Friday, 19 May 2017

مکڑی کے جالے

ایس اے ساگر
ایک شکارخور، غیر فقاری جانور، جس کا جسم دو قطعات پر مبنی ہو. آٹھ ٹانگیں، بغیر جبڑے کا منہ اور بغیر پر مشتمل اس مخلوق کو عنکبوت، مکڑی یا ہشت کہا جاتا ہے. دنیا بھر میں اس کی بے شمار قسمیں پائی جاتی ہیں جو جگہ اور موسم کے اعتبار سے مختلف رنگ و جسامت کی حامل ہوتی ہیں۔ تاہم تمام مکڑیوں میں جالا بنانے کی صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے۔ یہ جالا ریشمی لحمیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ زیادہ تر مکڑیاں اس جالے کو شکاری ہتھیارکے طور پر استعمال کرکے اپنی خوراک حاصل کرتی ہیں۔ مکٹریوں کی کچھ اقسام بے ضرر ہوتی ہیں جبکہ بعض انتہائی زہریلی بھی ہوتی ہیں۔ ان کی خوراک زیادہ تر کمزور، ناتواں اور چھوٹے کیڑے مکوڑے جیسے چیونٹی، مکھی وغیرہ ہوتی ہے۔
کیا کہتے ہیں محققین؟
بعض محققین کے مطابق مادہ مکڑی بچے دینے کے بعد نر مکڑی اپنے ہی بچوں کے باپ کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ پھر جب اولاد بڑی ہو جاتی ہے، تو اپنی ماں کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ کتنا عجیب و غریب گھرانہ اور یقیناً بدترین گھرانہ ہے۔
فقہاءِ کرام کی وضاحت:
الشیخ محمد صالح المنجد کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کا غارمیں رات گزارنے کا ذکر قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے جسے ذیل میں آپ کے لیے ذکر کیا جاتا ہے :
اول: کتاب اللہ :
کتاب اللہ میں اس قصہ کوبیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{اگرتم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ نے ہی ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے، تو اللہ تعالی نے اپنی طرف سے اس پرتسکین نازل فرماکر ان لشکروں سے ان کی مدد کی جنھیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات نیچی کردی اور اللہ تعالی کا کلمہ ہی بلندوبالا ہے ، اللہ تعالی غالب اورحکمت والا ہے } التوبۃ ( 40 ) ۔
تو یہ آیت اس پر واضح نص ہے کہ مشرکوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی پلاننگ کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے غارمیں رات بسر کی تھی ۔
دوم : حديث نبوی
غار میں رات بسر کرنے کا جو قصہ صحیح احادیث میں وارد ہے وہ کچھ اس طرح ہے :
1 – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشۃ رضى اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں ۔۔۔ پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جبل ثور پر ایک غار میں چلے گئے اوراس میں تین راتیں بسرکیں. ان کے پاس عبداللہ بن ابوبکر رات بسرکرتے تھے جوکہ ایک ذھین تيز اور سمجھ دار نوجوان تھا، وہ سحری کے وقت وہاں سے نکل آتا تو صبح قریش کے ساتھ مکہ میں ہوتا گویا کہ اس نے رات مکہ میں ہی بسر کی ہو، تو قریش جوبھی ان کے خلاف پلان تیار کرتے یہ سن کر اسے یاد کرلیتے اور رات کے وقت غار میں جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دے دیتا ۔۔ الحدیث ۔
اس حديث طویل حدیث کوامام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کرنے سے قبل باب یہ باندھا ہے کہ
:نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کےصحابہ کی مدینہ کی طرف ھجرت۔ دیکھیں حدیث نمبر ( 3905 ) ۔
2 - ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے غار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر کسی نے اپنے قدموں کے نیچے دیکھ لیا تووہ ہمیں دیکھ لےگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے:
اے ابوبکر ( رضي اللہ تعالی عنہ) تیرا ان دنوں کے متعلق کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالی ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3653 ) ۔
مکڑی کے جالے والا قصہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان ( اورجب آپ کے بارہ میں کافر لوگ یہ پلاننگ کرہے تھے آپ کو قید کردیں) کے بارہ میں کہتے ہیں کہ:
