Sunday, 23 October 2016

کیسا ہے سہرا باندھنا؟

ایس اے ساگر
دعوت حق سے روگردانی نے امت کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ برصغیر ہند، پاک میں سالہا سال سے شادی بیاہ کے مواقع پر ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں ایسی رسمیں نبھائی جاتی ہیں جن کا تعلق اغیار سے ہے، انہی رسموں میں سے ایک رسم یہ بھی ہے کہ دولہا، دلہن کی سہرابندی کی جائے. یوں لڑکی والے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مرد کو سونا پہننا حرام ہے، شادی پر سونے کی انگوٹھی لڑکے کو دیتے ہیں اور دُولہا کو وہ انگوٹھی پہننا ضروری ہوتی ہے، کیونکہ مرد کے ہاتھ کی اُنگلی میں صرف چاندی کی انگوٹھی اس بات کی نشانی سمجھی جاتی ہے کہ اس شخص کی منگنی ہوچکی ہے، اور شادی کے بعد یہ بتانے کے لئے کہ اب شادی بھی ہوچکی ہے دُولہا سونے کی انگوٹھی پہنے رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دُولہا کے ہاتھوں میں مہندی بھی لگائی جاتی ہے۔ نصیحت کرنے پر جواب یہ ملتا ہے کہ: 
”خوشی میں سب کچھ جائز ہوتا ہے!“
کیا واقعی خوشی میں سب جائز ہوتا ہے؟
جبکہ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے نزدیک
"شادی کی یہ ہندوانہ رسمیں جائز نہیں، بلکہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہیں۔ اور ”خوشی میں سب کچھ جائز ہے“ کا نظریہ تو بہت ہی جاہلانہ ہے، قطعی حرام کو حلال اور جائز کہنے سے کفر کا اندیشہ ہے۔ گویا شیطان صرف ہماری گنہگاری پر راضی نہیں بلکہ اس کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان، گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھیں، دِین کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام نہ جانیں، تاکہ صرف گنہگار نہیں بلکہ کافر ہوکر مریں۔ مرد کو سونا پہننا اور مہندی لگانا نہ خوشی میں جائز ہے نہ غمی میں۔ ہم لوگ شادی بیاہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے اَحکام کو بڑی جرأت سے توڑتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسی شادی آخرکار خانہ بربادی بن جاتی ہے۔
شادی میں سہرا باندھنا:
”شادی بیاہ کے رسم و رواج، سہرابندی وغیرہ مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ ہے، جس کو قدیم زمانے سے مسلمان اپنے سینے سے لگائے چلے آتے ہیں“ مگر موصوف کا یہ فتویٰ اور ان کا اندازِ استدلال صحیح نہیں۔ دراصل قصہ یہ ہے کہ یہ رسم و رواج ہندووٴں کے شعار تھے، جو لوگ ہندووٴں سے مسلمان ہوئے وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے بہت سے ہندوانہ طور و طریق پر عمل پیرا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم کے گھروں میں ان رسوم کو اختیار نہیں کیا گیا، اس لئے اس کو مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ کہنا صحیح نہیں، بلکہ زمانہٴ قدیم سے ہندووٴں کا ثقافتی ورثہ ضرور ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرقوموں کی مخصوص تہذیب و ثقافت اپنانے سے ہمیں منع فرمایا ہے:
”من تشبہ بقوم فھو منھم۔“
(مسندِ احمد ج:۲ ص:۵۰)
ترجمہ:… ”جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔“
          یہیں سے موصوف کی دلیل کا جواب بھی نکل آتا ہے، کہ ہندو سامنے رکھ کر کھاتے ہیں تو کیا یہ بھی ہندوانہ رسم ہے؟ جواب یہ ہوا کہ کھانا سامنے رکھ کر تو سبھی کھاتے ہیں، پیچھے رکھ کر کون کھاتا ہے؟ اس لئے یہ ہندووٴں کا خاص رواج نہ ہوا۔ ہاں! اگر کوئی ہندو کسی مخصوص وضع سے کھاتے ہوں تو وہ وضع ضرور ہندوانہ رسم ہوگی، اور اُمتِ مسلمہ کے لئے اس کا اپنانا جائز نہ ہوگا۔ اسی طرح کھڑے تو سبھی ہوتے ہیں، لہٰذا کھڑا ہونا تو یہودیانہ رسم نہ ہوئی، نہ اس کی ممانعت فرمائی گئی، البتہ یہودیوں کے کھڑے ہونے کی خاص وضع ضرور یہودیانہ ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ممانعت فرمائی۔ فتاویٰ رشیدیہ سے جو مسئلہ نقل کیا گیا ہے اس کو ہمارے زیرِ بحث مسئلے سے کوئی تعلق نہیں، وہ مسئلہ تو فقہ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ چاندی کا گوٹا ٹھپّا مرد کو چار اُنگشت تک جائز ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں۔ موصوف کا یہ کہنا کہ: ”سہرا بھی انہی چیزوں سے بنتا ہے، جب یہ جائز ہیں تو سہرا بھی جائز ہے“ یہ ایسی ہی دلیل ہے جو ایک شخص نے پیش کی تھی کہ انگور اور منقیٰ بھی حلال، پانی بھی حلال، جب ان کے ملنے سے شراب بن جائے تو وہ بھی حلال ہونی چاہئے۔ گوٹا، ٹھپّا، کناری کے حلال ہونے سے یہ کیسے لازم آیا کہ ہندووٴں کی رسم بھی جائز ہے․․․؟
اسلامی شادی میں سہرا (چہرہ کو پھولوں سے ڈھانکنا) کی کیا اہمیت ہے؟ کیا یہ رسم صحیح ہے یا غلط؟
Aug 25,2008
Answer: 7057
فتوی: 783=783/ م
سہرا باندھنا، ہندوانہ رسم ہے، جو غلط ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
......
سہرا با ند ھنا ہند وؤں کی رسم ہے جو کہ عر صہ دراز تک ہندوؤں اور مسلمانوں میں روا دار ی اور باہمی میل جو ل کی و جہ سے مسلما نوں میں سرا یت کر چکی ہے، اس لئے یہ وا جب الترک ہے اور اس پر التزا م و اصرار کر نا موجب ِگنا ہ ہے۔
لما قال العلامۃ مفتی محمد کفایت اللّٰہؒ:
نکا ح یا کسی اور تقر یب کے مو قع پر باجہ و غیر ہ بجوانا، سہرا باند ھنا، نا چ رنگ کروانا ناجا ئز ہے. (کفا یت المفتی:ج؍۵ ،ص؍ ۱۴۰ چھٹا با ب ،مہر ،چڑھاوا، جہیز وغیرہ)
(فتاویٰ حقانیہ :ج؍۲،ص؍۷۴)
نقلہ العبد محمد عفی عنہ

No comments:

Post a Comment