Tuesday, 23 May 2017

خطبے کی سنتیں و مستحبات

دین اسلام میں خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے۔ اگرچہ صرف ایک بار الحمد اللہ یا سبحٰن اللہ یا لآ اٰلہ الا اللہ کہا، فرض ادا ہو گیا مگر اتنے ہی پر اکتفا ء کرنا مکروہ ہے اور چھینک آئی ، اس پر الحمد للہ کہا یا تعجب کے طور پر سبحٰن اللہ یا لآ الہ الا اللہ کہا تو فرض ادا نہ ہوا۔
خطبہ کا مسنون طریقہ:
خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں: خطیب کا پاک ہونا، منبر پر ہونا، خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا، خطبہ کے لیے سامعین کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہونا، خطبہ سے پہلے اعوذ باللہ آہستہ پڑھنا، اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں، الحمد سے شروع کرنا، اللہ عزوجل کی ثناء کرنا، اللہ عزوجل کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہات دینا، کم از کم ایک آیت تلاوت کرنا، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا، پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت ہونا، اور دوسرے میں مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور حمد و ثنا و شہادت و درود کا اعادہ کرنا، دونوں خطبے ہلکے ہونا اور دونوں خطبوں کے درمیان بقدر تین آیت پڑھنے کے بیٹھنا۔
مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین و عمین مکر مین حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ تعالٰیٰ عنہم کا ذکر ہو۔
حاضرین جمعہ امام کی جانب متوجہ رہیں۔ جو شخص امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف منہ کرے اور دائیں بائیں ہو تو امام کی طرف مڑ جائے ، اور امام سے قریب ہونا افضل ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگے۔ حدیث میں ہے ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں، اس نے جہنم کی طرف پل بنایا‘‘ البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے ۔ خطبہ سننے کی حالت میں دوزانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں۔
جو چیزیں نماز میں حرام ہیں وہ سب خطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں مثلاً کھانا پینا سلام جوابِ سلام وغیرہ اور جب خطیب خطبہ پڑھے تو حاضرین پر سننا اور چپ رہنا فرض ہے ، جو لوگ امام سے دور ہیں کہ خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی انھیں بھی چپ رہنا واجب ہے اور جب خطیب خطبہ کے لیے کھڑا ہو اس وقت سے ختم نماز تک و اذکار تلاوتِ قرآن اور ہر قسم کا کلام منع ہے البتہ صاحب ترتیب اپنی قضا نماز پڑ ھ لے۔ یونہی جو شخص سنت یا نفل پڑھ رہا ہے وہ جلد جلدہ پوری کر لے اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ پاک خطیب نے لیا تو حاضرین دل میں درود شریف پڑھیں۔ زبان سے پڑھنے کی اس وقت اجازت نہیں اور اگر کسی کو بری بات کرتے دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشارے سے منع کر سکتے ہیں ، زبان سے ناجائز ہے۔ ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے۔
عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا سنتِ متواترہ اور مسلمانوں کے قدیمی طریقہ کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں عجم کے کتنے ہی شہر فتح ہو گئے، کئی ہزار مسجد یں بنائی گئیں، کہیں منقول نہیں کہ صحابہ نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں رومی، حبشی، عجمی ابھی تازہ حاضر ہوئے ہیں، عربی کا ایک حرف نہیں سمجھتے مگر کہیں ثابت نہیں کہ حضور نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو یا کچھ ان کی زبان میں فرمایا ہو، ایک حرف بھی ان کی زبان کا خطبہ میں منقول نہیں۔ اب رہا یہ اعتراض کہ پھر تذکیرووعظ سے فائد کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نوکری کے واسطے عمریں انگریزی میں گنواتے ہیں اور عربی زبان جو ایسی متبرک کہ اس میں ان کا قرآن، ان کا نبی عربی، ان کی جنت کی زبان عربی، اس کے لیے اتنی کوشش بھی نہ کریں کہ خطبہ سمجھ سکیں، اعتراض تو انھیں معترضین پر پڑے گا نہ کہ خطیب پر۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D8%B7%D8%A8%DB%81
