نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح فرض نہیں؛ بلکہ سنت موٴکّدہ ہے۔ البتہ ۱۴۰۰ سال سے جاری عمل کے خلاف بعض حضرات ۲۰ رکعت نمازِ تراویح کو بدعت یا خلاف ِسنت قرار دینے میں ہر سال رمضان اور رمضان سے قبل اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں، جس سے امت مسلمہ کے عام طبقہ میں انتشار پیدا ہوتا ہے؛ حالانکہ اگر کوئی شخص ۸ کی جگہ۲۰ رکعت پڑھ رہا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہی تو ہے؛ کیونکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے، نیز حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے امت مسلمہ جماعت کے ساتھ ۲۰ ہی رکعت تراویح پڑھتی آئی ہے، حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں آج تک کبھی بھی ۸ رکعت تراویح نہیں پڑھی گئیں۔
اس موضوع سے متعلق احادیث کا جتنا بھی ذخیرہ موجود ہے، کسی بھی ایک صحیح ،معتبر ،اور غیرقابل نقد وجرح حدیث میں نبی اکرم اسے تراویح کی تعداد رکعت کا واضح ثبوت نہیں ملتا ہے، اگرچہ بعض احادیث میں جن کی سند میں یقینا کچھ ضعف موجود ہے ۲۰ رکعت کا ذکر ملتا ہے۔
خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام ہوا،جیساکہ محدثین،فقہاء ، موٴرخین اور علماء کرام نے تسلیم کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ان خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بابت نبی اکرم انے فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ۲ ص ۴۰۱، ج۲۲ ص ۴۳۴)
ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات ۵۷ یا ۵۸ ہجری میں ہوئی او ر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ۱۵ ہجری میں تراویح کی جماعت حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باقاعدہ شروع فرمائی، اگر بیس رکعات تروایح کا عمل بدعت ہوتا تو ۴۲سال کے طویل عرصہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا آٹھ رکعت والی حدیث کو بیس رکعت پڑھنے والوں کے خلاف پیش کرنا ثابت ہوتا؛ حالانکہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے آج تک حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں کبھی بھی ۲۰ سے کم تراویح نہیں پڑھی گئیں۔
تراویح کے معنی:
بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر العسقلانی نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)
نماز تراویح کی فضیلت:
* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔
نماز تراویح کی تعدادِ رکعت:
تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین اورفقہاء کی رائے ہے کہ تراویح ۲۰رکعت پڑھنی چاہئیں۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں۔ جمہور محدثین، فقہائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں :
(۱) امام بخاری نے اپنی مشہور کتاب (بخاری) میں نمازِ تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں؛ جبکہ نماز تراویح کو (کتاب صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، جیساکہ جمہور علماء اور ائمہٴ اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتی تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاری نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔
(۲) تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔
(۳) اگر حضرت عائشہ کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ ۲۰ رکعت تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ۲۰رکعت تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے) اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق اور صحابہٴ کرام کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ ۸ رکعت تراویح کی جگہ ۲۰ رکعت تراویح شروع کردیتے۔ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ ا کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور نبی اکرم ا کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہم سے بہت زیادہ تھا؛ بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سے اپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے۔ نیز نبی اکرم ا کا فرمان ہے : ہم خلفاء راشدین کی سنتوں کوبھی مضبوطی سے پکڑلیں۔ (ابن ماجہ)
(۴) اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے) تو رمضان کے آخری عشرہ میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟
(۵) اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص ۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲) ۔
علامہ شمس الدین کرمانی (شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔ (الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۵۵۔۱۵۶)
حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم ا گیارہ رکعت (وتر کے ساتھ) پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔ (مجموعہ فتاوی عزیزی ص ۱۲۵)
نمازِ تراویح نبی اکرم ا کے زمانے میں:
* حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ انے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ اکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ا نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ، الترغیب فی صلاة التراویح)․․․․․․اِن دو یا تین رات کی تراویح کی رکعت کے متعلق کوئی تعداد احادیثِ صحیحہ میں مذکور نہیں ہے۔
* حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے؛ لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے۔ آپ ا فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح)
صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ا کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی؛ البتہ حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی ہے، اس تبدیلی کی وضاحت مضمون میں محدثین اورفقہائے کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے۔
* حضرت عائشہ کی روایت (جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے؛ کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص۵۸، نسائی ج۱ ص۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے۔
امام محمد بن نضر مروزی نے اپنے مشہور کتاب (قیام اللیل ، ص ۹۱ اور ۹۲) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں؛ مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔
علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (زاد المعاد ص ۸۶) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظ حدیث امام قرطبی کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔ (عینی شرح بخاری ج۷ ص ۱۸۷)
نمازِ تراویح خلفاء راشدین کے زمانے میں:
* حضرت ابو بکر صدیق کے عہد میں کتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہٴ کرام کا کوئی واضح عمل مذکور نہیں ہے۔ گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے رہے، غرضے کہ حضرت ابو بکر صدیق کے عہدِ خلافت (یعنی دو رمضان) میں نماز تراویح باقاعدہ جماعت کے ساتھ ایک مرتبہ بھی ادا نہیں ہوئی ۔
* حضرت عمر فاروق نے جب اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر فاروق نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا، اور عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت ۲۰رکعت نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔
* حضرت عبد الرحمن قاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کردیا ۔ ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ (تہجد) میں سوجاتے ہو ،وہ اس (تراویح) سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان)
* حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہٴ کرام) حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں ۲۳ رکعت (۲۰ تراویح اور۳وتر) ادا فرماتے تھے۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص ۹۸)
* علامہ بیہقی نے کتاب المعرفہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے دور حکومت میں ہم ۲۰ رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ امام زیلعی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (نصب الرای ج ۲ ص ۱۵۴)
* حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں؛ چنانچہ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قراء ت اچھی طرح نہیں کرسکتے۔ اگر آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ پس حضرت ابی بن کعب نے انہیں ۲۰ رکعتیں پڑھائیں۔ (مسند احمد بن منیع بحوالہ اتحاف الخیرة المہرة للبوصیری علی المطالب العالیہ ج۲ ص ۴۲۴)
* موطا امام مالک میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید کی روایت ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح تھیں۔ (فتح الباری لابن حجر ج ۴ ص ۳۲۱، نیل الاوطار للشوکانی ج۲ ص ۵۱۴)
* حضرت محمد بن کعب القرظی (جو جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے دور میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔ ( قیام اللیل للمروزی ص ۱۵۷)
* حضرت یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ (مصنف بن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
* حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب کی امامت پر جمع فرمایا۔ وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔ (ابو داوٴد ج۱ ص ۲۱۱، باب القنوت والوتر)
* حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے دور میں تین رکعت (وتر) اور بیس رکعت (تراویح) پڑھی جاتی تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۰۱، حدیث نمبر ۷۷۶۳)
* حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ہم ۲۰ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے، اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان غنی کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج۲ ص ۴۹۶)
* حضرت ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
* حضرت ابو عبدالرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی نے رمضان میں قاریوں کو بلایا۔ پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے اور حضرت علی خود انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)
نماز ِ تراویح سے متعلق صحابہ وتابعین کا عمل:
* حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا معمول بھی بیس رکعت تروایح اور تین رکعت وتر پڑھنے کا تھا۔ (قیام اللیل للمروزی ص ۱۵۷)
* حضرت حسن بصری حضرت عبد العزیز بن رفیع سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
* حضرت عطا بن ابی رباح (جلیل القدر تابعی، تقریباً ۲۰۰ صحابہٴ کرام کی زیارت کی ہے) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ ) کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے پایا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
* حضرت ابراہیم نخعی (جلیل القدر تابعی، کوفہ کے مشہور ومعروف مفتی) فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت پڑھتے تھے۔ (کتاب الآثار بروایت ابی یوسف ص ۴۱)
* حضرت شیتر بن شکل رحمہ اللہ (نامور تابعی، حضرت علی کے شاگرد) لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)
