جواب: جیل میں جمعہ کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں فقہاء متقدمین کی کتابوں میں کوئی صریح جزئیہ مذکور نہیں، اسی بناء پر اس مسئلے میں علماء عصر کے فتوے بھی مختلف رہے، اصل اشکال کی وجہ یہ ہے کہ فقہاء حنفیہ نے جمعہ کے جواز کی شرائط میں اذن عام کو بھی ذکر فرمایا ہے اور چونکہ جیل میں داخلے کا اذن عام نہیں ہوتا اس لئے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جمعہ جائز نہیں۔ ہمارے زمانے میں یہ مسئلہ صرف جیل کا نہیں بلکہ ان تمام فوجی چھاؤنیوں، صنعتی آبادیوں اور ائیرپورٹوں کا بھی ہے جہاں عام لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی، اس لئے یہ تحقیق ضروری ہے کہ "اذن عام" کی شرط کس درجے کی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے۔
بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ "اذن عام" کی شرط اس وقت تھی جب پورے شہر میں جمعہ ایک ہی جگہ ہوتا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی کی جمعہ فوت نہ ہو لیکن جب ایک شہر میں کئی جگہ جمعہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوا اور عملاً متعدد جگہوں پر جمعہ ہونے لگا تو اب چونکہ اس بات کا اندیشہ نہیں رہا کہ "اذن عام" کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی کا جمعہ فوت ہو جائے گا اس لئے اب یہ شرط باقی نہیں رہی، یہ حضرات دلیل میں علامہ شامیؒ کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں:
وکذا السلطان اذا اراد ان یصلی بحشمہ فی دارہ فان فتح بابھا و اذن للناس اذنا عاما جازت صلاتہ شھدتھا العامۃ او لا و ان لم یفتح ابواب الدار و اغلق الابواب و اجلس البوابین لیمنعوا عن الدخول لم تجز لان اشتراط السلطان للتحرز عن تفویتھا علی الناس و ذا لا یحصل الا بالاذن العالم اھ، قلت و ینبغی ان یکون محل النزاع ما اذا کانت لا تقام الا فی محل واحد، اما لو تعددت فلا لانہ لا یتحقق التفویت کاافادہ التعلیل تأمل۔ (شامی ج۲ ص۱۵۲، طبع سعید)
لیکن اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر "اذن عام" کی شرط کی وجہ سے صرف تفویت جمعہ کا خوف ہو تو جس شہر میں متعدد مقامات پر جمعہ ہوتا ہو وہاں اگر کوئی شخص اپنے ذاتی گھر میں دروازہ بند کر کے جمعہ کی جماعت کر لے تو وہ بھی جائز ہونا چاہئے اور یہ کہ جب سے تعدد جمعہ کا رواج ہوا ہے اس وقت سے "اذن عام" کی شرط تو کتب فقہ سے بالکل خارج ہو جانا چاہئے تھا یا اگر یہ شرط مذکورہ ہوتی تو ساتھ یہ تصریح بھی ذکر کرنی چاہئے تھی کہ اب یہ شرط واجب العمل نہیں، حالانکہ فقہاء تعدد جمعہ کے رواج کے باوجود اس شرط کو ذکر کرتے چلے آرہے ہیں، یہ اشکال خاصا قوی ہے لیکن کتب فقہ کی مراجعت کے بعد جو صورت حال نظر آتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
(۱) اذن عام کی شرط ظاہر الروایۃ میں موجود نہیں، چنانچہ علامہ کاسانیؒ تحریر فرماتے ہیں:
و ذکر فی النوادر شرطا آخر لم یذکرہ فی ظاھر الروایۃ و ھو اداء الجمعۃ بطریق الاشتہار حتی ان امیرا لو جمع جیشہ فی الحصن و اغلق الابواب و صلی بھم الجمعۃ لا تجزئھم۔ (بدائع الصنائع ج۱ ص۲۶۹ طع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
چنانچہ صاحب ہدایہ نے بھی اذن عام کو "شرط" کے طور پر ذکر نہیں فرمایا، اسی طرح متعدد فقہاء نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا جس میں شمس الائمہ سرخسیؒ کے استاذ علامہ سغدیؒ بھی داخل ہیں۔ (ملاحظہ ہو: النتف فی الفتاوی ج۱ ص۹۰، مطبعہ الارشاد بغداد)
۲) نوادر کی اس روایت کے مطابق فقہاء متاخرین نے یہ شرط اپنی کتابوں میں ذکر فرمائی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اذن عام کے مفہوم میں فقہاء کرام کا کچھ اختلاف رہا ہے، بعض حضرات نے تو اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس پر جمعہ فرض ہو اسے اس مقام پر آنے کی اجازت ضروری ہے، چنانچہ علامہ شامیؒ برجندی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں ای ان یاذن للناس اذنا عاما لا یمنع احدا ممن تصح منہ الجمعۃ عن دخول الموضع الذی تصلی فیہ و ھذا مراد من فسر الاذن العام بالاشتہار۔ (شامی ج۲ ص۱۵۱ طبع سعید)
