Friday 12 May 2017

حدیث غسلِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراض کی حقیقت

 ایس اے ساگر 
محدثینِ عظام کے مطابق ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار ان حضرات میں ، جن سے کثیر تعداد میں حدیث شریف کی روایات ذکر کی گئی ہیں، چھٹے نمبر پر آتا ہے؛ بلکہ بعض حضرات کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں میں آپ کا نمبر چوتھا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مرویات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی مرویات آپ سے زیادہ ہیں۔ محدثین عظام نے آپ کی مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ (دوہزار دو سو دس) بتلائی ہیں، ان میں تقریباً ۲۷۳ صحیحین یعنی بخاری شریف اور مسلم شریف میں موجود ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہا کا حافظہ نہایت قوی تھا، جو سنتی تھیں وہ صرف وقتی طور پر یاد ہی نہیں ہوجاتا تھا بلکہ دل ودماغ میں نقش ہوکر رہ جاتا تھا۔ حدیث شریف سے آپ کو گہرا تعلق تھا، کسی حدیث کے سلسلے میں اگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شبہ ہوتا تھا، تو آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپ بڑی آسانی کے ساتھ مدلل طور پر شک وشبہ کو رفع کردیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: 
”لوگ قربانی کے گوشت کو ۳ دن سے زیادہ نہ رکھیں.“ 
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم نے یہ سمجھا کہ یہ حکم دائمی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ بات سنی تو فرمایا کہ یہ حکم نہ تو دائمی ہے اور نہ ہی واجب ہے؛ بلکہ مستحب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کو جمع نہ کریں؛ بلکہ دوسروں کو کھلائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ جب آپ روایت کرتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس کی علم وحکمت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں، مثلاً ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے غسلِ جمعہ کے سلسلہ میں صرف اس قدر مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرلینا چاہئے؛ لیکن اس حدیث شریف کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ذکر فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں سے نماز جمعہ کو آیا کرتے تھے، وہ گردوغبار سے اٹے ہوئے اور پسینے سے تر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم آج کے دن غسل کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تفقہ فی الدین دقت نظر قوت حافظہ اور شوق حدیث کے موضوع پر بہت سے حضرات نے قلم اٹھایا ہے، ان میں حضرت علامہ سیوطی رحمہ اللّٰہ بھی ہیں۔ آپ نے ایک رسالہ ”عین الاصابہ“ میں اس قسم کی ۴۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے، جس سے آپ کی دقیق نظر، تفقہ فی الدین، دور اندیشی اور دوربینی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے شاگرد: 
آپ سے تقریباً ۱۰۰ صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کی ہے، مثلاً عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، عبداللہ بن عامر، مسروق بن اجدع، عکرمہ رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر حضرات آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض نے بخاری کی اس حدیث کی من مانی تشریح کی یے جس میں وارد ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھانجے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے بھائی (رضاعی) عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ سے آپ کے بھائی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں پوچھا، 
آپ رضی اللہ عنہا نے ایک برتن میں پانی منگوایا جوصاع (ایک پیمانہ) کے برابر ہوگا اور اس سے غسل کیا اور اپنے سرسے پانی بہایا، ہمارے اور آپ رضی اللہ عنہا کے مابین پردہ تھا۔
(بخاری، كِتَاب الْغُسْلِ،بَاب الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ،حدیث نمبر:۲۴۳، شاملہ، موقع الإسلام)
منکرینِ حدیث اس حدیث کو نہایت تمسخر سے پیش کرتے نظر آتے ہیں اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے، ان کو ہم نے اس بہانے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے  دیکھا ہے۔ بعض اہل علم حضرات نے اس حدیث پر مختصر تبصرہ پیش کیا ہے۔
تبصرہ:
1. اس زمانے میں آج کی طرح مکمل بند غسل خانے نہیں ہوا کرتے تھے، پردے کے پیچھے نہایا جاتا تھا۔ حدیث میں بھی صراحت سے منقول ہے کہ ان کے مابین پردہ تھا۔ یہ ظاہر ھے کہ پردے کے پیچھے نظر آنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا ، ورنہ پردہ کرنے کا کیا مقصد؟