* حضرت ابو البختری (اہل کوفہ میں اپنا علمی مقام رکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عمر اور حضرت ابو سعید کے شاگرد) ۔ آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
* حضرت سوید بن غفلہ (حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرہ صحابہ کی زیارت کی ہے)۔ آپ کے بارے میں ابو الخضیب فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)
* حضرت ابن ابی ملیکہ (جلیل القدر تابعی، تقریباً تیس صحابہٴ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے) آپ کے متعلق حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
نماز ِ تراویح سے متعلق اکابرین امت کے اقوال:
امام ابو حنیفہ : علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے ہاں قیام رمضان بیس رکعت ہے۔ (بدایہ المجتہد ج۱ ص ۲۱۴)
امام فخر الدین قاضی خان لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔ (فتاوی قاضی خان ج۱ ص۱۱۲)
علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کا صحیح قول یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں صحابہٴ کرام کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)
امام مالک: امام مالک کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی ۳۶ رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔ (بدایہ المجتہد ج۱ ص۲۱۴)
مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کرلیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کردیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں ۳۶ رکعت (۲۰ رکعت تراویح اور ۱۶ رکعت نفل) ہوگئیں۔
امام شافعی : امام شافعی فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔ (قیام اللیل ص۱۵۹) ایک دوسرے مقام پر امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔ (ترمذی ج ۱ ص ۱۶۶) علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے، اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل اور امام داوٴد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)
امام احمد بن حنبل: فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور حضرت سفیان ثوری بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو حضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز حضرت امام احمد ابن حنبل کا استدلال حضرت یزید وعلی کی روایات سے ہے۔ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ جس چیز پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہعمل پیرا رہے ہوں ، وہی اتباع کے لائق ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج۲ ص۱۳۹، صلاة التراویح)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علیو حضرت عمر اور دیگر صحابہٴ کرام سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعت ہیں، حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک اور امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعت پڑھتے دیکھا۔ (ترمذی، ما جاء فی قیام شہر رمضان) امام ترمذی نے اس موقع پر تحریر کیا ہے کہ بعض حضرات مدینہ منورہ میں ۴۱ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ لیکن امام ترمذی نے اہل مکہ یا اہل مدینہ میں سے ۸ تراویح پر کسی کا عمل نقل نہیں کیا۔
مسلم شریف کی سب سے مشہور ومعروف شرح لکھنے والے علامہ نووی جو ریاض الصالحین کے مصنف بھی ہیں فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور تمام علماء متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے؛ البتہ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ گھر میں اکیلا پڑھنا بہتر ہے یا مسجد میں باجماعت؟ تو امام شافعی ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، بعض مالکی اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ باجماعت پڑھنا بہتر ہے؛ چونکہ حضرت عمر فاروق اور حضرات صحابہٴ کرام نے ایسا ہی کیا اور اس پر مسلسل عمل جاری ہے حتی کہ یہ مسلمانوں کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔ (شرح مسلم للنووی، ملخص: الترغیب فی قیام رمضان)
نیز علامہ نووی فرماتے ہے کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعت ہیں، جن میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار ص ۸۳)
علامہ عینی (بخاری شریف کی شرح لکھنے والے) تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان ، حضرت علی کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں۔ (عینی ج۷ ص ۱۷۸)
شیخ امام غزالی فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں جن کا طریقہ معروف ومشہور ہے اور یہ سنت موٴکدہ ہے۔ (احیاء العلوم ج۱ص ۱۳۲)
شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ تراویح نبی اکرم ا کی سنت مبارکہ ہے اور یہ بیس رکعت ہیں۔ (غنیہ الطالبین ص ۲۶۷، ۲۶۸)
مولانا قطب الدین خان محدث دہلوی فرماتے ہیں : اجماع ہوا صحابہ کا اس پر کہ تراویح کی بیس رکعت ہیں۔ (مظاہر حق ج۱ ص۴۳۶)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی سب سے مشہور ومعروف کتاب (حجة اللہ البالغہ) میں تحریر کیا ہے کہ صحابہٴ کرام اور تابعین کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت مقرر ہوئی تھیں؛ چنانچہ فرماتے ہیں کہ صحابہٴ کرام اور تابعین نے قیام رمضان میں تین چیزیں زیادہ کی ہیں :
(۱) مسجدوں میں جمع ہونا؛ کیونکہ اس سے عوام وخواص پر آسانی ہوتی ہے۔
(۲) اس کو شروع رات میں ادا کرنا؛ جبکہ اخیر رات میں پڑھنا زیادہ افضل ہے جیساکہ حضرت عمر فاروق نے اس طرف اشارہ فرمایا۔
(۳) تراویح کی تعداد بیس رکعت۔ (حجة اللہ البالغہ ج۲ ص ۶۷)
مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمرفاروق کے دور میں جو طریقہ بیس رکعت پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ (عون الباری ج۴ ص ۳۱۷)
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی حدیث کی
مکمل عبارت اور اس کا صحیح مفہوم:
عَنْ اَبِی سَلْمیٰ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّہ اَخْبَرَہ اَنَّہ سَألَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَیْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَان رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہ عَلَی اِحْدَی عَشَرَةَ رَکْعَةً یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثاً․ قَالَتْ یَارَسُولَ اللّٰہِ اَتَنَامُ قَبْلَ اَنْ تُوتِرَ فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ! اِنَّ عَیْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ․․ (بخاری، کتاب التہجد)
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھاکرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعت ادا کرتے تھے اوران کی خوبی اور ان کی لمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی خوب اور کتنی لمبی ہوا کرتی تھیں) پھر آپ چار رکعت اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔
﴿وضاحت﴾: یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا اصل تعلق تہجد کی نماز سے ہے اور تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔
اس حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعت ادا کرتے تھے پھر خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعت ادا کرتے تھے، اور پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور جواب کا اصل مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کو بیان کرنا ہے، نہ کہ تعداد رکعت کو۔ بعض حضرات نے تہجد اور تراویح کی نماز کو ایک سمجھ کر حدیث میں وارد گیارہ میں سے آٹھ کے لفظ کو تراویح کے لیے لے لیا؛ لیکن گیارہ رکعت پڑھنے کی کیفیت اور تین رکعت وتر کو نظرانداز کردیا۔
اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعت ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے، تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزاء پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے؛مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا؛ مگر آٹھ رکعت نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا؛ کیونکہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعت پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعت وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرلیا۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت پڑھنے کے بعد سوجاتے پھر وتر پڑھتے تھے؛ حالانکہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور کو چھوڑ نا، یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا؛ بلکہ اپنے اسلاف کے قرآن وحدیث فہمی پر قناعت کرنا ہے اور یہی تقلید ہے؛ حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَا بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعت پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعت ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت)۔غور فرمائیں کہ گیارہ رکعت والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعت والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعت والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعت والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا؛ حالانکہ تیرہ رکعت والی حدیث میں ”کان“ کالفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ماضی استمرار کے لیے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیرہ رکعت پڑھنے کا معمول تھا۔ نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ کی آٹھ رکعت والی حدیث میں تو چار چار رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہے؛ لیکن عمل دو دو رکعت پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہے، اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے: ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ․حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعت ادا کی، پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر وتر پڑھے۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعت کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعت تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ غرضے کہ حضرت عائشہ کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی اس حدیث سے دو دو رکعت پڑھنے کو لیا، تو نہ تو حضرت عائشہ کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث پرعمل ہوا؛ بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی؛ حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے؛ کیونکہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔ امام بخاری تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے، امام بخاری تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کے لیے صحیح بخاری کی سب سے مشہورومعروف شرح "فتح الباری" کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)۔
بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے، سورة المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا......) پڑھ لیں؛ جبکہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ (نسائی، ابن ماجہ) تراویح کا عمل میں نے مسنون قرار دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق کے عہد میں جماعت کے ساتھ بیس رکعت کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ شروع ہونا، روز روشن کی طرح واضح ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال، حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کم کبھی زیادہ پڑھا کرتے تھے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
بعض حضرات نے ابن خزیمہ وابن حبان میں وارد حضرت جابر کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ آپ ا نے رمضان میں آٹھ رکعات تراویح پڑھیں؛ حالانکہ یہ روایت اس قدر ضعیف ومنکر ہے کہ اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ اس میں ایک راوی عیسیٰ بن جاریہ ہے، جس کی بابت محدثین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے پاس منکر روایات ہیں، جیساکہ ۸ رکعت تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات نے دوسرے مسائل میں اس طرح کے راویوں کی روایات کو تسلیم کرنے سے منع کیا ہے۔ اس نوعیت کی متعدد احادیث جمہور مسلمین کے پاس بھی موجود ہیں، جن میں مذکور ہے کہ حضور اکرم انے بیس رکعت تروایح پڑھیں: حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ بیشک نبی اکرم ا ماہِ رمضان میں بلاجماعت بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ (بیہقی، ج۱ ص ۴۹۶، اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں، ابن عدی نے مسند میں اور علامہ بغوی نے مجمع صحابہ میں ذکر کیا ہے) (زجاجة المصابیح)۔۔۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام رافعی کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیس رکعت دو راتیں پڑھائیں پھر تیسری رات کو لوگ جمع ہوگئے؛ مگر آپ باہر تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح کو فرمایا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کو ادا نہ کرسکو؛اس لیے باہر نہیں آیا۔
دوسرے شبہ کا ازالہ:
بعض حضرات نے ایک روایت کی بنیا د پر تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے گیارہ رکعت تراویح کا حکم دیاتھا؛ حالانکہ یہ حدیث تین طرح سے منقول ہے اور حدیث کی سند میں شدید ضعف بھی ہے۔ ۔۔ نیز حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئیں، یہ بات سورج کی روشنی کی طرح محدثین واکابر امت نے تسلیم کی ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔ لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف ہٹ دھرمی ہے۔ امام ترمذی، امام غزالی ، علامہ نووی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ ابن قدامہ ، علامہ ابن تیمیہ اور مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی نے بھی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مفتی محمد حسین بٹالوی نے جب پہلی دفعہ ۱۲۸۴ھ میں باضابطہ طور پر فتوی جاری کیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت اور بیس رکعت بدعت ہے تو اس انوکھے فتوے کی ہر طرف سے مخالفت کی گئی۔ مشہور غیر مقلد بزرگ عالم مولانا غلام رسول صاحب نے خود اس فتویٰ کی سخت کلمات میں مذمت کی، اور اس کو سینہ زوری قرار دیا۔ (رسالہ تراویح ص ۲۸،۵۶)
تیسرے شبہ کا ازالہ:
کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی اکرم ا اور صحابہٴ کرام کے اقوال میں اگر کوئی تضاد ہو تو صحابہ کے اقوال کو چھوڑکر نبی اکرم ا کے قول کو لیا جائے گا۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اِس میں شک بھی کرے ، تو اُسے اپنے ایمان کی تجدید کرنی ہوگی؛ لیکن یہاں کوئی تضاد نہیں ہے؛ کیونکہ نبی اکرم ا کے اقوال وافعال میں کہیں بھی تراویح کی کوئی تعداد مذکور نہیں ہے ۔ نبیِ اکرم ا کی سنتوں سے صحابہٴ کرام کو ہم سے زیادہ محبت تھی۔ اور دین میں نئی بات پیدا کرنے سے صحابہٴ کرام ہم سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔
خصوصی توجہ:
سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لکھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/05-Namaz%20Tarawih_MDU_07_08_July%20&%20August_13.htm
عبادات - صوم (روزہ )
India
سوال # 60129
ہمارے یہاں اخیر رمضان میں شبینہ ہوتا ہے جس میں 6 ،7 حافظ مل کر قرآن کریم مکمل کرتے ہیں اور اسی دوران ناشتہ بھی چلتا ہے اور کسی نے مجھے بتایا ہے کہ شبینہ پڑھنا بدعت ہے تو آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ شبینہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جائز ہے تو کن شرائط کے ساتھ؟
Published on: Jul 9, 2015
جواب # 60129
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 939-768/D=9/1436-Uایک مفصل فتوی تین روز یا پانچ روز میں ختم قرآن کے حکم سے متعلق منسلک کیا جاتا ہے،
ایک روزہ شبینہ میں یہ خرابیاں اگر مستزاد ہوکر پائی جاتی ہوں تو اس کا قابل ترک ہونا صاف ظاہر ہے، ورنہ منسلکہ فتوے کی روشنی میں آپ اپنے یہاں کے شبینہ کے اوصاف تحریر کریں۔
--------------------------------------
تین روزیا پانچ روزکی تراویح کا حکم
(جس میں آدابِ قرآن کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے)
محترمی ،مکرمی حضرت مفتی صاحب مدظلہ! ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ درج ذیل سوال کا جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمائیں گے ۔
سوال:﴿۳۹﴾ ہر شخص بخوبی اس با ت سے واقف ہے کہ رمضان المبارک میں بہت سی جگہوں پر نماز تراویح میں قرآن پاک پورا ہوتا ہے اور مساجد کے علاوہ گھروں میں، کارخانوں میں اور دیگر بہت سی جگہوں پرتین، پانچ، سات اور نو شب میں پورا کردیا جاتا ہے، اور حفاظ کرام جس تیزی سے پورا کرتے ہیں، اس کو سن کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کلام پاک کا کوئی ادب ملحوظ رکھاجاتا ہے، ایسے تیز رو حفاظ کرام عوام میں بھی بے حد مقبول ہوتے ہیں، آں جناب سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر اس طریقہ سے قرآن کریم پڑھنا اور سننا ممنوع ہے، تو عوام مقتدیوں کو کس طریقہ سے منع کیا جائے اور ان کو سمجھانے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ؟نیز آں جناب ممانعت کے اسباب پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ایک تفصیلی اور جامع فتوی آپ کے دار الافتاء سے ایسا جاری ہو کہ ماہِ مبارک میں قرآن کریم کی بے ادبی کو حتی الامکان روکا جاسکے اور پورے مہینے مساجد کلامِ الٰہی کے انوار سے آباد ومعمور رہیں اور چند شب میں پورا کرنے کا یہ سلسلہ قطعاً بند ہوسکے۔
فقط
محمد اظہر انصاری محلہ قاضی سہارن پور (۱۱۹۷/د ۱۴۲۹ئھ)
الجواب وباللہ التوفیق:
نمازتراویح میں تین چیزیں خاص طور پر قابلِ لحاظ ہیں :
(الف) قرآن شریف کا جو حصہ پڑھاجائے، وہ تصحیح اور ترتیل کے ساتھ پڑھاجائے، ارشاد خداوندی ہے : وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (مزمل:۴)، یعنی (قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو، ایک ایک حرف الگ الگ ہو)، لہٰذا ایسی تیز رفتاری سے پڑھنا جس میں حروف کٹ جائیں اور الفاظ کی ادائیگی، صحیح وصاف نہ ہو درست نہیں ہے، قال في الفتاویٰ الہندیة:ویکرہ الإسراع في القراء ة وفي أداء الأرکان کذا في السراجیة، وکلما رتل فہوحسن کذا في فتاوی قاضي خاں(۱)۔
(ب) پورے رمضان میں نماز تراویح کے اندر ایک قرآن کا ختم کرنا سنت ہے، جس میں قرآن پڑھنے اور سننے کے آداب کا پور الحاظ رکھنا ضروری ہے، جس کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، قال في الہندیة:ویکرہ أن یعجل ختم القرآن في لیلة إحدی وعشرین أو قبلہا، وحکی أن المشائخ رحمہم اللّہ تعالٰی جعلوا القرآن علی خمس مائة وأربعین رکوعاً واعلموا ذلک في المصاحف حتی یحصل الختم في لیلة السابع والعشرین، وفي غیرہذا البلدکانت المصاحف معلمة بعشرمن الآیات وجعلوا ذٰلک رکوعاً لیقرأ في کل رکعة من التراویح القدر المسنون، کذا في فتاوی قاضی خان (۲)، وقال الزیلعي: ومنہ من استحب الختم في لیلة السابع والعشرین رجاء أن ینالوا لیلة القدر، لأن الأخبار تظاہرت علیہا، وقال الحسن عن أبي حنیفة رحمة اللہ علیہ: یقرأ في کل رکعة عشر آیات ونحوہا، وہو الصحیح لأن السنة الختم فیہا مرة وہو یحصل بذلک مع التخفیف(۳)، قال في العالمگیري:وینبغي للإمام إذا أراد الختم أن یختم في لیلة السابع والعشرین کذا فی المحیط (۴)۔
عبارتِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ مقدار مسنون کا خیال کرتے ہوئے، ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، اس مقدار کو مشائخ فقہاء نے مستحب قرار دیا ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے، تاکہ ستائیسویں شب میں قرآن کا ختم ہوجائے، جس سے لیلة القدر کی فضیلت بھی حاصل ہوسکے گی، اور تخفیف وسہولت کی رعایت کے ساتھ ایک قرآن ختم ہوجائے گا، کیوں کہ امام کو نماز میں تخفیف کی ہدایت فرمائی گئی ہے، قرآن سننے میں اگر لوگ کسل مندی کریں اور آداب استماع (غور سے سننے) کی رعایت ملحوظ نہ رکھیں تو مقدار مذکور میں تخفیف بھی کی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ قرأت قرآن اور اس کے استماع کے آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، کم از کم ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں سورہ فاتحہ کے ساتھ پڑھ کر نماز تراویح اگر ادا کی جائے تو بھی درست ہے کہ لوگ رغبت سے تراویح کی نمازیں ادا کریں او ر مسجد یں غیر آباد نہ ہوں ، قال في الدر المختار: والختم مرة سنة أي قرائة الختم في صلاة التراویح سنة، ومرتین فضیلة، وثلاثا أفضل ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأ فضل في زماننا قدرما لا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ، وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلا ثاً قصاراً أو آیة طویلة في الفرض، فقد أحسن ولم یسئی فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدی أفتی أبو الفضل الکرمانی الوبری أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحة وآیة أو آیتین لایکرہ ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ، فہو جاہل(۱)، قال في البحر:فالحا صل أن المصحح في المذہب أن الختم سنة لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیرمن المساجد خصوصا في زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم(۲)، والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث آیات قصاراً أو آیة طویلة حتی لا یمل القوم ولا یلز م تعطیل المساجد وہذا أحسن کذا في الزّاہدي (۳)۔
پس معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن پڑھنے میں جلد بازی کرنا مکروہ ہے، اسی طرح اتنی مقدار پڑھنا کہ لوگوں کو گرانی ہو اور بے رغبتی سے لوگ سنیں مکروہ ہے ۔
(ج) تراویح کی بیس رکعت رمضان کے پورے ماہ پڑھنا، جس میں ایک قرآن جو اطمینان کے ساتھ صحیح اور درست پڑھا گیا ہو، لوگ پورا سن لیں ، پھر مہینہ کے باقی دنوں میں مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھتے رہیں یا قرآن سننے کے شوق میں ایک کی بجائے دو تین قرآن بھی دل چسپی اور رغبت کے ساتھ سن لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛بلکہ موجبِ فضیلت وثواب ہے ،قال في الدر: والختم مرة سنة ومرتین فضیلة وثلاثا أفضل(۱)لیکن قرآن پوراہونے کے بعد باقی دنوں میں نماز تراویح چھوڑدینا مکروہ اور بڑی فضیلت سے محرومی ہے ،قال في الہندیہ: لو حصل الختم لیلة التاسع عشر أوالحادی والعشرین لا تترک التراویح في بقیة الشہر لأنہا سنة کذا في الجوہرة النیرة،الأصح أنّہ یکرہ لہ الترک کذا في السّراج الوہاج(۲)۔
محمد اظہر انصاری محلہ قاضی سہارن پور (۱۱۹۷/د ۱۴۲۹ئھ)
الجواب وباللہ التوفیق:
نمازتراویح میں تین چیزیں خاص طور پر قابلِ لحاظ ہیں :
(الف) قرآن شریف کا جو حصہ پڑھاجائے، وہ تصحیح اور ترتیل کے ساتھ پڑھاجائے، ارشاد خداوندی ہے : وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (مزمل:۴)، یعنی (قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو، ایک ایک حرف الگ الگ ہو)، لہٰذا ایسی تیز رفتاری سے پڑھنا جس میں حروف کٹ جائیں اور الفاظ کی ادائیگی، صحیح وصاف نہ ہو درست نہیں ہے، قال في الفتاویٰ الہندیة:ویکرہ الإسراع في القراء ة وفي أداء الأرکان کذا في السراجیة، وکلما رتل فہوحسن کذا في فتاوی قاضي خاں(۱)۔
(ب) پورے رمضان میں نماز تراویح کے اندر ایک قرآن کا ختم کرنا سنت ہے، جس میں قرآن پڑھنے اور سننے کے آداب کا پور الحاظ رکھنا ضروری ہے، جس کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، قال في الہندیة:ویکرہ أن یعجل ختم القرآن في لیلة إحدی وعشرین أو قبلہا، وحکی أن المشائخ رحمہم اللّہ تعالٰی جعلوا القرآن علی خمس مائة وأربعین رکوعاً واعلموا ذلک في المصاحف حتی یحصل الختم في لیلة السابع والعشرین، وفي غیرہذا البلدکانت المصاحف معلمة بعشرمن الآیات وجعلوا ذٰلک رکوعاً لیقرأ في کل رکعة من التراویح القدر المسنون، کذا في فتاوی قاضی خان (۲)، وقال الزیلعي: ومنہ من استحب الختم في لیلة السابع والعشرین رجاء أن ینالوا لیلة القدر، لأن الأخبار تظاہرت علیہا، وقال الحسن عن أبي حنیفة رحمة اللہ علیہ: یقرأ في کل رکعة عشر آیات ونحوہا، وہو الصحیح لأن السنة الختم فیہا مرة وہو یحصل بذلک مع التخفیف(۳)، قال في العالمگیري:وینبغي للإمام إذا أراد الختم أن یختم في لیلة السابع والعشرین کذا فی المحیط (۴)۔
عبارتِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ مقدار مسنون کا خیال کرتے ہوئے، ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، اس مقدار کو مشائخ فقہاء نے مستحب قرار دیا ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے، تاکہ ستائیسویں شب میں قرآن کا ختم ہوجائے، جس سے لیلة القدر کی فضیلت بھی حاصل ہوسکے گی، اور تخفیف وسہولت کی رعایت کے ساتھ ایک قرآن ختم ہوجائے گا، کیوں کہ امام کو نماز میں تخفیف کی ہدایت فرمائی گئی ہے، قرآن سننے میں اگر لوگ کسل مندی کریں اور آداب استماع (غور سے سننے) کی رعایت ملحوظ نہ رکھیں تو مقدار مذکور میں تخفیف بھی کی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ قرأت قرآن اور اس کے استماع کے آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، کم از کم ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں سورہ فاتحہ کے ساتھ پڑھ کر نماز تراویح اگر ادا کی جائے تو بھی درست ہے کہ لوگ رغبت سے تراویح کی نمازیں ادا کریں او ر مسجد یں غیر آباد نہ ہوں ، قال في الدر المختار: والختم مرة سنة أي قرائة الختم في صلاة التراویح سنة، ومرتین فضیلة، وثلاثا أفضل ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأ فضل في زماننا قدرما لا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ، وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلا ثاً قصاراً أو آیة طویلة في الفرض، فقد أحسن ولم یسئی فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدی أفتی أبو الفضل الکرمانی الوبری أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحة وآیة أو آیتین لایکرہ ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ، فہو جاہل(۱)، قال في البحر:فالحا صل أن المصحح في المذہب أن الختم سنة لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیرمن المساجد خصوصا في زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم(۲)، والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث آیات قصاراً أو آیة طویلة حتی لا یمل القوم ولا یلز م تعطیل المساجد وہذا أحسن کذا في الزّاہدي (۳)۔
پس معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن پڑھنے میں جلد بازی کرنا مکروہ ہے، اسی طرح اتنی مقدار پڑھنا کہ لوگوں کو گرانی ہو اور بے رغبتی سے لوگ سنیں مکروہ ہے ۔
(ج) تراویح کی بیس رکعت رمضان کے پورے ماہ پڑھنا، جس میں ایک قرآن جو اطمینان کے ساتھ صحیح اور درست پڑھا گیا ہو، لوگ پورا سن لیں ، پھر مہینہ کے باقی دنوں میں مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھتے رہیں یا قرآن سننے کے شوق میں ایک کی بجائے دو تین قرآن بھی دل چسپی اور رغبت کے ساتھ سن لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛بلکہ موجبِ فضیلت وثواب ہے ،قال في الدر: والختم مرة سنة ومرتین فضیلة وثلاثا أفضل(۱)لیکن قرآن پوراہونے کے بعد باقی دنوں میں نماز تراویح چھوڑدینا مکروہ اور بڑی فضیلت سے محرومی ہے ،قال في الہندیہ: لو حصل الختم لیلة التاسع عشر أوالحادی والعشرین لا تترک التراویح في بقیة الشہر لأنہا سنة کذا في الجوہرة النیرة،الأصح أنّہ یکرہ لہ الترک کذا في السّراج الوہاج(۲)۔
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کے بعض دنوں میں تراویح میں ایک قرآن ختم کرلینے سے باقی دنوں کی نماز تراویح ساقط نہیں ہوتی؛ بلکہ تراویح کی سنیت بر قرار رہتی ہے اور اس کا ترک کرنا مکروہ اور فضیلت سے محرومی کا باعث ہے ۔
حاصل یہ کہ تراویح میں ختم قرآن کے لیے یہ چند امور ضروری ہیں جن کا خاص لحاظ رکھنا چاہیے؛ (۱)قرآن صاف صاف پڑھاجائے، اتنی جلدی نہ پڑھا جائے کہ حروف سمجھ میں نہ آئیں،
حاصل یہ کہ تراویح میں ختم قرآن کے لیے یہ چند امور ضروری ہیں جن کا خاص لحاظ رکھنا چاہیے؛ (۱)قرآن صاف صاف پڑھاجائے، اتنی جلدی نہ پڑھا جائے کہ حروف سمجھ میں نہ آئیں،
(۲) سننے والوں کا آدابِ استماع کا خیال رکھنا
(۳) اتنی مقدار پڑھی جائے کہ قوم کسل مند نہ ہو،
(۴) سنانے والے کا معاوضہ نہ لینا،
(۵) حفاظ کو ریا ونمود مقصود نہ ہو نا،
(۶) ختم قرآن ایک مرتبہ کرلینے کی بنا، پر باقی ایام کی تراویح کا تارک نہ بننا، (۷) تراویح غیر مسجد میں پڑھنے کی صورت میں نماز عشاء مسجد کی جماعت کے ساتھ پڑھی جائے ۔
ان امور مذکورہ کی رعایت کرتے ہوئے اگر لوگ رغبت وشوق سے سننے کے لیے تیار ہوں تو ۳/۵/۷/۱۰/۱۵/ دن میں بھی ختم قرآن کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
لیکن ۳/۵/۷/دن میں ختم قرآن کا جو رواج شہروں میں پایا جارہا ہے، اس میں بالعموم درج ذیل مفاسد کل یا بعض پائے جاتے ہیں:
ان امور مذکورہ کی رعایت کرتے ہوئے اگر لوگ رغبت وشوق سے سننے کے لیے تیار ہوں تو ۳/۵/۷/۱۰/۱۵/ دن میں بھی ختم قرآن کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
لیکن ۳/۵/۷/دن میں ختم قرآن کا جو رواج شہروں میں پایا جارہا ہے، اس میں بالعموم درج ذیل مفاسد کل یا بعض پائے جاتے ہیں:
(۱) ترتیل وتجوید کو جلدی کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے، بعض جگہ تو اس قدر پڑھنے میں جلدی کی جاتی ہے کہ حروف سمجھ میں نہیں آتے ،نہ زبر کی خبرنہ زیر کی، نہ غلطی کا خیال، نہ تشابہ کا،
(۲) حفاظ کو عوض مالی کی امید ہونا،
(۳) امام کو تخفیف صلاة کا حکم ہے اس کی مخالفت کا پایا جانا،
(۴) جماعت میں شرکت کرنے والوں کاآدابِ استماع کا ضائع کرنا؛ کوئی بیٹھا ہے ، تو کوئی سو رہا ہے، تو کوئی باتیں کر رہاہے، تو کوئی امام کے رکو ع میں جانے کا منتظر ہے، کوئی
”إذا قاموا إلَی الصّلاة قاموا کسالٰی“
کا مصداق بنا ہوا ہے، لوگوں کا شور وشغب کرنا، اور ان کے آمد ورفت کی چہل پہل مستزاد ہے،
(۵) بہت کم لوگ قرآن سے شغف یا اس کے سننے سے دلچسپی کی وجہ سے شرکت کرتے ہیں ،
(۶) اکثر لوگ رمضان کے باقی دنوں کی تراویح سے چھٹی حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوتے ہیں ، (۷) تراویح کی معیت میں عشاء کی فرض نماز غیر مسجد میں جماعت سے پڑھنے کے رواج کا عام ہونا، (۸) اس بنا پر مسجد کی جماعت کا کم ہوجانا،
(۹) ریاء ونمائش کے ساتھ ۳/۵/۷/ دن میں ختم قرآن کا انتظام واعلان کیا جانا، دعوت شیرینی کا اہتمام ہونا،(۱۰) اس کے لیے باقاعدہ چندہ کیا جانا،اس وقت نوجوانوں میں ا س رسمی مروجہ ختم قرآن کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہاہے، جس کی وجہ سے مسجدوں میں نماز تراویح کے لیے لوگوں کی شرکت کم ہونے لگی، بھیڑنمازیوں کی ان جگہوں میں اکٹھا ہوتی ہے، جہاں ۳ / ۵ / ۷ /دنوں میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے، پھر ان مسجدوں میں بھی اخیر ماہ مبارک تک تراویح میں اقل قلیل افرادرہ جاتے ہیں، اور ختم قرآن کے بعد باقی دنوں میں کم ہی لوگ تنہا یا جماعت سے نماز تراویح ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں ۔
لہٰذا مذکورہ بالا قباحتوں کی وجہ سے اس رجحان کو کم کرنے اور لوگوں کو نماز تراویح، نیزختم قرآن کا اصل حکم بتلانے کی ضرورت ہے؛ تاکہ لوگ مروجہ طریقہ کو ختم کرتے ہوئے تراویح کا اہتمام مسجدوں ہی میں کریں اور قرآن سننے سنانے کا عمل پورے ماہ برقرار رکھیں، تاکہ نمازیوں کی تعداد اخیر عشرہ کی تراویح میں بھی اسی قدر نظر آئے، جتنی کہ آغاز ماہ میں نظر آتی ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالا قباحتوں کی وجہ سے اس رجحان کو کم کرنے اور لوگوں کو نماز تراویح، نیزختم قرآن کا اصل حکم بتلانے کی ضرورت ہے؛ تاکہ لوگ مروجہ طریقہ کو ختم کرتے ہوئے تراویح کا اہتمام مسجدوں ہی میں کریں اور قرآن سننے سنانے کا عمل پورے ماہ برقرار رکھیں، تاکہ نمازیوں کی تعداد اخیر عشرہ کی تراویح میں بھی اسی قدر نظر آئے، جتنی کہ آغاز ماہ میں نظر آتی ہے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ الاحقرزین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی دار العلوم دیوبند ۲۵/۷/۲۹ھ
الجواب صحیح :حبیب الرحمن عفا عنہ،محمد ظفیر الدین غفرلہ، محمود حسن غفرلہ بلند شہری ،
فخر الاسلام عفی عنہ،وقار علی غفر لہ،
حواشی
----------------------------------------------------
(۱-۲) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۳) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۴) الفتاوی الہندیة، فصل في التروایح:۱/۱۱۸․
(۵-۶) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۸․
(۷) الفتاوی الہندیة․،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۸) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۹) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
--------------------------------------
کتبہ الاحقرزین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی دار العلوم دیوبند ۲۵/۷/۲۹ھ
الجواب صحیح :حبیب الرحمن عفا عنہ،محمد ظفیر الدین غفرلہ، محمود حسن غفرلہ بلند شہری ،
فخر الاسلام عفی عنہ،وقار علی غفر لہ،
حواشی
----------------------------------------------------
(۱-۲) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۳) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۴) الفتاوی الہندیة، فصل في التروایح:۱/۱۱۸․
(۵-۶) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۸․
(۷) الفتاوی الہندیة․،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۸) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۹) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
--------------------------------------
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Sawm-Fasting/60129
No comments:
Post a Comment