دوسری طرف بعض حضرات فقہاء کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اذن عام کیلئے یہ بات افی ہے کہ جس آبادی میں جمعہ پڑھا جارہا ہے اس آبادی کے لوگوں کو وہاں آںے کی پوری اجازت ہو، خواہ باہر کے لوگوں کو آںے کی اجازت نہ ہو، چنانچہ علامہ بحر العلومؒ تحریر فرماتے ہیں:
و فی فتح القدیر: ان اغلق باب المدینۃ لم یجز و فیہ تامل فانہ لا ینافی الاذن العام لمن فی البلد و اما من فی خارج البلد فالظاہر انھم لا یجیئون لاقامۃ الجمعۃ بل ربما یجیئون للشر و الفساد۔ (رسائل الارکان ص۱۱۵، طبع قدیم مطبع یوسفی فرنگی محل لکھنؤ)۔
نیز در مختار میں کہا گیا ہے کہ:
فلا یضر غلق باب القلعۃ لعدو او لعادۃ قدیمۃ لان الاذن العام مقرر لاھلہ و غلقہ لمنع العدو لا المصلی، نعم لو لم یغلق لکان احسن، کما فی مجمع الانھر۔ (الدر المختار ص۱۵۲ ج۲ طبع سعید)
مجمع الانہر میں ہے:
و ما یقع فی بعض القلاع من غلق ابوابہ خوفا من الاعداء او کانت لہ عادۃ قدیمۃ عند حضور الوقت فلا بأس بہ لان الاذن العام مقرر لاھلہ و لکم لو لم یکن لکان أحسن، کما فی شرح عیون المذہب و فی البحر و المنح خلافہ لکن ما قررناہ اولی لان الاذن العام یحصل بفتح باب الجامع و عدم المنع و لا مدخل فی غلق باب القلعۃ و فتحہ و لان غلق بابھا لمنع العدو لا لمنع غیرہ تدبر۔
(مجمع الانھر ج۱ ص۲۴۶ بیروت)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات فقہاء کرام نے "اذن عام" کی شرط کو تفویت جمعہ کے خوف پر مبنی قرار دیا ہے، ان کی مراد یہ ہے کہ "اذن عام" کا پہلا عام مفہوم اس علت کے ساتھ معلول تھا جو تعدد جمعہ کی صورت میں باقی نہیں رہا، لیکن دوسرا مفہوم اب بھی کافی ہے کیونکہ وہ اس علت پر مبنی نہیں تھا بلکہ بقول صاحب بدائع "اذا نودی للصلاۃ من یوم الجمعۃ" کے اشارۃ النص پر مبنی تھا، چنانچہ علامہ شربنلالیؒ تحریر فرماتے ہیں:
قلت اطلعت علی رسالۃ للعلامۃ ابن الشحنۃ و قد قال فیھا بعدم صحۃ الجمعۃ فی قلعۃ القاھرۃ لانھا تقفل وقت صلاۃ الجمعۃ و لیست مصرا علی حدتھا و اقول فی المنع نظر ظاہر لان وجہ القول بعدم الصحۃ صلاۃ الامام بقفلہ قصرہ اختصاصہ بھا دون العامۃ و العلۃ مفقودۃ فی ھذہ القضیۃ فان القلعۃ وان قفلت لم یختص الحاکم فیھا بالجمعۃ لان عند باب القلعۃ عدۃ جوامع فی کل منھا خطبۃ لا یفوت من منع من دخول القلعۃ الجمعۃ بل لو بقیت القلعۃ مفتوحۃ لا یرغب فی طلوعھا للجمعۃ لوجودھا فلا وجہ لمنع صحۃ الجمعۃ بالقلعۃ عند قفلھا۔ (مراقی الفلاح مع الطحطاوی ص۲۷۸ قدیمی کتب خانہ)
اگرچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے اس کے تحت علامہ شرنبلالیؒ کی اس بات پر اعتراض فرمایا ہے لیکن علامہ شرنبلالیؒ کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعدد جمعہ کی صورت میں "اذن عام" کا وہ عام مفہوم لینے کی ضرورت نہیں جس کے تحت ہر وہ شخص جس کے پر جمعہ واجب ہو اس کو وہاں آنے کی اجازت ہو بلکہ اگر کوئی ایسی آبادی موجود ہو جس میں گھروں کی یا رہنے والوں کی قابل لحاظ تعداد موجود ہو اور اس آبادی کے تمام لوگوں کو وہاں جمعہ کیلئے آنے کی اجازت ہو تو یہ بات "اذن عام" کے تحقق کیلئے کافی ہے، بشرطیکہ اس آبادی کے باہر کے لوگوں کو آنے سے ممانعت کرنے کی وجہ سے نماز سے روکنا نہ ہو بلکہ کسی دفاعی یا انتظامی وجہ سے مجرد داخلے سے روکنا ہو۔
اگر علامہ شرنبلالیؒ کی مذکورہ بالا عبارت کا یہ مفہوم لیا جائے تو اس پر وہ اعتراض وارد نہیں ہوگا جو علامہ طحطاویؒ نے وارد فرمایا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تعدد جمعہ کی صورت میں "اذن عام" کی شرط فقہاء حنفیہ کے نزدیک بالکلیہ ختم تو نہیں ہوئی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ جس آبادی میں (نہ کہ کسی انفرادی گھر میں) جمعہ پڑھا جارہا ہے اس آبادی کے لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت ہو، اگر آبادی سے باہر کے لوگوں کو دفاع یا انتظام کے پیش نظر اس آبادی سے داخلے سے روکا گیا ہو تو یہ "اذن عام" کے منافی نہیں بشرطیکہ روکنے کا اصل محرک نماز سے روکنا نہ ہو بلکہ کوئی دفاعی یا انتظامی ضرورت ہو اور اس آبادی سے باہر کے لوگ اس پابندی کی بناء پر جمعہ سے محروم نہ ہوتے ہوں۔
