یہ خبر تو بار بار آپ نے پڑھی ہوگی کہ 5 سال سے 20 سال تک جیل میں بند رکھ کر عدالت نے اس لئے باعزت بری کردیا کہ پولیس کوئی ثبوت اور کوئی ایسا گواہ پیش نہیں کرسکی جس سے یہ ثابت ہوجاتا کہ ملزم نے واقعی وہ جرم کیا ہے یا وہ جرائم کئے ہیں جن کی بناء پر اسے جیل میں رکھا گیا۔ لیکن یہ پہلی بار پڑھ رہے ہوں گے کہ ’’عدالت نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ ملزمین کی تعلیمی لیاقت کے اعتبار سے جتنے دن انہوں نے جیل کی صعوبت برداشت کی ہے، انہیں اس کا معاوضہ دیا جائے‘‘۔
اس موضوع پر لکھنے کا سبب یہی ہدایت بنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جج کوئی بھی ہو وہ ماتحت عدالت کی کرسی پر ہو یا سیشن جج ہو یا ہائی کورٹ کی کرسی پر، ان کو بتایا گیا ہے کہ جیل میں جب تک مقدمہ کا فیصلہ نہ ہوجائے ملزم کو صبح ناشتہ دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا دیا جاتا ہے۔ اور اتنا دیا جاتا ہے جو اچھی سے اچھی خوراک کھانے والے کے لئے بھی کافی ہوتا ہے۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ کھانا کیسا ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں اگر میں لکھوں تو مضمون پورا ہوجائے۔ بس یہ لکھ رہا ہوں کہ شاید یہ کسی جج کو معلوم نہ ہوگا کہ اگر گھر سے مدد، سامان اور پیسوں کی شکل میں نہ آئے تو صرف ان لوگوں کا پیٹ بھر جاتا ہے جو اگر نہ کھائیں تو سوکھ جائیں اور مرجائیں۔ ایسے لوگوں کو بیرک کے پنچ ان لوگوں کی خدمت میں لگا دیتے ہیں جن کے حالات اچھے ہوتے ہیں اور وہ صرف جیل میں عیش کرنا چاہتے ہیں۔ جیل میں رہ کر ہی معلوم ہوا کہ روٹی جلانے کے کام بھی آتی ہے۔ اکثر حوالاتی جن کی روٹیاں بچ جاتی ہیں وہ انہیں سکھالیتے ہیں اور پھر اینٹوں کا چولھا بناکر دال یا سبزی کو کھانے کے قابل بنانے کے لئے روٹی جلاتے ہیں اور وہ لکڑی سے زیادہ اچھی جلتی ہے۔
جیل میں ہم 9 مہینے رہے ہفتہ میں دو بار گھر سے ہری سبزی اور ناشتہ کا سامان آتا تھا اور صبح ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا بیرک میں ہی پکتا تھا ہم ڈی آئی آر دفعہ کے تحت بند تھے یہ سیاسی دفعہ ہے جو سیاسی لیڈروں یا اخبار والوں کے خلاف لگائی جاتی ہے۔ ہم اپنی ضرورت کی ہر چیز جیلر صاحب سے اجازت لے کر منگواتے تھے اور وہ ہر مرتبہ یہ کہتے تھے کہ میں اجازت نہیں دے سکتا لیکن اگر آپ منگوالیں گے تو میں اس پر اعتراض نہیں کروں گا اور اس خوبصورت اجازت کی وجہ سے ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو ہماری ضرورت کی ہو اور وہ موجود نہ ہو یا گھر سے نہ آسکے۔
محترم جج صاحب نے گلزار وانی کی لیاقت کے اعتبار سے جو اجرت بنتی ہو اور کچھ رقم وہ جو اُن کو اذیت پہونچی وہ صوبائی حکومت کو ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن اس کا کیا ہوگا جو اُن کے جیل میں رہنے کی وجہ سے ان کے گھر پر گذری؟ اگر معاملہ بارہ بنکی کا ہے تو وہ نہ جانے جیل سے کتنی دور رہتے ہوں؟ وہاں سے ہفتہ میں ایک بار ہی سہی ملاقات کے لئے آنے والوں نے کتنا خرچ کیا اور گڑ، چنے ، صابن یہ وہ چیزیں ہیں جو غریب سے غریب اپنے گھر سے منگواتا ہے کیونکہ جیل سے جو ملتا ہے وہ رجسٹر میں لکھنے بھر کا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو بعض دن گڑ سے ہی روٹی کھانا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس کی گرفتاری کے بعد اہل خانہ بیوی بچے بہن بھائی اور بوڑھے ماں باپ پر کیا گذری؟ یہ باتیں ہیں جو جیل میں رہنے کی وجہ سے ہم نے برداشت کی ہیں اور جس کے معاوضہ کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔
میرا اپنا کاروبار پریس کا تھا ندائے ملت اخبار کا دفتر بھی اسی عمارت میں تھا میں دونوں کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے تھا میری گرفتاری ندائے ملت کے اکاؤنٹ افسر اور سرکولیشن منیجر کی میرے ساتھ گرفتاری کی وجہ سے دونوں کاروبار ٹھپ ہوگئے۔ اخبار اور پریس کو کتنا نقصان ہوا اس کا کوئی حساب نہیں۔ ایسا ہی ان 16 سال کے بعد باعزت رِہا ہونے والوں کا معاملہ ہے۔ جو نقصان اُن کے موجود نہ ہونے سے ہوا وہ اپنی جگہ اور جو مقدمہ کی پیروی وکیلوں کی فیس پیشکار کی رشوت اور جیل آنے جانے کے اخراجات اور اس دن کی آمدنی کا نقصان کیا صرف اس رقم سے پورا ہوجائے گا جو حکومت سے ملے گی؟ وہ بھی اگر ملی؟ اور یہ فیصلہ سونے کے قلم اور سونے کے پانی ہی سے لکھنے کے قابل ہے کہ وہ تمام روپئے ان پولیس والوں سے لے کر دیا جائے جنہوں نے جان بوجھ کر جھوٹا مقدمہ بنایا اور ہر گرفتاری کی طرح گلزار کو بھی پکڑا کہیں،رکھا کہیں اور دِکھایا کہیں۔
انشاء اللہ چار دن کے بعد رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہوگا اور دین کا وہ کاروبار شروع ہوگا جس میں اتنا نفع ہوتا ہے جتنا دنیا کے کسی کاروبار میں نہیں کہ ہر نیکی کا 70 گنا ثواب ملے گا۔ ہم نے پہلے بھی توجہ دلائی ہے اور پھر لکھ رہے ہیں کہ مولانا ارشد مدنی جو کام کررہے ہیں میرے جیسے گناہگار اور جیل کے تجربہ کار کی نظر میں سب سے بڑا کام یا سب سے بڑے کاموں میں سے ایک ہے۔ جو لوگ جیل میں نہیں رہے اور جیل کے معاملات کو ایک اخبار نویس کی طرح نہیں دیکھا وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ جیل کی زندگی کیا ہے؟
ہم اخبار والے تھے جیل کے بڑے چھوٹے افسر سب ڈرتے تھے کہ ہم باہر جاکر نہ جانے کیا کیا لکھیں؟ اس لئے وہ ہمیں تو مہمان سمجھتے تھے لیکن جیل کے دوسرے حوالاتیوں میں دو طرح کے ملزم ہوتے ہیں ایک وہ جنہوں نے کچھ کیا ہے اور ایک وہ جنہوں نے کچھ نہیں کیا۔ جو کرکے آتے ہیں وہ مست رہتے ہیں اور جو بے گناہ ہوتے ہیں ان کا ایک گھنٹہ ایک مہینہ کی طرح گذرتا ہے۔ ہم نے جیل میں ہر طرح کے لوگوں سے انٹرویو لئے۔ اس وقت ارادہ تھا کہ وہ سب چھاپ دیں گے لیکن بعد میں ارادہ بدل دیا۔
عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ رمضان المبارک میں عام طور پر زکوٰۃ کی رقم نکالی جاتی ہے۔ (خیال یہ ہے کہ وہ بھی 70 گنا ثواب لینا چاہتے ہوں گے) اس رقم میں سے ایک معقول حصہ ان لوگوں کے لئے اگر مخصوص کرکے مولانا ارشد مدنی کو بھیجا جائے تو ایک تو 70 گنا ثواب رمضان کی وجہ سے ہوگا اور جو دعائیں حوالاتی خود، ان کی بیوی بچے اور بوڑھے ماں باپ دیں گے اس کا اندازہ صرف ہم جیسے ہی کرسکتے ہیں جنہوں نے بے گناہوں کو چھپ چھپ کر روتے اور مولا کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا ہے۔ وہ جتنے دن بھی رہتے ہیں چپ رہتے ہیں۔ اور ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جن پارٹیوں سے قدرت نے حکومت چھینی اور کانگریس کو خاص طور پر شیر سے لومڑی بنا دیا وہ ان کی ہی بددعاؤں کا نتیجہ ہے جو خود بھی برسوں تڑپے اور ان کے گھر کے ہر فرد کو تڑپنا پڑا۔ عزیزم گلزار وانی کو رِہائی مبارک، آنے والا رمضان مبارک اور آنے والی عید مبارک اب ایک فرض ان کے اوپر یہ بھی ہے کہ وہ جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو مولانا ارشد مدنی اور جج صاحب کو نہ بھولیں۔ خدا کرے جتنے اور بے گناہ ہیں وہ مسلمان ہوں یا ہندو سب باہر آجائیں اور پولیس کے ہر افسر سے وصول کرکے انہیں کنگال بنا دیا جائے۔
از: حفیظ نعمانی
اس موضوع پر لکھنے کا سبب یہی ہدایت بنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جج کوئی بھی ہو وہ ماتحت عدالت کی کرسی پر ہو یا سیشن جج ہو یا ہائی کورٹ کی کرسی پر، ان کو بتایا گیا ہے کہ جیل میں جب تک مقدمہ کا فیصلہ نہ ہوجائے ملزم کو صبح ناشتہ دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا دیا جاتا ہے۔ اور اتنا دیا جاتا ہے جو اچھی سے اچھی خوراک کھانے والے کے لئے بھی کافی ہوتا ہے۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ کھانا کیسا ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں اگر میں لکھوں تو مضمون پورا ہوجائے۔ بس یہ لکھ رہا ہوں کہ شاید یہ کسی جج کو معلوم نہ ہوگا کہ اگر گھر سے مدد، سامان اور پیسوں کی شکل میں نہ آئے تو صرف ان لوگوں کا پیٹ بھر جاتا ہے جو اگر نہ کھائیں تو سوکھ جائیں اور مرجائیں۔ ایسے لوگوں کو بیرک کے پنچ ان لوگوں کی خدمت میں لگا دیتے ہیں جن کے حالات اچھے ہوتے ہیں اور وہ صرف جیل میں عیش کرنا چاہتے ہیں۔ جیل میں رہ کر ہی معلوم ہوا کہ روٹی جلانے کے کام بھی آتی ہے۔ اکثر حوالاتی جن کی روٹیاں بچ جاتی ہیں وہ انہیں سکھالیتے ہیں اور پھر اینٹوں کا چولھا بناکر دال یا سبزی کو کھانے کے قابل بنانے کے لئے روٹی جلاتے ہیں اور وہ لکڑی سے زیادہ اچھی جلتی ہے۔
جیل میں ہم 9 مہینے رہے ہفتہ میں دو بار گھر سے ہری سبزی اور ناشتہ کا سامان آتا تھا اور صبح ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا بیرک میں ہی پکتا تھا ہم ڈی آئی آر دفعہ کے تحت بند تھے یہ سیاسی دفعہ ہے جو سیاسی لیڈروں یا اخبار والوں کے خلاف لگائی جاتی ہے۔ ہم اپنی ضرورت کی ہر چیز جیلر صاحب سے اجازت لے کر منگواتے تھے اور وہ ہر مرتبہ یہ کہتے تھے کہ میں اجازت نہیں دے سکتا لیکن اگر آپ منگوالیں گے تو میں اس پر اعتراض نہیں کروں گا اور اس خوبصورت اجازت کی وجہ سے ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو ہماری ضرورت کی ہو اور وہ موجود نہ ہو یا گھر سے نہ آسکے۔
محترم جج صاحب نے گلزار وانی کی لیاقت کے اعتبار سے جو اجرت بنتی ہو اور کچھ رقم وہ جو اُن کو اذیت پہونچی وہ صوبائی حکومت کو ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن اس کا کیا ہوگا جو اُن کے جیل میں رہنے کی وجہ سے ان کے گھر پر گذری؟ اگر معاملہ بارہ بنکی کا ہے تو وہ نہ جانے جیل سے کتنی دور رہتے ہوں؟ وہاں سے ہفتہ میں ایک بار ہی سہی ملاقات کے لئے آنے والوں نے کتنا خرچ کیا اور گڑ، چنے ، صابن یہ وہ چیزیں ہیں جو غریب سے غریب اپنے گھر سے منگواتا ہے کیونکہ جیل سے جو ملتا ہے وہ رجسٹر میں لکھنے بھر کا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو بعض دن گڑ سے ہی روٹی کھانا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس کی گرفتاری کے بعد اہل خانہ بیوی بچے بہن بھائی اور بوڑھے ماں باپ پر کیا گذری؟ یہ باتیں ہیں جو جیل میں رہنے کی وجہ سے ہم نے برداشت کی ہیں اور جس کے معاوضہ کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔
میرا اپنا کاروبار پریس کا تھا ندائے ملت اخبار کا دفتر بھی اسی عمارت میں تھا میں دونوں کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے تھا میری گرفتاری ندائے ملت کے اکاؤنٹ افسر اور سرکولیشن منیجر کی میرے ساتھ گرفتاری کی وجہ سے دونوں کاروبار ٹھپ ہوگئے۔ اخبار اور پریس کو کتنا نقصان ہوا اس کا کوئی حساب نہیں۔ ایسا ہی ان 16 سال کے بعد باعزت رِہا ہونے والوں کا معاملہ ہے۔ جو نقصان اُن کے موجود نہ ہونے سے ہوا وہ اپنی جگہ اور جو مقدمہ کی پیروی وکیلوں کی فیس پیشکار کی رشوت اور جیل آنے جانے کے اخراجات اور اس دن کی آمدنی کا نقصان کیا صرف اس رقم سے پورا ہوجائے گا جو حکومت سے ملے گی؟ وہ بھی اگر ملی؟ اور یہ فیصلہ سونے کے قلم اور سونے کے پانی ہی سے لکھنے کے قابل ہے کہ وہ تمام روپئے ان پولیس والوں سے لے کر دیا جائے جنہوں نے جان بوجھ کر جھوٹا مقدمہ بنایا اور ہر گرفتاری کی طرح گلزار کو بھی پکڑا کہیں،رکھا کہیں اور دِکھایا کہیں۔
انشاء اللہ چار دن کے بعد رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہوگا اور دین کا وہ کاروبار شروع ہوگا جس میں اتنا نفع ہوتا ہے جتنا دنیا کے کسی کاروبار میں نہیں کہ ہر نیکی کا 70 گنا ثواب ملے گا۔ ہم نے پہلے بھی توجہ دلائی ہے اور پھر لکھ رہے ہیں کہ مولانا ارشد مدنی جو کام کررہے ہیں میرے جیسے گناہگار اور جیل کے تجربہ کار کی نظر میں سب سے بڑا کام یا سب سے بڑے کاموں میں سے ایک ہے۔ جو لوگ جیل میں نہیں رہے اور جیل کے معاملات کو ایک اخبار نویس کی طرح نہیں دیکھا وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ جیل کی زندگی کیا ہے؟
ہم اخبار والے تھے جیل کے بڑے چھوٹے افسر سب ڈرتے تھے کہ ہم باہر جاکر نہ جانے کیا کیا لکھیں؟ اس لئے وہ ہمیں تو مہمان سمجھتے تھے لیکن جیل کے دوسرے حوالاتیوں میں دو طرح کے ملزم ہوتے ہیں ایک وہ جنہوں نے کچھ کیا ہے اور ایک وہ جنہوں نے کچھ نہیں کیا۔ جو کرکے آتے ہیں وہ مست رہتے ہیں اور جو بے گناہ ہوتے ہیں ان کا ایک گھنٹہ ایک مہینہ کی طرح گذرتا ہے۔ ہم نے جیل میں ہر طرح کے لوگوں سے انٹرویو لئے۔ اس وقت ارادہ تھا کہ وہ سب چھاپ دیں گے لیکن بعد میں ارادہ بدل دیا۔
عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ رمضان المبارک میں عام طور پر زکوٰۃ کی رقم نکالی جاتی ہے۔ (خیال یہ ہے کہ وہ بھی 70 گنا ثواب لینا چاہتے ہوں گے) اس رقم میں سے ایک معقول حصہ ان لوگوں کے لئے اگر مخصوص کرکے مولانا ارشد مدنی کو بھیجا جائے تو ایک تو 70 گنا ثواب رمضان کی وجہ سے ہوگا اور جو دعائیں حوالاتی خود، ان کی بیوی بچے اور بوڑھے ماں باپ دیں گے اس کا اندازہ صرف ہم جیسے ہی کرسکتے ہیں جنہوں نے بے گناہوں کو چھپ چھپ کر روتے اور مولا کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا ہے۔ وہ جتنے دن بھی رہتے ہیں چپ رہتے ہیں۔ اور ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جن پارٹیوں سے قدرت نے حکومت چھینی اور کانگریس کو خاص طور پر شیر سے لومڑی بنا دیا وہ ان کی ہی بددعاؤں کا نتیجہ ہے جو خود بھی برسوں تڑپے اور ان کے گھر کے ہر فرد کو تڑپنا پڑا۔ عزیزم گلزار وانی کو رِہائی مبارک، آنے والا رمضان مبارک اور آنے والی عید مبارک اب ایک فرض ان کے اوپر یہ بھی ہے کہ وہ جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو مولانا ارشد مدنی اور جج صاحب کو نہ بھولیں۔ خدا کرے جتنے اور بے گناہ ہیں وہ مسلمان ہوں یا ہندو سب باہر آجائیں اور پولیس کے ہر افسر سے وصول کرکے انہیں کنگال بنا دیا جائے۔
از: حفیظ نعمانی
..........................................................................................................
Gulzar Wani Imagines a Life That Could’ve Been
On Saturday (May 20), after languishing in different jails in Delhi and Uttar Pradesh for the past 16 years, 44-year-old Gulzar Ahmed Wani was acquitted by a court in Barabanki, UP of the charges of carrying out the Sabarmati Express train blast in 2000 that killed nine. According to reports, a resident of the Tapper Bala area of North Kashmir’s Baramulla district, Wani was 28 and a second-year PhD student in the Department of Arabic at Aligarh Muslim University when he was picked up on July 30, 2001 by Delhi police’s special branch from Kamla Nehru market in the capital. He ended up spending 16 years in jail waiting for his acquittal.
Gulzar’s family was hoping against hope and praying for his acquittal after arguments were completed by the defence lawyers earlier this month, on May 12. His father, Ghulam Muhammad Wani, travelled all the way from his home in Baramulla to Barabanki. This time, he came hoping for justice, for a reunion with his son after 16 long ears of separation. He feels that justice, though delayed, was finally delivered by the court.
“He was arrested and imprisoned on false cases but the truth can never hide,” said Ghulam, relieved after his son’s acquittal. “We had faith in the judiciary and it has finally delivered justice to my son.”
Accusing Gulzar of conspiracy, the prosecution had earlier submitted before the court that “the blast [on board the] Sabarmati Express on 14.08.2000 was done in pursuance of the conspiracy which was hatched up (sic) in May-2000 at Habib Hall (AMU)”.
However, the defence lawyers had argued before the sessions court that the prosecution relied heavily on a witness “namely Shyam Bihari, who happens to be the sole witness of the circumstance and he is not credible because this witness has been examined thrice in all the above three sessions trial cases arising out of Crime No. 148/2000”. The witness gave different versions, the prosecution said, and so is “neither wholly reliable nor wholly unreliable.”
The additional sessions Judge M.A. Khan in his judgment acquitting Gulzar said, “The lives of students were deliberately spoiled by filing a chargesheet without any proof. Without proper legal sanctions, cognisance of the case was taken illegally.”
After his arrest in 2001, Gulzar was implicated and tried in 15 different cases, out of which seven were registered in Delhi, two in Maharashtra, and six in UP. The sessions court’s order on May 20, acquitting him in the Sabarmati express train blast, was the last case pending against Gulzar. He now stands acquitted in all the earlier cases, except one registered at Kamla Nehru police station in Delhi, in which the court quashed all charges but convicted him under Section 4 of the Explosive Substances Act. The 10-year sentence for this has already been suspended by the Delhi high court.
The cases against Gulzar started falling apart when he was acquitted in 2003 in the Gomti train blast case. Thereafter, in 2007, he was acquitted in six different FIRs registered in different police stations across Delhi. In August 2009, he was acquitted in a case registered at the Bajariya Kanpur police station in UP. In October 2010, he was acquitted in another case registered at the Swaroop Nagar police station in UP. In April, 2014, he was acquitted in a case registered at the Qaiser Bagh police station in Lucknow. Last year in April, he was acquitted of charges framed by police at Agra’s Sadar police station.
Gulzar was also accused of being a member of the Hizbul Mujahideen and police, in its chargesheet, had alleged that he “organised meetings of Hizbul cadres and SIMI activist.” Apart from alleging his involvement in the Gomti and Sabarmati express blasts, he was also accused of planting an improvised explosive device at India Gate in January 1999, of carrying out a blast in Agra during US President Bill Clinton’s visit in 2000, of carrying out a blast at the Lucknow Vidhan Sabha in August 2000 and of several other blasts. He was also accused of being on the payroll of Pakistan’s intelligence agency, the ISI.
However, all these charges levelled by police fell flat before the court, which questioned the legality of the evidence and witnesses’ statements. In almost all the cases, the witnesses were either police personnel or serving government employees.
Gulzar had moved dozens of applications for bail, but every time his plea for conditional and temporary release was turned down. All these years, he had been anticipating the day he can step out of prison.
Last month, on April 25, when a bail application was moved to the Supreme Court, the bench comprising of Chief Justice J.S. Khehar and Justice D.Y. Chandrachud termed the incarceration of Gulzar a “shame” and directed the UP government to complete the examination of witnesses by November 1. Otherwise, the bench said, it would grant him bail.
The bench had observed that the accused was acquitted in all cases except the Sabarmati express blast case and the trial was “deliberately delayed” to keep him in jail.
The last 16 years have been testing times for the Wani family. Although they lived in Kashmir, their thoughts were always with their son. They were worried about his wellbeing. Gulzar was first kept in Tihar jail, then in Kanpur and subsequently in Lucknow jail.
“There was not even a single moment when I didn’t think about him,” said his father, Ghulam, a retired electrical department employee of the Jammu and Kashmir government. Apart from being a good human being, his father said, Gulzar was doing very well in his studies when he was arrested. “We were expecting him to return home as the first PhD scholar from our village, but see what destiny had in store for us,” he said
Gulzar studied in Darul Uloom Madrasa in Baramulla and later went to Jamiatul-Falah, Azamgarh for further studies. After finishing his studies from Jamiatul Falah, he enrolled for a bachelor’s degree at the Aligarh Muslim University, from where from he also completed his master’s degree. Before his arrest, Gulzar had twice cleared the National Eligibility Test.
“But his arrest shattered all our dreams. We thought that he was mistakenly picked up by the police and will be released within months or within a year, but years turned into a decade and then six more years…,” his father said. “He spent the crucial years of his study and career in jail for a crime he never committed.”
Whatever money Ghulam earned in the last 16 years was spent fighting his son’s case. “Almost every penny earned from my apple orchards went towards paying the legal fees for his case,” he said. “I am a time keeper in electrical department and that meagre salary sustained my six children and my wife for the past 16 years.”
While Gulzar languished in jail, at home his two sisters and his brother got married. Their children haven’t yet met their uncle.
“At every marriage function we would all miss him a lot,” said his father. “But there was nothing we could do except for having faith in Allah that one day he will come out of jail.”
Gulzar’s brother Muddasir Ghulam Wani was just 12, studying in class five, when his brother was arrested. He is now pursuing an MSc in medical physiology from Jaipur, Rajasthan. He still remembers how they were all waiting for Gulzar to finish his PhD and start a school back in the village.
“During those days, when I used to ask my father about Gulzar, he would say that he will be released this year, that year…and how these 16 years have passed… only God knows how,” said Mudasir, pausing in between to gather his thoughts. “We even had kept a piece of land to construct the school and it is still waiting for his return.”
He feels Kashmiri youth like his brother are implicated in random terror cases with which they don’t even have a remote link. “I was a child when my brother was picked and as I grew up, I realised how Kashmiri youth are wrongly held in terror cases and then they are left to rot in jails before they’re finally acquitted,” said Muddasir.
“But what about those lost years?” he asks. “Who will return Gulzar’s 16 years?”
Advocate Abubakr Sabbaq, who was one of the defence counsels in the Sabarmati express blast case, terms Gulzar case “a classic example of false implication of Muslim youths, particularly Kashmiris, in terror cases.”
“There was not even a singal witness or any kind of evidence; there were only disclosure statements taken by the police while they had him in their custody and they easily implicated him in more the a dozen cases, which have taken 16 precious years of his life,” said Sabbaq.
He said the police and investigative agencies ruined the life and career of a bright student. “The court has recommended action against the police officials, but there must be a permanent mechanism for accountability,” he said. “Those implicating innocent youth on flimsy grounds should be prosecuted.”
Back home, Gulzar’s family and local residents of Thapar Bala are eagerly waiting to see their boy, who is now a middle-aged man, after more than a decade. But they might have to wait a little longer.
Gulzar hasn’t yet been released from Lucknow jail. “There’s little bit of a clarification required from Nagpur jail. He will be shifted to Nagpur and released from there only,” his counsel said. “It may take a few more days before he finally walks free.”
Courtesy: twocircles.net
https://thewire.in/140512/gulzar-wani-acquitted-terror-cases/
No comments:
Post a Comment