Monday 29 May 2017

مدرسہ کو سرکاری امداد

قوم وملت کے پیشواؤں، ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ نے مودی حکومت کے
کڑوروں روپے ٹھکرادئیے، اور حکومت سے کسی قسم کی امداد لینے سے انکار کردئیے۔جب دارالعلوم نے یہ قدم اٹھایا تو ہمیشہ کی طرح کچھ ضمیر فروش نے نقطہ چینی کی اور اس امداد کو نہ لینے پر تنقید کی، آج کی تحریر انھیں عقل سے پیدل لوگوں کی تیمارداری میں نیٹ سے شائع کررہا ہوں۔
۱۸۵۷ میں جب دہلی پر تاج برطانیہ لہرانے لگا اور ہندوستان میں صدیوں سے چلتے ہوئے تعلیمی نظام کو کلیتاً ختم کر دیا گیا، تو اس وقت دور اندیش، قوم وملت کے لئے جینے والی نفوس  قدسیہ نے مدراس اسلامیہ کا نیا جال بچھا یا، جس کی ایک اہم معتبر تاریخی کڑی دارالعلوم دیوبند ہے، جس کے ’اصولِ ہشتگانہ‘ کے تحت دینی مدارس سرکاری امداد نہ لینے کے پابند ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جس کی پاسداری کرتے ہوئے دارالعلوم نے حکومت کی اس گراں قدر گرانٹ کو قبول کرنے سے انکا کردیا ۔
اس انکار کی بے شمار وجہوں میں سے ایک عظیم وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری امداد دینی مدارس کی آزادی، خودمختاری، عزت و وقار اور اپنے اسلاف کی مسلسل متوارث روایات کے خلاف ہے، کہ دینی مدارس کی حریت فکر و عمل اور آزادی اصل چیز ہے، ہمارے اکابر واسلاف نے اب تک یہی طریقہ کار اختیار کیا ہے کہ حکومت سے کسی قسم کی امداد قبول نہیں کرنی ہے، بلکہ عوامی چندے اور تعاون سے مدارس کام کریں گے۔ سب سے اہم چیز ان مدارس کی آزادی اور خودمختاری ہے، یہ مدارس دین کی صحیح دعوت اور اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت اسی وقت تک کر سکتے ہیں جب تک یہ مکمل طور پر آزاد اور خود مختار رہیں گے، اور مدارس کی آزادی سرکاری امداد سے مجروح ہی نہیں بلکہ بالکلیہ ختم ہی ہوجائیگی، جو لوگ آج مدارس کو گرانٹ دینے میں پیش پیش ہیں وہی کل دفعات ہند کا سہارا لیکر مدارس میں علوم دینیہ کی تعلیم پر روک لگا دیں گے،
جب کہ ملک میں یہ صورتِ حال ہے کہ حکومت سے امداد نہ لینے کہ صورت میں بھی وقتا فوقتا مدارس کو بند کرنے کی سازشیں کی جا تی ہے، کبھی مدارس کو دہشت گردی کے اڈے بتائے جاتے ہیں، کبھی نظام تعلیم کو بدلنے کی پروپیگنڈے بنائے جاتے ہیں، کبھی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو دہشت گرد بتا کر گرفتار کیا جاتا ہے، کبھی مدارس کی تعلیم کو جہالت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اخبار بینوں اور ملکی حالات سے باخبر حضرات پر یہ بات مخفی نہیں ہو گی، کہ جب حکومت نے مدارس اسلامیہ کو گرانٹ دینے کا اعلان کیا، تو ازہر ہند نے اپنی روایت و ثقافت کا ثبوت دیتے ہوئے بالکلیہ لینے سے انکار کر دیا، ابھی یہ بات عوامی مذاکرہ میں چل ہی رہی تھی کہ حکومت نے ایک رنگ اور بدلتے ہوئے اعلان کیا، کہ اب دینی مدارس، مساجد اور مندر وں سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے گا، کتنا مضحکہ خیز انکا یہ اعلان معلوم ہوتا ہے جو حکومت ابھی کڑوروں روپے مدارس کو دان دینے کا برسر اقتدار اعلان کررہی ہے وہی حکومت کچھ ہی دنوں کے بعد مدارس ہی سے پیسے لینے کا اعلان کرتی ہے، اس اعلان کے بعد مسلم پرسنل لا نے جگہ جگہ پروگرام کئے اور حکومت کو انکی غلطی سے آگاہ کیا، اور ان کو بتایا کہ یہ فیصلہ جہاں مذہبی اداروں کے متعلق ظلم ہے وہیں دفعات ہند کے تحت بھی غلط ہے، دفعات ہند میں ایسے ادارہ تو درکنار ایسے شخص سے بھی ٹیکس نہ لینے کا قانون موجود ہے جن کی آمدنی کسی مذہب یا کسی مذہب کے خاص فرقہ کی ترقی کیلئے صراحتاً صرف ہوتی ہو۔
نیز سرکاری امداد پر چلنے والے مدارس کا انجام بھی اہل فکر و نظر سے مخفی نہیں ہے۔ قلیل وکثیر بھارت کے ہر اسٹیٹ میں حکومت کی امداد پر مدارس چل رہے ہیں، ان مدارس کی خودمختاری تو حکومت کی وراثت بن ہی گئی ساتھ ہی نام کے وہ مدارس تو رہے کام کے نہیں، جب ہم بخارا، سمرقند کے مدارس کی حالتیں اپنے اکابرین کی کتابوں میں پڑھتے ہیں تو نہایت افسوس ہو تا ہے، جبکہ ہندوستان کے وہ مدارس جو حکومت کے زیر اثر آگئے ہیں ان مدارس کی حالت بھی بخا را اور سمرقند کے مدارس سے کوئی کم نہیں ہے۔
ابھی حال ہی میں آسام کی موجودہ بی جے پی حکومت نے اپنے ہٹلر شاہی فرمان جاری کیا کہ آسام میں حکومت کے ذریعہ چلنے والے مدارس کو جمعہ کے دن اور رمضان المبارک کے مہینے میں اداروں کو بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، اور کہا کہ جمعہ کی چھٹی غیر قانونی ہے، ہاں جمعہ کی نمازکے لئے ایک گھنٹے کی چھٹی دی جائی گی،
آج برہمن واد کو پھیلانے والی حکومت جمعہ کی چھٹی کو قانون ہند کے خلاف کہتے ہوئے پابندی لگا ری ہے تو کیا بعید ہے ان سے آئندہ نماز جمعہ کیلئے بھی یہ کہکر پابندی لگادیگی، کہ نماز جمعہ کیلئے چھٹی دینا دفعات ہند کےخلاف ہے، اور یہی انکا مقصد ہے، کہ کس طرح سے مدارس سے دینی تعلیم کو ختم کردیا جائے، تو حقیقت میں یہ تعطیل بندی نہیں ہے بلکہ جمعہ بندی ہے ۔
لیکن جب تک مسلم قوم بیدار رہے گی اور اپنے اکابرین واسلاف کے بنائے ہوئے اصول کو بروئے کار لاتی رہے گی، ان شاء اللہ دینی مدارس تو کیا دین کے کسی شعبہ پر حرف نہیں آسکتا ہے، اللہ تعالیٰ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کرے۔
آمین

https://deenimaloomat.blogspot.in/2016/12/blog-post_6.html?m=1

No comments:

Post a Comment