صرف عربی میں:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرام کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے بلکہ نماز سے قبل یعنی اذان واقامت کا بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا ضروری ہے۔ حتی کہ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے تحریر کیا ہے کہ سجدہ کی حالت میں اور نماز کے آخر میں درود سے فراغت کے بعد عربی زبان میں وہی دعائیں پڑھنی چاہئیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہیں۔ قرآن وحدیث میں وارد دعاؤں کے علاوہ عربی زبان میں نماز میں دعائیں مانگنے کو علماء کرام نے مکروہ قرار دیا ہے، بلکہ علماء کرام کی ایک جماعت نے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز کے اندر دعائیں پڑھنے پر نماز کے اعادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے ہمیں نماز میں تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کچھ نہیں پڑھنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے تھے حتی کہ عجمیوں کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا مگر ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   یا کسی صحابی نے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز پڑھنے کی یا نماز میں کسی دوسری زبان میں دعا مانگنے کی اجازت دی ہو بلکہ صحابۂ کرام پھر تابعین اور تبع تابعین نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام عرب وعجم کو عملی طور پر یہی تعلیم دی ہے کہ نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوتِ قرآن ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، تشہد ، درود اور مخصوص دعائیں صرف عربی زبان میں ہی پڑھنی ہیں۔ احکام شرعیہ کی بنیاد عقل پر نہیں کہ کس کو صحیح یا غلط سمجھتی ہے بلکہ قرآن کریم میں وارد احکام اور صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ سے منقول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اقوال وافعال یعنی احادیث نبویہ پر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا ہے کہ سجدہ کے دوران اور نماز کے آخر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، لیکن صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشا د فرمایا:نماز میں لوگوں کے کلام سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے بلکہ نماز میں صرف اللہ کی تسبیح اور تکبیر اور قرآن کریم کا پڑھنا ہے۔ (صحیح مسلم: باب تحریم الکلام فی الصلاۃ ونسخ ما کان من اباحتہ) اسی لئے نماز کے دوران سلام کا جواب دینا یا کسی چھینکنے والے کے الحمد للہ کہنے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ نمازمیں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا جن کا پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف کی رائے کتابوں میں مذکور ہے، چنانچہ مختلف فیہ مسائل میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو ترجیح دینے والے ہند وپاک کے علماء نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ نماز میں دنیاوی امور سے متعلق دعائیں نہ کی جائیں بلکہ عربی زبان میں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہیں۔ سجدہ کی حالت اور نماز کے آخر میں درود پڑھنے سے فراغت کے بعد کے علاوہ متعدد مواقع ہیں کہ جن میں کی گئی دعائیں قبول کی جاتی ہیں، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والے دعا رد نہیں ہوتی ہے، لہذا اس وقت خوب دعائیں کرو۔ (ترمذی، مسند احمد، ابوداود، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان) اس لئے نماز کے اندر اپنی دنیاوی ضرورتوں کو نہ مانگا جائے بلکہ نماز کے باہر بے شمار اوقات اور حالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان اوقات وحالات میں اپنی، اپنے بچوں اور گھر والوں کی دنیاوی ضرورتوں کو خوب مانگیں۔