ایک رات قریش نے مکہ میں مشورہ کے لئے اکٹھے ہوۓ تو کچھ نے یہ کہا کہ جب صبح ہوتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زنجیروں سے باندھ دو ، اور کچھ کہنے لگے بلکہ اسے قتل کردو، اورکچھ نے یہ کہا کہ اسے یہاں سے نکال دو۔
تو اللہ تعالی نے اس کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودے دی تو علی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بسر کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر غار میں چلے گئے، اور مشرک رات بھر علی رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر پہرہ دیتے رہے، جب صبح ہوئی تو ان کی طرف بڑھے تو جب علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا تواللہ تعالی نے ان کی پلاننگ ختم کرکے رکھ دی ۔
تو وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھنے لگے کہ نبی صلی علیہ وسلم کہاں ہيں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے تو پتہ نہیں، تو وہ ان کی کھوج لگاتے ہوئے پہاڑ تک جاپہنچے تو ان پرنشانات خلط ملط ہوگئے تو وہ پہاڑ پرچڑھ گئے اور غار کے پاس سے گزرے تو اس کے دروازے پر دیکھا کہ مکڑی نے جالا بنا ہوا ہے تو کہنے لگے کہ اگر اس میں جاتا تو یہ دہانے پر یہ جالا نہ ہوتا ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تین راتیں رہے۔ مسند احمد حدیث نمبر ( 3241 ) ۔
اس حديث کی تصحیح میں علماء کرام کا اختلاف ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں اور ابن کثير رحمہ اللہ تعالی نے البدایۃ والنھایۃ ( 3 / 222 ) اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلۃ الضعیفۃ میں اسے ضعیف اور شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ تعالی نے مسند احمد کی تحقیق ( 3251 ) میں یہ کہا ہے کہ اس کی سند میں نظر ہے ۔ ا ھـ اور مسند احمد کے محققین نے ( 3551 )اس کی سند کوضعیف قرار دیا ہے ۔ ا ھـ واللہ اعلم ۔
اور دو کبوتروں کا قصہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایۃ والنھايۃ ( 3 / 223 ) میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ابن عساکر نے روایت کیا ہے ، پھر حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ، اس طریق سے یہ حديث نہایت غریب ہے اور اسےبھی مسنداحمد کے محققین نے ضعیف قرار دیا ہے جس کا ذکر اوپر بیان کیا جاچکا ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی سلسلۃ احادیث الضعیفۃ ( 3 / 339 ) میں کہتے ہیں کہ:
آپ کوعلم ہونا چاہئے کہ غارکے منہ پر مکڑی کا جالا اور کبوتروں والی حدیث صحیح نہیں جوکہ اکثر کتب اورھجرت کے موضوع پر تقاریرمیں بیان کی جاتی ہے ، تو آپ کو اس کے بارہ میں علم ہونا چاہئے ۔ اھـ
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو فرشتوں کا اپنے پروں سے چھپانے کے متعلق طبرانی نے معجم الکبیر ( 24 / 106 - 108 ) میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہما سے ایک لمبی حدیث بیان کی ہے جس میں ہے کہ:
تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آدمی کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو غار کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہرگز نہیں بلاشبہ فرشتوں نےہمیں اپنے پروں سے چھپا رکھا ہے ۔۔۔ الحدیث ۔
تو اس حدیث کی سند میں یعقوب بن حمید بن کاسب المدنی ہے، جس کے بارہ میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔ دیکھیں تھذيب الکمال للمزی ( 32 / 318 - 323 ) ۔
اور اسے ابن معین ، ابوحاتم ، اورامام نسائی رحمہم اللہ تعالی نے ضعیف اور ابوزرعہ رازی نے واھی قرار دیا ہے ، اور ابوداود سجستانی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی مسند میں ایسی احادیث دیکھیں جن کا ہم نے انکار کیا تو ہم نےاس سے اصولی طور پر مطالبہ کیا تو ہم نے دفاع کیا پھر اس نے دوبارہ بیان کردیا تو ہم نے اصول میں احادیث کوتازہ خط سے بدلا ہوا پایا جوکہ مرسل تھیں اس نے انہیں مسند کردیا اور اس میں زیادتی بھی کی۔
اور ابن عدی کا قول ہے کہ اس اور اس کی روایت میں کوئی حرج نہیں ، لاباس بہ ، اور وہ کثیرالحدیث ہے ، اور کثیر الغرائب بھی ہے ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
یہ علماءحدیث میں سے تھا لیکن اس کی منکر اور غریب احادیث ہیں ۔
اور ابن حبان رحمہ اللہ تعالی نے اسے ثقہ کہا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے صدوق لہ اوھام ، یہ صدوق اور اس کے واھمے ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی اس کی احادیث کوحسن قراردیتے ہیں لیکن اس حدیث کو حسن کہنے میں توقف اختیار کیا ہے ۔ دیکھیں ضعیفۃ ( 3 / 263)
تو اس یعقوب کے بارہ میں مقرر یہ ہوا کہ اس کی احادیث حسن ہوتی ہیں اگر تو سند میں کو‏ئی اورعلت نہ ہوتو وہ حدیث حسن ہے ۔
پھر ان کا قول ہے کہ:
طبرانی کا شیخ اوراستاد احمد بن عمرو الخلال المکی کا ترجمہ تومجھے نہیں مل سکا ، اورمعجم الاوسط میں تقریبا سولہ احاديث بیان کی گئی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان کے مشھور شیوخ میں سے ہے تواگر معروف ہویا متابعت بیان کی جائے تو حديث حسن ہے ۔ اھـ
واللہ تعالی اعلم .
https://islamqa.info/ur/27224
قرآن مجید کی سورت 'العنکبوت' میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ سب سے بودا یا، کمزور گھر مکڑی کا ہے - قرآن کا معجزہ دیکھیں، ایک جملے میں ہی اس گھرانے کی پوری کہانی بیان کردی کہ
“بے شک گھروں میں سے سب سے کمزور گھر عنکبوت کا ہے اگر یہ (انسان) علم رکھتے۔”
انسان مکڑی کے گھر کی ظاہری کمزوری کو تو جانتے تھے، مگر اس کے گھرکی معنوی کمزوری یعنی دشمنی اور خانہ جنگی سے بے خبر تھے۔ اب جدید سائنس کی وجہ سے اس کمزوری سے بھی واقف ہو گئے، اس لئے اللہ نے فرمایا اگر یہ علم رکھتے یعنی مکڑی کی گھریلو کمزوریوں اور دشمنی سے واقف ہوتے۔ اس سب کے باوجود اللہ تعالی نے ایک پوری سورت کانام اس بری خصلت والی کیڑے کے نام پر رکھا حالانکہ اس سورت کے شروع سے آخرتک گفتگو فتنوں کے بارے میں ہے۔
سورت کی ابتدا یوں ہے:
"کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس بات پر چھوٹ جائیں گے کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے ایمان لایا ہے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا”
اور فرمایا،
"لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہتے تو ہیں کہ ہم نے ایمان لایا ہے مگر جب ان کو اللہ کی راہ میں اذیت دی جاتی ہے، تو لوگوں کی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھتے ہیں۔"
وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا
ترجمہ: جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر دوسرے سرپرست بنا لئے ہیں انکی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے ۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔
مکڑی کے جالے نازک اور کمزور کے طور پر بیان کرنے کے علاوہ، قرآن پاک نے مکڑی کے گھر یلو تعلقات کے بھی نازک اور ناپائیدار ہونے پر زور دیا ہے۔ یہی مثال ایسی لوگوں کی کمزوریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بھی دی گئی ہے جو دنیا اور اخرت میں تحفظ و کامیابی حاصل کرنے کیلئے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے اسکی امید کرتے ہیں. ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مکڑی کا فتنوں اور آزمائشوں سے کیا تعلق ہے؟ درحقیقت، فتنے، سازشیں اور آزمائشیں بھی مکڑی کی جال کی طرح پیچیدہ ہیں اور انسان کے لئے ان کے درمیان تمیز کرنا ان کو بے نقاب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر اللہ مدد کرے تو یہ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ اس لئے سازشی کفار اور ان کے منافق ایجنٹوں کی تمام چالیں مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہیں اور مسلمانوں کو اللہ کی مدد سے ان کا مقابلہ کر نے کے لئے کمر کس لینا چاہئے، یقینا بہترین انجام تو متقیوں کا ہی ہے!

1 comment:

  1. وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا
    ترجمہ: جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر دوسرے سرپرست بنا لئے ہیں انکی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے ۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔

    "جناب اپ نے یہ غلط ترجمہ کر دیا ہے اس آیت کا "

    ReplyDelete