اس پر صرف یہ اشکال باقی رہتا ہے وہ یہ کہ فقہاء کرام نے یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ مسجونین کیلئے جمعہ کے دن اپنی علیحدہ ظہر کی جماعت مکروہ ہے (ہدایہ مع فتح القدیر ص۳۵ ج۲ طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجونین کیلئے جمعہ جائز نہیں ورنہ ان کو ظہر کی جماعت کی حاجت ہی نہ ہوتی۔
لیکن اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ علامہ شامی اور علامہ شرنبلالی رحمہما اللہ کی عبارتوں کی روشنی میں یہ حکم اس دور کا ہے جب جمعہ ایک ہی جگہ سلطان کی قیادت میں ہوتا تھا اور سلطان کی طرف سے دوسری جگہ اقامت جمعہ کی اجازت نہیں ہوتی تھی، اس کے علاوہ قید خانے بھی مختلف نوعیتوں کے ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ قید خانہ ہو جو کسی ایک ہی گھر یا ایک ہی احاطے پر مشتمل ہو اور اس پر کسی مستقل آبادی کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ ایک اور اشکال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ "بدائع" میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ:
السلطان اذا صلی فی فھندرۃ و القوم مع امراء السلطان فی المسجد الجامع قال: ان فتح باب دارہ و اذن للعامۃ بالدخول فی فھندرۃ جاز و تکون الصلاۃ فی موضعین و لو لم یاذن للعامۃ و صؒی مع جیشہ لا تجوز صلاۃ السلطان و تجوز صلاۃ العامۃ۔ (بدائع الصنائع ج۱ ص۲۶۹ طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
یہ مسئلہ تعدد جمعہ کی صورت میں مفروض ہے، اس کے باوجود سلطان کے "اذن عام" نہ دینے کی صورت میں نماز جمعہ کو غیر منعقد قرار دیا گیا ہے۔
لیکن بظاہر اس صورت سے مراد یہ ہے کہ سلطان اپنے محل میں صرف اپنے لشکروں اور سپاہیوں کے ساتھ نماز پڑھ لے اور باقی لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہ ہو، چنانچہ مذکورہ عبارت میں ان فتح دارہ الخ کا لفظ اس پر دلالت کر رہا ہے، لہٰذا یہاں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ
سلطان کا محل اس کی اپنی انفرادی جگہ ہے اور پیچھے گزر چکا ہے کہ انفرادی مقامات پر اس وقت تک جمعہ جائز نہیں ہوتا جب تک اسے عام لوگوں کیلئے کھول نہ دیا گیا ہو لیکن اگر کوئی ایسی آبادی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں تو اس کو اس جزئیہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
(۱) اگر کسی شہر میں جمعہ کی اجازت حاکم کی طرف سے صرف ایک جگہ پڑھنے کی ہو تو جمعہ کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جس پر جمعہ ہے اس کو وہاں آ کر جمعہ پڑھنے کی عام اجازت ہو،ایسی عام اجازت کے بغیر جمعہ صحیح نہیں ہوگا۔
(۲) اسی طرح اگر کسی کا کوئی انفرادی گھر، محل یا دوکان ہو تو اس میں بھی جمعہ پڑھنا اس وقت تک جائز نہ ہو گا جب تک اس گھر، محل یا دوکان میں عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیدی گئی ہو، خواہ شہر میں دوسری جگہ بھی جمعہ ہوتا ہو۔
(۳) اگر کوئی آبادی ایسی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں اور وہ شہر کے اندر بھی ہے لیکن دفاعی، انتظامی یا حفاظتی وجوہ سے اس آبادی میں ہر شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہاں کا داخلہ ان وجوہ کی بنا پر کچھ خاص قواعد کا پابند ہے تو اس آبادی کے کسی حصے میں ایسی جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے جہاں اس آبادی کے افراد کو آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو، مثلاً بڑی جیل، فوجی چھاؤنی، بڑی فیکٹریاں ایسے بڑے ائیرپورٹ جو شہر کے اندر ہوں اور ان میں سینکڑوں لوگ ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن ان میں داخلہ کی اجازت مخصوص قواعد کی پابند ہے تو ان تمام جگہوں پر جمعہ جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ شہر میں داخل ہو اور اس جیل ، چھاؤنی، بڑی فیکٹری، ائیرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن کے تمام افراد کو نماز کی جگہ آکر نماز جمعہ پڑھنے کی کھلی اجازت ہو۔
و اللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۲۲-۵-۱۴۲۲ھ
......
