Sunday 2 October 2016

اَللَّهُمَّ أهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ والإيمان

ایس اے ساگر
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے:
اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
’’میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘
لہٰذا بندۂ مومن کو ہر لمحہ اپنے رب کو پکارتے رہنا چاہئے اور کبھی بھی اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو کام بھی کیا جائے اس کی دعا ضرور مانگی جائے تاکہ یادِ اِلٰہی بھی باقی رہے اور کام میں بھی خیر و برکت پیدا ہو لیکن اس کا کیا کیجئے کہ امت میں متعدد نئی نئی چیزیں وجود میں آرہی ہیں. انہی میں نئے سال کی دعا بھی شامل ہے جس کے الفاظ کے قریب قریب دو روایتیں نقل کی جارہی ہیں :
1. عن عثمان بن أبي العاتكة عن شيخ من أشياخهم أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا رأى الهلال قال : اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام والسكينة والعافية والرزق الحسن.
[ضعيف: أخرجه ابن السني في عمل اليوم والليلة رقم (645) ص598، وضعفه الألباني في ضعيف الجامع رقم (4405)].
2. وعن أبي عمر الأزدي عن بشير مولى معاوية - رضي الله عنه - قال: سمعت عشرة من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أحدهم حدير أبو فوزة يقولون إذا رأوا الهلال : اللهم اجعل شهرنا الماضي خير شهر وخير عافية ، وأدخل علينا شهرنا هذا بالسلامة والإسلام والأمن والإيمان والمعافاة والرزق الحسن.
[حديثٌ ضعيف: أخرجه ابن السني في عمل اليوم والليلة رقم (646) ص600، وذكره ابن عبد البر في الاستيعاب في ترجمة فروة الجهني رقم (2079) 3 / 1262، وضعفه الألباني في ضعيف الجامع رقم 4405 ] ۔
یہ دو روایتیں قریب اللفظ ھیں عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ والی روایت کے، ان دونوں میں صرف رویت الھلال کے وقت پڑھنے 
کا ذکر ہے ، سال کا ذکر نہیں ہے ۔
کیا کہتے ہیں اہل علم حضرات ؟
فضیلۃ الشیخ طلحہ بن بلال منیار حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ نئے سال پر جو دعا بتلائی جارہی ہے، اس کے بارے میں روایات کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوا کہ : 
صرف ایک صحابی یعنی حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ لفظ وارد ہوا ہے ( او السنة ) یعنی سال داخل ہونے کے وقت، ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس طرح کی دعا صرف مہینہ کے داخل ہونے پر منقول ہے ، جیسے : 
حضرات طلحہ بن عبيد اللہ ، ابن عمر ، عبادہ بن الصامت ، أنس بن مالک ، رافع بنخديج ، على بن ابى طالب ، عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، ان سب حضرات میں سے کسی نے سال کے شروع پر دعا پڑھنا ذکر نہیں کیا ہے۔ تو اس سے پتہ چلا کہ حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت میں سال کا لفظ مدرج ھے ، یعنی کسی بعد والے راوی نے اپنی طرف سے بڑھایا ہے ، اور اس سے بھی سال کے پہلے مہینہ کا چاند دیکھنے کے وقت پڑھنا مراد ہے ، یعنی ( ادخلہ علینا ) سے وہ مہینہ مراد ہے نہ کہ سال ۔ کیونکہ نئے سال کے لئے کوئی دعا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے ، ایسا ہوتا تو دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نقل کرتے۔ اس لئے میری رائے ہے کہ اس دعا پر ( نئے سال کی دعا ) کا عنوان قائم کرنا درست نہیں ہے ، یہ ہر مہینہ کے داخل ہونے پر پڑھنے کی دعا ہے ، صرف ذی الحجہ کے اخیر میں سماجی روابط کی سائٹس کے ذریعہ پھیلانے کے لئے نہیں ہے۔
الدين النصيحة
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقینًا اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے
الحجرات: 1 
نئے سال کی دعا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں!
اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دور نبوی صلی الله علیه وسلم میں نہ ہجری كيلنڈر کی ابتدا ہوئی، نہ ہی محرم سال کا پہلا مہینه تها
عمر رضی الله عنہ کے زمانہ خلافت میں اسلامی کیلنڈر کا اجرا ہوا، اور اسکا پہلا سال ہجرتِ مدینہ والے سال کو مانا گیا اور محرم کو سال کا پہلا مہینه شمار کیا گیا
اس لئے سالِ نو کی مبارکباد کے کسی بهی مسنون الفاظ کا وجود نا ممکن ہے
واللہ اعلم