حنبلی مکتبِ فکر کی مشہور کتاب (الانصاف) میں تحریر ہے کہ وہ دعائیں جو قرآن کریم میں وارد نہیں ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت نہیں ہیں اور اخروی امور سے متعلق نہیں ہیں تو صحیح مذہب یہی ہے کہ نماز میں اس طرح کی دعائیں نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس نوعیت کی دعاؤں سے نماز باطل ہوجاتی ہے، اکثر علماء کی یہی رائے ہے۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم علامہ ابن قدامہ ؒ نے اپنی کتاب (المغنی ۲ / ۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ نماز میں ایسی دعائیں کرنا جائز نہیں جن کا تعلق دنیا کی لذتوں اور شہوتوں سے ہے اور جن کا تعلق انسانوں کے کلام اور ان کی خواہشوں سے ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اور علماء امت کے اقوال کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوگیا کہ اگر ہم اپنی نماز کے اندر (یعنی سجدہ کی حالت میں اور آخری رکعت میں درود پڑھنے کے بعد) دعا کرنا چاہتے ہیں تو عربی زبان میں صرف وہی دعائیں مانگیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے یا جن کا پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے۔ جن حضرات کو ایسی دعائیں یا د نہیں ہیں تو ان کے لئے نماز کے علاوہ بے شمار اوقات وحالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، مثلاً اذان واقامت کے درمیان کا وقت، فرض نماز سے فراغت کے بعد وغیرہ وغیرہ، ان اوقات وحالات میں جتنا چاہیں اور جس زبان میں چاہیں اپنی اور اپنے بچوں کی دنیاوی واخروی ضرورتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے مانگیں، وہ قبول کرنے والا ہے۔
خطبہ صرف عربی میں:
نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوت قرآن اور رکوع وسجدہ کی تسبیحات وغیرہ کی طرح جمعہ اور عیدین کا خطبہ بھی صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے کیونکہ خطبہ میں وعظ ونصیحت سے زیادہ اللہ کا ذکر مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ نمازِ جمعہ کے لئے خطبہ کا ضروری ہونا، خطبہ پڑھنے کے لئے ظہر کے وقت کا ضروری ہونا، خطبہ کا نمازِ جمعہ سے قبل ضروری ہونا، خطبہ سے فراغت کے بعد بلا تاخیر نمازِ جمعہ کا پڑھنا، خطبہ کے دوران سامعین کا گفتگو نہ کرنا حتی کہ کسی کو نصیحت بھی نہ کرنا، نیز نماز کی طرح بعض احکام کا مسنون ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ میں اصل مطلوب اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور وعظ ونصیحت کی حیثیت ثانوی ہے کیونکہ وعظ ونصیحت کے لئے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ قرآن کریم، سورۃ الجمعۃ (فَاسْعَوْا اِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ) میں وارد ذکر کے لفظ سے اس کی تأیید ہوتی ہے، نیز صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے کہ جب امام خطبہ کے لئے نکلتا ہے تو فرشتے ذکر سننے کے لئے مسجد کے اندر آجاتے ہیں۔ غرضیکہ قرآن وحدیث میں نماز کی طرح خطبہ کو ذکر سے تعبیر کیا ہے یعنی خطبہ نماز کی طرح اللہ کا ذکر یعنی عبادت ہے، لہذا ہمیں خطبہ دینے کے لئے انہیں امور پر انحصار کرنا چاہئے جن کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ملتا ہے۔
اگر جمعہ کا خطبہ کسی دوسری زبان میں دینا جائز ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے پوری زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ اس کا ثبوت ملتا، لیکن تمام عمر نبوی میں اس قسم کا ایک واقعہ بھی مروی نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم   کے بعد صحابۂ کرام بلاد عجم میں داخل ہوکر دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے۔ ان صحابۂ کرام کے خطبوں کے الفاظ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، ان میں کسی ایک صحابی نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی بلاد عجم میں داخل ہونے کے باوجود مخاطبین کی زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں دیا، حالانکہ وہ لوگ احکام شرعیہ سے واقفیت کے لئے آج سے کہیں زیادہ محتاج تھے۔ بہت سے صحابۂ کرام دوسری زبانیں بھی جانتے تھے مگر کسی نے عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں دیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مختلف زبانیں جانتے تھے، اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارس کے رہنے والے تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ روم کے باشندے تھے، بعض صحابۂ کرام کی مادری زبان عربی کے علاوہ دوسری تھی مگر تاریخ میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتا جس میں عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کسی صحابی نے جمعہ کا خطبہ دیا ہو۔ صحابۂ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے بھی عربی زبان میں ہی خطبہ دینے کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ کسی مشہور محدث یا مفسر سے بھی عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سیاسی وانتظامی امور کے لئے مختلف زبانوں کے ترجمان بھی رکھے گئے مگر ایک مرتبہ بھی خطبہ کسی دوسری زبان میں نہیں پڑھا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بعض مقاصد کے لئے اپنے پاس ترجمان رکھے تھے مگر ایک مرتبہ بھی انہوں نے خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبان میں نہیں دیا۔
بر صغیر کی اہم ومعروف شخصیت جن کو ہندوپاک کے تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا ہے یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۷۶۲م) نے اپنی شرح موطا میں تحریر کیا ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ہونا چاہئے کیونکہ تمام مسلمانوں کا مشرق ومغرب میں ہمیشہ یہی عمل رہا ہے باوجودیکہ بہت سے ممالک میں مخاطب عجمی لوگ تھے۔ ریاض الصالحین کے مصنف وصحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار میں تحریر کیا ہے کہ خطبہ کے شرائط میں یہ بھی ہے کہ وہ عربی زبان میں ہو۔ہندوپاک کے جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے کہ خطبہ صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب مخاطبین عربی عبارت کو نہیں سمجھتے تو عربی زبان میں خطبہ پڑھنے سے کیا فائدہ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ خطبہ میں وعظ ونصیحت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر یعنی عبادت ہے، اور عبادت میں اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے صرف انہیں امور پر انحصار کرنا چاہئے جن کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ملتا ہے۔ نیز اگر یہ اعتراض خطبہ پڑھنے پر عائد ہوتا ہے تو نماز، قرأتِ قرآن، اذان واقامت اور تکبیرات نماز وغیرہ سب پر یہی اعتراض ہونا چاہئے بلکہ قرأت قرآن پر بہ نسبت خطبہ کے زیادہ عائد ہونا چاہئے کیونکہ قرآن کے نزول کا تو مقصد ہی لوگوں کی ہدایت ہے، اور عمومی طور پر ہدایت کے لئے صرف تلاوت کافی نہیں ہے بلکہ اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے، مگر دنیا کا کوئی بھی عالم نماز میں عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں قرأت قرآن کی اجازت نہیں دیتا۔
لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرام کی اتباع میں خطبہ صرف عربی زبان میں دیں تاکہ کسی طرح کا کوئی شک وشبہ ہماری عبادت میں پیدا نہ ہو، خواہ خطبہ مختصر ہی کیوں نہ ہو بلکہ خطبہ مختصر ہی ہونا چاہئے کیونکہ احادیث کی کتابوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی تعلیمات مختصر خطبہ دینے کی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم   خود بھی عمومی طور پر زیادہ لمبا خطبہ نہیں دیا کرتے تھے۔ ہاں اذانِ خطبہ سے قبل یا نماز جمعہ کے بعد خطبہ کا ترجمہ مخاطبین کی زبان میں تحریری یا تقریری شکل میں پیش کردیا جائے تاکہ خطبہ کا دوسرا مقصد وعظ ونصیحت بھی مکمل ہوجائے۔
http://www.najeebqasmi.com/articles/urdu-articles/143-prayer-namaz/1327-khutba-in-arabic
سنتیں و مستحبات:
١. طہارت یعنی خطیب کا حدثِ اکبر و اصغر سے پاک ہونا محدث و جنبی کو خطبہ پڑھنا مکروہ ہے اور اس کا لوٹانا مستحب ہے
