنين ثانوي مغروساً في جسد الجنين المضيف.
ثم قام هذا العالم الألماني (سبيمان) عام 1931م بسحق المنظم الأولي وزرعه مرة أخرى فلم يؤثر السحق حيث نما مرة أخرى وكون محوراً جنينياً ثانوياً رغم سحقه ولم تتأثر خلاياه.
وفي عام 1933م قام هذا العالم وعلماء آخرون بغلي المنظم الأولي وزراعته بعد غليه فشاهدوا أنه يؤدي إلى نمو محور جنين ثانوي بعد غليه ولم تتأثر خلاياه بالغليان، ولقد نال العالم الألماني (سبيمان) جائزة نوبل عام 1935م على اكتشافه للمنظم الأولي(10).
وأجريت تجارب أخرى في نفس المجال وتوصلت إلى نفس النتيجة، ومن ذلك ما أثبته مجموعة من علماء الصين في عدد من التجارب المختبرية استحالة إفناء عجب الذنب كيميائياً بالإذابة في أقوى الأحماض، أو فيزيائياً بالحرق، أو بالسحق، أو بالتعريض للأشعة المختلفة(11)، ولقد قام الدكتور عثمان جيلان بالتعاون مع الشيخ عبد المجيد الزنداني في رمضان 1424هـ في منزل الشيح عبد المجيد الزنداني في صنعاء بتجربة على العصعص حيث قاموا وتحت تصوير تلفزيوني بأخذ أحد فقرتين لخمس عصاعص للأغنام وقاموا بإحراقها بمسدس غاز فوق أحجار ولمدة عشرة دقائق حتى احمرت وتأكدوا من إحراقها التام بحيث أصبحت حمراء، وبعد ذلك أصبحت سوداء متفحمة فوضعوا القطع في علب معقمة وأعطوها لأحد أشهر المختبرات في صنعاء (مختبر العولقي).
وقام الدكتور صالح العولقي أستاذ علم الأنسجة والأمراض في جامعة صنعاء بفحصها نسيجياً وكانت النتيجة مبهرة حيث وجد خلايا عظمة العصعص لم تتأثر ولازالت حية وكأنها لم تحرق، أما الذي احترق فهو العضلات والأنسجة الدهنية وخلايا نخاع العظم المصنعة للدم، أما خلايا عظمة العصعص فلم تتأثر(12).
فكل هذه التجارب تؤكد أن عجب الذنب لا يبلى، بل يظل محتفظاً بخصائصه وقدرته على التخليق حتى في أصعب الظروف.
فيه يركب الخلق يوم القيامة:
المسألة الثالثة التي أخبرت بها الأحاديث هي أن الإنسان يركب خلقه يوم القيامة من عجب الذنب، ومما يصلح أن يستدل به على هذه المسألة هو أن عجب الذنب بعد أن يتراجع ويستقر في العصعص فإنه إذا حدث له مؤثر ونما مرة أخرى فإنه ينمو نمواً يشبه نمو الجنين حيث يبدأ في تكوين الطبقات الأولية الثلاث(الإكتودرم والميزودرم والإندودرم) تماماً مثل نمو الجنين، وينمو على صورة ورم مسخي، يشبه الجنين المشوه بحيث تبرز بعض الأعضاء كالقدم واليد-بأصابع وأظافر- والأعضاء الباقية تكون داخل الورمة، وعند فتح الورم بعد استئصاله فإن الجراح يجد باقي الأعضاء كالأسنان والأمعاء والعظام والشعر والغدد. ووجود هذه الخلايا في منطقة العصعص لكي تحفظ البداية البشرية، ويمكن الاستدلال بهذا على أن الإنسان يركب من عجب الذنب يوم القيامة فمنطقة عجب الذنب تحتوى على خلايا الشريط الأولي وهي ذات مقدرة شاملة كلية بحيث لو نمت خلية فإنها تنمو نمواً بحيث تكون جنيناً(13).
___________________
(1) صحيح مسلم 14/ 201، برقم 5254.
(2) صحيح مسلم 14/ 202، برقم 5255.
(3) لسان العرب 1/ 580.
(4) شرح النووي على صحيح مسلم 9/ 343.
(5) الإعجاز الطبي في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم عن أحاديث عجب الذنب للدكتور محمد علي البار، نقلاً عن موقع: www.nooran.org
(6) الإعجاز الطبي في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم عن أحاديث عجب الذنب للدكتور محمد علي البار، نقلاً عن موقع: www.nooran.org
(7) نسبة للعالم الألماني هانسن سبيمان الذي اكتشف الشريط الأولي.
(8) الإعجاز الطبي في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم عن أحاديث عجب الذنب للدكتور محمد علي البار، نقلاً عن موقع: www.nooran.org
(9) المرجع السابق.
(10) عجب الذنب أصل الإنسان الذي لا يبلى للدكتور عثمان جيلان نقلاً عن موقع:www.55a.net
(11) الجسد يبلى ما عدا عجب الذنب للدكتور زغلول النجار، نقلاً عن موقع:www.elnaggarzr.com
(12) عجب الذنب أصل الإنسان الذي لا يبلى للدكتور عثمان جيلان، نقلاً عن موقع:www.55a.net
(13) عجب الذنب أصل الإنسان الذي لا يبلى للدكتور عثمان جيلان نقلاً عن موقع:www.55a.net