اغیار کی اندھی تقلید؟ 
سماجی روابط کی ویب سائٹس پر اپنی ایک پوسٹ میں سید حفظ القدر ندوی حیران ہیں کہ یہ نئے سال کی مبارکباد دینا کہاں سے ثابت ہے.....اور نئے سال کی جو دعاء گردش کر رہی ہے وہ کیسی ہے! سوشل میڈیا پر دعوی کیا جارہا ہے کہ...جب نیا سال شروع ہوتا تو بنی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان رضی اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے کو یہ دعاء سکھاتے اور بتاتے........بات دعائیہ کلمات کی نہیں........بلکہ نئے سال کے خاص موقع پر اس حدیث کی ہے .....دعا کے کلمات تو سب جانتے ہیں.........کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس طرح کا کوئی اہتمام کیا.......کیا انھوں نے محرم الحرام کا چاند دیکھ کر ایک دوسرے کو دعاء سکھائی.....اگر سکھائی اورتلقین کی ہے تو پھر نئے سال کی اہمیت اور اس کے جشن کا جواز پیدا ہوتا ہے......لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے........یہ سراسر ہم مسلمانوں کے اس طبقہ کی دین ہے جو اغیار سے مرعوب اور احساس کمتری میں مبتلا ہے........یہ طبقہ جمعہ مبارک.....جمعرات مبارک......پیر مبارک....الوداع جمعہ مبارک.....بی بی فاطمہ کی پیدائش مبارک....علی ڈے مبارک.....قرآن کو نازل ہوئے چودہ سو سال ھوگئے تو مبارک....محرم کا کھچڑا اور شب برات کی شیرنی مبارک.....نیز یہ طبقہ بے شمار مبارکباد دینے میں ایسا الجھا ہوا کہ حقیقت کو خرافات کا رخ دے دیا گیا......نئے سال کی مبارکباد دینا جائز یا ناجائز ہے یہ مسئلہ نہیں ہے.....ایک مباح عمل ہو سکتا ہے.....لیکن اس پر ثواب کی ترغیب دیکر حدیث سے ثابت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے!
کیا کہتے ہیں فقہائے کرام؟
اس سلسلہ میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے سوال نمبر 49644 کے تحت استفسار کیا گیا کہ آج کے اس دور میں جب کہ نوجوان دین سے بہت دور ہوتا جارہا ہے اور غیر مسلموں کے طریقوں پر چل رہے ہیں اور عیسائیوں کے نئے سال پر لوگوں کو مبارک باد دے رہا ہے اگر اس نیت سے کوئی اسلامی نیا سال یعنی محرم میں اسلامی نیا سال کی مبارک باد دیں تاکہ لوگ اسلامی سال کو پہچانیں۔ مفتی حضرات اس مسئلہ میں کیا کہتے ہیں کیا یہ بدعت ہوگی یا جائز؟
دارالافتا Fatwa ID: 279-282/N=3/1435-U کا کہنا ہے کہ نئے اسلامی سال کی مبارک بادی دینا جائز ومباح ہے البتہ سنت سے ثابت نہیں، 
کذا فی الموسوعة الفقیہ (۱۴: ۱۰۰)
واللہ تعالیٰ اعلم
چاند دیکھنے کی دعا :
تاہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند دیکھنے کے بعد یہ دعا مانگتے تھے :
اَللَّهُمَّ أهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالسَّلَامِ، وَالتَّوْفِيْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَی رَبُّنَا وَرَبُّکَ اﷲُ.
هيثمی، موارد الظمآن، 1 : 589، رقم : 2374
’’اے اللہ! ہم پر یہ چاند امن، ایمان، سلامتی، اسلام اور اس توفیق کے ساتھ طلوع فرما جو تجھ کو پسند ہو اور جس پر تو راضی ہو، (اے چاند) ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔‘‘
أبو أسامة شكيل منصور القاسمی صاحب رقمطراز ہیں،
مايقول إذا رأي الهلال ؟
عن طلحة قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا رأي الهلال قال اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام. ربي وربك الله.اخرجه الطبراني في الدعاء برقم 903.
والحديث ضعيف.فيه سليمان بن سفيان وهو ضعيف.قال ابن حجر:حديث حسن.الفتوحات الربانية 329/4...وأخرجه الترمذي باب مايقول عند روية الهلال برقم 3451...والإمام أحمد في المسند 162/1.....والدارمي 4/2...وابن أبي العاصم في سننه برقم 376....قال الترمذي حسن غريب.قال الألباني حديث حسن. وإسناده ضعيف.من أجل سليمان بن سفيان...وأخرجه الحاكم في المستدرك 385/4...ونقل ابن حجر ان الحاكم قال صحيح الإسناد ثم قال وغلط فيه لأن سليمان بن سفيان ضعفوه.
وعن بن عمر ان النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا رأي الهلال قال اللهم أهله علينا هلال يمن وبركة.أخرجه الطبراني في الدعاء برقم 904.
وأخرجه إبن السني برقم 649.إسناده ضعيف لأجل هشام بن زياد وهو متروك.
وعن ابي سعيد كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا رأي الهلال قال هلال خير ورشد.انت بالذي خلقك ثلاث مرات.ثم يقول الحمد لله الذي جاء بالشهر وأذهب بالشهر.
إسناده ضعيف. قال بن حجر هذا حديث غريب.الفتوحات الربانية 332/4...وابن السني برقم 642...والطبراني في الدعاء برقم 905.
وعن أنس بن مالك كان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رأي الهلال قال هلال خير ورشد ثلاث مرات. انت بالذي خلقك.أخرجه الطبراني في الأوسط 20/1.....قال في المجمع 139/19 فيه أحمد بن عيسى اللخمي ولم أعرفه. وأخرجه في الدعاء برقم 906. .
فالذي يثبت عند روية الهلال هو "اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله. 
وأما الزيادة عليه بألفاظ أخرى أمثال "ورضوان من الرحمن وجوار من الشيطان فلاتثبت ولا تحفظ.
ولذالك قال أبو داود ليس في هذا الباب عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث مسند صحيح. الأذكار للنووي 
صفحة 160. 
ولهذا الحديث شواهد مرسلة وموصولة يقوي بها .
وفي مسند الدارمي عن بن عمر قال كان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رأي الهلال قال الله أكبر اللهم أهله علينا بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام والتوفيق لما تحب وترضى ربنا وربك الله.الأذكار صفحه 159. .
وفي الباب عن علي وعبادة بن الصامت ورافع بن خديج وعائشة رضي الله عنهم وعنها.
والله أعلم وعلمه أتم بالصواب. 
أول محرم الحرام سنة 1438 هجرية.
...............
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1287128567995780&id=194131587295489

No comments:

Post a Comment