٢. ستر عورت ہونا، یہ اگرچہ فی ذاتہ فرض ہے خواہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر ہو لیکن خطبے کے لئے سنت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بغیر خطبہ پڑھا تو کراہت کو ساتھ صحیح ہو جائے گا اگرچہ بلا ستر ہونے کا گناہ اس پر الگ لازم آئے گا اس طرح مسجد میں داخل ہونے کے لئے حدث اکبر سے طہارت ہونا واجب ہے لیکن خطبے کے لئے سنت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گا لیکن مسجد میں حدث اکبر کی حالت میں داخل ہونے کا گناہ الگ ہو گا
٣. خطبہ شروع کرنے سے پہلے خطیب کا منبر پر بیٹھنا
٤. خطیب کا منبر پر ہونا اور منبر کا محراب کے بائیں جانب ہونا اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اقتدا کی نیت سے خطبہ پڑھنا
٥. اگر منبر نہ ہو تو عصا(لاٹھی) ہاتھ میں لینا، اور منبر ہو تو عصا ہاتھ میں لینا سنتِ غیر مئوکدہ ہے
٦. جو شہر تلوار سے فتح ہوا ہو اس میں اگر خطیب امام المسلمین یا اس کا نائب ہو تو خطبے کے وقت تلوار گردن میں لٹکائے، بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کے علاوہ اور کوئی ایسا نہ کرے اور جو شہر تلوار سے فتح نہیں ہوا وہاں ایسا نہ کرے
٧. جب خطیب منبر پر بیٹھ جائے تو دوسری اذان اس کے سامنے دینا، یہ اذان خطیب کے سامنے ہونے چاہئے خواہ منبر کے پاس پہلی صف میں ہو یا ایک دو صفوں کے بعد یا ساری صفوں کے بعد مسجد میں ہو یا باہر ہر طرح جائز ہے
٨. خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا عذر کی حالت میں بیٹھ کر خطبہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے اور بلا عذر کراہت کے ساتھ جائز ہے، خطبہ کا کسی کتاب وغیرہ سے دیکھ کر پڑھنا جائز ہے
٩. حاضرین کی طرف منھ اور قبلے کی طرف پیٹھ کرنا اور حاضرین کا قبلہ رو ہو کر بیٹھنا
١٠. خطبہ شروع کرنے سے پہلے اپنے دل میں اعوذباللّٰہ من الشیطٰن الرجیم پڑھنا
١١. خطبہ جہر سے یعنی ایسی آواز سے پڑھنا کہ لوگ سن سکیں لیکن صحیح روایت کی بنا پر اتنی آواز سے پڑھنا کہ پاس والے سن سکیں فرض ہے جیسا کہ فرائض خطبہ میں بیان ہوا اور مناسب درجہ تک بلند آواز سے پڑھنا دونوں خطبوں میں سنت ہے لیکن دوسرے خطبے میں پہلے کی نسبت آواز پست ہو جائز ہے. 

١٢. دو خطبے پڑھنا
١٣. دونوں خطبے عربی میں پڑھنا
١٤. خطبہ الحمد اللّٰہ سے شروع کرنا 
١٥. اللّٰہ تعالی کی حمد و ثنا کرنا جو اس کے لائق ہے 
١٦. شہادتین یعنی اشہد 
١٧. درود شریف پڑھنا 
١٨. وعظ و نصیحت کرنا 
١٩. قرآن مجید کی کچھ آیتوں یا کسی صورت کا پڑھنا اس کی کم سے کم مقدار ایک آیت ہے اور یہ دونوں خطبوں کے لئے الگ الگ سنت ہے 
٢٠. دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھنا کہ تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ سکے یا حسب ضرورت زیادہ وقفہ کرے اس جلسہ کا چھوڑنا برا ہے
٢١. دوسرے خطبے میں مذکورا امور یعنی حمد و ثنا و درود شریف و کلمہ شہادتیں کا اعادہ کرنا 
٢٢. دوسرے خطبے میں وعظ و نصیحت کے بجائے مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا کرنا 
٢٣. خطبے کو زیادہ طویل نہ کرنا بلکہ نماز سے کم رکھنا، دونوں خطبے طوال مفصل کی کسی صورت کے برابر ہوں، اس سے زیادہ کرنا مکروہ ہے
٢٤. دوسرے خطبے میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وصلم کے عال و اصحاب و ازواج متہرات خصوصاً خلفائ راشدین اور آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وصلم کے دونوں چچا حضرت ہمزہ اور حضرت عبّاس رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کا ذکر اور ان کے لئے دعا کرنا مستحسن ہے، صدر اول سے اس پر عمل چلا آ رہا ہے، بادشاہ وقت کے لئے عدل و انصاف وغیرہ کی دعا کرنا لیکن ان کی غلط تعریف کرنا مکروہِ تحریمی ہے بلکہ حرام تک ہے 
٢٥. دوسرا خطبہ الفاظ مسنونہ الحمد اللّٰہ نعمتہ و نستعینہ الخ سے شروع کرنا مستحب و بہتر ہے 
٢٦. خطبے کے وقت حاضرین کا تشہد میں بیٹھنے کی طرح دوزانو بیٹھنا مستحب ہے، چوکڑی مار کر یا دونوں گھٹنے کھڑے کر کے بیٹھنا بھی جائز ہے، یا جس طرح آسانی سے بیٹھ سکے بیٹھ جائے 
٢٧. خطبہ ختم ہونے کے متصل ہی اقامت کہہ کر نماز شروع کرنا
اسلام، زبدة الفقہ، کتاب الصلوٰة
http://www.majzoob.com/1/13/133/1331900.htm

No comments:

Post a Comment