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
(۱) اگر کسی شہر میں جمعہ کی اجازت حاکم کی طرف سے صرف ایک جگہ پڑھنے کی ہو تو جمعہ کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جس پر جمعہ ہے اس کو وہاں آ کر جمعہ پڑھنے کی عام اجازت ہو،ایسی عام اجازت کے بغیر جمعہ صحیح نہیں ہوگا۔
(۲) اسی طرح اگر کسی کا کوئی انفرادی گھر، محل یا دوکان ہو تو اس میں بھی جمعہ پڑھنا اس وقت تک جائز نہ ہو گا جب تک اس گھر، محل یا دوکان میں عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیدی گئی ہو، خواہ شہر میں دوسری جگہ بھی جمعہ ہوتا ہو۔
(۳) اگر کوئی آبادی ایسی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں اور وہ شہر کے اندر بھی ہے لیکن دفاعی، انتظامی یا حفاظتی وجوہ سے اس آبادی میں ہر شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہاں کا داخلہ ان وجوہ کی بنا پر کچھ خاص قواعد کا پابند ہے تو اس آبادی کے کسی حصے میں ایسی جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے جہاں اس آبادی کے افراد کو آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو، مثلاً بڑی جیل، فوجی چھاؤنی، بڑی فیکٹریاں ایسے بڑے ائیرپورٹ جو شہر کے اندر ہوں اور ان میں سینکڑوں لوگ ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن ان میں داخلہ کی اجازت مخصوص قواعد کی پابند ہے تو ان تمام جگہوں پر جمعہ جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ شہر میں داخل ہو اور اس جیل ، چھاؤنی، بڑی فیکٹری، ائیرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن کے تمام افراد کو نماز کی جگہ آکر نماز جمعہ پڑھنے کی کھلی اجازت ہو۔
و اللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۲۲-۵-۱۴۲۲ھ
.....
جیل خانے میں نمازِ جمعہ ادا کرنا
بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ "اذن عام" کی شرط اس وقت تھی جب پورے شہر میں جمعہ ایک ہی جگہ ہوتا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی کی جمعہ فوت نہ ہو لیکن جب ایک شہر میں کئی جگہ جمعہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوا اور عملاً متعدد جگہوں پر جمعہ ہونے لگا تو اب چونکہ اس بات کا اندیشہ نہیں رہا کہ "اذن عام" کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی کا جمعہ فوت ہو جائے گا اس لئے اب یہ شرط باقی نہیں رہی، یہ حضرات دلیل میں علامہ شامیؒ کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں:
وکذا السلطان اذا اراد ان یصلی بحشمہ فی دارہ فان فتح بابھا و اذن للناس اذنا عاما جازت صلاتہ شھدتھا العامۃ او لا و ان لم یفتح ابواب الدار و اغلق الابواب و اجلس البوابین لیمنعوا عن الدخول لم تجز لان اشتراط السلطان للتحرز عن تفویتھا علی الناس و ذا لا یحصل الا بالاذن العالم اھ، قلت و ینبغی ان یکون محل النزاع ما اذا کانت لا تقام الا فی محل واحد، اما لو تعددت فلا لانہ لا یتحقق التفویت کاافادہ التعلیل تأمل۔ (شامی ج۲ ص۱۵۲، طبع سعید)
لیکن اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر "اذن عام" کی شرط کی وجہ سے صرف تفویت جمعہ کا خوف ہو تو جس شہر میں متعدد مقامات پر جمعہ ہوتا ہو وہاں اگر کوئی شخص اپنے ذاتی گھر میں دروازہ بند کر کے جمعہ کی جماعت کر لے تو وہ بھی جائز ہونا چاہئے اور یہ کہ جب سے تعدد جمعہ کا رواج ہوا ہے اس وقت سے "اذن عام" کی شرط تو کتب فقہ سے بالکل خارج ہو جانا چاہئے تھا یا اگر یہ شرط مذکورہ ہوتی تو ساتھ یہ تصریح بھی ذکر کرنی چاہئے تھی کہ اب یہ شرط واجب العمل نہیں، حالانکہ فقہاء تعدد جمعہ کے رواج کے باوجود اس شرط کو ذکر کرتے چلے آرہے ہیں، یہ اشکال خاصا قوی ہے لیکن کتب فقہ کی مراجعت کے بعد جو صورت حال نظر آتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
(۱) اذن عام کی شرط ظاہر الروایۃ میں موجود نہیں، چنانچہ علامہ کاسانیؒ تحریر فرماتے ہیں:
و ذکر فی النوادر شرطا آخر لم یذکرہ فی ظاھر الروایۃ و ھو اداء الجمعۃ بطریق الاشتہار حتی ان امیرا لو جمع جیشہ فی الحصن و اغلق الابواب و صلی بھم الجمعۃ لا تجزئھم۔ (بدائع الصنائع ج۱ ص۲۶۹ طع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
چنانچہ صاحب ہدایہ نے بھی اذن عام کو "شرط" کے طور پر ذکر نہیں فرمایا، اسی طرح متعدد فقہاء نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا جس میں شمس الائمہ سرخسیؒ کے استاذ علامہ سغدیؒ بھی داخل ہیں۔ (ملاحظہ ہو: النتف فی الفتاوی ج۱ ص۹۰، مطبعہ الارشاد بغداد)
۲) نوادر کی اس روایت کے مطابق فقہاء متاخرین نے یہ شرط اپنی کتابوں میں ذکر فرمائی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اذن عام کے مفہوم میں فقہاء کرام کا کچھ اختلاف رہا ہے، بعض حضرات نے تو اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس پر جمعہ فرض ہو اسے اس مقام پر آنے کی اجازت ضروری ہے، چنانچہ علامہ شامیؒ برجندی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں ای ان یاذن للناس اذنا عاما لا یمنع احدا ممن تصح منہ الجمعۃ عن دخول الموضع الذی تصلی فیہ و ھذا مراد من فسر الاذن العام بالاشتہار۔ (شامی ج۲ ص۱۵۱ طبع سعید)
دوسری طرف بعض حضرات فقہاء کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اذن عام کیلئے یہ بات افی ہے کہ جس آبادی میں جمعہ پڑھا جارہا ہے اس آبادی کے لوگوں کو وہاں آںے کی پوری اجازت ہو، خواہ باہر کے لوگوں کو آںے کی اجازت نہ ہو، چنانچہ علامہ بحر العلومؒ تحریر فرماتے ہیں:
و فی فتح القدیر: ان اغلق باب المدینۃ لم یجز و فیہ تامل فانہ لا ینافی الاذن العام لمن فی البلد و اما من فی خارج البلد فالظاہر انھم لا یجیئون لاقامۃ الجمعۃ بل ربما یجیئون للشر و الفساد۔ (رسائل الارکان ص۱۱۵، طبع قدیم مطبع یوسفی فرنگی محل لکھنؤ)۔
نیز در مختار میں کہا گیا ہے کہ:
فلا یضر غلق باب القلعۃ لعدو او لعادۃ قدیمۃ لان الاذن العام مقرر لاھلہ و غلقہ لمنع العدو لا المصلی، نعم لو لم یغلق لکان احسن، کما فی مجمع الانھر۔ (الدر المختار ص۱۵۲ ج۲ طبع سعید)
مجمع الانہر میں ہے:
و ما یقع فی بعض القلاع من غلق ابوابہ خوفا من الاعداء او کانت لہ عادۃ قدیمۃ عند حضور الوقت فلا بأس بہ لان الاذن العام مقرر لاھلہ و لکم لو لم یکن لکان أحسن، کما فی شرح عیون المذہب و فی البحر و المنح خلافہ لکن ما قررناہ اولی لان الاذن العام یحصل بفتح باب الجامع و عدم المنع و لا مدخل فی غلق باب القلعۃ و فتحہ و لان غلق بابھا لمنع العدو لا لمنع غیرہ تدبر۔
(مجمع الانھر ج۱ ص۲۴۶ بیروت)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات فقہاء کرام نے "اذن عام" کی شرط کو تفویت جمعہ کے خوف پر مبنی قرار دیا ہے، ان کی مراد یہ ہے کہ "اذن عام" کا پہلا عام مفہوم اس علت کے ساتھ معلول تھا جو تعدد جمعہ کی صورت میں باقی نہیں رہا، لیکن دوسرا مفہوم اب بھی کافی ہے کیونکہ وہ اس علت پر مبنی نہیں تھا بلکہ بقول صاحب بدائع "اذا نودی للصلاۃ من یوم الجمعۃ" کے اشارۃ النص پر مبنی تھا، چنانچہ علامہ شربنلالیؒ تحریر فرماتے ہیں:
قلت اطلعت علی رسالۃ للعلامۃ ابن الشحنۃ و قد قال فیھا بعدم صحۃ الجمعۃ فی قلعۃ القاھرۃ لانھا تقفل وقت صلاۃ الجمعۃ و لیست مصرا علی حدتھا و اقول فی المنع نظر ظاہر لان وجہ القول بعدم الصحۃ صلاۃ الامام بقفلہ قصرہ اختصاصہ بھا دون العامۃ و العلۃ مفقودۃ فی ھذہ القضیۃ فان القلعۃ وان قفلت لم یختص الحاکم فیھا بالجمعۃ لان عند باب القلعۃ عدۃ جوامع فی کل منھا خطبۃ لا یفوت من منع من دخول القلعۃ الجمعۃ بل لو بقیت القلعۃ مفتوحۃ لا یرغب فی طلوعھا للجمعۃ لوجودھا فلا وجہ لمنع صحۃ الجمعۃ بالقلعۃ عند قفلھا۔ (مراقی الفلاح مع الطحطاوی ص۲۷۸ قدیمی کتب خانہ)
اگرچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے اس کے تحت علامہ شرنبلالیؒ کی اس بات پر اعتراض فرمایا ہے لیکن علامہ شرنبلالیؒ کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعدد جمعہ کی صورت میں "اذن عام" کا وہ عام مفہوم لینے کی ضرورت نہیں جس کے تحت ہر وہ شخص جس کے پر جمعہ واجب ہو اس کو وہاں آنے کی اجازت ہو بلکہ اگر کوئی ایسی آبادی موجود ہو جس میں گھروں کی یا رہنے والوں کی قابل لحاظ تعداد موجود ہو اور اس آبادی کے تمام لوگوں کو وہاں جمعہ کیلئے آنے کی اجازت ہو تو یہ بات "اذن عام" کے تحقق کیلئے کافی ہے، بشرطیکہ اس آبادی کے باہر کے لوگوں کو آنے سے ممانعت کرنے کی وجہ سے نماز سے روکنا نہ ہو بلکہ کسی دفاعی یا انتظامی وجہ سے مجرد داخلے سے روکنا ہو۔
اگر علامہ شرنبلالیؒ کی مذکورہ بالا عبارت کا یہ مفہوم لیا جائے تو اس پر وہ اعتراض وارد نہیں ہوگا جو علامہ طحطاویؒ نے وارد فرمایا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تعدد جمعہ کی صورت میں "اذن عام" کی شرط فقہاء حنفیہ کے نزدیک بالکلیہ ختم تو نہیں ہوئی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ جس آبادی میں (نہ کہ کسی انفرادی گھر میں) جمعہ پڑھا جارہا ہے اس آبادی کے لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت ہو، اگر آبادی سے باہر کے لوگوں کو دفاع یا انتظام کے پیش نظر اس آبادی سے داخلے سے روکا گیا ہو تو یہ "اذن عام" کے منافی نہیں بشرطیکہ روکنے کا اصل محرک نماز سے روکنا نہ ہو بلکہ کوئی دفاعی یا انتظامی ضرورت ہو اور اس آبادی سے باہر کے لوگ اس پابندی کی بناء پر جمعہ سے محروم نہ ہوتے ہوں۔
اس پر صرف یہ اشکال باقی رہتا ہے وہ یہ کہ فقہاء کرام نے یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ مسجونین کیلئے جمعہ کے دن اپنی علیحدہ ظہر کی جماعت مکروہ ہے (ہدایہ مع فتح القدیر ص۳۵ ج۲ طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجونین کیلئے جمعہ جائز نہیں ورنہ ان کو ظہر کی جماعت کی حاجت ہی نہ ہوتی۔
لیکن اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ علامہ شامی اور علامہ شرنبلالی رحمہما اللہ کی عبارتوں کی روشنی میں یہ حکم اس دور کا ہے جب جمعہ ایک ہی جگہ سلطان کی قیادت میں ہوتا تھا اور سلطان کی طرف سے دوسری جگہ اقامت جمعہ کی اجازت نہیں ہوتی تھی، اس کے علاوہ قید خانے بھی مختلف نوعیتوں کے ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ قید خانہ ہو جو کسی ایک ہی گھر یا ایک ہی احاطے پر مشتمل ہو اور اس پر کسی مستقل آبادی کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ ایک اور اشکال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ "بدائع" میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ:
السلطان اذا صلی فی فھندرۃ و القوم مع امراء السلطان فی المسجد الجامع قال: ان فتح باب دارہ و اذن للعامۃ بالدخول فی فھندرۃ جاز و تکون الصلاۃ فی موضعین و لو لم یاذن للعامۃ و صؒی مع جیشہ لا تجوز صلاۃ السلطان و تجوز صلاۃ العامۃ۔ (بدائع الصنائع ج۱ ص۲۶۹ طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
یہ مسئلہ تعدد جمعہ کی صورت میں مفروض ہے، اس کے باوجود سلطان کے "اذن عام" نہ دینے کی صورت میں نماز جمعہ کو غیر منعقد قرار دیا گیا ہے۔
لیکن بظاہر اس صورت سے مراد یہ ہے کہ سلطان اپنے محل میں صرف اپنے لشکروں اور سپاہیوں کے ساتھ نماز پڑھ لے اور باقی لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہ ہو، چنانچہ مذکورہ عبارت میں ان فتح دارہ الخ کا لفظ اس پر دلالت کر رہا ہے، لہٰذا یہاں ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ
سلطان کا محل اس کی اپنی انفرادی جگہ ہے اور پیچھے گزر چکا ہے کہ انفرادی مقامات پر اس وقت تک جمعہ جائز نہیں ہوتا جب تک اسے عام لوگوں کیلئے کھول نہ دیا گیا ہو لیکن اگر کوئی ایسی آبادی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں تو اس کو اس جزئیہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
(۱) اگر کسی شہر میں جمعہ کی اجازت حاکم کی طرف سے صرف ایک جگہ پڑھنے کی ہو تو جمعہ کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جس پر جمعہ ہے اس کو وہاں آ کر جمعہ پڑھنے کی عام اجازت ہو،ایسی عام اجازت کے بغیر جمعہ صحیح نہیں ہوگا۔
(۲) اسی طرح اگر کسی کا کوئی انفرادی گھر، محل یا دوکان ہو تو اس میں بھی جمعہ پڑھنا اس وقت تک جائز نہ ہو گا جب تک اس گھر، محل یا دوکان میں عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیدی گئی ہو، خواہ شہر میں دوسری جگہ بھی جمعہ ہوتا ہو۔
(۳) اگر کوئی آبادی ایسی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں اور وہ شہر کے اندر بھی ہے لیکن دفاعی، انتظامی یا حفاظتی وجوہ سے اس آبادی میں ہر شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہاں کا داخلہ ان وجوہ کی بنا پر کچھ خاص قواعد کا پابند ہے تو اس آبادی کے کسی حصے میں ایسی جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے جہاں اس آبادی کے افراد کو آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو، مثلاً بڑی جیل، فوجی چھاؤنی، بڑی فیکٹریاں ایسے بڑے ائیرپورٹ جو شہر کے اندر ہوں اور ان میں سینکڑوں لوگ ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن ان میں داخلہ کی اجازت مخصوص قواعد کی پابند ہے تو ان تمام جگہوں پر جمعہ جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ شہر میں داخل ہو اور اس جیل ، چھاؤنی، بڑی فیکٹری، ائیرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن کے تمام افراد کو نماز کی جگہ آکر نماز جمعہ پڑھنے کی کھلی اجازت ہو۔
و اللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۲۲-۵-۱۴۲۲ھ
......
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
(۱) اگر کسی شہر میں جمعہ کی اجازت حاکم کی طرف سے صرف ایک جگہ پڑھنے کی ہو تو جمعہ کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جس پر جمعہ ہے اس کو وہاں آ کر جمعہ پڑھنے کی عام اجازت ہو،ایسی عام اجازت کے بغیر جمعہ صحیح نہیں ہوگا۔
(۲) اسی طرح اگر کسی کا کوئی انفرادی گھر، محل یا دوکان ہو تو اس میں بھی جمعہ پڑھنا اس وقت تک جائز نہ ہو گا جب تک اس گھر، محل یا دوکان میں عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیدی گئی ہو، خواہ شہر میں دوسری جگہ بھی جمعہ ہوتا ہو۔
(۳) اگر کوئی آبادی ایسی ہے جس میں معتد بہ لوگ رہتے ہیں اور وہ شہر کے اندر بھی ہے لیکن دفاعی، انتظامی یا حفاظتی وجوہ سے اس آبادی میں ہر شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہاں کا داخلہ ان وجوہ کی بنا پر کچھ خاص قواعد کا پابند ہے تو اس آبادی کے کسی حصے میں ایسی جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے جہاں اس آبادی کے افراد کو آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو، مثلاً بڑی جیل، فوجی چھاؤنی، بڑی فیکٹریاں ایسے بڑے ائیرپورٹ جو شہر کے اندر ہوں اور ان میں سینکڑوں لوگ ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن ان میں داخلہ کی اجازت مخصوص قواعد کی پابند ہے تو ان تمام جگہوں پر جمعہ جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ شہر میں داخل ہو اور اس جیل ، چھاؤنی، بڑی فیکٹری، ائیرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن کے تمام افراد کو نماز کی جگہ آکر نماز جمعہ پڑھنے کی کھلی اجازت ہو۔
و اللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۲۲-۵-۱۴۲۲ھ
.....
جیل خانے میں نمازِ جمعہ ادا کرنا
س… جیل خانے کے اندر نمازِ جمعہ ہوتی ہے یا نہیں؟
ج… ہمارے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے جہاں اور شرطیں ہیں وہاں ”اِذنِ عام“ بھی شرط ہے، یعنی جمعہ ایسی جگہ ہوسکتا ہے جہاں ہر خاص و عام کو آنے کی اجازت ہو، اور ہر مسلمان اس میں شرکت کرسکے۔ جیل میں اگر یہ شرط پائی جائے تو جمعہ صحیح ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ مسئلہ تو عام کتابوں میں لکھا ہے، لیکن حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جیل میں جمعہ جائز ہے، اور وہ اس کے لئے فقہ کی کتاب کا حوالہ بھی دیتے تھے، جو مجھے مستحضر نہیں، خود مفتی صاحب مرحوم کا عمل بھی جیل میں جمعہ پڑھنے کا تھا۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل
......
سوال # 62588
جیل میں قیدی جمعہ پڑھ سکتے ہیں جبکہ امام بھی قیدی ہو جیل میں مذہبی قیدیوں کو مخصوص چکیوں میں رکھا جاتا ہے اور وہاں عام پولیس ملازمین بھی نہیں آسکتے اور چکیوں سے کچھ دیر کے لئے ٹہلنے کے لیے کھولا جاتا ہے ۔
Published on: Dec 12, 2015 جواب # 62588
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 154-158/L=2/1437-U
اگر وہ جیل شہر یا فنائے شہر میں واقع ہے اور اس جیل کے تمام افراد کو اس جگہ آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو تو مقتدیوں کے لیے جیل میں بھی جمعہ کی نماز باجماعت پڑھنا جائز ہوگا، انتظامی مصلحت سے باہر کے لوگوں کے داخلہ کا ممنوع ہونا مانع نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.....
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/62588
.....
ج… ہمارے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے جہاں اور شرطیں ہیں وہاں ”اِذنِ عام“ بھی شرط ہے، یعنی جمعہ ایسی جگہ ہوسکتا ہے جہاں ہر خاص و عام کو آنے کی اجازت ہو، اور ہر مسلمان اس میں شرکت کرسکے۔ جیل میں اگر یہ شرط پائی جائے تو جمعہ صحیح ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ مسئلہ تو عام کتابوں میں لکھا ہے، لیکن حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جیل میں جمعہ جائز ہے، اور وہ اس کے لئے فقہ کی کتاب کا حوالہ بھی دیتے تھے، جو مجھے مستحضر نہیں، خود مفتی صاحب مرحوم کا عمل بھی جیل میں جمعہ پڑھنے کا تھا۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل
......
سوال # 62588
جیل میں قیدی جمعہ پڑھ سکتے ہیں جبکہ امام بھی قیدی ہو جیل میں مذہبی قیدیوں کو مخصوص چکیوں میں رکھا جاتا ہے اور وہاں عام پولیس ملازمین بھی نہیں آسکتے اور چکیوں سے کچھ دیر کے لئے ٹہلنے کے لیے کھولا جاتا ہے ۔
Published on: Dec 12, 2015 جواب # 62588
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 154-158/L=2/1437-U
اگر وہ جیل شہر یا فنائے شہر میں واقع ہے اور اس جیل کے تمام افراد کو اس جگہ آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو تو مقتدیوں کے لیے جیل میں بھی جمعہ کی نماز باجماعت پڑھنا جائز ہوگا، انتظامی مصلحت سے باہر کے لوگوں کے داخلہ کا ممنوع ہونا مانع نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.....
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/62588
.....
دیکھئے فتاوی عثمانی
سیر حاصل بحث ہے
سیر حاصل بحث ہے
No comments:
Post a Comment