The Prophet صلی اللہ علیہ و سلم  foretold a scientific fact that was discovered only a few years ago...
Jzt. Abu Hurayrah رضی اللہ عنہ narrated that Rasool Allah (Prophet muhammad صلی اللہ علیہ و سلم  said:
“The earth would consume every part of the son of Adam (after his death) except for one bone; the coccyx (the bone at the base of the vertebral column) from which he is created and from which his body will be reconstituted on the Day of Resurrection”.
hadith 457 sahih bukari (detailed in hadith 338) chapter 'Prophetic Commentary on the Quran (Tafseer of the Prophet صلی اللہ علیہ و سلم
It has been proven that this preliminary strand decomposes (after man's death) except for a small part (the origin of the coccyx), which remains at the end of the vertebral column (or in the vertebra known as the coccyx) and this is what is meant by "Agbu adh-dhanab" in the hadith.
When man dies, the whole body decomposes except for this part, from which – as mentioned in the hadith – man is recreated, exactly as a plant germinates from a seed. This process takes place, when, at the time of Resurrection, special rain falls from the sky, by the Will of Allah, The Almighty.
Hzt. Abu Huraira said, "Allah's Messenger صلی اللہ علیہ و سلم  said, 'Between the two sounds of the trumpet, there will be forty."
Somebody asked Abu Huraira,
"Forty days?"
But he refused to reply.
Then he asked,
"Forty months?"
He refused to reply. Then he asked, "Forty years?"
Again, he refused to reply. Hzt. Abu Huraira رضی اللہ عنہ added.
"Then (after this period) Allah will send water from the sky and then the dead bodies will grow like vegetation grows, There is nothing of the human body that does not decay except one bone; that is the little bone at the end of the coccyx of which the human body will be recreated on the Day of Resurrection."
(Sahih Al-Bukhari Hadith No. 338)
A group of Chinese scientists proved in some of their laboratory experiments that it is impossible for this part "Agbu adh-Dhanab" (the end part of the coccyx), to totally perish. They tried to dissolve it chemically in the strongest acids, through burning, pounding, and by subjecting it to various types of radiation.
ALLAHU AKBAR..!!!
Above ayya surah Al-Isra related to Tail bone (cossyx)
One big  point is there there is small black dot on coccyx  like seed to grow like plants that black dot is the point for regeneration of human being kafer says how possible after All  body destroy some burnt body but that from Allahsubhanahu cossyx(last part of tail bone )never be burnt or distroy till the  last day of this world  for rebirth of life  for hereafter life! Subhanallah!!!







No comments:

Post a Comment