2. راویِ حدیث حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ کے رضائی بھانجے او ر عبداللہ بن یزید حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہاکے رضاعی بھائی تھے چنانچہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے محارم میں سے تھے’اور محارم کے سر کے بال، کان، چہرہ ،بازو، پنڈلیاں، اور پاؤں وغیرہ کی طرف نگاہ جائز ہے۔
(بدائع الصنائع: ۶ /۴۸۹،البحر الرائق:۸ /۳۵۵، حاشیہ ابن عابدین ۵ /۲۵۹)(مواھب الجلیل لشرح مختصرالخلیل:۲ /۱۸۲)(کفایة الاخیار،ص:۴۶۹،۴۷۰، المجموع شرح المہذب :۱۷ /۲۱۵ ، ۲۱۶)(المغنی لابن قدامہ:۷ /۷۵)
3. صحیح مسلم والی روایت میں آیا ھے کہ ترجمہ / مفہوم: سیدہ عائشہ (ر) نے اپنے سر پر تین دفعہ (بال کھولے بغیر) پانی بہایا تھا (320/42)۔ جبکہ باقی جسم کے غسل کا کوئی تذکرہ روایت میں نہیں ھے۔اب اگران حضرات کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سر کان وغیرہ پر کوئی نگاہ پڑی بھی ہے تو اس میں شرعی نقطہ نظر سے کوئی حرج بھی نہیں؛ اس لیے کہ یہ دونو ں ان کے محارم میں سے تھے اور ان کے لیے جسم کے اوپر کے حصے کی طرف نگاہ کرنا جائز تھا۔
4. بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل کی کیفیت بتانے کے لئے غسل نہیں کیا بلکہ انھوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابوسلمہ اور دیگر نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ یہ بالکل ممکن ہے اور دیکھو اب میں نہانے کے لئے جا رہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی. اس کے بعد انھوں نے پردہ ڈالا اور غسل کیا اور یہ ثابت کیا کہ اتنے پانی سے نہانا ممکن ہے۔ اس مفہوم کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث پر ’الغسل بالصاع و نحوہ‘ کا باب باندھا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب منکرین حدیث کی اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے کافی ہے۔ علامہ احمد بن اسماعیل بن عثمان بن محمد کورانی بھی لکھتے ہیں کہ ممکن ہے ان کا پہلے سے غسل کا ارادہ ہو اور اتفاقی طور سے یہ دونوں حضرات بھی آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں پوچھا (دیکھئے :الکوثر الجاری :۱ /۴۰۹ ، ۴۱۰)
5. عرف میں جب کسی سے اس طرح کا کوئی سوال کیا جاتا ہے کہ کتنی مقدار پانی سے غسل کیا جاسکتا ہے؟ یا فلاں کتنے مقدار پانی سے غسل کرتے تھے؟ تو اس کے جواب میں اگر وہ اس مخصوص برتن میں پانی منگوا کر پردے اور حجاب میں رہ کر اتنے پانی سے عملا ًغسل کر کے بتائے کہ اتنی مقدار پانی سے غسل کیا تھا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پوچھنے والوں نے اسے دیکھا ہو۔ اسی طرح یہاں بھی ہوا ہے، مزید برآں جب راوی خودیہ کہہ رہا ہے کہ”ان کے اور ہمارے درمیان پردہ اور حجاب تھا.“ تو پھر اپنی طرف سے اعتراض کشید کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوائے ان نفوسِ قدسیہ سے عداوت کے اظہار کے اور کچھ نہیں۔
6. یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام ہدایت یہ تھی کہ دوران ِغسل ستر کو چھپایا جائے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف عمل کیا ہو؟ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے، پھر کسی ایک بھی صحیح روایت میں نہ تو اس کی صراحت ہے اور نہ ہی کنایتاً اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے لباس کے بغیر غسل کیا ہو، اقرب یہ ہے کہ ان کا یہ غسل لباس پہننے کی حالت میں تھا، لہٰذا ایک شرعی مسئلہ کی تعلیم کے لئے کپڑے پہنے ہوئے ہونے کے باوجود پردے اور حجاب کے اوٹ میں ہوجانا، ان پر اعتراض کی بجائے ان کی حیا اور احتیاط پر دلالت کرتا ہے۔
ایک نیک طینت اور سلیم الفطرت آدمی کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی اور حیا کو بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورت نور میں متعدد آیات نازل فرمائی ہیں اور زبانِ نبوت نے ان کی تعریف و توصیف بیان کی ہے، ہاں کوئی کج فطرت اور ایمان کی حقیقت سے محروم ہو تو اس کے لیے نہ تو اللہ کا کلام کافی ہوسکتا ہے اور نہ ہی ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب نکاح ہوا، تو آپ کی عمر صرف ۶ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی تو ۹ سال تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا  کی عمر ۱۸ سال تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ ۴۸ سال تک زندہ رہیں، اس دوران طویل عرصے میں یعنی تقریباً ۵۷ سال آپ شب وروز دین کی خدمت کرتی رہیں۔ علمِ دین کو پھیلاتی رہیں، صحابیات میں سب سے زیادہ احادیث آپ سے ہی مروی ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment